آڑو کے طبی فوائد

آڑو کے طبی فوائد

اسپیشل فیچر

تحریر : حکیم محمد رشید


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

آڑو کو عربی میں خوخ‘ فارسی میںشفتالو‘ سندھی میں شفتالواور انگریزی میںPeach کہا جاتا ہے۔آڑو کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ ایک چپٹا اور دوسرا لمبا گول مخروطی شکل کا۔ اس کا رنگ سبز قدرے سرخی مائل ہوتا ہے جبکہ اس کا ذائقہ شیریں اور مزاج سرد اور تر دوسرے درجے میں ہوتا ہے۔ اس کی مقدار خوراک سات دانہ تک ہے۔ اس کے حسب ذیل فوائد ہیں۔1- آڑو کے اجزا میں کاربو ہائیڈریٹس‘ پروٹین‘ وٹامن اے اور سی‘ کیلشیم‘ فولاد اور فاسفورس شامل ہیں۔2- مقوی معدہ و جگر ہے۔3- خون کے جوش کو کم کرتا ہے۔4- پیاس کو تسکین دیتا ہے۔5- ذیابیطس میں مفید ہے۔6- آڑو صفراوی بخار میں مفید ہے۔7- اس کی گٹھلی کا روغن بواسیر‘ کان کے درد اور بہرے پن میں مفید ہے۔ کان درد کی صورت میں صرف دوقطرے مذکورہ روغن کے کافی ہیں۔8- پیٹ کے کیڑے ختم کرنے کیلئے اس کے پتوں کو رگڑ کر، چھان کر پلانے سے فائدہ ہوتا ہے۔9- آڑو کا رس دانتوں پر ملنے سے دانت مضبوط ہوتے ہیں۔10- آڑو کے استعمال سے گرمی کا بخار ٹھیک ہو جاتا ہے۔11- آڑو ہر نیا کے ابتدائی مرض میں بے حد مفید ہے۔ دو تولہ آڑو کے پتے پانی میں جوش دے کر دو تولہ شہد ملا کر دن میں تین بار پینے سے ہر نیا وہیں رک سکتا ہے۔12- منہ کی بدبو کو دور کرتا ہے۔13- آڑو مصفی خون‘ مقوی معدہ‘ مقوی جگر اور مقوی طحال ہوتا ہے۔14- آڑو کے گودے کی چٹنی بھی بنائی جاتی ہے جو بے حد لذیذ ہوتی ہے۔15- آڑو کے اڑھائی پتے اور ایک کالی مرچ کو رگڑ کر پینے سے پرانے سے پرانا بخار بھی دور ہو سکتا ہے۔16- آڑو گرم اور بلغمی مزاج والوں کیلئے بالخصوص مفید ہے۔17- آڑو کے پتے تین تولہ اور پانی ڈھائی تولہ رگڑ کر اس شخص کو پلانے سے جسے سانپ چاند کے چاند یا پھر پورے سال بعد کاٹتا ہو اس عذاب سے نجات دلانے میں مفید ہے۔18- دماغ کی گرمی کو دور کرتا ہے۔اس میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھل ہمیشہ پکا ہوا اور تازہ کھانا چاہئے۔ سرد مزاج والوں کیلئے یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات اس سے فالج‘ لقوہ‘ رعشہ اور اعصابی کمزوری کا احتمال ہوتا لہٰذا سرد مزاج والے اسے احتیاط سے استعمال کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
زمین کی گردش میں تیزی! انسانیت کو لاحق   نیا خطرہ؟

زمین کی گردش میں تیزی! انسانیت کو لاحق نیا خطرہ؟

زمین مسلسل اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے، لیکن اگر اس گردش کی رفتار میں معمول سے زیادہ تیزی آ جائے تو زندگی، قدرتی نظام اور ماحولیاتی توازن کیلئے شدید خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ ماہرین ارضیات، ماہرین موسمیات اور خلائی سائنسدان اس بڑھتی ہوئی رفتار کے ممکنہ نتائج پر شدید تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ اس موسم گرما میں آپ کی زندگی کے کچھ دن سب سے چھوٹے دنوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق 22 جولائی اور 5 اگست کو دن بالترتیب اوسط سے 1.38 اور 1.51 ملی سیکنڈ چھوٹے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کی گردش نے اچانک تیزی اختیار کر لی ہے، جس کے نتیجے میں ہر شمسی دن کی لمبائی سے تقریباً ایک ملی سیکنڈ کم ہو رہا ہے۔ اگر زمین یوں ہی تیزی سے گھومتی رہی تو کیا ہو گا؟چونکہ پلک جھپکنے میں تقریباً 100 ملی سیکنڈ لگتے ہیں، اس لیے طویل عرصے تک انسان کو کوئی بڑا فرق محسوس نہیں ہو گا۔ تاہم، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین کی رفتار بغیر کسی روک ٹوک کے بڑھتی رہی، تو آخرکار اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ اگر زمین موجودہ رفتار سے صرف 100 میل فی گھنٹہ زیادہ تیزی سے گھومنے لگے، تو دنیا کو شدید طوفانوں، تباہ کن سیلابوں اور سیٹلائٹ نیٹ ورکس کے خاتمے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر زمین کی گردش دوگنا ہو جائے تو غالباً زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔رفتار میں ایک میل فی گھنٹہ کا اضافہعام طور پر، زمین کو اپنی ایک گردش مکمل کرنے میں 24 گھنٹے یا 86,400 سیکنڈ لگتے ہیں، جسے شمسی دن کہا جاتا ہے۔ چاند کی پوزیشن یا آتش فشاں کے پھٹنے جیسے معمولی تغیرات اس دورانیے کو ایک ملی سیکنڈ آگے یا پیچھے کر سکتے ہیں، لیکن عمومی طور پر زمین کی گردش کافی مستحکم رہتی ہے۔چونکہ زمین ایک کرہ ہے، اس لیے اس کا محیط خطِ استوا پر سب سے زیادہ اور قطبین کے قریب سب سے کم ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ سطحِ زمین کی رفتار خطِ استوا کے قریب زیادہ اور قطبین کے قریب کم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جو شخص خطِ استوا پر کھڑا ہے وہ خلا میں تقریباً 1,037 میل فی گھنٹہ (1,668 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے گردش کر رہا ہے، جبکہ لندن میں موجود شخص صرف تقریباً 646 میل فی گھنٹہ (1,041 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے۔ ان رفتاروں کے مقابلے میں صرف ایک میل فی گھنٹہ کا اضافہ معمولی لگ سکتا ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں دن تقریباً ڈیڑھ منٹ چھوٹا ہو جائے گا، جو شاید ہمارے باڈی کلاک کو فوراً محسوس نہ ہو۔ ماہرین کے مطابق اسے محسوس کرنے میں شاید کئی سال لگ جائیں۔ تاہم، ایک غیر متوقع اثر یہ ہوگا کہ مدار میں موجود سیٹلائٹس اپنی سنکرونائزیشن (ہم آہنگی ) کھو بیٹھیں گے۔سیٹلائٹس زمین کی گردش کے برابر رفتار سے حرکت کرتے ہیں تاکہ وہ زمین پر ایک ہی مقام کے اوپر رہ سکیں۔ اگر زمین کی رفتار بڑھ گئی تو یہ سیٹلائٹس اپنی جگہ کھو دیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نیویگیشن، مواصلاتی اور موسمیاتی نگرانی کی خدمات میں خلل پڑنے لگے گا۔اس کا ایک اثر یہ ہوگا کہ زمین کی تیز گردش کے باعث پیدا ہونے والی اضافی ''سینٹری فیوگل فورس‘‘ (Centifugal Force)کی وجہ سے پانی قطبین سے خط استوا کی طرف منتقل ہونا شروع ہو جائے گا۔ صرف ایک میل فی گھنٹہ کی اضافی رفتار خط استوا کے گرد سمندری سطح کو چند انچ بلند کر سکتی ہے۔ یہ تبدیلی ان شہروں کیلئے جو سطح سمندر کے قریب یا اس سے نیچے واقع ہیں تباہ کن سیلاب کا سبب بن سکتی ہے۔100 میل فی گھنٹہ زیادہ رفتاراگر زمین کی رفتار بڑھتے بڑھتے اتنی ہو جائے کہ خط استوا پر یہ موجودہ رفتار سے 100 میل فی گھنٹہ زیادہ تیزی سے گھومنے لگے تو یہ حقیقتاً سنگین اور خطرناک نتائج پیدا کرئے گی۔اب سطحِ سمندر صرف چند انچ بلندنہیں ہوگی بلکہ پانی قطبین سے بہہ کر خط استوا کی طرف آئے گا اور اسے ڈبونا شروع کر دے گا۔جو لوگ اس تباہ کن سیلاب سے بچ بھی گئے، ان کیلئے دنیا ایک انتہائی سخت اور ناموافق جگہ بن جائے گی۔اب شمسی دن 22 گھنٹے پر مشتمل ہو گا، جس سے ہماری جسمانی حیاتیاتی گھڑی اپنی قدرتی ترتیب سے بگڑ جائے گی۔تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ دن کی روشنی بچانے کیلئے گھڑیاں آگے پیچھے کرنے جیسے معمولی تغیرات بھی دل کے دورے، فالج اور ٹریفک حادثات کی شرح میں اضافے کا سبب بنتے ہیں تو تصور کیجیے کہ زمین کی تیز تر گردش اس سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوگی۔مزید برآں، زمین کا موسم بھی انتہائی شدید ہوتا چلا جائے گا۔ ناسا کے ماہرِ فلکیات ڈاکٹر سٹین اوڈن والڈ (Dr Sten Odenwald) کا کہنا ہے:طوفانِ باد و باراں (hurricanes) زیادہ تیزی سے گھومیں گے،اس کا مطلب یہ ہوگا کہ طوفانوں کی گردش مزید شدید اور تباہ کن ہو جائے گی۔ایک ہزار میل فی گھنٹہاگر زمین کی گردش موجودہ رفتار سے ایک ہزار میل فی گھنٹہ تیز ہو جائے تو زمین تقریباً دوگنی رفتار سے گھومنے لگے گی اور اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق یہ واضح طور پر ایک بڑی آفت ہو گی۔ ''سینٹری فیوگل فورس‘‘سیکڑوں فٹ پانی کو خط استوا کی طرف کھینچ لے جائے گی۔جس کی وجہ سے بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں کے سوا خط استوا کے تمام علاقے پانی میں ڈوب جائیں گے۔وہاں تقریباً مسلسل بارشیں ہوں گی، اور وہ دھند اور کہر میں لپٹے رہیں گے۔ 17ہزار میل فی گھنٹہ انتہائی رفتاروں پر، جیسے کہ 17ہزار میل فی گھنٹہ جو معمول کی رفتار سے 17 گنا زیادہ ہے پر ''سینٹری فیوگل فورس‘‘اس قدر طاقتور ہو جائے گی کہ کششِ ثقل کو بھی مات دے دے گی۔خط استوا پر موجود شخص وزن سے محروم ہو جائے گا۔تاہم، امکان ہے کہ اس منظر کو دیکھنے کیلئے کوئی موجود نہ ہو کیونکہ خط استوا بہت پہلے ہی ناقابلِ رہائش بن چکا ہوگا۔24ہزار میل فی گھنٹہ آخرکار، جب زمین کی رفتار خطِ استوا پر تقریباً 24ہزار میل فی گھنٹہ (38,600 کلومیٹر فی گھنٹہ) تک پہنچنے لگے گی، تو جیسا کہ ہم زندگی کو جانتے ہیں، وہ تقریباً ختم ہو جائے گی۔اس رفتار پر ''سینٹری فیوگل فورسز‘‘ اتنی طاقتور ہو جائیں گی کہ وہ زمین کو ایک گھومتی ہوئی مٹی کی گیند کی طرح چپٹا کرنا شروع کر دیں گی۔ زمین کی سطح میں دراڑیں پڑ جائیں گی، ہمیں زبردست زلزلے دیکھنے کو ملیں گے۔٭٭٭٭٭٭  

آج تم یاد بے حساب آئے! ساغرصدیقی

آج تم یاد بے حساب آئے! ساغرصدیقی

٭...1928ء میں انبالہ میں پیدا ہونے والے ساغر صدیقی کااصل نام محمد اختر تھا۔٭...تیرہ چودہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا ،شروع میں قلمی نام ناصر حجازی تھا ۔٭... 1944ء میں پہلی بار امرتسر میں ہونے والے ''آل انڈیا مشاعرہ‘‘ میں شرکت کی ۔ ٭...تقسیمِ ہند کے بعد لاہور آ گئے۔٭...1947ء سے 1952ء تک کا زمانہ ان کیلئے سنہرا دور ثابت ہوا۔ کئی روزناموں، ماہوار ادبی جریدوں اور ہفتہ وار رسالوں میںان کا کلام بڑے نمایاں انداز میں شائع ہوتا رہا۔٭...ساغر کی غزلوں کے 5 مجموعے ''زہر آرزو‘‘ (1960ء) ، ''غم بہار‘‘ (1964ء) ، ''لوح جنوں‘‘(1970ء ) ، شیشہ دل ‘‘ اور ''شب آگہی‘‘( 1972ء)ان کی زندگی میں شائع ہوئے۔ ''مقتل گل‘‘ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ ٭...تقریباً35فلمی گیت لکھے ۔1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے دوران ترانے بھی لکھے، نعتیں بھی کہیں جو ''سبز گنبد ‘‘ کے نام سے مجموعے کی صورت میں طبع ہوئیں۔ ٭... 1952ء کے بعد ساغر کی زندگی خراب صحبت کی بدولت ہر طرح کے نشے کا شکار ہو گئی۔٭...عالم مدہوشی میں بھی مشقِ سخن جاری رہتااور ہر صنف سخن میں شاہکار تخلیق کرتے جاتے۔٭...زندگی کے آخری ایام داتا دربار کے سامنے فٹ پاتھ پر گزارے ،19 جولائی 1974ء کو اسی فٹ پاتھ پر ان کا انتقال ہوا، میانی صاحب قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ساغر کے مشہور فلمی گیت٭...موجیں تڑپ رہی ہیں،کنارے اداس ہیں(انوکھی داستان)٭...میرے ٹوٹے من کی بات زمانہ کیا جانے(شالیمار)٭...آگ من کو لگائیں نظارے،سجنوا ہمارے بسیں پردیس (باپ کا گناہ)٭...کوئی اپنی نشانی دے گیا، دل لے گیا(دو آنسو)٭...محفلیں لٹ گئیں، جذبات نے دم توڑ دیا(سرفروش)٭...اب شمع اکیلی جلتی ہے، اور روٹھ گئے ہیں پروانے(غلام)٭...چاندچمکا تھا پیپل کی اوٹ میں(انجام)٭...دل کو ملا دل دار(باغی)٭...دیکھے زمانہ میرا نشانہ٭...میری زلفوں کی لٹ بڑی جادوگرساغر کے چند اشعاربھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیےتم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے٭٭٭ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیںورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں٭٭٭اب کہاں ایسی طبیعت والےچوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے٭٭٭زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہےجانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں٭٭٭کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیاپھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا٭٭٭آہن کی سرخ تال پہ ہم رقص کر گئےتقدیر تیری چال پہ ہم رقص کر گئے٭٭٭پنچھی بنے تو رفعت افلاک پر اڑےاہل زمیں کے حال پہ ہم رقص کر گئے٭٭٭فقیہ شہر نے تہمت لگائی ساغر پر یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے٭٭٭بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجئےتم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجئےمنزل نہیں ہوں خضر نہیں، راہزن نہیںمنزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجئےزندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہےجانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیںمیں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہےمیں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں یاد رکھنا ہماری تربت کو قرض ہے تم پہ چار پھولوں کاغم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیںلوگ اب زندگی کے مجرم ہیں دشمنی آپ کی عنایت ہے ہم فقط دوستی کے مجرم ہیں  

سائبورگ شہد کی مکھیاں  چینی سائنس دانوں کا انقلابی اقدام

سائبورگ شہد کی مکھیاں چینی سائنس دانوں کا انقلابی اقدام

چینی سائنس دانوں نے شہد کی مکھیوں کو ''سائبورگ‘‘ میں تبدیل کر دیا ہے، جنہیں مستقبل میں جاسوسی، ریسکیو مشنز اور فوجی آپریشنز میں استعمال کیا جا سکے گا۔ چینی سائنسدانوں نے ایک ایسا جدید آلہ تیار کیا ہے جو عام شہد کی مکھی کو سائبورگ میں بدل دیتا ہے۔ اس چھوٹی سی ڈیوائس کا وزن 74 ملی گرام ہے، اس طرح یہ ڈیوائس شہد کی مکھی کے پیٹ میں موجود اس خانے سے بھی ہلکی ہے جس میں مکھی شہد جمع کرتی ہے۔یہ جدید آلہ جو ایک چٹکی بھر نمک سے بھی کم وزنی ہے، مکھی کی پشت پر باندھا جاتا ہے اور باریک سوئیوں کے ذریعے براہِ راست اس کے دماغ سے منسلک کیا جاتا ہے۔ برقی سگنلز کے ذریعے مکھی کی سمت اور حرکت کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہ تحقیق سائبورگ ڈریگن فلائیز اور کاکروچز کی تیاری کے بعد سامنے آئی ہے۔یہ ننھا آلہ کیمروں، سننے والے آلات اور مختلف سینسرز سے لیس کیا جا سکتا ہے، جن کی مدد سے یہ مکھیاں مخصوص مقامات پر جا کر معلومات اکٹھی کرنے، آوازیں سننے اور ویڈیو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اپنے انتہائی چھوٹے سائز کی وجہ سے یہ سائبورگ مکھیاں ایسے مقامات تک بھی باآسانی پہنچ سکتی ہیں جہاں کسی انسان یا بڑے روبوٹ کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔چین کے علاوہ امریکہ، جاپان اور دیگر کئی ممالک بھی سائبورگ کیڑوں کی دوڑ میں شامل ہیں۔ جاپانی سائنس دان اس سے قبل ایک ریموٹ کنٹرول کاکروچ تیار کر چکے ہیں، جو شمسی توانائی سے چلنے والا ''بیگ‘‘ پہنے ہوتا ہے۔ یہ کاکروچ خطرناک علاقوں میں داخل ہونے، ماحول کا جائزہ لینے اور سرچ اینڈ ریسکیو مشن انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ، اسے بار بار چارج کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔اگرچہ پروفیسر ژاؤ کی ٹیم نے شاندار پیشرفت کی ہے، لیکن ٹیکنالوجی کو عملی طور پر مکمل فعال بنانے کیلئے اب بھی کچھ چیلنجز درپیش ہیں۔ موجودہ بیٹریاں مختصر وقت تک ہی کام کرتی ہیں اور بڑی بیٹریاں مکھیوں کیلئے بہت بھاری ہو جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ ایک ہی قسم کا آلہ ہر کیڑے پر یکساں مؤثر نہیں ہوتا، کیونکہ مختلف کیڑے اپنے جسم کے مختلف حصوں سے سگنلز محسوس کرتے ہیں۔اس سے قبل سب سے ہلکا سائبورگ کنٹرولر سنگاپور میں بنایا گیا تھا اوراس کا وزن چینی آلے سے تین گنا زیادہ تھا۔بیجنگ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر ژاؤ جئی لیانگ (Zhao Jieliang) نے اس ٹیکنالوجی کی تیاری میں بطور انچارج کام کیا۔ پروفیسر ژاؤ کے مطابق یہ روبوٹس زیادہ خاموشی، لمبے وقت تک کام کرنے کی صلاحیت اور خفیہ نگرانی کے مشنوں میں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جیسے خانہ جنگی، دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں، منشیات کی روک تھام اور اہم قدرتی آفات میں امدادی کام۔یہ پیشرفت نہ صرف حیاتیاتی سائنس اور انجینئرنگ کے امتزاج کی عکاس ہے، بلکہ یہ مستقبل کی خفیہ ٹیکنالوجی، قدرتی آفات میں امداد اور دفاعی حکمت عملیوں میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ دنیا اب اس دور میں داخل ہو چکی ہے جہاں قدرت اور ٹیکنالوجی کا انضمام ہمارے اردگرد کے ماحول کو جانچنے اور کنٹرول کرنے کیلئے نئی راہیں کھول رہا ہے۔  

آج کا دن

آج کا دن

یوم ِ الحاق پاکستان 19جولائی کو دنیا بھر میں موجود کشمیری ''یوم الحاق پاکستان‘‘ کے طور پر مناتے ہیں۔ 1947ء میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس میں '' الحاق پاکستان‘‘ کی قرار داد منظور کی گئی تھی۔پاکستان سے محبت کے جرم میں کشمیریوں کو نا صرف غلامی کی زنجیروں میں قید کیا گیا بلکہ قابض فوج نے ان پر مظالم کا کبھی نہ تھمنے والے دور کا آغاز کیا۔ آج کشمیریوں کی تیسری نسل اپنے حق خوداردیت کے حصول کیلئے پرعزم ہے۔فرانکو پروشین جنگ 19 جولائی 1870ء کو فرانس نے پروشیا کے خلاف باضابطہ طور پر اعلانِ جنگ کیا۔ اس جنگ کو ''فرانکوپروشین جنگ‘‘ (Franco Prussian War) کہا جاتا ہے۔یہ جنگ یورپ میں طاقت کے توازن کو بدلنے کا سبب بنی۔جرمنی ایک مضبوط اور متحد ریاست بن کر ابھرا جبکہ فرانس کو سیاسی و فوجی لحاظ سے زوال کا سامنا کرنا پڑا۔اٹلی ڈیم حادثہسٹوا ڈیم (Stava Dam)کا انہدام 19 جولائی 1985ء کو ہوا۔ اس بدترین حادثے میں268 افراد ہلاک، 63 عمارتیں تباہ اور آٹھ پل منہدم ہوئے۔ ڈیم ٹوٹنے سے تقریباً ایک لاکھ80ہزار کیوسک میٹر پانی 90 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاؤں میں داخل ہوا۔سیلابی ریلا راستے میں موجود ہر چیز کو تباہ کرتا گیا۔ماسکو اولمپکس کا بائیکاٹ1980ء میں 19 جولائی کو ماسکو اولمپکس کا آغاز ہوا۔ افغانستان پر سوویت حملے کے باعث امریکہ سمیت تقریباً 66 ممالک نے اس کا مکمل یا جزوی بائیکاٹ کیا۔ان اولمپکس کو سب سے زیادہ سیاسی رنگ دیا گیا اولمپک مقابلہ بھی کہا جاتا ہے۔  فضائی حادثہ19جولائی1967ء کو ایوی ایشن کی تاریخ میں ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس نے سیکڑوں افراد کی جان لے لی۔19جولائی کو دو طیارے آپس میں ٹکرا گئے جس کے نتیجے میں دونوں جہازوں میںموجود مسافر اور عملہ ہلاک ہو گیا۔ ایک جہاز پائڈمونٹ اور دوسرا سیسنا ائیر لائنز کی جانب سے آپریٹ کیا جا رہا تھا۔دونوں جہازوں کے آلات ٹھیک کام کر رہے تھے اور دونوں کنٹرول ٹاور سے ریڈیو کے ذریعے رابطے میں تھے۔ابتدائی طور پر حادثے کی وجہ مختلف فریکیوسنیز بتائی گئیں لیکن تفصیلی تحقیقات کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا کہ حادثے کا ذمہ دار سیسنا پائلٹ ہے۔حادثے کی مزید تحقیقات کے لئے ایک نیا بورڈ بھی تشکیل دیا گیا جس نے کئی سال کی تحقیقات کیں اور اس نے بھی حادثے کا ذمہ دار سیسنا پائلٹ کو قرار دیا۔ فارمیلس کی جنگپہلی عالمی جنگ کے دوران 19جولائی1916ء کو فارمیلس پر لڑائی کا آغاز ہوا۔ یہ مغربی محاذ پر ایک فوجی آپریشن تھا، حملہ برطانوی اور آسٹریلوی فوجیوں نے کیا۔ یہ حملہ سومے کی لڑائی کا ہی سلسلہ تھا۔ جنوب میں موجود سومے میں فوجی مدد کے لئے یہ حملہ کیا گیا تاکہ مخالف جرمن فوج کے کمزور دفاعی نظام کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔حملہ فوکیسارٹ ،ٹریولٹ روڈ اور کورڈونری فارم کے درمیان ہوا۔ جہاں یہ لڑائی ہوئی وہاں زمین نیچی تھی اور حملہ کرنا قدر آسان تھا۔ اس لڑائی نے جلد ہی ایک جنگ کی صورتحال اختیار کر لی ۔اس لڑائی کو پہلی عالمی جنگ کی اہم ترین لڑائیوں میں شمار کیا جاتا ہے جس میں برطانیہ کی محالف فوج کو بھاری نقصان ہوا۔   

موسمیاتی تبدیلی پاکستان کا نیونارمل

موسمیاتی تبدیلی پاکستان کا نیونارمل

موسمیاتی تبدیلی عہدِ حاضر کی ایک اٹل حقیقت، جسے نیو نارمل کہا جاسکتا ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت، موسمیاتی تغیرات اور قدرتی آفات میں اضافے کے ذریعے زمین کا ماحول تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اگرچہ موسمیاتی بحران عالمی ہے مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر اس کے اثرات شدید تر ہیں، حالانکہ پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ان تبدیلیوں میں قدرتی عوامل کا بھی عمل دخل ہے لیکن 1800ء کے بعد سے انسانی سرگرمیاںخصوصاً کوئلہ، تیل اور گیس جیسے فوسل فیولز کا بڑھتا ہوا استعمال اس کی بنیادی وجہ سمجھی جاتی ہے۔ ان سرگرمیوں سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں زمین کی فضا میں حرارت کو جذب کرتی ہیں جس سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔موسمیاتی تبدیلی پوری دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہیں، اور پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جو اس کے اثرات سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔تازہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان ماحولیاتی تغیرات کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ عالمی ماحولیاتی خطرات کی رپورٹ (Global Climate Risk Index ) کے مطابق پاکستان گزشتہ دو دہائیوں میں موسمیاتی آفات کے باعث 10 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان برداشت کر چکا ہے۔پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کا کاربن اخراج عالمی سطح پر ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات یہاں شدت سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ 50 برسوں میں ملک کا اوسط درجہ حرارت تقریباً 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو 2050ء تک یہ اضافہ 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے جس کے نتیجے میں گلیشیئر پگھلنے، پانی کی کمی اور شدید گرمی کی لہروں میں اضافہ ہوگا۔2022ء کے تباہ کن سیلاب اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کن بحرانوں کا سامنا ہے۔ ان سیلابوں نے ملک کے تین کروڑ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا، 1700 سے زائد اموات ہوئیں اور معیشت کو تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ ورلڈ بینک کے مطابق ان آفات کی وجہ سے پاکستان کی جی ڈی پی میں 2 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ پاکستان میں زراعت جو کہ جی ڈی پی کا 20 فیصد اور افرادی قوت کا 40 فیصد حصہ ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ خشک سالی اور بے وقت بارشوں نے گندم، کپاس، اور چاول کی پیداوار میں نمایاں کمی کی ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اگر اقدامات نہ کیے گئے تو 2040ء تک پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مزید برآں، شہری علاقوں میں شدید گرمی کی لہروں اور فضائی آلودگی نے صحت کے مسائل بڑھا دیے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ 28 ہزاراموات آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے سبب ہوتی ہیں، جن میں ایک بڑا حصہ موسمیاتی تبدیلی سے جڑا ہوا ہے۔ حکومت نے نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی 2021ء کے تحت اقدامات شروع کیے تھے لیکن ماہرین کے مطابق ان پر عملدرآمد کی رفتار ناکافی ہے۔اگر پاکستان نے فوری طور پر موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کا ادراک نہ کیا تو آنے والے برسوں میں معاشی، زرعی اور ماحولیاتی نظام ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پائیدار ترقی، متبادل توانائی، اور بین الاقوامی ماحولیاتی فنڈز کے استعمال پر توجہ دی جائے تاکہ مستقبل کی نسلوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کیا جا سکے۔دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سطح سمندر میں اضافہ، ماحولیاتی نظام کی تباہی، خوراک اور پانی کی قلت، معاشی نقصان (زراعت، ماہی گیری، صحت، سیاحت) جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کے شمالی پہاڑوں میںگلیشیئرز دریاؤں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث یہ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے پانی کی قلت اور گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے جیسے خطرناک واقعات جنم لے رہے ہیں۔ پاکستان میں مون سون بارشوں کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے،جبکہ سال کے کئی ماہ سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقے شدید خشک سالی کا شکار ہوتے ہیں جس سے فصلیں متاثر ہوتی ہیں اور خوراک کی قلت پیدا ہوتی ہے۔ جیکب آباد اور تربت جیسے شہر 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کر چکے ہیں اورگرمی کی لہر جان لیوا بنتی جا رہی ہے، خاص طور پر غریب طبقات کے لیے۔دوسری جانب کراچی اور ٹھٹھہ جیسے ساحلی علاقے سمندر کی سطح بلند ہونے اور زمینی کٹاؤ کا سامنا کر رہے ہیں جس سے زراعتی زمینیں تباہ ہو رہی ہیں اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیںپاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جامع اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ آنے والے خطرات کو کم کیا جا سکے اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہوا جا سکے۔ اس کے لیے جنگلات کا تحفظ اور درختوں کی کٹائی کی روک تھام کیلئے سخت قوانین، شہری علاقوں میں اربن فارسٹ ، نئے ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر،زرعی شعبے میں پانی کے ضیاع کو روکنا، ڈرپ ایری گیشن سسٹم کا فروغ، زراعت میں ٹیکنالوجی کا فروغ، کسانوں کو موسموں سے متعلق پیشگی خبروں کی فراہمی، فوسل فیولز (کوئلہ، گیس) پر انحصار کم کرنا، شہروں میں گرین سپیسز (پارکس) کا اضافہ، نکاسی آب کا بہتر نظام تاکہ بارشوں سے سیلاب نہ ہو، NDMA اور دیگر امدادی اداروں کی صلاحیت میں اضافہ، ریسرچ اداروں کی مالی امداد تاکہ وہ موسمیاتی ڈیٹا اکٹھا کریں اور حل تجویز کریں اور کاربن اخراج کے لیے ریگولیشن سسٹم بنانا ضروری ہے۔ 

زمین کی تہہ میں چھپے راز

زمین کی تہہ میں چھپے راز

دنیا میں آتش فشانی دھماکے قدرت کا ایک ایسا مظہر ہیں جنہوں نے صدیوں سے انسانی تہذیب اور ماحول پر ناقابل یقین اثرات مرتب کیے ہیں۔ زمین کی سطح سے ہزاروں کلومیٹر نیچے گرم چٹانوں کی ایک ٹھوس تہہ ہے جسے زیریں مینٹل کہا جاتا ہے۔ نصابی کتابوں کے خاکوں میں لوئر مینٹل کو ہموار اور یک رنگ بتایا جاتا ہے، حقیقت میں وہاں دو بہت بڑے بلاکس ہیںجن کا رقبہ شاید پورے براعظم کے برابر ہے ۔مذکورہ تحقیق کی رہنما، آسڑیلیا کی Wollongong یونیورسٹی سے وابستہ وولکینوجسٹ اینالیسی ککیرو(Annalise Cucchiaro) اور ان کے ساتھی محقق نکولس فلیمنٹ(Nicholas Flament) کے مطابق یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ یہ بلاکس ایک مقررہ مقام پر ہیں یا مستقل حرکت میں، تاہم جدید ڈیٹا ماڈلنگ سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ حرکت پذیر ہوسکتے ہیں اور ان سے سطح زمین پر مینٹل اخراج(Mantle plumes) کا امکان ہو سکتا ہے، جو آتش فشاں کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور سطح زمین پر طاقتور دھماکو ں کا سبب بن سکتاہے۔زمین کے اندر سے تقریباً تین ہزار کلومیٹر کی گہرائی سے اُٹھنے والے Mantle plumes کے سطح پر پہنچ کر آتش فشانی صورتحال پیدا ہونے کے واقعات ماضی میں بھیانک واقعات کا واقعات سبب بنے تھے ، جیسا کہ ڈائنوسار کا خاتمہ۔ ککیرو کے ماڈلز بتاتے ہیں کہ یہ بلاکس ہی وہ مقام ہیں جہاں سے میگما کی لہر ابھرتی ہے ۔مذکورہ تحقیق میں آتش فشانوں کے ارتقاکا مطالعہ کیا گیا اور معلوم ہوا کہ تقریباً 30 کروڑ سال پہلے ہونے والے عظیم اخراج کے مقامات ان بلاکس اور ان سے اٹھنے والے میگمائی پلیومز سے اچھی طرح میل کھاتے ہیں ۔ ماڈلز کے مطابق کہیں پر ان دھماکوں نے بلاک کے ٹھیک اوپر سے میگما نکالا اور کہیں سے افقی لہر نکلی۔ مستقبل کے لیے تحقیق کی سمت اب مرکزی سوال یہ ہے کہ آیا یہ BLOBS حقیقت میں حرکت پذیر ہیں یا ایک جگہ ٹھہرے رہتے ہیں؟ اگر یہ حرکت کرتے ہیں توحرات کے عملِ اتصال اور زمین کی پرتوں میں تبدیلی ان پر کیا اثرات مرتب کر رہی ہے؟ مستقبل میں ان سوالات کا جواب دینے کے لیے Tomographic ڈیٹا اور جدید ماڈلنگ پر انحصار کیا جائے گا۔ آتش فشانی تباہی کے واقعاتبڑے آتش فشانی دھماکے نہ صرف سطح زمین اور ماحول کو متاثر کرتے ہیں بلکہ عالمی آب و ہوا پر بھی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایک خوفناک مثال 25 کروڑ سال پہلے کی Permian-Triassic extinction ہے جس میں ممکنہ طور پر سیاہ لاوے نے عالمی موسمیاتی تبدیلیاں، ماحول کا تباہی اور زندگی کے بڑے پیمانے پر خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ حالیہ مطالعے نے ان واقعات کا تعلق بھی گہرے میگمائی ڈھانچوں سے جوڑ کر نیا زاویہ دیا ہے اوریہ تحقیق volcanologists اور geophysicists کی دلچسپی کا باعث بنی ہے جنہوں نے اسے زمین کی ساخت اور میگماکے ارتقاکے نئے باب کے طور پر دیکھا ہے۔ انہوں نے مذکورہ بلاکس کو ''زمین کے اندر چھپے قدرتی بیک اَپ پلان‘‘ سے تعبیر کیا ہے ۔یہ تحقیق نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ اجرام فلکی یا موسمی عوامل کی طرح زمین کے اندرونی اجزاآتش فشانی عمل کو کنٹرول کرتے ہیں بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ان عوامل کی تحقیق اور تجزیہ عالمی خطرات اور قیمتی ذخائر کے حوالے سے نئے راستے کھول سکتا ہے۔ اگلے چند برسوں میں اگر ہم نے زمین کی اندرونی ساخت کو بہتر طور پر سمجھ لیا تو شاید ہمیں مستقبل میں بڑے آتش فشانی واقعات سے بروقت خبردار ہونے اور زلزلوں کی شدت کو کم کرنے کے امکانات کا نسبتاً بہتر ادراک ہو سکے۔اس دریافت کا اطلاق محض آتش فشانی پیشین گوئی پر ہی نہیں بلکہ صنعتی و اقتصادی شعبوں پر بھی مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے، جیسا کہ ہیرے اور قیمتی معدنیات kimberlite کی تلاش میں، جو میگما کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں ۔ علاوہ ازیں میگما کے حرارت کے ذخائر سے گرین انرجی کے لیے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔