جنوب مشرقی ایشیا کے قلب میں واقع نوم پنہ نہ صرف کمبوڈیا کا دارالحکومت ہے بلکہ یہ ملک کی سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی زندگی کا مرکز بھی ہے۔ میکانگ اور ٹونلے سپ جیسی عظیم ندیوں کے کنارے آباد یہ شہر ایک جانب اپنے شاندار تاریخی ورثے کی یاد دلاتا ہے، تو دوسری جانب تیزرفتار شہری ترقی اور جدید طرزِ زندگی کی تصویر بھی پیش کرتا ہے۔ نوم پنہ وہ مقام ہے جہاں بدھ مت کے قدیم مندروں کی گھنٹیاں، فرانسیسی نوآبادیاتی عمارتوں کی شان و شوکت اور جدید فلک بوس عمارتوں کی چمک ایک ساتھ سانس لیتی ہیں۔ یہ شہر نہ صرف کمبوڈیا کی تاریخ کا امین ہے بلکہ ایک ایسے مستقبل کی امید بھی ہے جہاں روایت اور ترقی ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوں۔نوم پنہ کا قیام 15ویں صدی میں ہوا تھا، جب یہ خمر سلطنت کے زوال کے بعد دارالحکومت بنایا گیا۔ شہر کا نام ''نوم دا پین‘‘ (پین پہاڑی) پر تعمیر شدہ ایک بدھ مندر سے ماخوذ ہے، جو آج بھی ''وات نوم‘‘ کے نام سے ایک اہم زیارت گاہ ہے۔ نو آبادیاتی دور میں فرانسیسی اثرات نے شہر کی ساخت اور فن تعمیر پر گہرے نقوش چھوڑے، جو آج بھی فرانسیسی عمارتوں اور وسیع شاہراہوں میں نظر آتے ہیں۔نوم پنہ کمبوڈیا ملک کے جنوبی حصے میں دریائے میکونگ اور Tonle Sab کے سنگم پر واقع ہے۔یہ ایک اہم بندرگاہ ہے۔یہ شہر 1970 کی دہائیوں میں جنگ و جدل کے دوران بری طرح تباہ و برباد ہوگیا تھااور اس کی آبادی میں بھی خاصی حد تک کمی واقع ہوگئی تھی لیکن 1980ء کی دہائی میں اس کی دوبارہ تعمیر کا آغاز کیا گیا۔یہ شہر روایتی طور پر میکونگ وادی کیلئے تجارتی شہر تھا۔ چونکہ یہاں ذرائع آمد و رفت کی تمام سہولتیں میسر تھیں۔ مال کی برآمدگی جنوبی چین کے سمندری راستے کے ذریعے اس کا نکاس میکونگ ڈیلٹا کے ذریعے جنوبی چائنا کے سمندری راستے سے ویت نام تک ہوتا ہے، ان کی بڑی مصنوعات میں ٹیکسٹائلز، کھانے پینے کی اشیاء اور بیوریجز شامل ہیں۔اس شہر میں فرانسیسیوں کی قابل قدر نو آبادکاری ہوتے ہوئے بھی یہ ایشیا کا دلکش شہر تصور کیا جاتا ہے۔نوم پنہ ثقافتی اور تعلیمی انسٹی ٹیوٹ کا گہوارہ تھا مگر یہاں کے بیشتر ادارے 1975ء میں بند کردئیے گئے جن میں Khmer تہذیب و تمدن اور آرٹ کا اعلیٰ نمونہ گوتم بدھ میوزیم انسٹیٹیوٹ تھا۔ قومی عجائب گھر جو چھٹی صدی کی نوادرات سے مزین تھا اس کی اہمیت کو بھی نقصان پہنچا، اعلیٰ تعلیم کیلئے نوم پنہ یونیورسٹیاں جو 1960ء سے موجود تھیں وہ بھی متاثر ہوئیں۔1954ء میں بڈھسٹ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور فائن آرٹس یونیورسٹی 1965ء میں قائم ہوئی۔ علاوہ ازیں سائنسی بنیادوں پر زرعی یونیورسٹی بھی 1965ء میں ہی قائم کی گئی۔یہاں کی دلکشی اور دلچسپی کیلئے گوتم بدھ کے مندر (Temples) اور سابقہ حکمرانوں کے محل ہیں جو قابل دید ہیں۔ Khmers قوم سے غالباً 14 ویں صدی کے آخر میں پہلی آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا اور 1434ء میں ان لوگوں نے Angkor Thumکو اپنا گڑھ بنالیا۔نوم پنہ بدمعاش لوگوں کی آماجگاہ تھا۔ یعنی اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور 1867ء میں کمبوڈیا کا دارالحکومت بننے سے پہلے کئی مرتبہ انہیں کے زیرتسلط رہا۔ 1970ء کی دہائی میں کمبوڈیا کی جنگ و جدل میں شہر میں سماجی سطح پر انقلاب آیا اور اس وقت تقریباً دو ملین شہریوں نے زرعی ترقی کیلئے کام کیے۔ لہٰذا 1980ء میں یہ شہر دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا اور کچھ تہذیبی انسٹیٹیوٹ اور تعلیمی سینٹر دوبارہ کھول دیے گئے۔نوم پنہ آج ایک جدید اور متحرک شہر بنتا جا رہا ہے۔ شاندار عمارتیں، شاپنگ مالز، ہوٹل اور کیفے، اس کی تیز رفتار ترقی کی گواہی دیتے ہیں۔ تاہم، تیز شہری ترقی کے ساتھ ساتھ ٹریفک کا بڑھتا ہوا دباؤ، ماحولیاتی مسائل اور شہری منصوبہ بندی کی کمزوریاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔شہر میں سیاحوں کیلئے کئی پرکشش مقامات موجود ہیں، جن میں شاہی محل، نیشنل میوزیم، چیونگ ایک قتل گاہ (Killing Fields)، اور تل سلینگ میوزیم خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ مقامات کمبوڈیا کی شاندار تاریخ اور خونی ماضی دونوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ روایتی رقص، کھمر موسیقی اور مقامی کھانوں سے بھرپور بازار سیاحوں کیلئے کشش کا باعث بنتے ہیں۔نوم پنہ صرف ایک دارالحکومت نہیں، بلکہ یہ کمبوڈیا کی روح کا عکاس ہے۔ یہاں ماضی کی گونج اور حال کی تپش ایک ساتھ محسوس کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ شہر کو کئی مسائل کا سامنا ہے، مگر اس کی توانائی، ثقافت اور عوام کی مہمان نوازی اسے جنوب مشرقی ایشیا کے نمایاں شہروں میں شامل کرتی ہے۔