کوہستانِ نمک

کوہستانِ نمک

اسپیشل فیچر

تحریر :


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

پاکستان کو قدرت نے بے شمار نعمتوں سے مالا مال کیا ہے ۔ یہ ملک معدنیات کے خزانوں سے بھر ا ہوا ہے ۔ یہاں نمک کے پہاڑوں کے طویل سلسلے موجود ہیں جو غذائی کے علاوہ کئی صنعتوں کی ضروریات کو بھی پورا کرتے ہیں ، جن علاقوں میں نمک کے پہاڑ پائے جاتے ہیں، انہیں سالٹ رینج، کوہستان نمک یا نمکستان کہتے ہیں ۔یہ علاقہ کوہ ہمالیہ کی جنوبی سمت راولپنڈی اور جہلم کے ایک بڑے حصے پر محیط ہے اور پوٹھوہارکا علاقہ کہلاتاہے۔ یہ انتہائی تاریخی علاقہ ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ پوٹھوہار کے علاقہ میں تین ہزار سال قبل مسیح میں بھی انسانی بستی آباد تھی۔اس خطے میں پائی جانے والی کھیوڑہ کی کانیں اپنے رقبے اور ذخائر کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پرہیں۔ کھیوڑہ، وارچھا اور کالا باغ کے مقامات میں نمک کی کانوں کے بڑے ذخائر ہیں۔ یہاں سے نکلنے والا عمدہ اورخالص نمک عرف عام میں ’’لاہوری نمک‘‘ کہلاتا ہے ۔ کوہستانِ نمک وادی ِسون اور دریائے جہلم کے درمیان دو پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے۔ یہ سلسلہ کوہ مغربی اور مشرقی سمتوں میں تقسیم ہے۔ مشرقی علاقے میں تقریباً 80میل لمبی پٹی میں جگہ جگہ چٹانی نمک کی کانیں ہیں۔ پہاڑیوں کایہ سلسلہ تقریباً 160میل لمبا، اوسطاً دس میل چوڑا اور تین ہزار فٹ اونچاہے۔ سطح سمندر سے اس علاقے کی اوسط بلندی 2200فٹ کے لگ بھگ ہے ۔ جنوب کی جانب کٹی پھٹی سطح مرتفع ہے۔نمک کاسلسلہ قوس کی شکل میں دریائے جہلم کے شمال میں باغان والا سے شروع ہوتاہے اور نشیب میں جنوب مغرب کی طرف سے ہوتاہوا جب شمال مغرب کی طرف مڑتا ہے، تو میانوالی ضلع میں کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ میں ختم ہوتاہے۔کوہستان نمک کی زمین بظاہر بھربھری اور ریتلی چٹانوں اور چونے کے پتھروں پر مشتمل ہے، جس میں بظاہر کوئی کشش معلوم نہیں ہوتی، مگر قدرت نے اس سرزمین کے سینے میں معدنی ذخائر کے بیش بہا خزانے چھپادئیے ہیں، ان میں چونے کا پتھر،چقماق، سرخ پتھر، کوئلہ ،پیلا پتھر اور سب سے بڑھ کر نمک کی سوغات عام دستیاب ہے۔ ٹلہ جوگیاں اور سکیسر سلسلہ کوہ نمک کی نمایاں چوٹیاں جبکہ کھبکی،اوچھالی ، کلرکہار،جھالراورنمل اس کی نمایاں جھیلیں ہیں۔ ا ن میں سے تین کو بین الاقوامی اہمیت حاصل ہے اور انہیں Ramsarکنونشن کے تحت خصوصی درجہ دیاگیاہے۔ ان جھیلوں میں انواع واقسام کی جڑی بوٹیاں اور رنگ برنگے پرندوں کے مسکن پائے جاتے ہیں۔ برصغیر میں سالٹ رینج میں سب سے پہلے اور وسیع مقدار میں نمک دریافت ہوا، اس لیے اسے طبقات الارض کا عجائب گھر بھی کہاجاتاہے۔سالٹ رینج کے ذخائر کی ماہیت کے متعلق متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ ماہرین اس بات پر گہری نظرسے مطالعہ کررہے ہیں کہ یہ ذخائر آتش فشاں پہاڑوں کی سرگرمیوں کانتیجہ ہیں یا ان کی ترتیب دیگر قدرتی ذرائع سے ہوئی،جن ماہرین کا خیال ہے کہ سالٹ رینج کے ذخائر آتش فشاں پہاڑوں کی سرگرمیوں کا نتیجہ ہیں ان ماہرین میں A.Fleming, C.S.Middliniss, T.H.Holland, T.D.Oldham, P.N.Datta, F.Noetling, E.Vredenburgوغیرہ نمایاں ہیں۔ ان ماہرین نے اپنے دعوے کی دلیل میں کہاہے کہ کھیوڑہ میں ان ذخائر کے ساتھ لاوے کی ساخت کا مادہ بھی دستیاب ہے اور مزید اس میں ہائیڈرایٹ بھی موجود ہیں،جو ان ذخائر کے آتش فشاں پہاڑوں سے وجود میں آنے کا ثبوت ہے۔ دوسری جانب A.B.Wynne, Dr.Warth, Dr.A.A.Christeنے اس مفروضے کورد کرتے ہوئے کہاکہ نمک کے یہ ذخائر آتش فشاںپہاڑوں کے پھٹنے سے وجود میں نہیں آئے بلکہ اس جگہ سمندر تھا جو اپنے پیچھے نمک کے ذخائر چھوڑگیا۔ ان ماہرین کا دعویٰ ہے کہ لاکھوں سال پہلے خطہ ہمالیہ، پنجاب اور راجپوتانہ سمندرکی تہہ میں موجود تھے، جسے Tethys Seaکہاجاتاتھا، یعنی جس جگہ اس وقت خشک اور بنجر پہاڑوں کا طویل سلسلہ دکھائی دیتاہے کروڑوں سال پہلے یہاں ٹھاٹھیں مارتاسمندرہواکرتا تھا۔جب انڈین پلیٹ ایشین پلیٹ سے ٹکرائی ،تواس کے نتیجے میں یہ سمندر اپنی جگہ چھوڑ گیااور آخر کار یہ علاقہ ایک وسیع جھیل بن گیا،جس کی نوعیت کم وبیش بحرِمردار کی تھی، پھر اس علاقہ میں پانی نتھرنے اور خشک ہونے کا قدرتی عمل شروع ہوا ۔انجام کار ساراپانی رقیق’’ نمکون‘‘ کی صورت میں تبدیل ہوگیا۔ اس کی تہیں بنتی گئیں، جو سوڈیم کلورائیڈ، پوٹاشیم سالٹ، کیلشیم سالٹ وغیرہ کی شکلوں میں باقی ہے۔ اس علاقے میں قدیم انسانی تہذیب کے آثاربھی ملے ہیں۔تاریخ دان بھی اس علاقے کی تاریخ میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔کھیوڑہ کی کان کا تذکرہ ابن بطوطہ کے سفرنامے میں بھی ملتاہے۔کوہستانِ نمک ہی وہ علاقہ ہے جہاں’’مہابھارت‘‘ کے کرداروں کا تذکرہ ملتا ہے۔اسی علاقے میں پانڈو شہزادوں نے جلاوطنی کاٹی۔پانچال’’دروپدنگر‘‘ کے راجا کی بیٹی کرشنا دروپدی نے سوئمبر رچایا اور اپنے دُلہے کا انتخاب کیاتھا۔ اسی بناء پر اس علاقے کو ماہرین آثارِ قدیمہ اورمورخین کی خصوصی توجہ بھی حاصل رہی ہے۔ سالٹ رینج میں بہنے والے دریا کا نام سواںؔ ہے۔ جس کے بارے میں شاعر نے کہاتھا:وگدا سواںؔ ماہیاچھوڑ ناں دیویں بانہہ ماہیا(یعنی تجھے بہتے ہوئے دریائے سواںؔ کی قسم، اے میرے محبوب! اگر میرا ہاتھ تھاما ہے، تو اسے چھوڑنا مت) (کتاب ’’ کھیوڑہ-نمک کاشہر‘‘مرتبہ:محمدنعیم مرتضیٰ سے مقتبس)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
سانحہ اوشن گیٹ کے دو سال بعد  ٹائٹینک کے ملبے کا خفیہ دورہ  کرنے کا ایک اور منصوبہ

سانحہ اوشن گیٹ کے دو سال بعد ٹائٹینک کے ملبے کا خفیہ دورہ کرنے کا ایک اور منصوبہ

اوشن گیٹ کے ہولناک سانحے کو دو سال بیت چکے ہیں، لیکن لگتا ہے کہ ٹائی ٹینک کا ملبہ اب بھی مہم جو ارب پتی افراد کیلئے ایک نہ ختم ہونے والی کشش رکھتا ہے۔ ایک غیر ملکی اخبارکے مطابق ایک مشہور ارب پتی شخص خفیہ طور پر ٹائی ٹینک کے ملبے کے دورے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ خبر ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دنیا ابھی تک اس سانحے کو نہیں بھولی، جس میں ''ٹائٹن آبدوز‘‘ سمندری دباؤ کا سامنا نہ کر پانے کے باعث تباہ ہوگئی تھی اور اس میں سوار پانچوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اب ایک بار پھر، خطرات سے کھیلتے ہوئے اربوں ڈالر کی لاگت سے ایک نئی مہم کی افواہیں سمندری تحقیق اور سیاحت کے حلقوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اخبار کا دعویٰ ہے کہ یہ نامعلوم شخصیت چند ہفتوں میں تقریباً 2.4 میل (3.8 کلومیٹر) گہرائی میں سمندر کے اندر جا کر ٹائی ٹینک کا مشاہدہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ دعویٰ اوشن گیٹ کی بدنصیب مہم کے صرف دو سال بعد سامنے آ رہا ہے۔ اس سانحے کے بعد سے 1912ء میں غرقاب ہونے والے ٹائی ٹینک کے ملبے تک کوئی انسان نہیں پہنچا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ملبہ اب بھی سنسنی کے متلاشی ارب پتی افراد اور سمندری محققین کیلئے زبردست کشش رکھتا ہے۔ سمندری تحقیق کی دنیا میں ایک نئی مہم کے متعلق افواہیں گردش کر رہی ہیں، لیکن اس کی تفصیلات تاحال خفیہ رکھی گئی ہیں۔نیویارک پوسٹ کے مطابق انہیں ایک ذرائع نے بتایا ہے کہ اس مشن پر جانے والا دنیا کا ایک ارب پتی ہے۔ سمندر کے اندر جانے پر دس ملین ڈالر کا خرچ ہوگا اس لئے لوگ اس شخص کو فوراً پہچان لیں گے۔ وہ یہ اعلان کرنا چاہے گا کہ ''سانحے کے بعد ٹائی ٹینک تک پہنچنے والا پہلا شخص وہی ہے‘‘۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لوگوں نے اس خفیہ ارب پتی کے ممکنہ امیدواروں پر بحث شروع کر دی ہے، جن میں کاروباری شخصیت ایلون مسک، ایمازون کے بانی جیف بیزوس اور امریکی بزنس مین لیری کونر کے نام شامل ہیں۔دنیا نے پہلی بار ٹائٹن آبدوز کے بارے میں اس وقت جانا جب جون 2023ء میں ٹائی ٹینک کے ملبے تک جانے والی ایک سیاحتی مہم کینیڈا کے صوبے نیو فاؤنڈ لینڈ کے ساحل کے قریب لاپتہ ہو گئی۔ اگلے چار دنوں تک دنیا کی نظریں اس واقعے پر جمی رہیں، امدادی ٹیمیں علاقے تک پہنچنے کی جدوجہد کرتی رہیں۔ بعدازاں اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ آبدوز کا رابطہ منقطع ہوا ہے مگر اس کے اندر موجود افراد زندہ ہیں۔ تاہم، سمندر کی تہہ میں ملنے والے ملبے نے اس بات کی تصدیق کی کہ آبدوز نے اپنی غوطہ زنی کے آغاز کے دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں ایک تباہ کن خرابی کا سامنا کیا، جس کے نتیجے میں اندر موجود تمام افراد ہلاک ہوگئے۔ ان میں سے ایک اوشن گیٹ کے سی ای او اسٹاکٹن رش بھی تھے۔ آج بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ سمندری تحقیق کو پرتعیش سیاحت کی صنعت میں لانے کی ان کی انتھک کوشش ہی اس سانحے کا باعث بنی۔ نجی کمپنی کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ پہلی کمپنی تھی جس نے عام سیاحوں کو ٹائی ٹینک دکھانے کا انتظام کیا اور اس مقصد کیلئے فی کس ڈھائی لاکھ ڈالر وصول کیے جاتے تھے۔اس سانحے کے بعد ٹائٹن آبدوز پر سنگین سوالات اٹھے، جو 2021ء سے ٹائی ٹینک کے ملبے تک جانے کے سفر کر رہی تھی۔ یہ بات سامنے آئی کہ سمندری تحقیق کے ماہرین نے پہلے ہی مسٹر رش کو خبردار کیا تھا کہ ان کی کمپنی کے تجرباتی طریقے تباہ کن حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔کمپنی کے اندر بھی تشویش پائی جاتی تھی، جن میں ڈیوڈ لوکریج بھی شامل تھے، جو ٹائٹن منصوبے میں ڈائریکٹر آف میرین آپریشنز کے طور پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے آبدوز کیلئے مزید سخت حفاظتی جانچ کا مطالبہ کیا تھا۔ امریکی کوسٹ گارڈ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ٹائٹن کے تباہ ہونے کی بنیادی وجہ اس کا پریشر ہل (pressure hull) تھا ۔یہ آبدوز کا وہ حصہ ہوتا ہے جہاں مسافر بیٹھتے ہیں اور یہ فائبر گلاس سے بنا ہوا تھا بجائے اس کے کہ اس میں روایتی طور پر استعمال ہونے والی ٹائٹینیم دھات استعمال کی جاتی۔یہ انکشاف بھی ہوا کہ آبدوز کو ایسے آلے کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا تھا جو بظاہر ایک ویڈیو گیم کنٹرولر جیسا دکھائی دیتا تھا۔پیٹرک لاہی، جو ٹرائیٹن سب مرینز کے سی ای او ہیں، ایک ایسی تجارتی آبدوز بنانے میں مصروف ہیں جو اس سفر کو محفوظ طریقے سے انجام دے سکے۔انہوں نے نیو یارک پوسٹ کو بتایایہ صرف ایک تاریخی اہمیت رکھنے والا ملبہ ہی نہیں بلکہ اس کا اتنی گہرائی میں موجود ہونا اسے دیکھنے کیلئے مزید پرکشش بنا دیتا ہے۔ ٹائی ٹینک کا ملبہ سمندری حیات سے ڈھکا ہوا ہے۔ لوگ وہاں اسی طرح جانا چاہتے ہیں جس طرح وہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ واضح نہیں کہ وہ خفیہ ارب پتی کون ہے، لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ چند ارب پتی پہلے ہی اپنی ذاتی آبدوز کے مالک ہیں۔ ان میں وال اسٹریٹ کے سرمایہ کار رے ڈیلیو اور روسی اولیگارچ رومن ابرامووچ شامل ہیں۔

حکایت سعدیؒ :اپنا محاسبہ آپ

حکایت سعدیؒ :اپنا محاسبہ آپ

بیان کیا جاتا ہے، ایک مسافر اتفاقاً خدا رسیدہ لوگوں کے حلقے میں پہنچ گیا اور ان کی اچھی صحبت سے اسے بہت زیادہ فائدہ پہنچا۔ اس کی بُری عادتیں چھوٹ گئیں اور نیکی میں لذت محسوس کرنے لگا۔یہ انقلاب یقینا بے حد خوشگوار تھا لیکن حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کو کون بدل سکتا ہے۔ اس شخص کے مخالفوں نے اس کے بارے میں مشہور کر دیا کہ اس کا نیکی کی طرف راغب ہو جانا تو محض دنیا کو دکھا نے کیلئے ہے۔ اس بات سے اسے بہت صدمہ پہنچا چنانچہ وہ ایک دن اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا مرشد نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تیرے مخالف تجھے جیسا بتاتے ہیں تو ویسا نہیں۔ صدمہ کی بات تو یہ ہوتی کہ تو اصلاً برا ہوتا اور لوگ تجھے نیک اور شریف بتاتے۔سبق: اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے نہایت لطیف پیرائے میں اپنا محاسبہ آپ کرتے رہنے کی تعلیم دی ہے۔ اپنے بارے میں اہل دنیا کی رائے کو ہر گز قابل اعتبار نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہاں تو اچھوں کو بُرا اور بروں کو اچھا کہنے کا رواج ہے۔ اس کے علاوہ دوسری بہت ہی عمدہ بات یہ بتائی ہے کہ برائی کر کے اچھا مشہور کرنے کی خواہش کے مقابلے میں یہ بات ہر لحاظ سے مستحسن ہے کہ انسان اچھا ہو اور لوگ اسے برا خیال کریں۔ 

بائیکال جھیل: سائبیریا کا قدرتی عجوبہ

بائیکال جھیل: سائبیریا کا قدرتی عجوبہ

یہ تحقیق اور سیاحت کے دلدادہ افراد کیلئے ایک نایاب تحفہ ہےقدرت نے انسان کو زمین پر بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں، لیکن ان میں کچھ ایسی نایاب ہیں جو اپنے اندر حیرتوں کی ایک دنیا سمیٹے ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک روس کے سرد اور برف پوش خطے سائبیریا میں واقع دنیا کی سب سے گہری اور قدیم میٹھے پانی کی جھیل ہے جسے دنیا بائیکال جھیل کے نام سے جانتی ہے۔ یہ جھیل نہ صرف روس بلکہ پوری دنیا کیلئے ایک قدرتی خزانہ ہے جس کے بارے میں جان کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔بائیکال جھیل روس کے جنوبی سائبیریا میں واقع ہے اور تین اطراف سے پہاڑوں نے اسے گھیر رکھا ہے۔ اس کی لمبائی تقریباً 636 کلومیٹر اور چوڑائی 79 کلومیٹر ہے۔ جھیل کی گہرائی حیرت انگیز طور پر 1642 میٹر تک ہے، جو اسے دنیا کی سب سے گہری جھیل بناتی ہے۔ اس کے کنارے نہایت دلکش اور قدرتی مناظر سے مزین ہیں، جبکہ اردگرد کے جنگلات اور برف پوش پہاڑ اس کی خوبصورتی کو اور بھی دوبالا کر دیتے ہیں۔ یہ جھیل دنیا کی سب سے پرانی جھیل بھی ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق اس کی عمر تقریباً تین کروڑ سال ہے، جو زمین کی تاریخ کا ایک زندہ ریکارڈ ہے۔ اس طویل عرصے میں جھیل نے مختلف ماحولیاتی اور ارضیاتی تبدیلیوں کا سامنا کیا لیکن اپنی اصل شناخت کو برقرار رکھا۔''زمین کا قدرتی خزانہ‘‘بائیکال جھیل کو ''زمین کا قدرتی خزانہ‘‘ اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں دنیا کے تمام میٹھے پانی کا تقریباً 20 فیصد محفوظ ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو یہ جھیل دنیا کی سب جھیلوں اور دریاؤں کے مجموعی پانی کے مقابلے میں سب سے زیادہ میٹھا پانی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس پانی کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی غیر معمولی شفافیت ہے۔ جھیل کا پانی اتنا صاف ہے کہ بعض اوقات 40 میٹر گہرائی تک چیزیں نظر آ جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی شفافیت کا راز اس میں پائے جانے والے وہ خوردبینی جاندار ہیں جو پانی کو فلٹر کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بائیکال جھیل کا پانی دنیا کے صاف اور صحت مند پانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔''برف کا شیش محل‘‘سائبیریا کے شدید سرد موسم میں یہ جھیل ایک شاندار منظر پیش کرتی ہے۔ نومبر کے آخر سے مارچ تک جھیل مکمل طور پر برف سے ڈھک جاتی ہے۔ برف کی تہہ بعض جگہوں پر ایک میٹر سے زیادہ موٹی ہو جاتی ہے اور یہ اتنی شفاف ہوتی ہے کہ نیچے بہتا ہوا پانی، پودے اور مچھلیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ برف اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔ جب تیز ہوائیں چلتی ہیں تو برف میں بڑی بڑی دراڑیں پڑ جاتی ہیں، جن کی لمبائی بعض اوقات کئی کلومیٹر تک جا پہنچتی ہے۔ ان دراڑوں سے پانی اوپر آ کر دوبارہ جم جاتا ہے اور قدرتی مجسموں کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاح اس جھیل کو ''قدرتی آئینہ‘‘ اور ''برف کا شیش محل‘‘ بھی کہتے ہیں۔حیاتیاتی عجائب گھربائیکال جھیل کو بجا طور پر ''قدرتی حیاتیاتی عجائب گھر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں 1700 سے زائد جانداروں اور پودوں کی اقسام موجود ہیں جن میں سے تقریباً دو تہائی صرف اسی جھیل میں پائی جاتی ہیں اور دنیا کے کسی اور حصے میں نہیں ملتیں۔ان منفرد مخلوقات میں سب سے نمایاں بائیکال سیل ہے، جس کا وجود آج بھی سائنسدانوں کیلئے ایک معمہ ہے۔ اس کے علاوہ جھیل میں ''اومل مچھلی‘‘ (Omul Fish) بھی بہت مشہور ہے جو روسی کھانوں میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ یہ جھیل ماہرین حیاتیات کیلئے ایک قدرتی لیبارٹری کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ یہاں کے ماحول نے لاکھوں سال میں ایسی انواع پیدا کی ہیں جو ارتقائی عمل کی بہترین مثالیں ہیں۔ثقافتی اور تاریخی پہلوبائیکال جھیل صدیوں سے مقامی اقوام کیلئے روحانی اور ثقافتی اہمیت رکھتی ہے۔ مقامی لوگ اسے ''مقدس سمندر‘‘ بھی کہتے ہیں اور ان کے عقائد کے مطابق اس جھیل میں روحانی طاقتیں موجود ہیں۔ آج بھی وہاں کے باسی اس جھیل کو اپنے دیومالائی قصوں اور روایات کا حصہ بناتے ہیں۔عالمی ورثہ اور سیاحت1996ء میں یونیسکو نے بائیکال جھیل کو عالمی قدرتی ورثہ قرار دیا۔ آج یہ جھیل نہ صرف سائنسدانوں کیلئے تحقیق کا مرکز ہے بلکہ دنیا بھر سے سیاحوں کیلئے کشش کا باعث بھی ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح جھیل کے دلکش مناظر دیکھنے آتے ہیں۔ سردیوں میں یہاں برف پر اسکینگ، گاڑیوں کی ریس اور برفانی غاروں کی سیر سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ گرمیوں میں کشتی رانی اور پہاڑی سفر یہاں کا بڑا تجربہ ہے۔ماحولیاتی خطرات اور تحفظاگرچہ بائیکال جھیل اپنی وسعت اور گہرائی کے باعث ایک مضبوط ماحولیاتی نظام رکھتی ہے، لیکن جدید دور کے صنعتی فضلے، ماحولیاتی آلودگی اور بے تحاشا سیاحت نے اس کی خوبصورتی اور حیاتیاتی تنوع کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ روسی حکومت اور بین الاقوامی تنظیمیں اس جھیل کے تحفظ کیلئے متعدد اقدامات کر رہی ہیں تاکہ یہ قدرتی خزانہ آئندہ نسلوں کیلئے بھی محفوظ رہ سکے۔ قدرت نے بائیکال جھیل کو دنیا کیلئے ایک ایسا خزانہ بنایا ہے جو نہ صرف انسان کی بنیادی ضرورت یعنی پانی کو پورا کرتا ہے بلکہ تحقیق، سیاحت اور حسنِ فطرت کے دلدادہ افراد کیلئے بھی ایک نایاب تحفہ ہے۔ یہ جھیل آج بھی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زمین کا اصل حسن اس کے قدرتی ماحول اور انمول ذخائر میں پوشیدہ ہے۔ 

بکھرا گھر ذہنی دبائو کا سبب؟

بکھرا گھر ذہنی دبائو کا سبب؟

بے ترتیبی پر مبنی گھر تشویشناک ذہنی بیماری کو جنم دے سکتا ہےگھریلو بے ترتیبی اور بکھراہوا سامان اکثر ہمیں معمولی مسئلہ لگتا ہے، لیکن ماہرین نفسیات خبردار کرتے ہیں کہ یہ عادت ذہنی صحت کیلئے نہایت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک بے ترتیب اور غیر منظم گھر انسان کے اعصاب پر دباؤ ڈالتا ہے، جس کے نتیجے میں اضطراب، ڈپریشن اور دیگر ذہنی امراض پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، ایک منظم اور صاف ستھرا ماحول نہ صرف جسمانی سکون کا باعث بنتا ہے بلکہ ذہنی آسودگی اور مثبت طرزِ زندگی کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔برطانوی ماہر نفسیات ڈاکٹر کیٹی بارج کا کہنا ہے کہ پرانا مقولہ ''صاف ستھرا گھر، سکون بھرا ذہن‘‘ محض ایک قول نہیں بلکہ تحقیق سے ثابت شدہ حقیقت ہے۔ یہ اثر خاص طور پر خواتین، ذہنی امراض میں مبتلا افراد اور اے ڈی ایچ ڈی کے مریضوں میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ جتنا انسان دباؤ اور اضطراب کا شکار ہوگا، اتنا ہی اس کا گھر بے ترتیبی کا شکار ہوگا، اور یہی بکھراہوا سامان اس کے ذہنی دباؤ کو مزید بڑھائے گا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ بے ترتیبی کو ''بصری شور‘‘ کے طور پر لیتا ہے، جس کی وجہ سے توجہ مرکوز کرنا اور سکون حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بکھرا ہوا سامان انسان کو تھکا دیتا ہے اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔ اکثر لوگ یہ سوچنے کے بجائے کہ ''اب میرا اگلا کام کیا ہے؟‘‘ اس کشمکش میں پڑے رہتے ہیں کہ ''کیا پہلے مجھے یہ بکھراؤ ختم کرنا ہے؟‘‘اکثر گھروں کو عجائب گھر سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، جہاں تحائف، کم استعمال ہونے والے کپڑے اور بے ربط اشیاء سے بھری درازیں موجود ہوتی ہیں۔ بظاہر یہ سامان ماضی کی خوشگوار یادوں کو تازہ کرتا ہے، مگر ماہرین کے مطابق ضرورت سے زیادہ بکھرا سامان صحت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ڈاکٹر بارج کا کہنا ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب گھر کی بے ترتیبی دماغ پر اس قدر بوجھ ڈال دیتی ہے کہ انسان یہ طے ہی نہیں کر پاتا کہ صفائی کہاں سے شروع کرے۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیاکی ایک تحقیق کے مطابق بکھرے ہوئے گھروں اور تناؤ پیدا کرنے والے ہارمون ''کورٹیسول‘‘ (cortisol) کی بلند سطحوں کے درمیان براہِ راست تعلق پایا گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق، گندے اور بکھرے ہوئے گھروں میں رہنے والی خواتین نسبتاً صاف ستھرے ماحول میں رہنے والی خواتین کے مقابلے میں زیادہ کورٹیسول پیدا کرتی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ گھروں میں سامان کے ڈھیر لگنے کی کئی وجوہات ہیں۔ کبھی یہ جذباتی وابستگی کا نتیجہ ہوتا ہے، کبھی غیر استعمال شدہ اشیاء پر خرچ ہونے والی رقم کا احساسِ جرم اور کبھی اس بے بنیاد امید کا کہ یہ چیزیں شاید مستقبل میں کام آئیں گی۔خاندانوں کو اضافی مشکلات بھی درپیش رہتی ہیں کیونکہ بچے اس تیزی سے بڑے ہو جاتے ہیں کہ ان کے کھلونے اور ملبوسات استعمال ہی نہیں ہو پاتے ۔ نتیجتاً گھروں میں مزید بے ترتیبی بڑھ جاتی ہے۔ماہرین کے مطابق گھروں میں موجود بکھراؤ صرف فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ نسلوں تک منتقل بھی ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر بارج کہتی ہیںاگر ہم بکھرے ہوئے گھروں میں بڑے ہوئے ہیں تو زیادہ امکان ہے کہ ہمارا اپنا گھر بھی بکھرا ہوا ہو گا۔انگرڈ جانسن (Ingrid Jansen)کے مطابق:بکھرے ہوئے ماحول میں جینا دراصل ہر روز سیکڑوں چھوٹے فیصلے کرنے کے مترادف ہے۔ یہ چیز کہاں ہے؟ کیا مجھے اس کی ضرورت ہے؟ اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟ یہ عمل ذہنی طور پر تھکا دینے والا ہوتا ہے۔ پرانی اشیاء،جیسے کپڑے، کتابیں یا سجاوٹی سامان کو سنبھال کر رکھنا اکثر لوگوں کو ان کی ماضی کی شکلوں سے جوڑے رکھتا ہے۔ یادوں کو زندہ رکھنے کے بجائے یہ سامان انسان پر بوجھ بن جاتا ہے اور اسے آگے بڑھنے سے روک دیتا ہے۔ایک صاف اور منظم گھر نہ صرف آنکھوں کو بھلا لگتا ہے بلکہ ذہن و دماغ پر بھی مثبت اثرات ڈالتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، گھر کی ترتیب اور صفائی کو معمول کا حصہ بنا کر ذہنی صحت کے بڑے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ 

طنزومزاح سسرالی رشتہ دار

طنزومزاح سسرالی رشتہ دار

میں ایک داماد ہوں اور میں نے جلدبازی سے کام لے کر شادی کے معاملے میں صرف بیوی کے سلسلے میں تو ضروری تحقیقات کرلی تھیں کہ کیا عمر ہے، صحت کیسی ہے، صورت و شکل کا کیا عالم ہے، تعلیمی استعداد کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر اب سرپر ہاتھ رکھ کر رونا پڑتا ہے کہ یہ کیوں نہ پوچھا تھا کہ ان میں کتنی خالائیں، کتنی نانیاں، دادیاں، چچیاں، تائیاں، بہنیں اور بھاوجیں ہیں۔ اور کتنے اسی قسم کے مرد رشتہ دار ہیں، اور ان رشتہ داروں کے کتنے ایسے رشتہ دار ہیں جن کو جبراً اپنا رشتہ دار سمجھنا پڑے گا۔ اور کتنے ایسے عزیز ہیں جن کو اخلاقاً عزیز ماننا پڑے گا۔ پھر ان کے بعد ان عزیزوں کی باری آتی ہے جن کو انتظاماً عزیز کہا جاتا ہے۔ پھر انتقاماً عزیز بن جانے والوں کی باری آتی ہے۔ اور آخر میں جغرافیائی رشتہ دار آتے ہیں، مثلاً خالہ، ہمسائی، اور چچا پڑوسی وغیرہ، اس کی تحقیقات نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب۔دل غریب ادھر ہے ادھر زمانہ ہےایک سے ایک سسرالی رشتہ دار روز دیکھ لیجیے جو محبت چھڑکنے دھرا ہوا ہے۔ غریب خانے پر دفتر سے تھکے ہارے بھوکے پیاسے دماغ کا عرق نکلوائے ہوئے سکون کی تلاش میں گھر پہنچے ہیں، کہ دیکھتے کیا ہیں، میٹھے پانی کی بوتلیں بھقابھق کھل رہی ہیں، مرغ ذبح ہو رہا ہے، خانساماں باورچی خانہ میں پتیلیوں سے ورزش کر رہا ہے۔ اور اندر سے ایسے قہقہوں کی آوازیں آرہی ہیں گویا کوئی بے چارہ آسیبی خلل میں مبتلا ہے۔ کسی ملازم سے پوچھا کہ یہ گھر کس کے نام الاٹ ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ بیگم صاحبہ کے کوئی پھوپھا معہ اہل و عیال تشریف لائے ہیں۔ جل تو جلال تو۔۔۔ صاحب کمال تو، آئی بلا کو ٹال تو۔ کا وظیفہ پڑھتے ہوئے جو گھر میں داخل ہوئے تو بیگم صاحبہ خوشی سے بدحواس دوڑی ہوئی تشریف لائیں۔ ارے آپ کو خبر بھی ہے کون آیا ہے۔ پھوپھا میاں۔ پھوپھی۔ نجو۔ جگنو۔ چھمی۔ لاڈو۔ رانی۔ آئیے نا آپ نے تو دیکھا بھی نہ ہوگا ان سب کو۔ بڑا انتظار کر رہے ہیں سب آپ کا۔ عرض کیا۔ کچھ بتائیے تو سہی یہ کون پھوپھا تصنیف کرلیے آج وہ جو پرسوں آئے تھے۔ وہ بھی تو پھوپھا تھے۔ احمق سمجھ کر مسکرائیں۔ ارے وہ تو ذرا دور کے پھوپھا تھے۔ یہ ان سے ذرا قریب کے پھوپھا ہیں۔ابا جان کی رشتہ میں خالہ زاد بہن کی سگی نند ہیں۔ یہ تو ہماری شادی میں نہ آسکی تھیں۔ پھوپھا میاں بیچارے پر ایک جھوٹا مقدمہ چل گیا تھا ان دنوں، مطلب یہ ہے کہ اب آئے ہیں یہ لوگ، بڑی محبت کے لوگ ہیں آپ بہت خوش ہوں گے۔ چلیے میں چائے لگواتی ہوں سب کے ساتھ آپ بھی پی لیجیے۔اب جو ہم ذرا ان کے قریب پھوپھا کے پاس پہنچے تو جی چاہا کہ ان سے مزاج پوچھنے کے بجائے گھی کا بھاؤ پوچھ لیں۔ چڑھی ہوئی داڑھی۔ بڑا سا پگڑ۔ خوفناک آنکھیں، پہاڑ کا پہاڑ انسان۔ ہماری شادی کے زمانے میں اس شخص پر جھوٹا نہیں بلکہ ڈکیتی کا سچا مقدمہ چل رہا ہوگا۔ آنکھیں چار ہوتے ہی ڈر کے مارے عرض کیا۔ السلام علیکم۔ وہ حضرت ایک دم سے وعلیکم السلام کا بم رسید کرکے حملہ آور ہوگئے اور اس زور سے مصافحہ فرمایا ہے کہ بھتیجی کا سہاگ ٹمٹما کر رہ گیا۔ ابھی ان حضرت سے زور کر ہی رہے تھے کہ ان کی اہلیہ محترمہ بلائیں لینے کو جو آگے بڑھی ہیں تو بیساختہ کلمہ شہادت زبان پر آگیا کہ اس سے بڑی سعادت اور کیا ہے کہ مرنے سے پہلے کلمہ پڑھ سکے آدمی۔ مگر یہ محترمہ یعنی۔ یکے از خوشدامن دعائیں دیتی ہوئی ہٹ گئیں۔ اب جو نظر پڑتی ہے تو ان کے ایک صاحبزادے ہمارا ٹینس کا بلاّ لئے ایک سڈول قسم کے پتھر سے کھیل رہے ہیں اور ہم پر وہ وقت پڑا ہے کہ ہم ان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ وہ بلا ہے جس سے ہم کو لان ٹینس چیمپئن شپ کے میچ کھیلنا ہیں۔ ٹینس کے اس بلے پر فاتحہ بھی پڑھنے نہ پائے تھے کہ ایک نہایت گھناؤنی سی صاحبزادی ایک اس ہاتھ میں اور ایک اس ہاتھ میں دو پیپرویٹ لیے ہوئے نظر آئیں جو ظاہر ہے کہ لکھنے کی میز سے اٹھائے گئے ہوں گے۔ لپک کر لکھنے کی میز کی جو دیکھتے ہیں۔ تو وہاں روشنائی کا سیلاب آچکا ہے اور اکثر ضروری کاغذات روشنائی میں ڈوب کر خشک بھی ہوچکے تھے۔ ابھی رونے کا ارادہ ہی کر رہے تھے کہ ڈریسنگ ٹیبل پر زلزلہ سا آگیا۔چھوٹی بڑی شیشیاں آپس میں ٹکرانے لگیں اور ایک آدھ گر بھی گئی۔ دیکھتے کیا ہیں کہ ایک برخوردار اس کے نیچے سے برآمد ہورہے ہیں۔ جی چاہا کہ سرپیٹ لیں، مگر بیگم نے باہر ہی سے آوازدی کہ چائے لگ گئی ہے۔ لہٰذا خون کے گھونٹ پیتے ہوئے چائے کی اس میز پر آگئے جو مہاجرین کا کیمپ بنی ہوئی تھی۔

آج کا دن

آج کا دن

استنبول سے مدینہ ٹرین سروس کا آغاز1908ء میں آج کے روز ''حجاز ریلوے لائن‘‘ ایک شاندار تقریب کے ساتھ شروع ہوئی جو کہ استنبول سے مدینہ تک پہلی ٹرین سروس تھی۔حجاز ریلوے کو سلطنت عثمانیہ موجودہ ترکی کے سلطان عبدالحمید دوم کے حکم پر شروع کیا گیا تھا تاکہ حج کیلئے مکہ تک سفر کو آسان اور محفوظ بنایا جا سکے۔اس سے پہلے زائرین اونٹوں پر قافلوں کی شکل میں مہینوں نہیں تو ہفتوں کا سفر کر کے مکہ پہنچتے تھے۔ ریلوے کی تعمیر نے 40 دن کا یہ سفر مختصر کر کے صرف پانچ دن کر دیاتھا۔لیبیا میں فوجی انقلابیکم ستمبر 1969ء کو لیبیا کی تاریخ میں ایک بڑا موڑ آیا۔ نوجوان فوجی افسر کرنل معمر قذافی نے اپنے ساتھی فوجی افسروں کے ساتھ مل کربادشاہ ادریس السنوسی کا تختہ الٹ دیا۔ قذافی نے اقتدار سنبھالتے ہی لیبیا کو جمہوریہ قرار دیا ۔ انہوں نے تیل کی آمدنی کو قومیانے اور عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے اقدامات کیے، جس سے لیبیا خطے کے تیل پیدا کرنے والے نمایاں ممالک میں شامل ہوگیا۔یہ انقلاب نہ صرف لیبیا بلکہ پورے عرب دنیا کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرنے کا باعث بنا۔دوسری جنگ عظیم کا آغاز1939ء میں آج کے روز جرمنی کے پولینڈ پر حملے کے نتیجے میں دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی جس میں دنیا کے تقریباً تمام ممالک بشمول تمام بڑی طاقتوں نے حصہ لیا۔دوسری جنگ عظیم تاریخ کا سب سے مہلک تنازع تھا، جس کے نتیجے میں 70 سے 85 ملین ہلاکتیں ہوئیں، جن میں سے نصف سے زیادہ شہری تھے۔اس جنگ کا اختتام 1945ء میں ہوا۔ اتحادی طاقتوں کی فتح کے بعد، جرمنی، آسٹریا، جاپان اور کوریا پر قبضہ کر لیا گیا۔ جرمن اور جاپانی رہنماؤں کے خلاف جنگی جرائم کے ٹربیونل چلائے گئے۔جاپان میں ہولناک زلزلہ یکم ستمبر1923ء کوجاپانی شہروں ٹوکیو اور یوکو ہاما میں ہولناک زلزلہ آیا جسے '' کانٹا کا عظیم زلزلہ‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس زلزلے کی شدت7.9 ریکارڈ کی گئی تھی اورزلزلے کا دورانیہ چار سے دس منٹ کے درمیان تھا۔ زلزلے، آگ کے وسیع طوفان اورزلزلے کے بعد کانٹو میں شروع ہونے والے قتل عام کی وجہ سے تقریباً 3 لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔ جاپان میں یکم ستمبر کو آفات سے بچاؤ کے دن کے طور پر منایا جاتاہے۔