یونس ایمرے

یونس ایمرے

اسپیشل فیچر

تحریر :


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

باتوں کی بحث میں اچانک یونس ایمرے Yunus Emre کا ذکر آگیا۔خاتون نے اناطولیہ کے اس درویش، صوفی اور خداداد صلاحیتوں کے حامل شاعر کا ذکرجس محبت اور شوق سے کیا اُس نے آتش شوق کو گویا بھڑکا سا دیا۔انہوںنے ان کی عوامی اور وحدت میں ڈوبی ہوئی شاعری کے چند ٹکڑے سُنائے اور ایک دلچسپ واقعہ بھی۔زمانہ تو مولانا جلال الدین رومیؒ کا ہی تھا۔کہتے بھی انہیں رومی ثانی ہے، مگر دونوں عظیم شاعروں میں فرق ذریعہ اظہار کا تھا۔مولانا رومی کا کلام اُس وقت ترکی کی شہری اشرافیہ کی مروجہ ادبی زبان فارسی میں ہونے کی و جہ سے خاص الخاص تھا جبکہ یونسEmre کے ہاں ذریعہ اظہار اُن کی عام لوگوں کی، یعنی دیہی علاقوں میں بولی جانے والی ترکی زبان میں ہی تھا۔زبان سادہ ،مفہوم واضح، تشبہات، استعارے عام فہم اور زبان زد عام ہونے والے کلام میں غنائیت اور نغمگی کا بہائو اس درجہ تھا کہ صوفیاء کی محفلوں میں جب گایا جاتا تھا، تو لوگ و جد میں آجاتے تھے۔یونس ایمرے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت شریں گفتار اور لحن دائودی کا سا کمال رکھتے تھے۔کبھی اگر دریا کے کنارے قرأت سے قرآن پاک پڑھتے تو بہتا پانی رک جاتا تھا۔بہت دلچسپ ایک واقعہ بھی سُن لیجیے، یونس اُمرے کے قونیہ سفر کے دوران کہیں مولانا رومیؒ سے ملاقات ہوئی تو مولانا نے اُن سے اپنی مثنوی کے بارے میں دریافت کیا۔یونس ایمرے نے کہا ’’بہت خوبصورت ،بہت عظیم ،بہت اعلیٰ شاہکار ۔میں مگر اسے ذرا مختلف طریقے سے لکھتا ۔‘‘مولانا نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا’’بتائو ذرا کیسے۔‘‘یونس بولے ’’میں آسمان سے زمین پر آیا ۔گوشت پوست کا لباس پہنا اور خود کو یُونس ایمرے کا نام دیا۔‘‘ترکی کے اس مقبول اور اہم ترین شاعر کا زمانہ لگ بھگ1238ء تا 1320 ء کا ہے۔مقام پیدائش صاری کوئے نامی گائوں میں ہوئی۔اس زمانے میں قونیہ پرسلجوق ترکوں کی حکومت تھی۔مولانا رومی شمس تبریزؒ سے متاثر تھے۔ایسے ہی یونس ایمرے نے چالیس سال اپنے استاد شیخ تاپدوک ایمرے Tapduk Emre کے قدموں میں گزار دئیے۔اُن کی زیر نگرانی انہوںنے قرآن و حدیث کے علم میں کمال حاصل کیا۔طریقت کے اسرار و رموز سے شناسا ہوئے۔ اُن کے کلام میں رباعی،گیت،نظمیں ،غزلیں سبھی نظر آتی ہیں۔ذرا دیکھئے کلام کی سادگی اور حُسن۔ایک لفظ ہی چہرے کو روشن بنا سکتا ہے اُس شخص کیلئے جو لفظوں کی قدرو منزلت جانتا ہےجان لو کہ لفظ کب بولنا ہے اور کب نہیںایک اکیلا لفظ دنیا کی دوزخ کو آٹھ بہشتوں میں بدل سکتا ہےیونس ایمرے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان کو زندگی محبت و پیار کے اصولوں پر گزارنی چاہیے۔ان کی فلاسفی میں اُونچ نیچ او ر تفریق کہیں نہیں۔یہ صرف انسانوں کے اعمال ہیںجو انہیں اچھا یا بُرا بناتے ہیں۔زندگی عفو ودرگزر ،حلیمی اور رواداری جیسے جذبات کے تابع ہونی چاہیے۔ان کا عقیدہ تھا کہ خدا تک پہنچنے اور بخشش کا راستہ اکابرین دین،مختلف مذہبی اور مسلکی فرقوں کے اماموں کے ذریعے نہیں بلکہ یہ انسان دوستی اور احترام انسانیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ہر مذہب اور ہر مذہبی فرقے کا دوسرے کو جہنمی کہنا اور سمجھنا بہت غلط ہے۔دنیا کا ہر مذہب انسانیت کی بھلائی کا درس دیتا ہے۔ان مذاہب اور انسانوں کے احترام سے خدا سے سچا عشق پیدا ہوتا ہے۔ان کا یہ کہنا کتنا خوبصورت ہے۔دین حق سر میں ہے سر پر رکھی جانے والی پگڑیوںاور دستاروںمیں نہیں۔یونس ایمرے عشق حقیقی کے پرستار اور اسیر تھے۔شاعری میں صوفیانہ علم، عجزو انکسار اور انسانیت کا بے پناہ جذبہ نظرآتا ہے۔یونس ایمرے ترکوں میں بہت ہر دل عزیز ہیں۔دراصل اُن کی شاعری ترکوں کے قومی مزاج کی خوبصورت عکاس ہے۔ترک قوم کی دلیری اور خودداری کا اظہار ہے۔یہی و جہ ہے کہ ان کے اشعار خاص و عام کی زبانوں پر ہیں۔بیرونی دنیا میں اب ان پہچان ہورہی ہے۔ اس کی و جہ دراصل اُن کا کلام اپنی مادری ترکی زبان میں ہے۔ان کے ہم عصر مولانا رومیؒ کا کلام فارسی میں ہونے کی و جہ سے وہ برصغیر اور وسط ایشیا کی ریاستوں میں بہت زیادہ ہر دل عزیز ہیں،تاہم اب انگریزی ترجمے کی و جہ سے یونس ایمرے کے قارئین ان کی خداداد صلاحیتوں سے آگاہ ہورہے ہیں۔اُن کے فن اور کلام کی سادگی،برجستگی اور فلسفے سے واقف ہو رہے ہیں۔ہم بھی شکر گزار ہوئے کہ انہوںنے ہمیں وقت دیا اور ہمیں ایک عظیم ہستی سے ملوایا۔(سلمیٰ اعوان کے سفر نامے ’’ استنبول کہ عالم میں منتخب‘‘ سے مقتبس)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
سدا بہار گیتوں کے تخلیق کار:ریاض الرحمان ساغر

سدا بہار گیتوں کے تخلیق کار:ریاض الرحمان ساغر

کچھ لوگوں کو قدرت نے بہت سی خوبیاں عطا کی ہوتی ہیں۔ ان کے فن کی بہت سی جہتیں ہوتی ہیں اور وہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایک عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ وطن عزیز میں ایسے بے شمار نام لیے جا سکتے ہیں جن میں ایک نام ریاض الرحمان ساغرکا ہے۔شاعر، صحافی اور فلمی نغمہ نگاروکہانی نویس ریاض الرحمن ساغرکا شمار ان پاکستانی شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں قدرت نے بے پناہ خوبیوں سے نوازاتھا۔ یکم دسمبر1941ء کو بٹھنڈا(بھارت) میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے وقت ہونے والی قتل و غارت سے گزر کر پاکستان آئے، ان کے والد محمد عظیم کو ان کی آنکھوں کے سامنے موت کے گھاٹ اتارا گیا، ان کے چھوٹے بھائی نے بھوک اور پیاس سے ماں کی گود میں دم توڑ دیا۔ وہ اپنی والدہ کے ساتھ والٹن(لاہور) پہنچے اور بعد ازاں ملتان چلے گئے۔ جہاں ان کا بچپن انتہائی غربت میں گزرا۔ شاعری سکول کے زمانے میں ہی شروع کر دی تھی۔ اپنے استاد ساغر علی سے متاثر ہو کر اپنا تخلص ساغر رکھ لیا۔کالج پہنچنے تک انہیں قدیم و جدید شعراء کے سیکڑوں شعر یاد ہو چکے تھے۔شعرو شاعری اور کمیونسٹ خیالات کی ترویج کے الزام میں انہیں کالج سے نکال دیاگیا۔ بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ ریاض الرحمن ساغر شاعر بھی تھے اور فلمی گیت نگار بھی۔ انہوں نے صحافت بھی کی اور کالم نویسی میں بھی نام کمایا۔ اس کے علاوہ ساغر صاحب نے مکالمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا سکہ جمایا۔ انہوں نے فلموں، ریڈیو اور ٹی وی کیلئے 2ہزارسے زیادہ نغمات تخلیق کیے۔ اسی طرح انہوں نے 75 فلموں کے مکالمے اور سکرپٹ لکھے۔ ریاض الرحمان ساغر کے فلمی گیتوں کی کتاب ''میں نے جو گیت لکھے‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس طرح ان کی نثری تصنیفات میں ''وہ بھی کیا دن تھے‘‘(خود نوشت)، ''کیمرہ، قلم اور دنیا‘‘ (سات ملکوں کے سفر نامے)، ''لاہور تا ممبئی براستہ دہلی‘‘ (بھارت کا سفر نامہ)، ''سرکاری مہمان خانہ‘‘ (جیل میں بیتے لمحات پر کتاب)‘‘ شامل ہیں۔ اسی طرح ان کی شاعری کی بھی کئی کتابیں منظر عام پرآئیں، جن میں ''چاند سُر ستارے‘‘، ''آنگن‘‘، ''آنگن تارے‘‘ (بچوں کی نظمیں)، ''سورج کب نکلے گا‘‘ (خود نوشت) شامل ہیں۔ ساغر صاحب نے غزلیں بھی لکھیں اور نظمیں بھی۔ خاص طور پر ان کی سیاسی نظمیں بہت مقبول ہوئیں۔ ان سب حقائق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ساغر صاحب نے بہت کام کیا اور وہ کثیر الجہات شخصیت تھے۔ گیت نگاری کے میدان میں اپنے نام کا سکہ جمانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن انہوں نے یہ بھی کر دکھایا۔ ساغر صاحب نے سب سے پہلے ہفت روزہ ''لیل و نہار‘‘ میں کام کیا لیکن انہیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہاں وہ لگن سے کام نہیں کر سکتے۔ وہ لاہور کے ایک اردو روزنامے سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے لاہور کے ایک روزنامے میں فلم ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے کالم نویسی کے فن کو ایک نیا روپ دیا۔ وہ پہلے کالم نویس تھے جنہوں نے نظم یا گیت کی شکل میں کالم لکھے۔ 1996ء میں ان کا پہلا کالم ''عرض کیا ہے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس کالم میں سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کو اجاگر کیا گیا تھا۔ ان کے آخری کالم کا عنوان تھا '' صبح کا ستارہ چھپ گیا ہے‘‘۔ ریاض الرحمان ساغر نے 1958ء میں پہلا فلمی گیت لکھا لیکن جس فلم کیلئے لکھا وہ ریلیز نہ ہو سکی۔ گیتوں کے حوالے سے ان کی جو پہلی فلم ریلیز ہوئی، اس کا نام تھا ''عالیہ‘‘ لیکن انہیں اصل شہرت فلم ''شریک حیات‘‘ کے اس گیت سے ملی ''مرے دل کے صنم خانے میں ایک تصویر ایسی ہے‘‘۔ انہوں نے ایک پنجابی فلم ''عشق خدا‘‘ کیلئے بھی گیت لکھے جو ان کی وفات کے بعد ریلیز ہوئی۔ انہوں نے جن مشہورفلموں کے مکالمے اور سکرپٹ لکھے ان میں ''شمع، نوکر، سسرال، شبانہ، نذرانہ، عورت ایک پہیلی، آواز، بھروسہ، ترانہ اور مور‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے شباب کیرانوی کے ساتھ بہت کام کیا۔اپنے گیتوں اورشاعری کے بارے میں ان کا یہ موقف قابل داد ہے کہ انہوں نے کبھی چربہ نہیں کیا اورکبھی غیراخلاقی شاعری نہیں کی۔کہتے ہیں ''میں نے ایک ہی معیارسامنے رکھاہے جوگیت میں اپنی بیٹی کو سنا سکتا ہوں وہی گیت میں دوسروں کی بہوبیٹیوں کو سناتا ہوں‘‘۔ گلوکارہ شبنم مجید نے اپنی زندگی کا پہلا نغمہ ''سن او ہوا، سن او گھٹا‘‘ ان کا لکھا ہوا گایاجو فلم ''جو ڈر گیا وہ مر گیا‘‘ میں شامل تھا۔ ریاض الرحمن ساغرنے زندگی میں کبھی اپنے قلم سے نکلی ہو ئی نثر کی ایک سطر اور ایک شعر کا مصرع کسی کو بلامعاوضہ نہیں دیا۔ یکم جون 2013 کو ریاض الرحمان ساغر کینسر کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔ وہ اقبال ٹائون کے ایک قبرستان میں مدفن ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کون فراموش کر سکتا ہے، یقیناً کوئی نہیں۔''سرگم ‘‘ ریاض الرحمان ساغر کی یادگار فلم ریاض الرحمان ساغرکی سب سے بڑی نغماتی فلم ''سرگم‘‘ تھی جو 1995ء میں ریلیز ہوئی۔ اس میں عدنان سمیع خان نے گلوکاری اور موسیقاری کے علاوہ اداکاری بھی کی تھی۔ فلم کی کہانی، مکالمے، سکرین پلے، گیت، سیٹ اور ڈائریکشن اعلیٰ پائے کی تھی۔ اداکارہ زیبا بختیار کی یہ پہلی پاکستانی فلم تھی جبکہ کلاسیکل گائیک مہاراج غلام حسین کتھک نے اپنی اس اکلوتی فلم میں بڑی نیچرل اداکاری کی تھی۔ فلم ''سرگم‘‘ کے سبھی گیت بڑے زبردست تھے۔ خاص طور پر ''ذرا ڈھولکی بجاو گوریو‘‘ اور ''پیار ہے ، یہی تو پیار ہے‘‘ دل میں اتر جانے والے گیت تھے۔ اس فلم کے گیارہ میں سے دس گیت ریاض الرحمان ساغر نے لکھے تھے جبکہ ایک گیت ''اے خدا ، جس نے کی جستجو۔‘‘ مظفروارثی کا لکھا ہوا تھا۔مشہور فلمی نغمات ٭ چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں(سماج)٭آنکھیں غزل ہیں آپ کی (سہیلی)٭دیکھا جو چہرہ تیرا(گھونگھٹ)٭مجھ کو بھی تو لفٹ کرا دے( عدنان سمیع)٭ کل شب دیکھا(مجھے چاند چاہیے)٭ میری وفا، میرے وعدے پہ(بے قرار)٭ دل لگی میں ایسی دل کو لگی(دل لگی)٭ ذرا ڈھولکی بجائو گوریو(سرگم) ٭پیار ہے، یہی تو پیار ہے (سرگم)٭...لکھ دی ہم نے ( نیک پروین) 

قلمی دوستی:ماضی کی خوبصورت روایت

قلمی دوستی:ماضی کی خوبصورت روایت

جدید ٹیکنالوجی اور سائنس نے ترقی کے نام پر جہاں ہم سے ہمارا ورثہ، رسم ورواج ، ہماری روایات اور ہماری پہچان ہم سے چھین لی ہے وہیں اسی ٹیکنالوجی نے باہمی دوستی کے ایک منفرد اور خوبصورت رشتے کو بھی ہم سے دور کر دیا ہے۔ قلمی دوستی بنیادی طور پر تو ایک مشغلہ ہوا کرتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایک حقیقی دوستی میں بھی بدل جایا کرتا تھا۔ بعض ممالک میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جہاں قلمی دوستی جیون رشتوں میں بھی بدلتی دیکھی گئی ہے۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے تک ''قلمی دوستی‘‘ کا رشتہ ایک ایسے منفرد اور خوبصورت تعلق کے طور پر قائم تھا جس سے کم ازکم آج کل کی نسل مکمل طور پر لاعلم ہے۔ تین چار عشرے قبل جب تک ہماری زندگیوں میں ''الیکٹرانک رابطوں‘‘ کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا یہ خوبصورت روایت ہمارے معاشرے کا ایک حصہ ہوا کرتی تھی ۔ قلمی دوستی ہے کیا ؟ قلمی دوستی کا آسان اور لفظی مفہوم تو یہ ہے ، باہمی خط و کتابت ( ڈاک کے ذریعے )کے ذریعے قائم ہونے والی دوستی ، قلمی دوستی کہلاتی ہے۔ انگریزی زبان میں اسے ''پین فرینڈ‘‘ (Pen friend) یا ''پین پال‘‘ (Pen Pal)کہتے ہیں۔ قلمی دوستی اپنے ملک ہی میں نہیں بلکہ دوسرے ممالک تک بھی ہو سکتی ہے۔ اس مشغلہ کے پس پردہ دراصل بنیادی مقاصد میں مختلف ممالک کی ثقافت اور رہن سہن کی جانکاری بارے آگاہی ، دیگر زبانوں کو جاننے کی خواہش اور کوشش سمیت دوستی کے اس نرالے رنگ کو پروان چڑھانا بھی شامل ہوتا ہے۔ گزشتہ صدی کے آخری تین عشروں میں قلمی دوستی بطور ایک مشغلہ کا جادو ایک عرصہ تک سر چڑھ کر بولتا رہا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا بھر کے اخبارات و رسائل میں قلمی دوستی کا ایک مختص صفحہ نوعمر لڑکے لڑکیوں کیلئے سب سے پرکشش اور زیادہ پسند کیا جانے والا صفحہ ہوتا تھا۔ بنیادی طور پر یہ ایک چھوٹا سا ''کلب ‘‘ ہوتا تھا جس میں کوئی بھی لڑکا یا لڑکی اپنا مختصر سا تعارف مثلاً نام، پتہ، عمر، مشاغل وغیرہ اس صفحہ پر شائع کرواکے قلمی دوستی کی دعوت دیا کرتا تھا۔ عمر اور مشاغل ہی عام طور پر ذہنی ہم آہنگی کی دلیل سمجھے جاتے اور یوں دونوں طرف سے باقاعدہ خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہو جاتا جو دن بدن دوستی کے مضبوط رشتے میں بدلتا چلا جاتا۔ ''ڈاکیا‘‘ جو اب تیزی سے ایک بھولا بسرا کردار بنتا جا رہا ہے ، قلمی دوستوں کو اس کی آمد کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا میں مختلف تنظیمیں اور دوستی کلب بھی میدان میں آگئے تھے جو سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے اس مشغلہ کے فروغ کیلئے کوشاں رہے۔ قلمی دوستی کی شروعات کیسے ہوئیں تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ قلمی دوستی کی ایک مشغلہ کی حیثیت سے شروعات امریکہ میں سترہویں صدی کے آخری عشرے میں ہوئی تھی۔ جبکہ اسے باقاعدہ شہرت 1930ء میں حاصل ہوئی تھی۔چنانچہ اس کو ایک حقیقت تسلیم کرتے ہوئے پہلی مرتبہ 1931ء میں آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں اس کا اندراج کیا گیا تھا۔ قلمی دوستی کے لفظ کو آکسفورڈ ڈکشنری نے ا نگریزی میں ''پین پال‘‘ (Pen Pal)کا نام دیا تھا۔ لیکن قلمی دوستی کو باقاعدہ رواج دینے کا اعزاز 1936ء میں امریکہ کے ایک ہائی سکول کی ٹیچر کو جاتا ہے جس نے '' سٹوڈنٹس لیٹرایکسچینج‘‘ نامی ایک گروپ تشکیل دیا۔اس گروپ کے ذریعے اس نے اپنے طلباء کو اس امر کی ترغیب دی کہ وہ دنیا بھر کے بچوں کے ساتھ قلمی دوستی کا رشتہ قائم کریں۔اس طرح سے جہاں ایک طرف دوسرے ممالک کی ثقافت اور تہذیب بارے بچوں کی معلومات میں اضافہ ہوتا چلا گیا وہیں ان کی لکھنے کی صلاحیت میں بھی بہتری آنے لگی۔ صرف یہی نہیں بلکہ تھوڑے ہی عرصے میں بچوں میں خود اعتمادی کے درجے میں بھی بہتری محسوس کی گئی۔قلمی دوستی بطور ایک مشغلہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں اس خوبصورت روایت کو یاد رکھنے کیلئے ہر سال یکم جون کو اس کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ عالمی دن منانے کا یہ فائدہ ہوا کہ اگرچہ زمانے بدل گئے ڈاک کا نظام بدل گیا ، ڈاک کی جگہ ''میل ‘‘ اور اب میل کی جگہ ''ای میل‘‘ نے لے لی ہے۔چنانچہ اب '' سٹوڈنٹ لیٹر ایکسچینج گروپ‘‘ نے اس گروپ کو فیس گروپ میں بھی تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دنیا بھر میں متعدد '' قلمی دوستی گروپ ‘‘ متحرک ہیں۔ جن میں '' واٹ پیڈ‘‘ ،'' پین پالز نائو‘‘ ، ''پین پال ورلڈ‘‘، ''انٹر پالز‘‘،''پوسٹ کراسنگ‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اب دنیا بھر میں قلمی دوستی عام طور پر تین طریقوں، روائتی خط و کتابت کا طریقہ، ای میل یا سوشل میڈیا کے طریقوں کے ذریعے قائم کی جاتی ہے۔ قلمی دوستی کے عالمی دن منانے کی اختراع امریکہ سے شروع ہوئی تھی۔ جس کا سہرا امریکی ریاست الینوائے کی ایک قلمی دوست شہری روزی کے سر جاتا ہے۔ جس نے 1975ء میں باقاعدہ طور پر ''قلمی دوستی کا عالمی دن‘‘ منانے کو رواج دیا۔ روزی نے اپنے متعدد قلمی دوستوں کو ملنے کیلئے امریکہ اور اس سے باہر طویل سفر طے کئے ۔ قلمی دوستی کے مشغلہ کو جاری اور زندہ رکھنے میں روزی کی کاوشیں قابل ستائش سمجھی جاتی ہیں۔روزی نے قلمی دوستوں کو اکٹھا کرنے اور اس مشغلے کی افادیت کو اجاگر کرنے کیلئے ''الینوائے پین پال پکنک ری یونین‘‘ نامی ایک تنظیم بھی بنا رکھی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ روزی ''پین پال اتحاد‘‘ نامی ایک ادارے کی بانی بھی ہیں۔ پڑوسی ملک نے اس خوبصورت روایت کو تازہ رکھنے کیلئے 1999ء میں ''صرف تم‘‘نامی ایک فلم بھی بنائی تھی ، جس میں بنیادی طور دو قلمی دوست خط وکتابت کرتے کرتے ایک دن ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے بارے کہا جاتا ہے کہ مختلف اقوام کی لڑکیاں اپنے ملک کے فوجیوں کو جو محاذ پر برسر پیکار رہے تھے ، انہیں باقاعدگی سے خطوط لکھا کرتی تھیں چنانچہ ان میں کچھ کے بارے یہ بھی بتایا جاتا ہے انہوں نے بعد میں اپنے دوستوں سے شادیاں کر لی تھیں۔ تاریخ کی کتابوں میں ایک روسی مہارانی ، کیتھرین دا گریٹ اور فرانسیسی فلاسفر وولٹائر کا ذکر ملتا ہے جن کی خط و کتابت 1778ء تک وولٹائر کی وفات تک جاری رہی۔ ایسے ہی ایک برطانوی جے آر آر ٹولیکئن اور ایک امریکی سی ایس لیوز کے درمیان بھی ایک عرصہ تک عیسائیت کے عقیدے بارے خط و کتابت کے ذریعے بحث جاری رہی۔ قلمی دوستی کی روایت جس طرح تحریری خط سے ، ای میل اور ای میل سے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم تک پہنچ چکی ہے ، اب نے والا وقت دوستی کے اس سفر کو کس پلٹ فارم تک لے کر جاتا ہے ؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ 

آج کا دن

آج کا دن

بوسٹن ہاربر لڑائییکم جون1813ء کو رائل نیوی اور ریاست ہائے متحدہ نیوی کے درمیاں ایک لڑائی لڑی گئی جس میں رائل نیوی کی طرف سے فریگیٹ شینن اور ریاستہائے متحدہ کی طرف سے فریگیٹ چیسپیک نے شرکت کی۔ یہ 1812ء کی جنگ کا ہی ایک حصہ تھا۔یہ امریکہ اور برطانیہ کے درمیان ہونے والی مختصر مگر شدید جنگ تھی۔اس لڑائی کے دوران رائل نیوی نے ریاستہائے متحدہ کے فریگیٹ پر قبضہ کر لیا،دونوں جانب سے 71آدمی ہلاک ہوئے۔20مئی 1913ء کو کپتان جیمز نے چیسپیک کی کمان سنبھالی،شینن کے کپتان نے جیمز کوکو لڑائی کرنے کیلئے ایک تحریری چیلنج بھی کیا تھا ۔سی این این کا آغازکیبل نیوز نیٹ ورک(سی این این) کا آغاز یکم جون 1980ء کو ہوا۔ ٹیڈ ٹرنر کے تعارف کے بعد، ڈیوڈ واکر اور لوئس ہارٹ چینل کے پہلے نیوز کاسٹر تھے اور پہلی خبریں پڑھیں۔ برٹ رین ہارڈ، CNN کے افتتاح کے موقع پر چینل کے ایگزیکٹیو نائب صدر نے پہلے 200 ملازمین میں سے زیادہ تر کو بھرتی کیا جن میں سی این این کے پہلے نیوز اینکر برنارڈ شا بھی شامل تھے۔اپنے آغاز کے بعد سے، CNN نے کئی کیبل اور سیٹلائٹ ٹیلی ویژنز کے ساتھ متعدد ویب سائٹس تک اپنی رسائی کو ممکن بنایا۔اس وقت سی این این کے پاس11ملکی اور31غیر ملکی بیوروز موجود ہیں۔غیر علاقائی اور غیر ملکی زبانوں میں بھی نیٹ ورک موجود ہے۔ائیر فرانس حادثہایئر فرانس کی پرواز447 ریو ، برازیل سے پیرس ، فرانس جانے کیلئے طے شدہ شیڈول کے مطابق روانہ ہونے کیلئے تیار تھی۔ یکم جون 2009ء کو پائلٹس نے ائیر بسA330کو دوران پرواز روکا اور دوبارہ اس پر کنٹرول حاصل نہیں کر سکے۔ کنٹرول کی ناکامی کی وجہ سے جہاز بحر اوقیانوس میں گر کر تباہ ہو گیا۔اس جہاز میں سوار228 لوگ جاں بحق ہو گئے جن میں کریو ممبر بھی شامل تھے۔برازیل کی بحریہ نے حادثے کے پانچ دنوں کے اندر سمندر سے پہلا بڑا ملبہ اور دو لاشیں نکال لیں، لیکن فرانس کے بیورو آف انکوائری اینڈ اینالیسس فار سول ایوی ایشن سیفٹی (بی ای اے) کی تحقیقات میں رکاوٹ پیدا ہوئی کیونکہ طیارے کے فلائٹ ریکارڈرز کو برآمد نہیں کیا جا سکا تھا۔یونیورسل سٹوڈیو میں آتشزدگییکم جون 2008 ء کو کیلی فورنیا کی لاس اینجلس کاؤنٹی کے علاقے سان فرنینڈو ویلی میں واقع یونیورسل سٹوڈیو ہالی ووڈ کے تھیم پارک میں کے پچھلے حصے میں آگ بھڑک اٹھی۔ آگ اس وقت شروع ہوئی جب ایک کارکن نے چمڑے کو گرم کرنے کیلئے بلیو ٹارچ کا استعمال کیا۔ جسے فلم میں استعمال کیلئے تیار کیا جا رہا تھا۔ وہ چیک کرنے سے پہلے چلا یاگیا کہ تمام جگہیں ٹھنڈی ہو چکی ہیں۔اس کے جلتے ہی خوفناک آگ بھڑک اٹھی۔آگ بجھانے کے دوران فائر فاٹرز کو بھی چوٹیں لگیں لیکن 24گھنٹے کی کوشش کے بعد آگ پر قابو پا لیا گیا۔ 

یادِ رفتگاں عنایت حسین بھٹی:کثیرالجہات فنکار

یادِ رفتگاں عنایت حسین بھٹی:کثیرالجہات فنکار

بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے، '' عوامی گلوکار‘‘کا خطاب پایاعنایت حسین بھٹی پاکستانی فلم، موسیقی اور ریڈیو کی دنیا کا وہ درخشاں ستارہ تھے جنہوں نے اپنے فن سے عوام کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، وہ پلے بیک سنگر، اداکار، فلمساز و ہدایتکار، سکرپٹ رائٹر ، سماجی کارکن، کالم نگار اوردینی عالم تھے۔ ان کی آواز میں ایک ایسا خلوص اور اپنائیت تھی جو سیدھی دل میں اترتی تھی۔ ان کی اداکاری میں وہ سچائی تھی جو کرداروں کو زندہ کر دیتی تھی۔ انہوں نے نہ صرف پنجابی بلکہ اردو فلموں میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا اور ان کی فنی خدمات نے پاکستان کے ثقافتی ورثے کو تقویت بخشی۔ یہ مضمون عنایت حسین بھٹی کی زندگی، فنی سفر، اور ان کے سماجی و ثقافتی اثرات پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش ہے۔عنایت حسین بھٹی کی داستان زیست کا اگرجائزہ لیا جائے تو انسان حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ ایک شخص کی زندگی اور فن کی اتنی جہتیں،یقین نہیں آتا۔ ان کے کارناموں کی تفصیل جب پڑھنے کو ملتی ہے تو یقین کرنا پڑتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔12جنوری1928ء کو گجرات میں پیدا ہونے والے عنایت حسین بھٹی بلاشبہ ایک کثیرالجہات (Multi-dimensional) فنکار تھے۔ وہ 1948ء کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے لاہور آئے۔ وائی ایم سی اے ہال میں انہوں نے پہلا ڈرامہ سٹیج کیا۔ اس کے بعد وہ اعجاز گیلانی کے ساتھ ریڈیو پاکستان لاہور آگئے یہاں ان کی ملاقات ماسٹر نیاز حسین شامی سے ہوئی اور انہوں نے ان کی شاگردی اختیار کر لی۔ نیاز شامی نے انہیں ریڈیو گلوکار بنانے میں بہت مدد کی۔لاہور ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہونے والے ڈراموں میں وہ خودبھی کبھی کبھی کیریکٹر ایکٹر کے طور پر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے تھے۔ ماسٹر شامی نے 1949ء میں بھٹی صاحب کو بابا جی اے چشتی سے ملوایا جنہوں نے انہیں فلمساز و ہدایتکار نذیر کی فلم ''پھیرے ‘‘ میں چند گانے ریکارڈ کرنے کیلئے کہا۔ ان نغمات کی بدولت عنایت حسین بھٹی راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ اس کے بعد اداکار و فلمساز نذیر نے عنایت حسین بھٹی کو اپنی فلم ''ہیر‘‘ میں رانجھے کا کردار ادا کرنے کیلئے کاسٹ کر لیا۔ ان کے ساتھ ہیر کا کردار سورن لتا نے ادا کیا۔ 1960ء کی دہائی میں عنایت حسین بھٹی کو لوک تھیٹر اور گائیکی سے رغبت ہوگئی۔ وہ پنجاب کے دیہات میں وارث شاہ، بلھے شاہ، میاں محمد بخش، شاہ عبدالطیف بھٹائی اور سلطان باہو کا صوفیانہ کلام گاتے رہے اور بہت مقبولیت حاصل کی۔ فلمساز کی حیثیت سے ان کی پہلی فلم ''وارث شاہ‘‘ تھی جو 1962ء میں ریلیز ہوئی۔ 1965ء میں بطور فلمساز ان کی دوسری فلم ''منہ زور‘‘ ریلیز ہوئی۔ 1968ء میں ان کی فلم ''چن مکھناں‘‘ سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے کئی ایک سپرہٹ فلمیں دیں جن میں ''سجن پیارا جند جان، دنیا مطلب دی، عشق دیوانہ اور ظلم دا بدلہ‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے تین سرائیکی فلمیں بھی بنائیں اوران میں اداکاری بھی کی۔ انہوں نے بھٹی پکچرز کے بینر تلے 30 فلمیں بنائیں اور 300 سے زائد فلموں میں اداکاری کی۔ علاوہ ازیں انہوں نے 500 فلموں کیلئے نغمات بھی گائے۔ 1958ء میں انہوں نے ایک ترانہ ''اللہ اکبر‘‘ گایا جو اب تک اپنی شہرت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ ایمان افروز ترانہ دلوں میں نیا ولولہ پیدا کر دیتا ہے۔ ان کی مشہور فلموں میں (بطور اداکار) ''ہیر، پھیرے، جلن، شہری بابو، دنیا مطلب دی، سجن بیلی، سچا سودا، عشق دیوانہ، چن مکھناں، سجن پیارا، جند جان، کرتار سنگھ، جگا گجر اور ظلم دا بدلہ‘‘ شامل ہیں۔ جن اداکارائوں نے ان کے ساتھ کام کیا ان میں سورن لتا، زینت، نگار سلطانہ، شیریں، یاسمین، صابرہ سلطانہ، رانی، فردوس، سلونی، حسنہ، نیلو اور خانم کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ بطور گلوکار انہوں نے ملک کے نامور سنگیت کاروں کے ساتھ کام کیا، ان موسیقاروں میں بابا جی اے چشتی، ماسٹرعنایت حسین، ماسٹر غلام حیدر، اصغر علی، محمد حسین، رشید عطرے، صفدر حسین، گل حیدر، طفیل فاروقی، رحمان ورما شامل ہیں۔عنایت حسین بھٹی 1970ء کے عشرے میں '' بھٹی دا ڈیرہ‘‘ کے نام سے ٹی وی پر میوزیکل ٹاک شو کرتے رہے۔ ایک اور ٹی وی پروگرام ''اجالا‘‘ کی کمپیئرنگ کی۔ یہ پروگرام پاکستان کے صوفی بزرگوں کے بارے میں تھا۔ ایک اخبار میں ان کا اردو کالم کئی برسوں تک شائع ہوتا رہا۔ 1971ء میں انہوں نے گلاب دیوی ہسپتال میں ٹی بی وارڈ قائم کی۔ یہاں غریب مریضوں کا مفت علاج ہوتا تھا۔ عنایت حسین بھٹی نے سیاست کے میدان میں بھی قسمت آزمائی کی۔1975ء میں پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی اور کئی انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔ وہ بڑے زبردست مقرر تھے اور ان کی تقریر کے دوران مکمل خاموشی چھا جاتی تھی۔ 1990ء کے انتخابات میں انہوں نے پی ڈی اے کے امیدوار اصغر خان کی انتخابی مہم میں حصہ لیا اور اپنی جاندار تقریروں سے لوگوں کے دل موہ لئے۔انہوں نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں بھی حصہ لیا۔1997 ء میں عنایت حسین بھٹی پر فالج کا حملہ ہوا۔31مئی 1999ء کو یہ بے مثال فنکار اور مرد طرحدار اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا، بلاشبہ ان کا نام اور کام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔''اے مردِ مجاہد، جاگ ذرا......‘‘1958ء میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ''چنگیز خان‘‘ کے تاریخی رزمیہ ترانہ '' اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقت شہادت ہے آیا‘‘ نے عنایت حسین بھٹی کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر کر دیا ہے۔ عنایت حسین بھٹی کی پرجوش اور جذبات سے لبریز آواز نے ایک پورے عہد کے جذبۂ حب الوطنی کو زبان دی۔ یہ کلام اُن قومی نغموں میں شامل ہے جنہوں نے نہ صرف جنگی محاذوں پر لڑنے والے سپاہیوں کے حوصلے بلند کیے بلکہ عام پاکستانی کے دل میں بھی وطن کیلئے قربانی کا جذبہ بیدار کیا۔ اس نغمے کو 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران خاص طور پر مقبولیت ملی، جب ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے ایسے ترانے قوم کے جوش و ولولے کا نشان بن گئے تھے۔یہ مصرعہ محض ایک شعری سطر نہیں بلکہ ایک پکار ہے، اس کی ادائیگی میں عنایت حسین بھٹی کا انداز، گونج دار آواز اور ان کے لہجے کی گہرائی ایسا رنگ بھرتی ہے کہ سننے والا خود کو کسی محاذِ جنگ پر کھڑا محسوس کرتا ہے۔ 

31مئی:انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن

31مئی:انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن

ہر سال 31 مئی کو دنیا بھر میں انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے آگاہ کیا جا سکے اور صحت مند طرزِ زندگی کو فروغ دیا جا سکے۔ اس دن کا آغاز عالمی ادارۂ صحت (WHO) نے 1987ء میں کیا تھا، اور تب سے یہ دن تمباکو کی لعنت کے خلاف ایک مضبوط عالمی پیغام بن چکا ہے۔ اس سال کا تھیم ہے: ''چمکدار مصنوعات، تاریک ارادے‘‘ (Bright Products, Dark Intentions) کے عنوان سے منایا جا رہا ہے۔ اس تھیم کے ذریعے تمباکو اور نکوٹین کی صنعتوں کی اُن خطرناک حکمتِ عملیوں کو بے نقاب کیا جا رہا ہے جو وہ نوجوانوں کو اپنی مصنوعات کی جانب راغب کرنے کیلئے اپناتے ہیں۔ جدید اور دلکش پیکنگ، فلیورز کا اضافہ اور سوشل میڈیا پر مارکیٹنگ ایسی ہی تدابیر ہیں جن کے ذریعے نئی نسل کو اس زہر آلود عادت کا شکار بنایا جا رہا ہے۔دنیا میں ہر سال 80 لاکھ سے زائد اموات تمباکو نوشی سے منسلک بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پھیپھڑوں کا سرطان، دل کی بیماریاں، بلند فشار خون اور دیگر کئی مہلک امراض کا تعلق تمباکو نوشی سے ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ صرف تمباکو نوش افراد ہی نہیں بلکہ ان کے اردگرد موجود غیر تمباکو نوش افراد بھی متاثر ہوتے ہیں۔پاکستان میں تمباکو نوشی ایک سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل خاص طور پر اس کی زد میں ہے۔ سرکاری سطح پر کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جیسے عوامی مقامات پر تمباکو نوشی کی ممانعت، تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی پر پابندی اور تمباکو مصنوعات کی تشہیر پر بندش۔ لیکن ان قوانین پر عملدرآمد کمزور ہے اور مارکیٹ میں ہر جگہ سستے داموں تمباکو مصنوعات کی دستیابی ان تمام کوششوں کو کمزور کرتی ہے۔تمباکونوشی سے ہونیوالے نقصاناتجب کوئی انسان تمباکونوشی کرتا ہے تو سات ہزار سے زائد کیمیائی مادے اس کے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ کینسر سوسائٹی آئر لینڈ اور امریکن لنگ ایسوسی ایشن نے ان خطرناک اور مہلک ترین کیمیائی مادوں کی باقاعدہ نشاندہی کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ کس قدر انسانی صحت کیلئے خطرناک ہیں جنہیں تمباکو نوش جانتے بوجھتے اپنے جسم میں داخل کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مختلف مہلک امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جب کوئی انسان سگریٹ، پان ، نسوار، گٹکا ، شیشہ یا حقے کا استعمال کرتا ہے تو یہ تمام نقصان دہ کیمیائی مادے جن میں کاربن مونو آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، سائنائڈف، ٹار وغیرہ شامل ہیں اس کے پھیپھڑوں اور جسم کے دیگر حصوں تک پہنچ جاتے ہیں۔پھیپھڑوں کا کینسر90فیصد تمباکو کی وجہ سے ہوتا ہے۔انسانی نفسیات پر اثراتتمباکونوشی کے صرف انسانی جسم ہی نہیں ، نفسیات پر بھی انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ تمباکو کا استعمال کرنے والے ذہنی تناؤ کو کم کرنے، تھکاوٹ کو دور کرنے، سکون کے حصول اور پریشانی سے نجات کو اس کا جواز بناتے ہیں۔ اکثر لوگ بے بنیاد طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ تمباکونوشی ان کیلئے آسودگی و سکون کا باعث ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی بوریت کو دور کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ان بے بنیاد خیالات کو امریکی یونیورسٹی کی طبی تحقیق میں غلط ثابت کیا گیا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق تمباکونوشی نفسیاتی دباؤ کم کرنے کی بجائے ذہنی دباؤ اور ڈپریشن میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ سیکنڈ ہینڈ سموکنگتمباکونوشی سے خود اس فرد کی زندگی اور صحت پر جو برے اثرات پڑتے ہیں ، وہ اپنی جگہ مسلمہ ہیں لیکن دوسری جانب دوسرے ایسے لوگ جو سگریٹ نوشی نہیں کرتے، وہ بھی اس کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔ اس عمل کو ''پیسو سموکنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ گھر کا ایک فرد اگر تمباکونوشی کرتا ہے تو اس دوران اس کے اہل خانہ اور خاندان کے دیگر افراد بھی اس کے ہمراہ موجود ہوتے ہیں۔ اس کے دہرے اثرا ت ہوتے ہیں۔ ایک تو اس کے بچوں اور دیگر کم عمر افراد میں اس عمل کا شوق پیدا ہوتا ہے دوسرا وہ اس کے دھوئیں کے منفی اثرات کی براہ راست زد میں ہوتے ہیں۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ تمباکو نوش کے ساتھ رہنے والا ایک گھنٹے میں جتنا تمباکو سونگھتا ہے، وہ ایک سگریٹ پینے کے برابر ہے۔ تمباکونوشی سے نجاتتمباکو کی عادت پڑنے کے بعد اس کو چھوڑنا آسان نہیں لیکن اگر انسان عزم کر لے تو سب کچھ ممکن ہے۔ تمباکونوشی سے نجات کیلئے سب سے زیادہ ضروری اور بنیادی چیز قوت ارادی ہے۔ یہ معلوم ہے کہ ماہِ رمضان میں تمباکونوش حضرات بھی سحری تا افطار اس عادت کو ترک کئے رکھتے ہیں۔اگر ذرا سی کوشش کی جائے تو اس عادت سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ اسی بناء پر ماہِ رمضان المبارک کو تمباکونوشی سے نجات کیلئے ایک قیمتی موقع کے طور پر بیان کیا جاتا ہے ۔ دورانِ روزہ سگریٹ نوشی ترک کرنے سے 8 گھنٹے بعد خون میںنکوٹین اور کاربن مونوآکسائیڈ کی سطح نصف سے کم رہ جاتی ہے جبکہ 48 گھنٹے بعد جسم اور پھیپھڑے کاربن مونوآکسائیڈ سے پاک ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے تو اس عادت کو پختہ بنا کر رمضان کے بعد بھی اس تمباکوشی سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟انسداد تمباکو نوشی صرف حکومتوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی کوشش کا تقاضا کرتا ہے۔والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور اْنہیں تمباکو کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ اساتذہ تعلیمی اداروں میں آگاہی مہمات کا آغاز کریں۔ میڈیا صحت مند طرزِ زندگی کی تشہیر کرے اور تمباکو نوشی کے خلاف سخت مہم چلائے۔ عوامی مقامات پر قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں رپورٹنگ کو فروغ دیا جائے۔انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن ہمیں ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر سوچیں، اقدامات کریں اور تمباکو کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔ یہ صرف ایک دن کا پیغام نہیں، بلکہ ایک مستقل طرزِ فکر ہے جس کے ذریعے ہم اپنے معاشرے کو صحت مند، محفوظ اور خوشحال بنا سکتے ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

کولڈ ہاربر کی جنگامریکی خانہ جنگی کے دوران ورجینیا میں 31 مئی 1864ء کو ایک جنگ لڑی گئی جسے کولڈ ہاربر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس جنگ کے دوران سب سے اہم لڑائی 3جون کو لڑی گئی اور یہ یونین لیفٹیننٹ جنرل یولیسز کی آخری لڑائیوںمیں سے ایک تھی۔جنگ کے دوران ایس گرانٹ کی اوور لینڈ مہم کو امریکی تاریخ کی سب سے خونریز، خطرناک اور یکطرفہ لڑائیوںمیں شمار کیا جاتا ہے۔ کنفیڈریٹ جنرل رابرٹ ای لی کی فوج کی مضبوط حکمت عملی اور پوزیشن کے خلاف یونین افواج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور کمزور حملے کی وجہ سے یونین افواج کے ہزاروں فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے۔ کوئٹہ زلزلہ31مئی 1935ء کو کوئٹہ جو اس وقت سلطنت برطانیہ کا حصہ تھا میں رات 2 سے 3بجے کے درمیان ایک خوفناک زلزلہ آیاجس نے پورے شہر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ زلزلے کی شدت7.7تھی۔ رپورٹس کے مطابق اس زلزلے کے نتیجے میں تقریباً60 ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ 2005ء میں کشمیر میں آنے والے زلزلے تک جنوبی ایشیا میں آنے والے زلزلوں میں سب سے زیادہ خطرناک تھا۔ زلزلے کا مرکز علی جان، بلوچستان اس وقت کے برطانوی ہندوستان سے 4 کلومیٹر جنوب مغرب میں تھا۔ جانسٹاؤن سیلاب31مئی1889ء کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے علاقے پنسلوینیا کے قصبے میں جنوبی فورک ڈیم جو دریائے لٹل کونیماؤ کے جنوبی کنارے پر 23کلومیٹر اوپر کی جانب واقع ہے میں خرابی کی وجہ سے سیلاب آیا۔ڈیم کئی دن کی مسلسل بارش کی وجہ سے دباؤ برداشت نہیں کر سکا اور پھٹ گیا۔خرابی کی وجہ سے ڈیم سے14.55ملین کیوبک مکعب پانی چھوڑ دیا گیا۔پانی کے شدید بہاؤ کی وجہ سے سیلاب آگیا جس کی وجہ سے 2ہزار209افراد لقمۂ اجل بنے۔اس سیلاب کے نتیجے میں 513ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔اس واقع کو امریکہ کی تاریخ میں پیش آنے والی بدترین آفات میں شمار کیا جاتا ہے۔کنکورڈ سروس کا اختتامکنکورڑ جہاز کو اب تک دنیا کا تیز ترین مسافر جہاز تصور کیا جاتا ہے۔ کنکورڈ نے اپنی پہلی فلائٹ2مارچ1969ء بھری جو کامیاب رہی ۔ کنکورڈ سروس شروع ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد اس جہاز کے ساتھ ایک خوفناک حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں جہاز ائیرپورٹ سے کچھ فاصلے پر گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے کے بعد انتظامیہ کے لئے کنکورڈ سروس کو جاری رکھنا ناممکن ہوگیا اور 31 مئی2003ء کو اس سروس کا اختتام کر دیا گیا۔