زمین مسلسل اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے، لیکن اگر اس گردش کی رفتار میں معمول سے زیادہ تیزی آ جائے تو زندگی، قدرتی نظام اور ماحولیاتی توازن کیلئے شدید خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ ماہرین ارضیات، ماہرین موسمیات اور خلائی سائنسدان اس بڑھتی ہوئی رفتار کے ممکنہ نتائج پر شدید تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ اس موسم گرما میں آپ کی زندگی کے کچھ دن سب سے چھوٹے دنوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق 22 جولائی اور 5 اگست کو دن بالترتیب اوسط سے 1.38 اور 1.51 ملی سیکنڈ چھوٹے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کی گردش نے اچانک تیزی اختیار کر لی ہے، جس کے نتیجے میں ہر شمسی دن کی لمبائی سے تقریباً ایک ملی سیکنڈ کم ہو رہا ہے۔ اگر زمین یوں ہی تیزی سے گھومتی رہی تو کیا ہو گا؟چونکہ پلک جھپکنے میں تقریباً 100 ملی سیکنڈ لگتے ہیں، اس لیے طویل عرصے تک انسان کو کوئی بڑا فرق محسوس نہیں ہو گا۔ تاہم، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین کی رفتار بغیر کسی روک ٹوک کے بڑھتی رہی، تو آخرکار اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ اگر زمین موجودہ رفتار سے صرف 100 میل فی گھنٹہ زیادہ تیزی سے گھومنے لگے، تو دنیا کو شدید طوفانوں، تباہ کن سیلابوں اور سیٹلائٹ نیٹ ورکس کے خاتمے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر زمین کی گردش دوگنا ہو جائے تو غالباً زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔رفتار میں ایک میل فی گھنٹہ کا اضافہعام طور پر، زمین کو اپنی ایک گردش مکمل کرنے میں 24 گھنٹے یا 86,400 سیکنڈ لگتے ہیں، جسے شمسی دن کہا جاتا ہے۔ چاند کی پوزیشن یا آتش فشاں کے پھٹنے جیسے معمولی تغیرات اس دورانیے کو ایک ملی سیکنڈ آگے یا پیچھے کر سکتے ہیں، لیکن عمومی طور پر زمین کی گردش کافی مستحکم رہتی ہے۔چونکہ زمین ایک کرہ ہے، اس لیے اس کا محیط خطِ استوا پر سب سے زیادہ اور قطبین کے قریب سب سے کم ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ سطحِ زمین کی رفتار خطِ استوا کے قریب زیادہ اور قطبین کے قریب کم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جو شخص خطِ استوا پر کھڑا ہے وہ خلا میں تقریباً 1,037 میل فی گھنٹہ (1,668 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے گردش کر رہا ہے، جبکہ لندن میں موجود شخص صرف تقریباً 646 میل فی گھنٹہ (1,041 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے۔ ان رفتاروں کے مقابلے میں صرف ایک میل فی گھنٹہ کا اضافہ معمولی لگ سکتا ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں دن تقریباً ڈیڑھ منٹ چھوٹا ہو جائے گا، جو شاید ہمارے باڈی کلاک کو فوراً محسوس نہ ہو۔ ماہرین کے مطابق اسے محسوس کرنے میں شاید کئی سال لگ جائیں۔ تاہم، ایک غیر متوقع اثر یہ ہوگا کہ مدار میں موجود سیٹلائٹس اپنی سنکرونائزیشن (ہم آہنگی ) کھو بیٹھیں گے۔سیٹلائٹس زمین کی گردش کے برابر رفتار سے حرکت کرتے ہیں تاکہ وہ زمین پر ایک ہی مقام کے اوپر رہ سکیں۔ اگر زمین کی رفتار بڑھ گئی تو یہ سیٹلائٹس اپنی جگہ کھو دیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نیویگیشن، مواصلاتی اور موسمیاتی نگرانی کی خدمات میں خلل پڑنے لگے گا۔اس کا ایک اثر یہ ہوگا کہ زمین کی تیز گردش کے باعث پیدا ہونے والی اضافی ''سینٹری فیوگل فورس‘‘ (Centifugal Force)کی وجہ سے پانی قطبین سے خط استوا کی طرف منتقل ہونا شروع ہو جائے گا۔ صرف ایک میل فی گھنٹہ کی اضافی رفتار خط استوا کے گرد سمندری سطح کو چند انچ بلند کر سکتی ہے۔ یہ تبدیلی ان شہروں کیلئے جو سطح سمندر کے قریب یا اس سے نیچے واقع ہیں تباہ کن سیلاب کا سبب بن سکتی ہے۔100 میل فی گھنٹہ زیادہ رفتاراگر زمین کی رفتار بڑھتے بڑھتے اتنی ہو جائے کہ خط استوا پر یہ موجودہ رفتار سے 100 میل فی گھنٹہ زیادہ تیزی سے گھومنے لگے تو یہ حقیقتاً سنگین اور خطرناک نتائج پیدا کرئے گی۔اب سطحِ سمندر صرف چند انچ بلندنہیں ہوگی بلکہ پانی قطبین سے بہہ کر خط استوا کی طرف آئے گا اور اسے ڈبونا شروع کر دے گا۔جو لوگ اس تباہ کن سیلاب سے بچ بھی گئے، ان کیلئے دنیا ایک انتہائی سخت اور ناموافق جگہ بن جائے گی۔اب شمسی دن 22 گھنٹے پر مشتمل ہو گا، جس سے ہماری جسمانی حیاتیاتی گھڑی اپنی قدرتی ترتیب سے بگڑ جائے گی۔تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ دن کی روشنی بچانے کیلئے گھڑیاں آگے پیچھے کرنے جیسے معمولی تغیرات بھی دل کے دورے، فالج اور ٹریفک حادثات کی شرح میں اضافے کا سبب بنتے ہیں تو تصور کیجیے کہ زمین کی تیز تر گردش اس سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوگی۔مزید برآں، زمین کا موسم بھی انتہائی شدید ہوتا چلا جائے گا۔ ناسا کے ماہرِ فلکیات ڈاکٹر سٹین اوڈن والڈ (Dr Sten Odenwald) کا کہنا ہے:طوفانِ باد و باراں (hurricanes) زیادہ تیزی سے گھومیں گے،اس کا مطلب یہ ہوگا کہ طوفانوں کی گردش مزید شدید اور تباہ کن ہو جائے گی۔ایک ہزار میل فی گھنٹہاگر زمین کی گردش موجودہ رفتار سے ایک ہزار میل فی گھنٹہ تیز ہو جائے تو زمین تقریباً دوگنی رفتار سے گھومنے لگے گی اور اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق یہ واضح طور پر ایک بڑی آفت ہو گی۔ ''سینٹری فیوگل فورس‘‘سیکڑوں فٹ پانی کو خط استوا کی طرف کھینچ لے جائے گی۔جس کی وجہ سے بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں کے سوا خط استوا کے تمام علاقے پانی میں ڈوب جائیں گے۔وہاں تقریباً مسلسل بارشیں ہوں گی، اور وہ دھند اور کہر میں لپٹے رہیں گے۔ 17ہزار میل فی گھنٹہ انتہائی رفتاروں پر، جیسے کہ 17ہزار میل فی گھنٹہ جو معمول کی رفتار سے 17 گنا زیادہ ہے پر ''سینٹری فیوگل فورس‘‘اس قدر طاقتور ہو جائے گی کہ کششِ ثقل کو بھی مات دے دے گی۔خط استوا پر موجود شخص وزن سے محروم ہو جائے گا۔تاہم، امکان ہے کہ اس منظر کو دیکھنے کیلئے کوئی موجود نہ ہو کیونکہ خط استوا بہت پہلے ہی ناقابلِ رہائش بن چکا ہوگا۔24ہزار میل فی گھنٹہ آخرکار، جب زمین کی رفتار خطِ استوا پر تقریباً 24ہزار میل فی گھنٹہ (38,600 کلومیٹر فی گھنٹہ) تک پہنچنے لگے گی، تو جیسا کہ ہم زندگی کو جانتے ہیں، وہ تقریباً ختم ہو جائے گی۔اس رفتار پر ''سینٹری فیوگل فورسز‘‘ اتنی طاقتور ہو جائیں گی کہ وہ زمین کو ایک گھومتی ہوئی مٹی کی گیند کی طرح چپٹا کرنا شروع کر دیں گی۔ زمین کی سطح میں دراڑیں پڑ جائیں گی، ہمیں زبردست زلزلے دیکھنے کو ملیں گے۔٭٭٭٭٭٭