کھجور کی خصوصیات

کھجور کی خصوصیات

اسپیشل فیچر

تحریر : سلمان عطا


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

کھجور کے درخت کے بغیر قدیم عرب کے صحراؤں میں انسانی زندگی کا پنپنا ممکن نہ تھا۔ عرب بدو صدیوں تک کھجور اور اونٹنی کے دودھ پر اپنی پوری زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ اس درخت میں چار ایسی خصوصیات ہیں جو اسے دوسرے پھلوں سے ممتاز کرتی ہیں 1۔ انتہائی سخت موسمی حالات کو برداشت کرنا، 2۔ پھل کا زیادہ عرصے تک محفوظ رہنا، 3- کھجور کا غذائیت سے بھر پور ہونا، 4۔ فی پودا زیادہ خوراک پیدا کرنا (50-120 کلو گرام)۔کھجور میں فائبر، وٹامنز(خصوصاً اے اور بی کمپلیکس) اور منرلز (کیلشیم، آئرن، زنک وغیرہ) کی بہت اچھی مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ درخت تقریباً سو سال کی عمر تک پھل دیتا رہتا ہے۔ پاکستان دنیا میں کھجور پیدا کرنیوالا پانچواں سب سے بڑا ملک ہے۔ اگر مناسب دیکھ بھال کی جائے تو مکران، خیر پور، سکھر اور ڈیرہ اسماعیل خان میں پائی جانیوالی کھجوروں کی اقسام دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ مگر بد قسمتی سے کاشتکاروں کی مناسب تربیت اور منڈی کے مسائل کی وجہ سے پاکستان اعلیٰ معیار کی کھجور پیدا کرنے سے قاصر ہے نتیجتاً اندرون اور بیرون ملک معیاری کی کھجور کی ترسیل نہیں ہو رہی۔ ان مسائل کا سدِباب وقت کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف زرِ مبادلہ کمایا جا سکے بلکہ ملک کے باشندے اس بھر پور غذائیت کے حامل پھل کو روزمرہ زندگی کا حصہ بنا سکیں۔ ٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
AI کرے گی اب کینسر کی تشخیص!

AI کرے گی اب کینسر کی تشخیص!

مصنوعی ذہانت (AI)سے لیس انقلابی آلہ نے جلد کے کینسر کی ابتدائی اور بروقت تشخیص کو ممکن بنا کر دنیا کے ان لاکھوں افراد کیلئے اُمید کی کرن روشن کر دی ہے جو دور دراز، پسماندہ علاقوں میں بنیادی طبی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ یہ انقلابی آلہ خاص طور پر ان خطوں کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے جہاں ماہر امراض جلد (ڈرماٹالوجسٹ) تک رسائی ممکن نہیں، اور مریض اکثر بیماری کی سنگین حالت تک پہنچنے کے بعد ہی تشخیص اور علاج کی طرف آتے ہیں۔یہ آلہ ہیریئٹ واٹ یونیورسٹی سکاٹ لینڈ (Heriot-Watt University)کی پی ایچ ڈی کی طالبہ ٹیس واٹ نے تیار کیا ہے جو دنیا کے دور دراز علاقوں میں جلد کے کینسر کی تشخیص کے طریقہ کار کو یکسر بدل کر رکھ دے گا۔ اس آلہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے ذریعے انٹرنیٹ یا ماہر امراض جلد (ڈرما ٹالوجسٹ) کے بغیر بھی جلد کے کینسر کی تشخیص ممکن ہے۔ ڈیوائس کے ساتھ ایک کیمرہ منسلک ہے، جس کی مدد سے مریض یا مقامی طبی نمائندہ متاثرہ جلد کی تصویر لیتا ہے۔ اس کے بعد یہ نظام، جدید امیج ریکگنیشن ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے، تصویر کو ہزاروں پہلے سے محفوظ شدہ نمونوں سے موازنہ کرتا ہے اور فوری طور پر تشخیص فراہم کرتا ہے۔ پھر یہ نتائج مقامی جنرل فزیشن کو بھیجے جاتے ہیں، جس سے علاج میں تاخیر کے بغیر فوری آغاز ممکن ہو جاتا ہے۔یہ خودکار تشخیصی نظام ان ابتدائی آلات میں سے ایک ہے جو خاص طور پر دور دراز طبی استعمال کیلئے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ ٹیس واٹ کے مطابق گھر بیٹھے صحت کی سہولیات فراہم کرنا آج کے دور میں نہایت اہم ہے، خاص طور پر جب جنرل فزیشن کی اپوائنٹ منٹس کیلئے طویل انتظار کرنا پڑ رہا ہو۔ماہرین کے مطابق فی الحال یہ آلہ 85 فیصد درستگی کے ساتھ کام کر رہا ہے، لیکن جیسے جیسے اسے مزید تصویری ڈیٹاسیٹس اور مشین لرننگ میں بہتری حاصل ہو گی، اس کی کارکردگی میں مزید اضافہ متوقع ہے۔تحقیقی ٹیم ''نیشنل ہیلتھ سروس‘‘(NHS) سے منظوری کے بعد اسے عوامی سطح پر آزمانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ابتدائی مرحلے میں اس کا آغاز اسکاٹ لینڈ کے دیہی علاقوں سے کیا جائے گا، تاہم یہ ٹیکنالوجی ان تمام خطوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے جہاں ڈرماٹالوجی کی سہولیات محدود یا نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہیریئٹ واٹ یونیورسٹی کے محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ آلہ ان مریضوں کیلئے بھی فائدہ مند ہوگا جو معذور یا گھر تک محدود ہیں، کیونکہ اس سے بروقت تشخیص پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو جائے گی۔یہ نئی AI ڈیوائس اور اس جیسی ٹیکنالوجیز زیادہ ترانسانوں تک ابتدائی طبی تشخیص پہنچانے کا راستہ ہموار کر رہی ہیں۔ اگرچہ مکمل کلینیکل نفاذ میں وقت لگ سکتا ہے، لیکن دور دراز علاقوں میںسکن کینسر کا بروقت پتہ لگانا اب ممکن ہو رہا ہے اور ایسے ٹولز زندگی بچانے والے ثابت ہوسکتے ہیں۔ 

آج تم یاد بے حساب آئے !ابن صفی  اردو ادب کی دیومالائی شخصیت (1928ء تا 1980ء)

آج تم یاد بے حساب آئے !ابن صفی اردو ادب کی دیومالائی شخصیت (1928ء تا 1980ء)

٭...6 2جولائی 1928ء کو بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع الہ آباد کے قصبے نارا میں پیدا ہوئے۔اصل نام اسرار احمد تھا۔٭...تعلیم آگرہ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ٭... شاعری سے ادبی سفر کا آغاز کیا اور بطور شاعر اپنا نام اسرار ناروی لکھتے تھے۔٭...1948ء میں انکی پہلی کہانی ''فرار‘‘ شائع ہوئی۔٭...1951ء میں رسالہ ''جاسوسی دنیا‘‘ جاری کیا جس میں ابن صفی کے قلمی نام سے انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید کے کرداروں پر مشتمل سلسلے کا آغاز ہوا ۔٭... ان کے کاموں میں جاسوسی دنیا، فریدی حمید سیریز اور عمران سیریز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ افسانے اور طنز و مزاح بھی لکھتے تھے۔٭...عمران سیریز کو ان کی مقبول ترین سیریز میں شمار کیا جاتا ہے۔ عمران سیریز کا پہلا ناول ''خوفناک عمارت‘‘ تھا جو اکتوبر 1955ء کو منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد آنے والے ناولوں میں ''چٹانوں میں فائر‘‘، ''پر اسرار چیخیں‘‘ اور ''بھیانک آدمی‘‘ شامل ہیں۔ ٭...1957ء میںاسرار پبلیکیشنز کے نام سے ادارہ قائم کیا ۔٭... 20برس کے مختصر عرصے میں 245 ناول لکھے۔٭... ان کے ناولوں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بک اسٹال پر آتے ہی ختم ہو جاتے تھے۔٭...اردو ادب کا یہ عظیم ناول نگار 26جولائی 1980ء کو جہان فانی سے رخصت ہو گیا۔ 

دنیا کا سب سے جان لیوا جانور کونسا ؟

دنیا کا سب سے جان لیوا جانور کونسا ؟

جب زمین کے سب سے جان لیوا جانور کا ذکر آتا ہے تو آپ کے ذہن میں شاید شیر، سانپ یا شارک کا خیال آئے؟ لیکن ذرا اور چھوٹے پیمانے پر سوچیے! انسانوں کیلئے سب سے مہلک جانور ایک ایسا کیڑا ہے جو ایک کاغذی کلپ سے بھی چھوٹا ہوتا ہے، اور وہ ہے ''اینو فِلیز مچھر‘‘۔2017ء میں گنیز ورلڈ ریکارڈز نے باقاعدہ طور پر ''اینو فلیز مچھر‘‘ کو ''انسان کا سب سے جان لیوا جانور‘‘ قرار دیا تھا، جو ہر سال اندازاً 7لاکھ 25ہزار سے لے کر 10 لاکھ تک اموات کا باعث بنتا ہے۔یہ مچھر، خاص طور پر صرف مادہ مچھر دنیا بھر میں ملیریا پھیلانے کیلئے مشہور ہے، جو ایک مخصوص قسم کے طفیلی (parasite) پلازموڈیم کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ مچھر زیادہ تر گرم مرطوب آب و ہوا اور ٹھہرے پانی والے علاقوں جیسے تالابوں، دلدلی علاقوں اور ندی نالوں کے کنارے پائے جاتے ہیں۔ملیریا کے علاوہ، اینو فِلیز مچھر کچھ دیگر خطرناک بیماریوں کے پھیلاؤ کا ذریعہ بھی بنتا ہے، جیسے ''O'nyong'nyong virus‘‘ اور ''لیمفیٹک فیلاریاسس‘‘ (Lymphatic Filariasis) یا ''الیفنٹیاسس‘‘(elephantiasis)۔ یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ صرف اینو فلیز نسل کی مادہ مچھر ہی ملیریا منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے چھوٹے سے کیڑے کی اتنی بڑی تباہی کی وجہ کیا ہے؟ تو اس کا جواب ہے، خوراک حاصل کرنے کا عمل۔ جب ایک بالغ مچھر پانی کی سطح سے نکلتا ہے تو وہ پھولوں کے رس پر گزارا کرتا ہے تاکہ توانائی حاصل کر سکے۔ لیکن مادہ مچھر کو اپنے انڈے پیدا کرنے کیلئے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی عمل مچھر کو ایسے طفیلی کیڑے یا وائرس سے آلودہ کر دیتا ہے، جو وہ پھر انسانوں اور دوسرے جانداروں میں منتقل کرتا ہے۔جب مچھر کسی متاثرہ شخص کو کاٹتا ہے تو وہ اس کے خون میں موجود مرض (مثلاً ملیریا کا طفیلی) اپنے جسم میں لے لیتا ہے۔ یہ مرض مچھر کے جسم میں افزائش پاتا ہے اور جب وہ مچھر کسی دوسرے انسان کو کاٹتا ہے تو وہ یہ مرض اپنی تھوک کے ذریعے اس انسان کے خون میں منتقل کر دیتا ہے۔ یوں یہ خطرناک چکر چلتا رہتا ہے۔اس کے اثرات صدیوں سے دنیا بھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران مشہور مصنف ڈاکٹر سوس (اصل نام: تھیوڈور گائزل) نے امریکی فوجیوں کیلئے ملیریا سے بچاؤ کی مہم میں حصہ لیا۔ انہوں نے ایک کردار ''بلڈتھرسٹی این‘‘ (خون کی پیاسی این) تخلیق کیا، جو دراصل اینو فِلیز مچھر کی نمائندہ تھی۔ ڈاکٹر سوس، جو اس وقت امریکی فوج میں کیپٹن کے عہدے پر فائز تھے، نے اس کردار کے ذریعے اس مہلک مچھر کے بارے میں شعور اجاگر کیا، خاص طور پر اس وقت جب اتحادی افواج کو ملیریا سے بچاؤ کی دواؤں تک رسائی محدود ہو گئی تھی۔ ہم خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟خاص طور پر جب ہم گرم اور مرطوب علاقوں میں ہوں، تو اپنے آپ کو اور اپنے پیاروں کو ان مہلک مچھروں کے کاٹنے سے بچانے کیلئے درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں۔٭...ایسے کپڑے پہنیں جو پورے جسم کو ڈھانپیں (لمبی آستینوں والی قمیصیں، پاجامے یا پینٹ)۔٭...مچھر بھگانے والی کریمیں یا اسپرے استعمال کریں ۔٭...مچھر دانی یا نیٹ کا استعمال کریں، خاص طور پر سوتے وقت۔٭...ٹھہرے پانی سے پرہیز کریں یا اسے ختم کریں جہاں مچھر انڈے دے سکتے ہیں (مثلاً پرانے ٹائر، بالٹیاں، گملے)۔٭...کھڑکیوں اور دروازوں پر جالیاں لگوائیں تاکہ مچھر گھر میں داخل نہ ہوں۔یہ چھوٹے اقدامات آپ کی اور دوسروں کی زندگی کو بڑی بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔اینو فلیز مچھر، جو نظر نہ آنے کے برابر ہے، ہر سال لاکھوں انسانوں کی جان لے لیتا ہے اور اسی وجہ سے یہ دنیا کا سب سے خطرناک جانور مانا جاتا ہے۔جدید علاج کے باوجود خطرہ باقی ہے، آج کے جدید سائنسی دور میں ملیریا کا علاج ممکن ہے، لیکن ابھی تک کوئی ایسی ویکسین موجود نہیں جو ملیریا کی تمام اقسام سے مکمل تحفظ فراہم کر سکے۔مچھر کا خطرناک ریکارڈاندازوں کے مطابق مچھروں نے انسانی تاریخ میں 50ارب سے زائد لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔اس کے مقابلے میںشیروں سے تقریباً 5 لاکھ اموات ہوئیں جبکہ شارک کے ہاتھوں صرف 50 ہزار اموات۔  

طنزومزاح:کرکٹ میچ

طنزومزاح:کرکٹ میچ

اسکول کے زمانے میں ہم ہاکی کھیلاکرتے تھے اور کچھ اچھا ہی کھیلتے تھے کہ ہم کو اسکول کی اس ٹیم میں لے لیا گیا تھا جو ٹورنامنٹ کھیلنے والی تھی۔ چنانچہ ہم ٹورنامنٹ کے میچوں میں کھیلے اور خوش قسمتی سے ہماری ٹیم فائنل میں بھی پہنچ گئی۔ پہنچ کیا گئی، بلکہ جیت ہی جاتی اگر ہماری نظریں عین اس وقت جب کہ ہم آسانی سے گول بچا سکتے تھے تماشائیوں میں والد صاحب پر نہ پڑ جاتیں جو آئے تو تھے میچ دیکھنے مگر آنکھیں بند کیے کچھ بڑبڑا رہے تھے اور کچھ عجیب رقت انگیز چہرہ بنا ہواتھا ان کا۔ ہم نے ان کو دل ہی دل میں کہا کہ آج کہاں آگئے اور وہاں شور ہوا گول ہوجانے کا۔ اس شور سے ہم بھی چونکے اور والد صاحب نے بھی آنکھیں کھول دیں اور کچھ ایسی قہر آلود نگاہوں سے دیکھا کہ ہم کو ہاکی سے طبیعت اچاٹ کرکے رکھ دی۔ اب ہماری ٹیم لاکھ لاکھ زور لگاتی ہے گول اتارنے کیلئے مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس طرف کی ٹیم کے کسی کھلاڑی کے والد صاحب تماشائیوں میں تھے ہی نہیں۔ نتیجہ یہ کھیل ختم ہوگیا اور ہماری ٹیم ہار گئی۔ اب جس کو دیکھیے وہ ہم ہی کو اس کاذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔''بھئی یہ ہوا کیا تھا۔ سو گئے تھے کیا؟‘‘''کمال کردی تم نے گیند ٹہلاتا ہوا تمہارے سامنے سے گول میں چلا گیا اور تم منہ اٹھائے کھڑے رہے۔ حد کردی تم نے بھی‘‘۔''ہارنے کا افسوس نہیں ہے۔ مگر یہ تو مفت کی ہار ہوئی‘‘۔تماشائیوں میں سے ایک صاحب کہتے ہوئے نکل گئے۔ ''رشوت میں افیم ملی تھی کھانے کو، گولی کھاکر گول کرا لیا۔‘‘اب کسی کو ہم کیا بتاتے کہ ہم پر کیا قیامت گزر رہی تھی اس وقت۔ لعنتیں برستی رہیں ہم پر اور ہم سر جھکائے سب کچھ سنتے رہے،اس لیے کہ واقعی قصور اپنا ہی تھا۔ دوسری اس لعنت ملامت کی پرواہ کس کو تھی۔ دل تو اس وقت کے تصور سے دھڑک رہا تھا جب گھر پہنچ کر والد صاحب کے سامنے پیشی ہوگی۔ بمشکل تمام اس مجمع سے جان بچا کر تھکے ہارے گھر جو پہنچے تو ڈیوڑھی میں قدم رکھتے ہی والد صاحب کی گرجدار آواز سنائی دی۔''مگر میں پوچھتا ہوں کہ مجھے آج تک کیوں نہ معلوم ہوا کہ صاحبزادے کو خودکشی کا یہ شوق بھی ہے، تم تو یہ کہہ کر چھٹی پاگئیں کہ یہی ہوتا ہے کھیل کود کا زمانہ‘‘۔والدہ صاحبہ نے فرمایا ''تو کیا غلط کہا میں نے کس کے بچے نہیں کھیلتے‘‘۔والد صاحب نے میز پر گھونسہ مارتے ہوئے فرمایا۔ ''پھر وہی کھیل اے جناب یہ موت کا کھیل ہوتا ہے موت کا۔ گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے ہر طرف اور خدا ہی کھیلنے والوں کو بچاتا ہے۔ میراصغر علی کا نوجوان لڑکا ہائے کیا تندرستی تھی اس کی۔ اس کھیل کی نذر ہوگیا۔ کلیجہ پر پتھر کا گیند لگا سانس بھی نہ لی اور جان دے دی۔ باپ نے بڑھ کر پیشانی کو بوسہ دیا اور آج تک کلیجہ پکڑے پھرتے ہیں۔ اگر کچھ ہوجائے اس کے دشمنوں کو تو تمہارا کیا جائے گا۔ میں تو ہائے کرکے رہ جاؤں گا دونوں ہاتھ مل کر۔‘‘ 

آج کا دن

آج کا دن

ایکسپلورر41958ء میں آج کے روز ناسا کا ابتدائی سیٹلائٹ مشن ''ایکسپلورر 4‘‘ کوفلوریڈا سے لانچ کیا گیا۔ اس مشن کا مقصد ''وین ایلن ریڈی ایشن کا مشاہدہ، خلائی تابکاری کا تجزیہ اور زمینی مقناطیسی میدان پر ایٹمی تجربات کے اثرات کا مطالعہ کرنا تھا۔ ''ایکسپلورر 4‘‘نے تقریباً 3 ماہ تک کام کیا اور 6 اکتوبر 1958ء کو اس کا زمینی رابطہ ختم ہو گیا۔مصر پر برطانوی حملہ1882 ء میں آج کے روز برطانیہ نے سویز کینال پر قبضے کی خاطر برطانوی افواج نے اسکندریہ پر حملہ کیا، جو بعد میں مصر پر برطانوی تسلط کا سبب بنا۔ 1869 میں سویز نہر(Suez Canal) کی تعمیر ہوئی، جو یورپ اور ایشیا کے درمیان تجارت کیلئے انتہائی اہم بحری راستہ بن گئی۔برطانیہ کیلئے یہ نہر ہندوستان تک رسائی کا سب سے تیز اور اہم ذریعہ تھی۔خواتین کا پہلا کرکٹ میچ26جولائی 1745ء کوخواتین کے درمیان تاریخ کا پہلا کرکٹ میچ کھیلا گیا۔ یہ مقابلہ براملی اور ہیمبلڈن کی خواتین ٹیموںکے درمیان کروایا گیا۔ سبھی کھلاڑی سفید لباس میں ملبوس تھیں۔ سر سرخ ربن باندھے ہیمبلڈ ن کی ٹیم نے 127 رنز بنائے جبکہ سر پر نیلا ربن باندھے براملی کی ٹیم نے 119 رنز بنائے۔ 

پاکستان پلاسٹک آلودگی میں سرفہرست

پاکستان پلاسٹک آلودگی میں سرفہرست

برسات کے موسم میں شہری نالے اور نکاسی آب کا نظام اکثر شدید دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں طغیانی، پانی کی نکاسی میں رکاوٹ اور اربن فلڈنگ جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ان مسائل کی ایک بڑی مگر نظر انداز کی جانے والی وجہ پلاسٹک کی آلودگی ہے جو برساتی نالوں میں رکاوٹ پیدا کر کے پانی کے بہاؤ کو روک دیتی ہے۔ شاپنگ بیگز، پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر غیر تحلیل پذیر کچرا نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کو بڑھا رہا ہے بلکہ شہری انفراسٹرکچر کیلئے بھی خطرہ بن چکا ہے۔ہر سال عالمی سطح پر 30 کروڑ ٹن سے زیادہ پلاسٹک تیار کیا جاتا ہے اور اس میں سے نصف ایک ہی بار استعمال کیا جاتاہے۔ پلاسٹک کے استعمال میں اضافے کی اس لہر کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پلاسٹک کے استعمال کے چیلنج سے نبردآزما ہے۔ سائنسی میگزین ''نیچر ‘‘میں شائع ہونے والی برطانیہ کی یونیورسٹی آ ف لیڈز کی ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں پلاسٹک کا سب سے زیادہ کچرا پیدا کرنے والے پہلے آٹھ ممالک میں شامل ہے۔ کراچی دنیا بھر میں پلاسٹک کا سب سے زیادہ کچرا پیدا کرنے والے پہلے چار شہروں میں شامل ہے۔ ورلڈ بینک کی 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ سے بحیرہ عرب میں 40 فیصد کچرا شامل ہوتا ہے جس کا تین چوتھائی حصہ سودا سلف کے لیے استعمال ہونے والی پلاسٹک کے کچرے ، جوس کے ڈبوں، بچوں کے ڈائیپرز ، فیس ماسک، سرنجوں اور کئی تہوں والی پیکیجنگ میں استعمال ہونے والی باریک پلاسٹک پر مشتمل ہوتا ہے۔ پلاسٹک کے اس کچرے کو گھروں کے کوڑنے میں ڈال دیا جاتا ہے ،اسے پھینکنا آسان مگر اس کے ماحولیاتی نقصانات سے نمٹنا مشکل ہوتا ہے۔دنیا بھر میں پلاسٹک کا استعمال 1950 کے وسط میں عام ہوا اور اس نے زندگی کو تبدیل کر دیا کیوں کہ یہ ہلکا، سستا اور آسانی سے قابل استعمال سمجھا جاتا ہے اور چیزیں لانے لیجانے کے لیے اس کا استعمال بے حد بڑھ گیا۔ پلاسٹک کی بے تحاشا تیاری اور استعمال کی وجہ سے اس کا جو کچرا بنا اسے تلف کرنے کے بندو بست پر اس پیمانے پر کام نہیں کیا گیا ۔پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کی فوری ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی پائیداری کی کوششوں کو کامیاب بنایا جا سکے۔ بائیو ڈیگریڈایبل متبادل کے استعمال، ری سائیکلنگ کے اقدامات اور ماحولیاتی آگاہی کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، حکومتی سطح پر جامع پالیسی فریم ورک کا قیام بھی ضروری ہے تاکہ پلاسٹک کی آلودگی پر قابو پایا جا سکے اور پاکستان کو ایک صاف اور صحت مند ماحول فراہم کیا جا سکے۔ماحولیات اور صحت کے ماہرین پلاسٹک کے پھیلاؤ کے ماحولیات اور صحت کے لیے خطرات اور اس کے انسانی اور آبی حیات حیات پر مضر اثرات بارے آگاہ کرتے رہتے ہیں ۔اس زمانے میں ہم اپنی زندگی میں سے پلاسٹک کے استعمال کو شاید مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتے تا ہم اس کے استعمال کو کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہماری بطور شہری ایک اہم ترین ذمہ داری پلاسٹک کو صحیح طرح سے ٹھکانے لگانا بھی ہے۔ پلاسٹک کو گھر کے دیگر کچرے میں ڈال کر پھینکنا ماحول کے لیے شدید خطرناک ہے۔ پلاسٹک کو ٹھکانے لگانے کے لیے مناسب اقدامات ضروری ہیں ۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو پلاسٹک کا استعمال کم کرنے اور صحیح طریقے سے ٹھکانے لگانے کے بارے آگاہی فراہم کرے۔