چھپائی کا فن انگلستان میں

چھپائی کا فن انگلستان میں

اسپیشل فیچر

تحریر : شرافت علی


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

انگلستان میں پہلا انگریزی کا چھاپہ خانہ ولیم کیکسٹن کا بتایا جاتا ہے۔ ابتدا میں وہ ایک سوداگر تھا لیکن اسے ادبی کتابوں سے بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ وہ ایک اچھا مترجم بھی تھا۔ اسی وجہ سے اسے طباعت کے پیشے میں بڑی شہرت ملی۔ 1474ء میں اس نے ویسٹ منسٹر انگلستان میں پہلا مطبع قائم کیا۔ اس نے 1491ء میں اپنے انتقال تک تقریباً 100 کتابیں چھاپ کر رکھ دی تھیں۔ جس میں اس کے اپنے بعض تراجم اور قومی ادبیات سے متعلق کتب تھیں۔ چاسر کی مشہور کتب ’’کینٹبیری کی ہدایتیں‘‘ بھی ان میں شامل تھیں۔انگلستان میں پندرھویں صدی کے آخر تک جان لائن‘ ولیم دل شینا اور رچرڈ پسنسن جیسے ناشر بہت مشہور تھے۔ ان لوگوں نے انگلستان میں رومن ٹائپ کو رائج کیا تھا۔ یورپ میں چھاپے خانے جس تیزی سے قائم ہوئے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پندرھویں صدی کے اختتام سے قبل فرانس کے چالیس شہروں اور قصبوں میں پریس قائم ہو گئے تھے۔ ولیم کیکسٹن نامی مالکان مطبع نے انگریزی کی کتاب ’’دی کال آف دی ہسٹری آف ٹرائے‘‘ شائع کی اور انہوں نے 1476ء میں انگلستان میں ویسٹ منسٹر میں پہلا پریس کھولا۔ کیکسٹن وہیں 1484ء تک کام کرتا رہا۔ 1501ء سے پہلے چھپی ہوئی کتابوں کو جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے‘ ان کیونا بلا (Incunabula) کہا جاتا ہے۔ اس کے معنی ہیں’’کتابوں کا بچپنا (Cardle Book) ان کتابوں میں دلچسپی زیادہ تر اٹھارھویں صدی عیسوی سے شروع ہوئی۔ پندرھویں صدی میں نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔ انسان کا ذہن فرسودہ قدیم توہمات سے نجات حاصل کرنے کی جنگ کرنے لگا۔ عوامی تحریک شروع ہوئی اور لوگ خانقاہی تسلط کے اندھیروں سے روشنی کی جانب بڑھنے لگے۔ چھپائی کی ایجاد نے خانقاہی نظام کو مسمار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لوتھر جو تحریک کا بانی تھا‘ اس کے پمفلٹ کی چار ہزار کاپیاں پانچ دن میں چھپ کر انگلستان میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئیں۔ جرمن اس جہاد میں پیش پیش تھے وہاں لوتھر کی ترجمہ کی ہوئی بائبل اور دوسرا علمی مواد 1522ء میں ستمبر سے دسمبر تک ناقابل یقین تعداد میں شائع ہوا۔ انگلستان میں اس بائبل کے سو ایڈیشن 15 سال میں بیس ہزار فروخت ہوئے۔ گاٹن برگ نے چھپائی کی جو نئی راہیں دکھائیں‘ اس نے چھپائی کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 50 سال کے عرصہ میں یورپ کے 20 شہروں میں تقریباً 1100 چھاپے خانے حرکت میں تھے۔ انیسویں صدی تک گاٹن برگ کا طریقہ چھپائی تقریباً اسی طرح قائم رہا۔ صنعتی انقلاب نے انجینئرنگ کی دنیا میں حیرت انگیز تبدیلیوں سے ہر شعبے کو متاثر کیا جس میں چھپائی کا شعبہ بھی شامل ہے اور چھپائی کی رفتار تیز سے تیز تر ہونا شروع ہوئی۔یورپ میں 1800 ء میں اس سلسلے میں پہلا بڑا قدم اس وقت اٹھایا گیا‘ جب ارل اسٹان ہوپ نے لوہے سے پریس تیار کیا۔ یہ ابتدائی پریس ہاتھ سے چلتا تھا۔ 29 نومبر 1814ء کو مشہور اخبار دی ٹائمز (The Times) ایسے پریس میں چھپا جو بھاپ کی طاقت سے چلتا تھا۔ اس کی ایجاد کا سہرا ’’فرینڈرک کوننگ‘‘ کے سر ہے۔ کوننگ نے گھومتے ہوئے پہیے کا اصول استعمال کیا جبکہ اس سے پہلے تک چھپائی چوڑے تختے نما شکنجے کے ذریعہ جس میں ٹائپ سیٹ کیے ہوتے تھے‘ کو ایک حرکت کے ذریعے دوسرے تک پہنچایا جاتا تھا جس پر کاغذ رکھا ہوتا تھا۔ یہ عمل بہت سست تھا۔ جب پہیے کے گھومنے سے چھپائی کی مشین چلنا شروع ہوئی تو اس پہیے سے چھپائی کی رفتار شاید پچاس پرنٹ فی گھنٹہ تھی۔ یہ رفتار اٹھارھویں صدی کے اختتام تک تقریباً 300 تک پہنچ چکی تھی۔ کوننگ کے دو سلنڈر کے پریس کے ذریعے یہ رفتار گیارہ سو پرنٹ فی گھنٹہ ہو گئی اور اس پریس کو مزید ترقی دے کر جب چار سلنڈر سے چلایا گیا تو چھپائی کی رفتار 1828ء میں چار ہزار فی گھنٹ ہو گئی تھی۔ روٹری پریس کے ذریعہ جو 1848ء میں تیار ہوا‘ یہ رفتار بڑھ کر آٹھ ہزار ہو گئی تھی۔صنعتی انقلاب کے نتیجہ میں چھپائی کی مشینوں میں تبدیلی ضروری ہوئی اور خودکار مشینیں تیار ہونے لگیں لیکن کمپوزنگ کے سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت نہ ہوئی۔ انیسویں صدی کے آخر تک ہاتھ ہی سے کمپوزنگ ہوتی رہی۔ 1883ء میں امریکہ میں ایک جرمن باشندے مارجن تھیلر نے ایک مشین ایجاد کی جو چھپائی کی پوری سطر ڈھال دیتی تھی۔ اس طرح دو سال کے بعد لائینو ٹائپ مشین تیار ہو گئی۔ 1890ء میں مونوٹائپ مشین تیار ہوئی جس میں حروف ایک ہی وقت میں ڈھلنے کی جگہ ایک کاغذ میں سوراخ بنا کر دوسری مشین کے ذریعے ڈھالے جاسکتے ہیں۔ ایک عام کمپوزیٹر ایک گھنٹے میں تقریباً پندرہ سو حروف سیٹ کر سکتا ہے۔ جبکہ مونو اور لائینو سے اسی وقت میں چھ ہزار حروف سیٹ کیے جا سکتے ہیں۔ کمپوزنگ کے سلسلے میں مزید پیش رفت فوٹو کمپوزنگ کی شکل میںبتائی گئی۔ اب کمپیوٹر کے استعمال کے بعد کمپوزنگ کی دنیا ہی بدل گئی۔ چھپائی کی دنیا میں دوسرابڑا انقلاب لیتھو گرافی طریقہ سے چھپائی ہے جس کو عرف عام میں آفسٹ چھپائی کہا جاتا ہے۔ ابھرے ہوئے حروف سے چھپائی کے برخلاف یہ ہموار سطح سے چھپائی کا طریقہ ہے اور اس طریقہ نے چھپائی کی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ خصوصاً تصویروں کی چھپائی میں اس کی ایجاد کا سہرا الائوس سینے فیلڈر (Aloissenefelder) کے سر جاتا ہے۔ جس نے اس سائنسی اصول کو استعمال کیا کہ پانی اور گریس ایک دوسرے سے نہیں ملتے ہیں۔ اس اصول کو استعمال کرتے ہوئے پلیٹ کی سطح چھپنے والی اور نہ چھپنے والی جگہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اگر تصویر کسی چکنی شے سے ایک خاص قسم کے پتھر پر بنائی جائے اور پھر اس پر پانی بہایا جائے تو چکنی جگہ یعنی تصویر روشنائی قبول کر لے گی کیونکہ روشنائی خود چکنی ہوتی ہے اور اس روشنائی کا عکس (Impression) کاغذ پر منتقل ہو جاتاہے۔ آج کی ہموار سطح کی چھپائی کی تمام مشینیں اسی اصول پر تیار کی جاتی ہیں۔ اس طریقے سے چھپائی بہت نفیس ہوتی ہے اور چھپنے والی چیز کی چھوٹی چھوٹی تفصیل پوری طرح کاغذ پر منتقل ہو جاتی ہے۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
چاند کی مٹی سے پانی اور ایندھن تیار

چاند کی مٹی سے پانی اور ایندھن تیار

چین کے سائنس دانوں نے چاند کی سطح پر انسانی زندگی کو ممکن اور پائیدار بنانے کی جانب ایک اور بڑا قدم اٹھا لیا ہے۔ حالیہ تجربات کے دوران چینی ماہرین نے چاند کی مٹی سے نہ صرف پانی کشید کرنے بلکہ اسی پانی اور خلانوردوں کے سانس سے خارج ہونے والی گیسوں کو قابل استعمال ایندھن میں تبدیل کرنے کا کامیاب طریقہ دریافت کیا ہے۔یہ پیش رفت ایک نئے ''فوٹو تھرمل نظام‘‘ پر مبنی ہے، جو روشنی کو حرارت میں بدل کر کیمیائی ردعمل کو ممکن بناتی ہے۔ سادہ الفاظ میں، اس عمل کے ذریعے چاند کی مٹی سے حاصل کردہ پانی کو استعمال کرتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو آکسیجن، ہائیڈروجن اور کاربن مونو آکسائیڈ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام عناصر مستقبل کے خلائی مشنز کیلئے ایندھن یا زندگی کے بنیادی وسائل کے طور پر استعمال ہو سکتے ہیں۔یہ تحقیق بین الاقوامی سائنسی جریدے Joule میں شائع ہوئی ہے۔ تحقیق کی سربراہی چینی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ شینزین کے ممتاز سائنس دان پروفیسر لو وانگ (Professor Lu Wang) نے کی۔ ان کا کہنا ہے کہ چاند کی مٹی میں موجود معدنیات کی غیر متوقع کیمیائی خصوصیات نے تحقیقاتی ٹیم کو حیران کر دیا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نئے نظام میں پانی نکالنے اور گیس کی تبدیلی کا عمل ایک ہی مرحلے میں انجام پاتا ہے، جس سے توانائی کی بچت ہوتی ہے اور مشینری کو آسان اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے مستقبل میں چاند پر طویل قیام کرنے والے خلا نوردوں کیلئے خود انحصاری کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔یہ تجربات چینی خلائی مشن''شینگ ای 5‘‘ (Chang'E-5)سے حاصل کردہ اصلی چاندکی مٹی کے نمونوں پر کیے گئے، جو 2020ء میں چاند کی سطح سے جمع کیے گئے تھے۔ تجربہ گاہ میں ان نمونوں کی مدد سے فوٹو تھرمل نظام کو جانچا گیا اور اس نے کامیابی سے پانی کشید کرنے اور گیسوں کی تبدیلی کا عمل مکمل کیا۔یہ سائنسی کامیابی صرف چین کیلئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کیلئے امید کی کرن ہے۔ اگر خلا میں مقامی وسائل سے زندگی گزارنے کے یہ تجربات کامیابی سے جاری رہے تو مستقبل میں مریخ اور دیگر سیاروں پر بھی انسانی بستیاں قائم کرنا ممکن ہو جائے گا۔زمین پر انحصار کم ،اخراجات میں بڑی بچتاس وقت خلا میں استعمال ہونے والا ہر گیلن پانی زمین سے بھیجنے پر تقریباً 83 ہزارامریکی ڈالر میں پڑتا ہے۔ چینی ماہرین کی یہ ایجاد مستقبل میں ان اخراجات کو صفر کے قریب لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ چاند پر قیام کرنے والے انسانوں کو زمین سے پانی اور ایندھن کی فراہمی کیلئے بھاری بھرکم اخراجات نہیں اٹھانے پڑیں گے۔عملی نفاذ کے چیلنجزاگرچہ یہ دریافت غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے، لیکن سائنس دانوں نے اس پر عمل درآمد کے راستے میں کئی چیلنجز کی نشاندہی بھی کی ہے۔ ان میں چاند کی سطح پر مائیکرو گریوٹی (microgravity)، شدید تابکاری اور درجہ حرارت میں انتہائی اتار چڑھاؤ جیسے مسائل شامل ہیں، جو مشینوں اور مواد پر اثر ڈال سکتے ہیں۔چین کا چاند مشنچین تیزی سے چاند پر خلا باز بھیجنے کے ہدف کی جانب بڑھ رہا ہے۔ صرف دو دہائیاں قبل خلا میں تحقیق کے میدان میں نسبتاً خاموش ملک آج چاند پر پائیدار انسانی موجودگی کی دوڑ میں امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو ٹکر دے رہا ہے۔چینی خلائی ایجنسی ''CNSA‘‘ (چائنا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن) کا ہدف ہے کہ 2035ء تک چاند پر ایک مستقل انسانی اڈاقائم کر لیا جائے۔ اس منصوبے کے تحت نہ صرف انسانی بستیاں قائم کی جائیں گی بلکہ چاند کو ایک ''ریسرچ اور ایندھن کی پیداوار‘‘ کے مرکز میں بدلا جائے گا۔چین صرف چاند کی کھوج نہیں کر رہا، بلکہ وہ ایک عالمی سائنسی برادری بھی قائم کر رہا ہے۔ چند ماہ قبل چین نے سات اداروں کو اپنے لائے ہوئے چاندکے نمونوں کے مطالعے کی اجازت دی تھی ۔ یہ ادارے چھ ممالک فرانس، جرمنی، جاپان، پاکستان، برطانیہ اور امریکہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اب تک 17 ممالک اور 50 سے زائد تحقیقاتی مراکز چین کی قیادت میں''انٹرنیشنل لونر ریسرچ سٹیشن‘‘(ILRS) میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ منصوبہ چاند پر سائنسی و تکنیکی تعاون کے سب سے بڑے پلیٹ فارمز میں سے ایک بننے جا رہا ہے۔

تولیہ کب دھونا ضروی ہے!

تولیہ کب دھونا ضروی ہے!

گھریلو مصروفیات اور بے شمار خلفشار کے باعث تولیے دھونا اکثر بھول جانا کوئی عجیب بات نہیں۔ اسی لیے یہ جان کر زیادہ حیرت نہیں ہوتی کہ کچھ برطانوی افراد پورا سال گزرنے کے بعد ہی تولیے واشنگ مشین میں ڈالتے ہیں۔لیکن ایک سائنسدان کے مطابق، اگر آپ اپنی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تو تولیہ روزانہ دھونا شروع کر دیں۔لیسٹر یونیورسٹی کی کلینیکل مائیکرو بیالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر پرائم روز فری اسٹون کہتی ہیں کہ تولیے کو زیادہ سے زیادہ دو بار استعمال کے بعد دھونا چاہیے۔ یعنی جو افراد روزانہ نہاتے ہیں، انہیں ہر دو دن بعد تولیہ دھونا چاہیے۔تاہم، ماہرین کے مطابق اگر کسی کو انفیکشن ہو یا اس کا مدافعتی نظام کمزور ہو تو تولیے کو ہر استعمال کے بعد دھونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ صاف تولیہ، جلد کو خشک کرنے کے بعد دوبارہ صاف نہیں رہتا۔ گندے تولیے، دھلی ہوئی جلد کو دوبارہ آلودہ کر دیتے ہیں اور نہانے کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے۔جب ہم تولیے سے خود کو خشک کرتے ہیں تو ہم اس پر ہزاروں مردہ جلدی خلیے اور لاکھوں بیکٹیریا منتقل کر دیتے ہیں۔ جب ہم اسی تولیے کو دوبارہ استعمال کرتے ہیں، تو ہم ایک نئی تہہ ان نادیدہ خلیات اور جانداروں کی اس پر جمع کر دیتے ہیں، جو آخرکار ایک پوری افزائش پاتی ہوئی مائیکروبی دنیا بن جاتی ہے۔ایک تحقیق میں جب ایک شخص نے ہوسٹل میں نہانے کے بعد بار بار ایک ہی تولیہ استعمال کیا، تو اس میں کئی خطرناک قسم کے بیکٹیریا کی موجودگی پائی گئی، جن میں ''ای کولی‘‘ (E Coli)، سٹافلوکوکس ایوریئس (Staphylococcus Aureus) اور کلیب سیئیلا (Klebsiella) شامل ہیں۔ یہ سب انسانوں میں شدید انفیکشن کا باعث بن سکتے ہیں۔ ان تولیوں میں موجود ان جراثیموں سے بخار، دمہ، جلد پر الرجی اوردیگر جلدی انفیکشنز ہو سکتے ہیں۔تولیے اکثر نم رہتے ہیں، نہ صرف اس لیے کہ ہم انہیں روزانہ نہانے کے بعد استعمال کرتے ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ تولیے کا کپڑا بیڈ شیٹ یا دیگر کپڑوں کے مقابلے میں زیادہ موٹا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے، بیکٹیریا اور فنگس نم ماحول میں زیادہ تیزی سے بڑھتے ہیں اور یہی نمی تولیے کو خشک ہونے میں بھی رکاوٹ ڈالتی ہے، جس سے ان کا پھیلاؤ اور بڑھ جاتا ہے۔پروفیسر فری اسٹون کہتی ہیں، باتھ تولیے بیکٹیریا کو جمع کرنے کیلئے خاص طور پر موزوں ہوتے ہیں، کیونکہ یہ جسم کے تمام حصوں کے ساتھ رابطے میں آتے ہیں۔ اگر تولیے کو بار بار دھوئے بغیر استعمال کیا جائے تو پسینہ، جلد کے خلیے اور جسمانی رطوبتیں اس میں جمع ہو جاتی ہیں، جو بیکٹیریا اور فنگس کی افزائش کیلئے ایک نم، گرم اور غذائیت سے بھرپور ماحول فراہم کرتی ہیں۔پروفیسر فری اسٹون کا کہنا ہے کہ ہمیں کبھی بھی تولیہ دوسروں کے ساتھ شیئر نہیں کرنا چاہیے، تاکہ انفیکشنز کے پھیلاؤ کا خطرہ کم ہو سکے۔انہوں نے خبردار کیا کہ وائرس سے پھیلنے والی بیماریاں جیسے کہ ''منکی پوکس‘‘ (Monkeypox)، جس میں بخار، سر درد اور چھالے ہو سکتے ہیں، تولیہ شیئر کرنے سے پھیل سکتی ہیں۔صرف نہانے کے تولیے ہی نہیں، بلکہ ہاتھ پونچھنے کے تولیے (ہینڈ ٹاولز یا رومال) بھی باقاعدگی سے دھونا ضروری ہے۔ اگرچہ یہ جسم کے تمام حصوں پر استعمال نہیں ہوتے، پھر بھی جلد کے ساتھ ان کا رابطہ ہاتھوں سے جراثیم اور جلد کے خلیے ان تک منتقل کر دیتا ہے۔ ماہر کے مطابق نہانے والے تولیوں میں جراثیم کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں ہینڈ تولیوں کے مقابلے میں زیادہ بار دھونا چاہیے۔ ہینڈ تولیے یا رومال بھی بار بار استعمال سے بیکٹیریا اور فنگس جمع کر لیتے ہیں اس لیے ہر تین سے پانچ دن بعد انہیں گرم پانی اور ڈیٹرجنٹ سے ضرور دھوئیں۔ہینڈ اور باتھ تولیوں کو لانڈری ڈیٹرجنٹ کے ساتھ 140°F (60°C) کے درجہ حرارت پر دھونا چاہیے اور استعمال سے پہلے انہیں مکمل طور پر خشک ہونے دینا چاہیے۔پروفیسر فری اسٹون کے مطابق''یہ گرم پانی کا دھونا زیادہ تر بیکٹیریا اور فنگس کو مار دیتا ہے، وائرس کو غیر مؤثر بناتا ہے اور تولیوں میں بدبو بننے سے روکتا ہے، یہ طریقہ اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ تولیے انفیکشن پھیلانے کا ذریعہ نہ بنیں‘‘۔تولیے محفوظ کرنے کیلئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ مکمل طور پر خشک ہو چکے ہوں، اور انہیں ٹھنڈی اور خشک جگہ میں رکھیں۔ریٹی وینٹر، جو یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا میں کلینیکل ہیلتھ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں کے مطابق تولیے کو بیڈ شیٹ سے بھی زیادہ بار دھونا چاہیے۔تولیے کو ہر چند دن بعد دھونا بہتر ہے، جب کہ چہرے کے کپڑے ہر استعمال کے بعد دھونا چاہیے۔

آج تم یاد بے حساب آئے!

آج تم یاد بے حساب آئے!

کیپٹن محمد سرور شہید(نشان حیدر)(10نومبر 1910ء تا27جولائی 1948ء)٭...راجہ محمد سرور10نومبر 1910ء کوایک مذہبی راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے۔٭...ابتدائی تعلیم گورنمنٹ زمیندرہ اسلامیہ ہائی اسکول فیصل آباد سے حاصل کی۔ ٭...آپ کے والد راجہ حیات خان پاک فوج میں حوالدار تھے۔٭...راجہ سرور نے15 اپریل 1929ء کو فوج میں بطور سپاہی شمولیت اختیار کی۔٭... 1944ء میں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔٭... برطانیہ کی جانب سے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا، شاندار فوجی خدمات کے پیشِ نظر 1946ء میں انھیں کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔٭...قیام پاکستان کے بعد سرور شہید نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔٭... 1948ء میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کی سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے، انھیں کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔٭...27 جولائی 1948ء کوانہوں نے کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر ایسا حملہ کیا کہ دشمن کو اپنی چوکی چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ ٭...وطن کے دفاع میں غیر متزلزل حوصلے اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور شہادت حاصل کی۔٭...27اکتوبر 1959ء کو انھیں ''نشانِ حیدر‘‘ سے نوازا گیا، انہیں پہلا نشانِ حیدرپانے کا اعزاز حاصل ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

انسولین کی ایجاد27 جولائی 1921ء کو ٹورنٹو یونیورسٹی کے ماہرِ حیاتی کیمیا (بائیو کیمسٹ) ڈاکٹر فریڈریک بینٹنگ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر انسولین دریافت کی، جو ذیابیطس کے علاج میں ایک انقلابی پیش رفت ثابت ہوئی۔ اگرچہ بینٹنگ پیشے کے لحاظ سے ایک ہڈیوں کے سرجن تھے، لیکن انہوں نے لبلبے (Pancreas) پر تجربات کرتے ہوئے یہ اہم دریافت کی۔ ان تجربات میں انہیں پروفیسر جان میکلیوڈ اور چارلس بیسٹ کی معاونت حاصل تھی۔انسولین کی دریافت سے قبل ذیابیطس ایک لاعلاج اور مہلک بیماری سمجھی جاتی تھی۔ جیٹ انجن سے لیس طیارے کی پہلی اڑان 1949ء میں آج کے روزدنیا کے پہلے جیٹ انجن سے لیس مسافر بردار طیارے نے اپنی پہلی کامیاب پرواز کی۔''ڈی ہیولینڈ ڈی ایچ 106‘‘ دنیا کا پہلا کمرشل جیٹ ہوائی جہاز ہے۔اس میں چار ڈی ہیولینڈ گھوسٹ ٹربو جیٹ انجن نصب تھے۔ اس کے مسافر کیبن پرسکون اور آرام دہ تھے ۔اس نے اپنی پہلی تجارتی پرواز مئی 1952ء میں بھری ۔جنیوا کنونشنجنگی قیدیوں سے متعلق جنیوا کنونشن پر 27 جولائی 1929ء کو جنیوا میں دستخط ہوئے جبکہ یہ 19 جون 1931ء کو نافذ ہوا۔یہ بین الاقوامی قوانین کا ایک مجموعہ ہے جو مسلح تنازعات (جنگوں) کے دوران انسانی ہمدردی کے اصولوں کو یقینی بنانے کیلئے بنایا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد جنگ کے دوران زخمیوں، بیماروں، قیدیوں اور عام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ریڈ کراس کا قیام بھی اسی کنونشن کے تحت عمل میں آیا۔ائیر شو حادثہ27جولائی2015ء کو یوکرین میں ہونے والے فضائی شو میں ایک حادثہ پیش آیا۔یہ شو یوکرین کی فضائیہ کے زیر اہتمام کروایا گیا تھا۔ اس میں ایک جہاز اپنی محارت دکھاتا ہوا ائیر فیلڈ کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔اس حادثے میں 77افراد جان بحق جبکہ543کے قریب زخمی ہوئے۔ یہ حادثہ دنیا میں کسی بھی ائیر شو کے دوران ہونے والے حادثات میں سب سے بھیانک تصور کیا جاتا ہے۔اس ائیرشو کو دیکھنے کیلئے 10ہزار افراد موجود تھے۔ سی زیروک قتل عام27جولائی 1997ء کو الجزائر میں لاربا کے جنوب میں واقع علاقے سی زیروک میں ایک قتل عام کیا گیا جسے ''زیروک قتل عام‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس میں تقریباً 50لوگ مارے گئے۔ 1997ء میں الجزائر میں خانہ جنگی عروج پر تھی۔دو بڑے گوریلا گروہ حکومت سے لڑائی میں مصروف تھے۔اس حملے سے قبل گاؤں کی بجلی کو منقطع کر دیا گیا اور آرمی بیرکس کے قریب حملہ کیا گیا۔ اس حملے کو الجزائر کی خانہ جنگی کے دوران کئے جانے والے حملوں میں سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔

AI کرے گی اب کینسر کی تشخیص!

AI کرے گی اب کینسر کی تشخیص!

مصنوعی ذہانت (AI)سے لیس انقلابی آلہ نے جلد کے کینسر کی ابتدائی اور بروقت تشخیص کو ممکن بنا کر دنیا کے ان لاکھوں افراد کیلئے اُمید کی کرن روشن کر دی ہے جو دور دراز، پسماندہ علاقوں میں بنیادی طبی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ یہ انقلابی آلہ خاص طور پر ان خطوں کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے جہاں ماہر امراض جلد (ڈرماٹالوجسٹ) تک رسائی ممکن نہیں، اور مریض اکثر بیماری کی سنگین حالت تک پہنچنے کے بعد ہی تشخیص اور علاج کی طرف آتے ہیں۔یہ آلہ ہیریئٹ واٹ یونیورسٹی سکاٹ لینڈ (Heriot-Watt University)کی پی ایچ ڈی کی طالبہ ٹیس واٹ نے تیار کیا ہے جو دنیا کے دور دراز علاقوں میں جلد کے کینسر کی تشخیص کے طریقہ کار کو یکسر بدل کر رکھ دے گا۔ اس آلہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے ذریعے انٹرنیٹ یا ماہر امراض جلد (ڈرما ٹالوجسٹ) کے بغیر بھی جلد کے کینسر کی تشخیص ممکن ہے۔ ڈیوائس کے ساتھ ایک کیمرہ منسلک ہے، جس کی مدد سے مریض یا مقامی طبی نمائندہ متاثرہ جلد کی تصویر لیتا ہے۔ اس کے بعد یہ نظام، جدید امیج ریکگنیشن ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے، تصویر کو ہزاروں پہلے سے محفوظ شدہ نمونوں سے موازنہ کرتا ہے اور فوری طور پر تشخیص فراہم کرتا ہے۔ پھر یہ نتائج مقامی جنرل فزیشن کو بھیجے جاتے ہیں، جس سے علاج میں تاخیر کے بغیر فوری آغاز ممکن ہو جاتا ہے۔یہ خودکار تشخیصی نظام ان ابتدائی آلات میں سے ایک ہے جو خاص طور پر دور دراز طبی استعمال کیلئے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ ٹیس واٹ کے مطابق گھر بیٹھے صحت کی سہولیات فراہم کرنا آج کے دور میں نہایت اہم ہے، خاص طور پر جب جنرل فزیشن کی اپوائنٹ منٹس کیلئے طویل انتظار کرنا پڑ رہا ہو۔ماہرین کے مطابق فی الحال یہ آلہ 85 فیصد درستگی کے ساتھ کام کر رہا ہے، لیکن جیسے جیسے اسے مزید تصویری ڈیٹاسیٹس اور مشین لرننگ میں بہتری حاصل ہو گی، اس کی کارکردگی میں مزید اضافہ متوقع ہے۔تحقیقی ٹیم ''نیشنل ہیلتھ سروس‘‘(NHS) سے منظوری کے بعد اسے عوامی سطح پر آزمانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ابتدائی مرحلے میں اس کا آغاز اسکاٹ لینڈ کے دیہی علاقوں سے کیا جائے گا، تاہم یہ ٹیکنالوجی ان تمام خطوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے جہاں ڈرماٹالوجی کی سہولیات محدود یا نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہیریئٹ واٹ یونیورسٹی کے محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ آلہ ان مریضوں کیلئے بھی فائدہ مند ہوگا جو معذور یا گھر تک محدود ہیں، کیونکہ اس سے بروقت تشخیص پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو جائے گی۔یہ نئی AI ڈیوائس اور اس جیسی ٹیکنالوجیز زیادہ ترانسانوں تک ابتدائی طبی تشخیص پہنچانے کا راستہ ہموار کر رہی ہیں۔ اگرچہ مکمل کلینیکل نفاذ میں وقت لگ سکتا ہے، لیکن دور دراز علاقوں میںسکن کینسر کا بروقت پتہ لگانا اب ممکن ہو رہا ہے اور ایسے ٹولز زندگی بچانے والے ثابت ہوسکتے ہیں۔ 

آج تم یاد بے حساب آئے !ابن صفی  اردو ادب کی دیومالائی شخصیت (1928ء تا 1980ء)

آج تم یاد بے حساب آئے !ابن صفی اردو ادب کی دیومالائی شخصیت (1928ء تا 1980ء)

٭...6 2جولائی 1928ء کو بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع الہ آباد کے قصبے نارا میں پیدا ہوئے۔اصل نام اسرار احمد تھا۔٭...تعلیم آگرہ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ٭... شاعری سے ادبی سفر کا آغاز کیا اور بطور شاعر اپنا نام اسرار ناروی لکھتے تھے۔٭...1948ء میں انکی پہلی کہانی ''فرار‘‘ شائع ہوئی۔٭...1951ء میں رسالہ ''جاسوسی دنیا‘‘ جاری کیا جس میں ابن صفی کے قلمی نام سے انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید کے کرداروں پر مشتمل سلسلے کا آغاز ہوا ۔٭... ان کے کاموں میں جاسوسی دنیا، فریدی حمید سیریز اور عمران سیریز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ افسانے اور طنز و مزاح بھی لکھتے تھے۔٭...عمران سیریز کو ان کی مقبول ترین سیریز میں شمار کیا جاتا ہے۔ عمران سیریز کا پہلا ناول ''خوفناک عمارت‘‘ تھا جو اکتوبر 1955ء کو منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد آنے والے ناولوں میں ''چٹانوں میں فائر‘‘، ''پر اسرار چیخیں‘‘ اور ''بھیانک آدمی‘‘ شامل ہیں۔ ٭...1957ء میںاسرار پبلیکیشنز کے نام سے ادارہ قائم کیا ۔٭... 20برس کے مختصر عرصے میں 245 ناول لکھے۔٭... ان کے ناولوں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بک اسٹال پر آتے ہی ختم ہو جاتے تھے۔٭...اردو ادب کا یہ عظیم ناول نگار 26جولائی 1980ء کو جہان فانی سے رخصت ہو گیا۔