چارلی چیپلن (چند دلچسپ حقائق )

چارلی چیپلن (چند دلچسپ حقائق )

اسپیشل فیچر

تحریر : دانش احمد انصاری


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

چارلی چیپلن کا شمارہالی وڈ کے شروعاتی عرصہ کے معروف مزاحیہ اداکاروں میں ہوتاہے۔انہوں نے اپنے زمانے کے لوگوں کے لیے بہترین تفریح کا سامان پیدا کیا۔ چیپلن کو خاموش فلموں کے دورکاسب سے بڑا ہیرو مانا جاتاہے۔ انہوں نے ایک عرصہ تک ’’لیٹل ٹریمپ‘‘ نامی کردار کونبھایا۔ یہ کردار ایک ایسے شخص کا ہے ،جس کی مونچھیں توتھ برش سے مسابقت رکھتی ہیں، سر پر گول ہیٹ، ہاتھ میں بانس کی چھڑی اور اس کی پُر مزاح چال ڈھال۔ چارلی چیپلن کا پورا نام چارلس سپینسرہے۔ وہ 16 اپریل 1889ء کو انگلینڈ کے شہر لندن میں پیدا ہوئے۔ انہوںنے اپنا آفیشل ایکٹنگ کیریئر 8 سال کی چھوٹی عمر میں ’’ٹورنگ ود دی ایٹ لنکاشائر لیڈز‘‘ نامی فلم میں حمایتی کردار ادا کر کے شروع کیا۔ اس فلم میں آٹھ لڑکوں کی ٹولی دکھائی گئی ہے، جو اس وقت کا مشہور انگریزی لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں اور اپنے اخرجات اُٹھنے کی غرض سے سٹیج شوز میں پرفارم کرتے ہیں۔ 18 سال کی عمر میں چیپلن اپنے ایک مصنف دوست فریڈ کیرنو کے ’’ویوڈیوائل‘‘ نامی گروپ میں شامل ہو گئے اور ان کے ساتھ کئی ممالک کے مقامی سٹیج شوز میں جلوہ گر رہے۔ فریڈ کیرنو کے ساتھ کیے گئے بین الاقوامی دوروں میں 1910ء کا امریکی دورہ سب سے اہم تھا۔ دسمبر 1913ء میں چیپلن کیلیفورنیا پہنچے، جہاں میک سینیٹ نامی کامیڈی ڈائریکٹر نے انہیں ’’کی سٹون سٹوڈیوز‘‘ کے لیے سائن کر لیا۔ بقول میک وہ نیویارک کے ایک شو میں چارلی کی اداکاری دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ 1914ء تک کی سٹون سٹوڈیو میں کام کرتے ہوئے چارلی قریباً 35 کامیڈی فلموں میں لیٹل ٹریمپ کا کردار ادا کر چکے تھے۔ 1914ء کے اواخر میں انہوں نے ایک ذاتی مسئلہ کی بنا پر کی سٹون کو خیرباد کہا اور ایسینے سٹوڈیو جوائن کر لیا، جہاں سے انہوں نے 15 کامیاب کامیڈی فلمیں پیش کیں۔ جون 1917ء میں انہوں نے فرسٹ نیشنل سٹوڈیو کے لیے خدمات انجام دیں اور کچھ ہی عرصے بعد اپنا ذاتی ’’چیپلن سٹوڈیو‘‘ بنا ڈالا۔ 1919ء میں چیپلن اور ان کے دوستوں کو بہترین کارکردگی کی بنا پر ’’یونائیٹڈ آرٹسٹ‘‘ کا خطاب دیا گیا۔چیپلن کی پوری زندگی اور کیریئر کئی قسم کے سکینڈل اور تنازعات کا شکار رہی۔ ان کی زندگی کا پہلا تنازعہ ورلڈ وار اول میں امریکی فلموں میں کام کرتے اور پیسہ کماتے ہوئے، انگلینڈ کے ساتھ وفاداری اور اظہارِ محبت کی وجہ سے بنا۔ چیپلن حقیقت میں انگلش شہری تھے۔ چیپلن نے کبھی بھی امریکی شہریت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، تاہم یہ دعویٰ ضرور کیا کہ وہ ایک ’’Paying visitor‘‘ ہیں۔ امریکا میں چیپلن کی موجودگی کئی تنازعات کا مجموعہ تھی ،جن میں سے ان کی ایک فلم ’’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘‘ بھی تھی۔ اس فلم میں وہ اڈولف ہٹلر کا کردار ادا کرتے دکھائی دئیے۔ امریکی لوگوں نے اس فلم کے لیے بُرے خیالات کا اظہار کیا، تاہم پھر بھی یہ فلم 5 ملین ڈالر کا بزنس کرکے، کامیاب ٹھہری۔ ان تنازعات سے مایوس چیپلن نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’وہ بارش میں چلتے ہیں کہ کسی کو ان کے آنسو نظر نہ آئیں۔‘ ‘ چیپلن کے ان الفاظ سے معلوم پڑتا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے کس قدر نہ خوش تھے۔ چیپلن کی زندگی کی کچھ دلچسپ باتیں یہ ہیں کہ ان کی ایک فلم ’’چیپلن(جو 1992ء میں ریلیز کی گئی)‘‘ میں چیپلن کی والدہ کا کردار ان کی اپنی بیٹی گیرال ڈائن چیپلن نے ادا کیا۔ چیپلن کی موت کے بعد ان کی لاش کو کچھ لوگوں نے اغواء کر لیا اور لاش کے بدلے 6 کروڑ روپے طلب کیے،پیسے نہ ملنے پر اغواء کاروں نے لاش کو جلا کر ایک صندوق میں بند کر کے پھینک دیا۔ تفتیشی پولیس نے لاش برآمد کر کے اغواء کاروں کو حراست میں لے لیا۔ 1925ء میں امریکا کے سب سے بڑے میگزین ’’ٹائم‘‘ نے اپنے فرنٹ پیج پر چیپلن کی تصویر چھاپی اور یہ پہلی بار تھا کہ ٹائم میگزین نے کسی اداکار کی تصویر فرنٹ پیج پر چھاپی ہو۔ چارلی چیپلن اڈولف ہٹلر سے صرف 4 دن پہلے پیدا ہوئے، یعنی چیپلن 16 اپریل کو پیدا ہوئے تو ہٹلر 20 اپریل 1889ء میں پیدا ہوئے، یہاں تک کہ چیپلن کافی حد تک ہٹلر سے متاثر تھے اور ایک بڑے حمایتی بھی۔ چیپلن نے صرف ایک غیر اعزازی آسکر ایوارڈ جیتا، جس سے انہیں کارکردگی کے 21 سال بعد نوازا گیا۔ چیپلن نے کل 4 شادیاں کیں۔ وہ 29 سال کے تھے جب انہوں نے ایک 16 سالہ لڑکی سے شادی کی جبکہ دوسری شادی 35 سال کی عمر میں 16 سالہ لیٹا گرے سے کی۔ ان کی تیسری شادی پر کچھ شک و شہائب موجود ہیں، جن میں سے ایک یہ کہ چیپلن نے یہ شادی صرف ظاہری طور پر کی جبکہ چوتھی شادی 54 سال کی عمر میں اوآنا اونیل نامی 28 سالہ خاتون سے کی۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
دنیا کی سب سے بڑی کاربن جذب کرنے والی مشین میموتھ

دنیا کی سب سے بڑی کاربن جذب کرنے والی مشین میموتھ

دنیا کو درپیش بڑے خطرات میں سے ایک بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی حدت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ اسی چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک اہم پیشرفت کاربن جذب کرنے والی مشین ''میموتھ‘‘ (Mammoth) کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی ڈائریکٹ ایئر کاربن کیپچر فیسلٹی ہے، جو فضاء سے براہِ راست کاربن ڈائی آکسائیڈ کھینچ کر محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اپنی جسامت اور صلاحیت کے باعث یہ مشین ماحولیاتی سائنس میں ایک انقلابی قدم سمجھی جا رہی ہے، جو زمین کو کاربن کے بوجھ سے ہلکا کرنے کی کوششوں میں سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔آئس لینڈ کی سرد و ویران زمین پر، جہاں برفانی ہوائیں زندگی کو ساکت کر دیتی ہیں، ایک حیران کن مشین خاموشی سے ہوا کو پاک کر رہی ہے۔ ''میموتھ‘‘ (Mammoth) ایک دیوہیکل مشین ہے، جو بظاہر سائنس فکشن کی دنیا سے نکلی ہوئی لگتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ انسانی بقاء کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ 360 فٹ طویل اس مشین کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ایک زبردست حل قرار دیا جا رہا ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ کروڑوں ڈالر مالیت کا نظام سالانہ 36ہزار ٹن کاربن کو ختم کرتا ہے جو سڑکوں سے8ہزار گاڑیاں ہٹانے کے برابر ہے۔ اس منصوبے کا مقصد زمین کے درجہ حرارت کو قابو میں رکھنا اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے مہلک اثرات کو کم کرنا ہے۔یہ مشین ''کلائم ورکس‘‘ (Climeworks) نامی ایک سوئس کمپنی نے تیار کی ہے، جو کاربن کیپچر اور اسٹوریج کے شعبے میں عالمی سطح پر اپنا لوہا منوا رہی ہے۔ ''میموتھ‘‘ کاربن کو براہِ راست ہوا سے الگ کرتی ہے اور پھر اسے زمین کی گہرائیوں میں محفوظ کر دیتی ہے۔ میموتھ کے کام کرنے کا طریقہ بھی کسی کرشمے سے کم نہیں۔ یہ فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتی ہے، اسے ایک فلٹر کے ذریعے علیحدہ کرتی ہے اور پھر پانی کے ساتھ ملا کر زمین کی پرتوں میں اس طرح پمپ کرتی ہے کہ وہ وہاں مستقل طور پر معدنی شکل اختیار کر لے، یوں گویا کاربن واپس زمین میں دفن ہو جاتا ہے۔اس منصوبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسی ہزاروں مشینیں دنیا بھر میں لگائی جائیں تو نہ صرف ہوا میں موجود کاربن کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کا بھی خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی پر بھروسہ کرنے سے انسانی طرزِ زندگی میں فوری تبدیلی کی ضرورت پس پشت جا سکتی ہے، جو ماحولیاتی آلودگی کا بنیادی حل ہے۔برطانیہ کی حکومت اس ٹیکنالوجی سے اتنی متاثر ہوئی ہے کہ وہ ملک کے شمال مغربی حصے میں ایک کاربن جذب کرنے والی مشین لگانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ تاہم، ناقدین خبردار کرتے ہیں کہ یہ مہنگی ٹیکنالوجی دراصل عالمی حدت کی بنیادی وجہ یعنی فوسل فیول (ایندھن) کے جلنے سے خارج ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو حل نہیں کرتی۔ماحولیاتی تنظیم گرین پیس نے کاربن کیپچر کو ایک ''فریب‘‘ قرار دیا ہے۔اس کے باوجود، میموتھ جیسے منصوبے امید کی کرن ہیں۔ یہ ایک پیغام ہے کہ انسان نے اگر زمین کو بگاڑا ہے تو وہ اسے سنوارنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ ٹیکنالوجی، تحقیق اور اجتماعی کاوشوں کے ذریعے ہم ایک بار پھر فطرت کے ساتھ توازن قائم کر سکتے ہیں۔میموتھ صرف ایک مشین نہیں بلکہ ایک عہد ہے کہ ہم اپنی زمین کیلئے لڑیں گے اور آنے والی نسلوں کو ایک قابلِ رہائش دنیا دے کر جائیں گے۔''ڈائریکٹ ایئر کیپچر‘‘ کیا ہے؟ڈائریکٹ ایئر کیپچر، جسے مختصراً ''DAC‘‘ کہا جاتا ہے، ایک جدید ٹیکنالوجی ہے جو بالکل اسی طرح کام کرتی ہے جیسے اس کا نام ظاہر کرتا ہے،یعنی ہوا سے براہ راست کاربن ڈائی آکسائیڈ کو نکالنا۔اس نظام میں دیوہیکل پنکھے اردگرد کی ہوا کو کھینچتے ہیں اور اسے ایک خاص مائع محلول سے گزارا جاتا ہے، جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو چن کر قید کر لیتا ہے۔اس کے بعد، مخصوص درجہ حرارت پر حرارت دینے اور کیمیائی تعاملات کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو دوبارہ علیحدہ کر لیا جاتا ہے۔ یوں یہ CO2 دوبارہ قابلِ استعمال حالت میں آ جاتا ہے۔اس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو دو طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔(1) اسے مختلف کیمیائی مصنوعات مثلاً ایندھن (گیسولین، ڈیزل، اور جیٹ فیول) بنانے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (2) اسے زمین کے اندر مستقل طور پر محفوظ کر کے ماحولیاتی اثرات سے بچاؤ کیا جا سکتا ہے۔ جو ایندھن اس طریقے سے تیار ہوتا ہے، وہ موجودہ فیول ڈسٹری بیوشن نیٹ ورکس اور ٹرانسپورٹیشن سسٹمز کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ یعنی اسے بغیر کسی بڑی تبدیلی کے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔اس طرح DAC ٹیکنالوجی ماحولیاتی تحفظ کے ساتھ ساتھ صنعتی استعمال کیلئے بھی کارآمد ثابت ہو رہی ہے۔ 

’’مائیکرو ایکسرسائز‘‘

’’مائیکرو ایکسرسائز‘‘

صحت مند رہنے کا آسان اور مؤثر طریقہآج کے مصروف دور میں جہاں بیشتر افراد گھنٹوں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کام کرتے ہیں یا طویل وقت تک ایک ہی جگہ پر رہتے ہیں، جسمانی سرگرمی کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو گیا ہے۔ ماہرین صحت خبردار کرتے ہیں کہ مسلسل بیٹھے رہنا دل کی بیماریوں، موٹاپے اور پٹھوں کی کمزوری جیسے مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ ایسے میں ''مائیکرو ایکسرسائز‘‘ ایک نئی امید بن کر سامنے آئی ہے۔ یہ مختصر اور ہلکی پھلکی ورزشیں نہ صرف آسان ہیں بلکہ روزمرہ معمولات میں شامل کر کے صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ چند منٹ کی یہ چھوٹی چھوٹی سرگرمیاں خون کی روانی کو بہتر، توانائی کو بحال اور جسم کو متحرک رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔زیادہ تر لوگوں کیلئے صبح سورج نکلنے سے پہلے ورزش کرنا یا دن بھر کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ 10 ہزار قدم چلنے کا ہدف پورا کرنا مشکل لگتا ہے، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ جسمانی سرگرمی کتنی اہم ہے۔ اب ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ بغیر میلوں چلنے کے بھی چلنے کے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ صرف 30 سیکنڈ کے مختصر وقفوں میں چلنا، جسے ''مائیکرو واکس‘‘ کہا جا رہا ہے صحت مند رہنے کیلئے کافی ہو سکتا ہے۔ تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سرگرمی لمبی چہل قدمی سے زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔مائیکرو واکس سے مراد ہے کہ آپ 10 سے 30 سیکنڈ تک چلیں اور پھر تھوڑا وقفہ لیں، اس کے بعد اگلا مختصر سیشن کریں۔ یہ اتنا آسان بھی ہو سکتا ہے جتنا سیڑھیاں چڑھنا یا دفتر کے گرد ایک چکر لگانا۔پروسیڈنگز آف دی رائل سوسائٹی بی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں مختلف وقت کے وقفوں پر چلنے کی افادیت جانچی گئی۔ تحقیق کے دوران رضاکاروں کو یا تو ٹریڈ مل پر چلایا گیا یا مختصر سیڑھیاں چڑھنے کو کہا گیا، جن کا دورانیہ 10 سیکنڈ سے لے کر چار منٹ تک رکھا گیا۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ مختصر وقفوں میں چلنے والے افراد نے طویل اور آہستہ واک کرنے والوں کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ توانائی استعمال کی حالانکہ دونوں نے برابر فاصلہ طے کیا تھا۔ جتنی زیادہ توانائی استعمال ہوگی، اتنا ہی میٹابولزم تیز ہوگا اور زیادہ کیلوریز جلیں گی۔ تحقیق کرنے والوں نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مختصر وقفوں میں چہل قدمی کرنے سے آپ کا میٹابولزم بہتر ہو سکتا ہے اور آپ طویل اور یکساں رفتار سے کی جانے والی چہل قدمی کے مقابلے میں زیادہ کیلوریز جلا سکتے ہیں۔عالمی سطح پر ہر چار میں سے ایک بالغ فرد کو مطلوبہ جسمانی سرگرمی نہیں ملتی۔ امریکہ میں تقریباً نصف افراد کا وزن زیادہ ہے یا وہ موٹاپے کا شکار ہیںایک اندازے کے مطابق تقریباً 3 لاکھ اموات جسمانی سرگرمی کی کمی اور ناقص غذائی عادات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ڈاکٹر زولیا فراسٹ، جو ریچارج ہیلتھ کی شریک بانی اور کلینیکل ڈائریکٹر ہیں، نے بتایا: ''مائیکرو واکس خاص طور پر ان افراد کیلئے مؤثر ہیں جو زیادہ تر وقت بیٹھے رہتے ہیں،یہ چہل قدمی شروع کرنے کا ایک آسان طریقہ فراہم کرتی ہیں۔ورزش شروع کرنا بعض لوگوں کیلئے بھاری اور خوفناک لگ سکتا ہے، لیکن مائیکرو واکس آپ کو صحت اور فٹنس کی نئی راہ پر ڈال سکتی ہیں، وہ بھی بغیر اس کے کہ آپ کو روزانہ طویل اور وقت طلب ورزش کیلئے وقت نکالنا پڑے۔ماہر غذائیت البرٹ میتھنی نے ویمنز ہیلتھ کو بتایا کہ اصل بات یہ ہے کہ آپ وہ کریں جو آپ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ زیادہ چلنے کے عادی نہیں ہیں اور سوچتے ہیں کہ میں پانچ میل نہیں چل سکتا تو صرف 30 سیکنڈ کے وقفے کر لیجیے، یہ زیادہ قابلِ عمل ہے۔فوائدمختصر واکس کے بے شمار فوائد ہیں۔کھانے کے بعد صرف چند منٹ چلنے سے ہاضمہ بہتر ہوتا ہے اور بلڈ شوگر کی سطح کو قابو میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ دن بھر میں مختصر وقفوں میں چلنے سے کیلوریز زیادہ جلتی ہیں اور میٹابولزم بہتر ہوتا ہے۔طویل عرصے تک بیٹھے رہنے سے اکڑن، کمر درد اور توانائی کی کمی ہو سکتی ہے۔ہر گھنٹے کے بعد صرف پانچ منٹ چلنے سے خون کی روانی بہتر ہوتی ہے، توجہ بہتر اور تھکن کم ہوتی ہے۔ مختصر چہل قدمی موڈ بہتر کرنے میں بھی مددگار ہے۔ مائیکرو واکس تناؤ کے ہارمونز کو کم کرتی ہیں اور تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہیں، جس سے کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔تحقیق کے مطابق دن میں 10 ہزار قدم کے بجائے صرف 7 ہزار قدم چلنا بھی ڈیمینشیا، دل کی بیماری اور بعض اقسام کے کینسر کے خطرے کو کم کرنے کیلئے کافی ہے۔ایک لاکھ 60 ہزار افراد کے ہیلتھ ڈیٹا پر مبنی تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ 7 ہزار قدم چلنے والوں میںدل کی بیماری کا خطرہ 25 فیصد کم تھا جو امریکہ میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ڈیمنشیا کے امکانات 38 فیصد کم پائے گئے۔ایسے افراد میں ڈپریشن کا امکان بھی کم تھا جو روزانہ صرف 2 ہزار قدم چلتے تھے۔  

فرغانہ :وسطحی ایشیا کا دلکش خطہ

فرغانہ :وسطحی ایشیا کا دلکش خطہ

قدرتی حسن، زرخیز زمین اور قدیم تہذیبوں کے امتزاج سے سجی وادیٔ فرغانہ وسطی ایشیا کا وہ دلکش خطہ ہے جو صدیوں سے دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ برف پوش پہاڑوں کے دامن میں پھیلی یہ وادی اپنے سرسبز کھیتوں، میٹھے چشموں اور خوشگوار موسم کے باعث جنت نظیر کہلاتی ہے۔ یہاں کی زمین گندم، کپاس، پھلوں اور سبزیوں کی فراوانی کیلئے مشہور ہے۔فرغانہ ازبکستان کی ولائت فرغانہ کا صدر مقام ہے۔ ازبکی زبان میں صوبے کوولایت کہا جاتا ہے۔ فرغانہ کا شہر تاشقند سے مشرق کی جانب 325 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ تاشقند سے سڑک کے راستے نکلیں تو تقریباً اکثر پہاڑوں میں سے ہو کر گزرنا پڑتاہے۔ سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی سٹرک ایک خوبصورت نظارہ پیش کرتی ہے۔ فرغانہ کی وادی وسطی ایشیا کا سب سے بڑا صحت افزا مقام ہے۔ اس کے علاوہ وادی فرغانہ کا شمار دُنیا کے انتہائی خوبصورت خطوں میں ہوتا ہے۔ حقیقت میں یہ ایسے علاقے ہیں جو دُنیا کے سیاحوں کی آنکھ سے اوجھل ہیں۔ ایسے خطوں کو صحیح طرح سے دُنیا سے متعارف ہی نہیں کروایا گیا اور نہ ہی حکومتوں نے اس بارے میں کوئی تگ ودو کی ہے۔فرغانہ شہر کی آبادی دو لاکھ ہے۔ فرغانہ قدیم شاہراہ ریشم پر واقع اہم شہر تھا جو چین میں کاشغر کے راستے باقی مغربی دُنیا سے ملا ہوا تھا۔ وادی فرغانہ میں فرغانہ کے علاوہ نمنگان، اندجان اور قوقند بڑے شہر ہیں۔ اس پوری وادی میں جگہ جگہ شفتالو، خوبانی، سیب، انگور، بادام، اخروٹ کے بڑے بڑے باغات ہیں۔ اس کے علاوہ تربوز، سٹرابری اور چیری کی بھی بہتات ہے۔ گندم، چال، مکئی، جو اور تمباکو کے علاوہ سبزیوں کی پیداوار عام ہے۔ ازبکستان کے دو بڑے دریا آمُو دریا اور سِردریا ہیں۔ سِر دریا وادی فرغانہ سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔ وادی فرغانہ کا سال میں اوسط درجہ حرارت سردیوں میں منفی 24 سینٹی گریڈ اور گرمیوں میں 30 سنٹی گریڈ تک رہتا ہے۔وادیٔ فرغانہ کا شہر اندجان اُسی ظہیر الدین بابر کی جائے پیدائش ہے جس نے 1526ء میں ہندوستان میں ابراہیم لودھی کی فوجوں کو تِگنی کا ناچ نچایاتھا۔ بابر اندجان ہی میں 14 فروری 1483ء کو عمر شیخ مرزا کے گھر پیدا ہوا۔ عمر شیخ مرزا اندجان میں اپنے علاقے کا حکمران تھا۔ بابر نے اپنا لڑکپن اسی وادی فرغانہ میں گزارا۔ بابر نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھڑ سواری، تیز اندازی اور فن سپاہ گری کی تربیت اپنے والد کے زیر سایہ ہی حاصل کی۔ 1498ء میں باپ کے فوت ہونے کے بعد بابر کو علاقے کا امیر بنا دیا گیا۔ اُس وقت بابر ابھی صحیح طرح بالغ بھی نہیں ہوا تھا۔ صرف پندرہ سال کی عمر تھی کہ امارت کا تاج اُس کے سر پر رکھ دیا گیا۔ اُس نے 42 سال کی عمر میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان میں اس مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی جس نے پورے برصغیر پر دو صدیوں سے زیادہ حکومت کی۔ آج بھی ازبکستان اور خاص طور پر وادی فرغانہ کے لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اس دھرتی نے ایسے سپوت کو جنم دیا، جس نے جنوبی ایشیا میں مغلیہ حکومت کی بنیاد رکھی۔ ہندوستانی مورخین کے مطابق بابر کے بادشاہ بننے سے پانچ سو سال قبل ہندوستان کا بادشاہ شمس الدین التمش بھی فرغانہ ہی کا رہنے والا تھا۔  

ہاسٹل میں پڑنا

ہاسٹل میں پڑنا

گھر والوں کو یہ سوچنے کی عادت پڑ گئی کہ لڑکے کو کالج میں داخل کرایا جایا لیکن ہاسٹل میں نہ رکھا جائے۔ کالج ضرور مگر ہاسٹل میں ہر گز نہیں۔ کالج مفید، مگر ہاسٹل مضر۔ جب انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین ہی بنا لیا کہ کوئی ایسی ترکیب ہی سوچی جائے، جس سے لڑکا ہاسٹل کی زد سے محفوظ رہے تو کوئی ایسی ترکیب کا سوجھ جانا کیا مشکل تھا۔ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ از ہد غور و خوض کے بعد لاہور میں ہمارے ایک ماموں دریافت کیے گئے اور ان کو ہمارا سر پرست بنا دیا گیا۔ میرے دل میں ان کی عزت پیدا کرنے کیلئے بہت سے شجروں کی ورق گردانی سے مجھ پر یہ ثابت کیا گیا کہ وہ واقعی میرے ماموں ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ جب میں شیرخوار بچہ تھا تو وہ مجھ سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے، چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ ہم پڑھیں کالج میں اور رہیں ماموں کے گھر۔اس سے تحصیل علم کا جو ایک ولولہ سا ہمارے دل میں اٹھ رہا تھا، وہ کچھ بیٹھ سا گیا۔ ہم نے سوچا یہ ماموں لوگ اپنی سر پرستی کے زعم میں والدین سے بھی زیادہ احتیاط برتیں گے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے دماغی اور روحانی قویٰ کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ ملے گا اور تعلیم کا اصلی مقصد فوت ہو جائے گا، چنانچے وہی ہوا جس کا ہمیں خوف تھا۔ ہم روز بروز مرجھاتے چلے گئے اور ہمارے دماغ پر پھپھوند سی جمنے لگی۔سنیما جانے کہ اجازت کبھی کبھار مل جاتی تھی لیکن اس شرط پر کہ بچوں کو بھی ساتھ لیتا جاؤں۔ اس صحبت میں بھلا میں سینماسے کیا اخذ کر سکتا تھا۔ تیرنا ہمیں نہ آیا کیوں کہ ہمارے ماموں کا ایک مشہور قول ہے کہ ''ڈوبتا وہی ہے جو تیراک ہو‘‘جسے تیرنا نہ آتا ہو وہ پانی میں گھستا ہی نہیں۔ گھر آنے جانے والے دوستوں کا انتخاب ماموں کے ہاتھ میں تھا۔ کوٹ کتنا لمبا پہنا جائے اور بال کتنے لمبے رکھے جائیں، ان کے متعلق ہدایات بہت کڑی تھیں۔ ہفتے میں دو بار گھر خط لکھنا ضروری تھا۔ سگریٹ غسل خانے میں چھپ کر پیتے تھے۔ گانے بجانے کی سخت ممانعت تھی۔یہ سپاہیانا زندگی ہمیں راس نہ آئی۔ یوں تو دوستوں سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی، سیر کو بھی چلے جاتے تھے، ہنس بول بھی لیتے تھے لیکن وہ جو زندگی میں ایک آزادی، ایک فراخی، ایک وارفتگی ہونی چاہئیے وہ ہمیں نصیب نہ ہوئی۔ رفتہ رفتہ ہم نے اپنے ماحول پہ غور کرنا شروع کیا کہ ماموں جان عموماً کس وقت گھر میں ہوتے ہیں، کس وقت باہر جاتے ہیں، کس کمرے میں سے کس کمرے تک گانے کی آواز نہیں پہنچ سکتی، کس دروازے سے کمرے کے کس کونے میں جھانکنا ناممکن ہے، گھر کا کون سا دروازہ رات کے وقت باہر کھولا جا سکتا ہے، کون سا ملازم موافق ہے، کون سا نمک حلال ہے۔جب تجربے اور مطالعے سے ان باتوں کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا تو ہم نے اس زندگی میں بھی نشو و نما کیلئے چند گنجائشیں پیدا کر لیں لیکن پھر بھی ہم روز دیکھتے تھے کہ ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر زندگی کی شاہراہ پر چل رہے ہیں۔ ہم ان کی زندگی پر رشک کرنے لگے۔ اپنی زندگی کو سدھارنے کی خواہش ہمارے دل میں روز بروز بڑھتی گئی۔ ہم نے دل سے کہا، والدین کی نہ فرمانی کسی مذہب میں جائز نہیں لیکن ان کی خدمت میں درخواست کرنا، ان کے سامنے اپنی ناقص رائے کا اظہار کرنا، ان کو صحیح واقعات سے آگاہ کرنا میرا فرض ہے اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے اپنی ادائیگی سے باز نہیں رکھ سکتی۔چنانچہ جب گرمیوں کی تعطیلات میں، میں وطن کو واپس گیا، چند مختصرمگر جامع اور موثر تقریریں اپنے دماغ میں تیار رکھیں۔ گھر والوں کو ہاسٹل پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہاں کی آزادی نو جوانوں کیلئے از حد مضر ہوتی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے ہزار ہا واقعا ت ایسے تصنیف کئے جن سے ہاسٹل کے قوائد کی سختی ان پر اچھی طرح روشن ہو جائے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے ظلم تشدد کی چند مثالیں، رقت انگیز پیرایے میں سنائیں۔ آنکھیں بند کر کے ایک آہ بھری اوربے چارے اشفاق کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دن شام کے وقت بے چارہ ہاسٹل کو واپس آرہا تھا۔ چلتے چلتے پاوں میں موچ آ گئی۔ دو منٹ دیر سے پہنچا۔ صرف دو منٹ۔ بس صاحب اس پر سپرنٹنڈنٹ صاحب نے فوراً تار دے کر اس کے والد کو بلوا لیا۔ پولیس سے تحقیقات کرنے کو کہا اور مہینے بھر کیلئے اس کا جیب خرچ بند کر دیا۔ توبہ ہے الٰہی!لیکن یہ واقعہ سن کر گھر کے لوگ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے مخالف ہو گئے۔ ہاسٹل کی خوبی ان پر واضح نہ ہوئی۔ پھر ایک دن موقع پا کر بے چارے محمود کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ شامت اعمال بے چارہ سنیما دیکھنے چلا گیا۔ قصور اس سے یہ ہوا کہ ایک روپے والے درجے میں جانے کے بجائے وہ دو روپے والے درجے میں چلا گیا۔ بس اتنی سی فضول خرچی پر اسے عمر بھر سنیما جانے کی ممانعت ہو گئی ہے۔لیکن اس سے بھی گھر والے متاثر نہ ہوئے۔ انھیں نا کام کوششوں میں تعطیلات گزر گئیں اور ہم نے پھر ماموں کی چوکھٹ پر آ کر سجدہ کیا۔ 

حکایت:تاج و تخت پا کر بھی فقیر

حکایت:تاج و تخت پا کر بھی فقیر

حضرت ابراہیم ادھم ؒ سلطنت کے بادشاہ تھے، ایک رات کا ذکر ہے کہ آپ سو رہے تھے۔ آدھی رات کے وقت چھت پر کھٹکا ہوا ، شو و غل سا مچا۔ آپ کی آنکھ کھل گئی، کان لگا کر سنا تو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے چھت پر بھاری بھاری قدموں سے کوئی چل رہا ہے۔ حضرت ابراہیم ادھم ؒنے دل میں خیال کیا کہ یہ کس کی جرأت ہے جو آدھی رات کے وقت محل کی چھت پر چل رہا ہے، پتہ نہیں کون ہمت والا ہے۔ یقینا یہ کوئی انسان نہیں بھوت ہے۔ آپ نے محل کی کھڑکی کھولی اور اپنی گردن باہر نکال کر چھت کی طرف منہ کرتے ہوئے اونچی آواز سے پکارا، کون ہے؟ عجیب و غریب قسم کے لوگوں نے سر نیچے کر کے جواب دیا،ہم رات کے وقت کسی کی تلاش میں پھر رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم ادھم ؒ نے حیران ہو کر پوچھا، کیا تلاش کر رہے ہو؟ ہم اونٹ کو تلاش کر رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم ادھمؒ بولے، کبھی کسی نے گمشدہ اونٹ کو چھت پر تلاش کیا ہے؟۔ یہ سن کر وہ برجستہ کہنے لگے۔ کیا کسی نے بادشاہی کے عالم میںتاج و تخت پا کر فقیری کو تلاش کیا ہے؟۔ یہ سننا تھا کہ آپ پر عجب بے خودی کی کیفیت طاری ہو گئی، دل پر اس بات نے اثر کیا اور اسی وقت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پہاڑوں کی طرف نکل گئے اور دنیا سے چھپ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو گئے۔

آج کا دن

آج کا دن

اسکندریہ ٹرین تصادم11اگست 2017ء کو مصر کے شہر اسکندریہ کے خورشید اسٹیشن کے قریب دو مسافر ٹرینوں کے درمیان ایک خوفناک تصادم ہوا۔ ایک ٹرین پورٹ سعید سے اور دوسری ٹرین قاہرہ سے آ رہی تھی۔ اس حادثہ میں 41 افراد ہلاک اور 179 زخمی ہوئے۔ صدر عبدالفتاح السیسی نے ایک تحقیقاتی ٹاسک فورس تشکیل دینے کا حکم دیا تاکہ حادثے کے ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جا سکے۔چاڈ کایوم آزادی1960ء میں آج کے روز چاڈ نے فرانس سے آزادی حاصل کی ۔ چاڈ وسطی افریقہ کا ایک ملک ہے، جو 1900ء کے آغاز میں فرانسیسی نوآبادیاتی نظام کے تحت آیا۔ 1920ء تک یہ مکمل طور پر فرانسیسی کنٹرول میں تھا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد افریقہ میں آزادی کی تحریکیں تیز ہوئیں۔ 1958ء میں فرانس نے اپنی کالونیوں کو خودمختاری دینے کی پیشکش کی۔ چاڈ نے ایک ریفرنڈم میں ''فرنچ کمیونٹی‘‘ کا حصہ بننے پر ہاں کی، لیکن جلد ہی مکمل آزادی کی آوازیں بلند ہو گئیں۔حسین بن طلال اردن کے بادشاہ بنے11اگست 1952ء میں حسین بن طلال اردن کے بادشاہ بنے اور ان کی تقریباً 47 سالہ حکمرانی کا آغاز ہوا ۔ والد شاہ طلال کو صحت کی خرابی کے باعث مجلس پارلیمان نے معزول کر دیا۔ جس کے بعد شاہ حسین بن طلال کو 16 برس کی عمر میں ملک کا بادشاہ بنایا گیا۔ کم عمری کی وجہ سے 1952ء تا 1953ء تک ایک کونسل نے حکومتی امور چلائے۔انہوں نے بادشاہ کے طور پر عملی کام کا آغاز 2 مئی 1953ء کو اس وقت کیا جب ان کی عمر 18 برس ہوئی۔چودھری محمد علی پاکستان کے وزیر اعظم بنے1955ء میں چودھری محمد علی پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ اس وقت کے گورنر جنرل اسکندر مرزا نے انہیں محمد علی بوگرہ کی جگہ پاکستان کا وزیراعظم نامزد کیا۔ بحیثیت وزیر اعظم چوہدری محمد علی کا سب سے بڑا کارنامہ 1956ء کے آئین کا نفاذ تھا۔ وہ وزیر اعظم کے عہدہ سے 13 ماہ بعد مستعفی ہو گئے۔ یکم دسمبر 1980ء کو چوہدری محمد علی نے کراچی میں وفات پائی۔آئل ٹینکر حادثہ2006ء میں آج کے روز آئل ٹینکر ''ایم ٹی سولر 1‘‘ فلپائن میں گوماراس اور نیگروس جزائر کے ساحل پر ڈوب گیا۔ اس حادثے میںبڑی مقدار میں تیل سمندر میں بہہ گیا۔ اس حادثے کو فلپائن کی تاریخ کا بد ترین سمندری حادثہ قرار دیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ آئل ٹینکرز کی ان کے سائز کے ساتھ ساتھ ان کی گنجائش کے لحاظ سے درجہ بندی کی جاتی ہے۔