انسان اور وبائی امراض کا ساتھ قدیمی ہے۔ماہرین ارضیات اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جب انسان نے مل جل کر رہنے کو رواج دیا اور انسانی آبادیوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ انسانی سرگرمیوں میں اضافہ شروع ہوا تو اسے امراض سے پالا پڑا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ وبائی امراض نے بھی انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہو گا ، لیکن تب انسان کی سوچ محدود ہونے کے سبب وہ اسے بھی ایک عام بیماری سمجھتا رہا ہو گا۔ آج سے کچھ عرصہ قبل ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ڈی این اے کے ذریعے ملنے والی معلومات سے جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق انسان کا وبائی امراض سے سب سے پہلا سامنا جنوبی افریقہ کے جنگلات سے شروع ہونے والی ایک وبا سے لگ بھگ 73000 قبل مسیح میں ہوا تھا۔ اس تحقیق میں یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ اس وبا نے کتنی انسانی جانوں کو نشانہ بنایا ہوگا ۔ تاہم معلوم انسانی تاریخ کا یہ پہلا موقع تھا جب 1200 قبل مسیح میں افریقہ ہی سے شروع ہونے والی ایک اور وبا نے مصر سے لے کر بابل تک بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا تھا۔ اس دور میں مصر دنیا بھر میں بہت بڑے تجارتی مرکز کی شہرت رکھتا تھا اور چونکہ اس دور میں زیادہ تر لوگ تجارت کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے ، جس کی وجہ سے اس وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بابل کی قدیم اکادی سلطنت کی اکادو زبان میں اس وبائی بیماری کو ''کسارو متانو ‘‘ کا نام دیا گیا تھا جس کے لفظی معنی ''بے بس کر دینا ‘‘ تھے۔ لیکن بعد میں اس بیماری کو باقاعدہ طور پر ''مستحظ ‘‘ کا نام دیا گیا۔ مستحظ کے لفظی معنی ایک ایسی بیماری کے ہیں جو ایک شخص سے دوسرے کو اپنی گرفت میں جکڑ لے۔ اس وبا کی تصدیق اس دور کے ملنے والے ان خطوط سے بھی ہوتی ہے جو اُس دور کے وزراء اور مشیروں نے اپنے بادشاہوں کو لکھے تھے۔ ان خطوط میں ایک خط 1170 قبل مسیح میں ماری سلطنت ( موجودہ شام کا علاقہ ) کے ایک وزیر نے اپنے بادشاہ زمری لم کو لکھا تھا جس میں یہ درخواست کی گئی تھی کہ چونکہ ایک وبا جو ایک شخص سے دوسرے شخص کے ذریعے منتقل ہو جاتی ہے ، پورے خطے میں پھیل چکی ہے لہٰذا سلطنت کے لوگوں کو خبردار کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں کہ وہ حتی الامکان سفر سے گریز کریں۔ مورخین کچھ اور خطوط کا حوالہ بھی دیتے ہیں جن میں اس وبا کے ثبوت ملتے ہیں اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ آج سے ہزاروں سال قبل بھی وہاں کے لوگوں کو اس امر کا ادراک ہو چکا تھا کہ یہ ایک متعدی مرض ہے جو ایک شخص کے دوسرے شخص کو چھونے سے یا میل جول کے ذریعے پھیلتا ہے ،جس سے بچاؤکا واحد طریقہ ایک دوسرے سے الگ رہنے اور متاثرہ شخص یا اشخاص سے عدم میل ملاپ ہی میں پوشیدہ ہے۔کیا کوئی شخص یہ تصور کر سکتا ہے کہ آج کے مشرق وسطیٰ کہلانے والے علاقے کو آج سے لگ بھگ تین ہزار سال پہلے ایک وبائی آفت نے نیست و نابود کر کے رکھ دیا تھا۔ان میں موجودہ دور کے شمالی اور جنوبی عراق ، مصر، ترکی اور قبرص شامل تھے۔ یہ ریاستیں یا تو مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھیں یا ایک عرصے تک ویران اور سنسان کھنڈروں کا نقشہ پیش کرتی رہی تھیں۔ اس تباہی کے پس پردہ اگرچہ طویل جنگ ، قحط اور کچھ دیگر عوامل تو تھے ہی لیکن ان سب سے نمایاں ایک ایسی عالمی وبا تھی جو اس دور کے لوگوں کے لئے نئی ، غیر متوقع اور اچانک تھی۔ تبھی تو وہاں کے لوگ ایک عرصہ تک اسے ''عذاب الٰہی‘‘ کے نام سے پکارتے رہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب مصر اور ہیٹی(Hittite) دو بڑی طاقتیں ہوا کرتی تھیں اور دونوں اکثر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہتی تھیں۔ واضح رہے کہ اس دور میں مصر کی سرحدیں موجودہ دور کے جدید جنوبی فلسطین تک پھیلی ہوئی تھیں جبکہ ہیٹی نامی سلطنت کی سرحدیں آج کل کے ترکی سے شمالی فلسطین کو چھوتی تھیں۔یہ 1325 قبل مسیح کے آس پاس کا دور تھا جب ہیٹی مصر کے ایک شہر عمقا (موجودہ فلسطین کا علاقہ) پر حملہ آور ہوا ۔ اتفاق سے عمقا کا جڑواں شہر جبیل اس وقت ایک وبا کی زد میں آیا ہوا تھا اور جبیل سے ملحقہ عمقا بھی اس وبا سے متاثر ہو چکا تھا۔ عمقا سے کچھ مصری فوجیوں کو ہیٹی کی افواج یرغمال بنا کر اپنے ساتھ ہیٹی کے دارلحکومت ہٹوسا لے گئیں جو اتفاق سے اس وبائی مرض میں مبتلا ہو چکے تھے؛چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے نہ صرف ہٹوسا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بلکہ اس کے مشرق میں واقع اگریت سلطنت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔مورخین کہتے ہیں ہٹوسا سمیت ہیٹی کے بیشتر علاقے ہی نہیں بلکہ مصر اور اوغاریت ریاست کے بھی بیشتر علاقوں میں دو عشروں تک اس وبا نے تباہی پھیلائے رکھی جس کے بارے مورخین کا کہنا ہے کہ دوعشروں پر محیط اس وبا سے پورے علاقے کی نصف سے زائد آبادی کا نام و نشان تک مٹ گیا تھا ۔ یہاں تک کہ ہیٹی کے دو بادشاہ سپیلو لیوما اور ارنوواندا کی ہلاکت بھی بالترتیب 1322 اور 1323 قبل مسیح میں اسی وبا سے ہوئی تھی۔ہیٹی کے مغرب میں ارزاوا نامی ایک ریاست تھی جس کے دارالحکومت کا نام اپسا تھا، جس کے ہیٹی سے اختلافات ایک عرصہ سے چلے آرہے تھے؛ چنانچہ ہیٹی کو کمزور دیکھتے ہوئے ارزاوا نے ہیٹی پر حملہ کردیا۔ہیٹی چونکہ مصر کے ساتھ تصادم سے یہ جان چکا تھا کہ خطے کے طول و عرض میں پھیلی اس وبا کو بطور ہتھیار استعمال کر کے ارزاوا سے بدلہ لیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ ہیٹی نے روایتی طرز پر ارزاوا پر حملہ آور ہونے کی بجائے وبا سے متاثرہ خچر اور کچھ دوسرے جانوروں کو ارزاوا کی سرحد کے اس پار دھکیلنا شروع کر دیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے پوری ریاست ارزاوا کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیا۔ ہیٹی سلطنت کی دستاویزات سے بھی اس وبا کو دشمن کے خلاف استعمال ہونے کے اس انوکھے جنگی ہتھیار کی تصدیق ہو جاتی ہے۔