میکسم گورکی کا شاہکار ناول ’’ماں‘‘ نیاز فتح پوریؔ نوشادر

میکسم گورکی کا شاہکار ناول ’’ماں‘‘ نیاز فتح پوریؔ نوشادر

اسپیشل فیچر

تحریر : احمد عقیل روبی


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

میکسم گورکی کا یہ ناول عالمی شہرت رکھتا ہے اور دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ ناول نگاری کی سوسالہ تاریخ میں اس ناول کو سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ناول ’’ماں ‘‘ انقلاب روس سے پہلے کے حالات، جدو جہد اور انقلاب میں عوامی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ناول انقلابِ روس میں عورتوں کی جدوجہد کو Focus کرتا ہے۔ انقلاب سے پہلے روس جن معاشی حالات سے دو چار تھا، عوام کی زندگی جن دشواریوں سے دو چار تھی، زار حکومت میں اندھے قانون اور سوشل نا انصافیوں نے عوام کی زندگی کو کس طرح دوزخ بنا دیا تھا اور پھر وہ سب انقلاب اور تبدیلی لانے کے لیے کیسے کمر بستہ ہوئے۔ یہ سب واقعات اس ناول کے پلاٹ میں شامل ہیں۔ناول ’’ماں‘‘ روسی ادب میں ایک تبدیلی کا باعث بنا۔ انقلابِ روس کو سمجھنے کے لیے اس ناول کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ لینن (Lenin)نے اس ناول کی اہمیت اور پس منظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا:’’یہ ناول بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ مزدور اور محنت کش جو بغیر سوچے سمجھے انقلاب لانے والے قافلے میں شامل ہوئے۔ یہ ناول پڑھ کر انہیں پتا چل جائے گا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا تھا۔‘‘ناول ’’ماں‘‘ کا مرکزی کردار ناول کے ہیرو پافل (Pavel)کی بوڑھی، ان پڑھ ماںPalegea Nilovnaہے جو انقلاب کے فلسفے سے قطعی طور پر لا علم ہے۔ وہ غربت میں پلی بڑھی مظلوم عورت ہے۔ وہ ایک سیدھی سادی عورت ہے جس کی زندگی تشدد اور ظلم سہتے ہوئے بسر ہوئی۔ اس نے اپنے خاوند اور سماج کے ستم برداشت کئے ہیں ۔ اسے اپنے بیٹے پافل سے بہت پیار ہے۔پافل وہ نوجوان ہے جو اپنے باپ کی وفات کے بعد فیکٹری میں ملازم ہو جاتا ہے۔ فیکٹری میں لوگوں سے مل کر انقلابی ذہن رکھنے والے دوستوں سے بحث مباحثے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ صرف مزدور ہی ہیں جو نظام میں ایک تبدیلی لا سکتے ہیں۔ وہ سوشلسٹ دوستوں کے ساتھ مطالعاتی نشستوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ کتابوں کے مطالعے سے اس کے ذہن میں انقلاب جڑیں پکڑ لیتا ہے۔پافل سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہوتا ہے اور گھر کتابیں لانا شروع کرتا ہے۔ گھر میں پافل کے دوستوں کی مجلس جمنا شروع ہوتی ہے۔ پافل کی ماں پہلے پہلے تو بیٹے کے منہ سے نکلے الفاظ سمجھنے سے قاصر ہے لیکن آہستہ آہستہ اسے وہ باتیں اچھی لگنا شروع ہوتی ہیں جو پافل دوستوں سے کرتا ہے اور پھر بوڑھی ماں اپنے آپ کو ان جوان لڑکوں کا حصہ سمجھنا شروع کر دیتی ہے جو سوشلزم کا پرچار کر رہے ہیں اور انقلاب لانا چاہتے ہیں۔پافل کی ماں کے علاوہ اس ناول میں اور بھی کئی نسوانی کردار ہیں۔ ساشا(Sasha)،لڈمیلا(Ludmilla)،صوفیا(Sophia) اور نتاشا(Natasha) اپنے رشتے داروں اور گھر والوں کو چھوڑ کر انقلابیوں کے لیے سب کچھ ٹھکرا دیتی ہے۔ گورکی نے اس کردار کی بُنت اس طریقے سے کی ہے کہ وہ قارئین کا پسندیدہ کردار بن گیا ہے۔ساشا کا کردار ایک لحاظ سے ہیروئین کا ہے۔ وہ پافل سے محبت کرتی ہے۔ جدوجہد کے دوران جیل جاتی ہے۔ جیل کا وارڈن اس سے ہتک آمیز رویہ اختیار کرتا ہے۔ ساشا بھوک ہڑتال کر دیتی ہے اور معافی نہ مانگنے تک ہڑتال جاری رکھتی ہے۔ آٹھ دن تک کچھ نہیں کھاتی۔ وارڈن معافی مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔پافل کی ماں Pelegea Nilovanaصرف پافل کی ماں نہیں اس کے دل میں سب کا مریڈز کے لیے محبت ہے۔ اسے پافل کے ایک دوست (Andrei Nikhodka) سے بہت پیار ہے جو یوکرائن کا رہنے والا ہے۔ وہ ہمیشہ اسے (Nenko)کہہ کر بلاتا ہے جو یوکرائن کی زبان میں ’’ماں‘‘ کو کہتے ہیں۔ پافل کی ماں کا غصہ اس وقت دیکھنے کے قابل ہوتاہے جب فیکٹری کی انتظامیہ علاقے کی بہتری کے لیے ہر مزدور کی تنخواہ سے ایک(Kopek)کاٹنا شروع کر دیتی ہے۔ پافل اس زیادتی کے خلاف احتجاج کرتا ہے اور ایک جلوس نکالنے کی تیاری کرتا ہے لیکن اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔پافل کی ماں کا اب ایک اور روپ سامنے آتا ہے۔ فیکٹری کے اندر سوشلزم کا لٹریچر لے جانے پر پابندی ہے۔ وہ اپنے کپڑوں میں چھپا کرپمفلٹ اندر لے جاتی ہے اور مزدوروں کو خبریں پہنچاتی ہے۔یومِ مئی کا واقعہ ناول میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ پافل پر مقدمہ چلتا ہے۔ وہ عدالت میں جج کے سامنے زور دار تقریر کرتا ہے اور کہتا ہے:’’ہم اس نظام کیخلاف ہیں جس نظام کی حفاظت کے لیے تمہیں کرسی پر بٹھایا گیا ہے۔ تم روحانی طور پر اس نظام کے غلام ہو اور ہم جسمانی طور پر۔ ہمارے اور تمہارے درمیان نظام کی تبدیلی تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔‘‘اندر بیٹا تقریر کر رہا ہے اور باہر ماں کو لوگ بیٹے کی جرأت کی داد دے رہے ہیں۔پافل کو سائبیریا جلا وطنی کی سزادی جاتی ہے۔ ماں لوگوں کے سامنے تقریر کرتی ہے اور کہتی ہے:’’اگر ہمارے بیٹے جو ہمارے دل کے ٹکڑے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کے لیے جان دے سکتے ہیں تو ہم اپنی جانوں کی قربانی کیوں نہیں دے سکتے‘‘۔ناول کا یہ حصہ بہت جذباتی اور متاثر کن ہے۔ پافل کو سائبیریا روانہ کیا جانے والا ہے۔ماں اس کی تقریر چھپوا کر لوگوں میں بانٹنا چاہتی ہے۔ چنانچہ وہ چوری چھاپہ خانے میں جاتی ہے۔ پافل کی تقریر سائیکلو سٹائل کراتی ہے۔ اسٹیشن پر جاتی ہے اور لوگوں میں تقریر کے صفحات بانٹتی ہے۔ زارِ حکومت کے سپاہی اسے مارتے ہیں، اس کے بال نوچتے ہیں، ٹھڈے مارتے ہیں، وہ مار کھاتی رہتی ہے اور چلاتی رہتی ہے:\"Not Even an Ocean of Blood Can Drown The Truth\"

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
خودکار ہتھیاروں کی عالمی نگرانی:اقوام متحدہ کی کاوشیں اور درپیش چیلنجز

خودکار ہتھیاروں کی عالمی نگرانی:اقوام متحدہ کی کاوشیں اور درپیش چیلنجز

جدید دور میں جنگی حکمت عملی اور ہتھیاروں کے استعمال میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) کی ترقی نے خودکار ہتھیاروں کے میدان میں ایک نیا انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہ ہتھیار جو خود مختاری کے ساتھ فیصلے کر سکتے ہیں روایتی جنگی ہتھیاروں سے مختلف اور زیادہ خطرناک ہیں۔خودکار ہتھیاروں میں انسانی مداخلت کے بغیر حملے کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ ہتھیار مخصوص الگورتھمز اور ڈیٹا کے ذریعے ہدف کو پہچانتے ہیں اور کارروائی کرتے ہیں۔ ڈرون، روبوٹ اور خودکار بندوقیں جدید جنگوں میں استعمال ہونے والے چند اہم خودکار ہتھیار ہیں۔خودکار ہتھیار جو بغیر کسی انسانی کنٹرول کے کام کرتے ہیں، عالمی سطح پر متنازع بن چکے ہیں۔ کچھ ممالک کا ماننا ہے کہ ان ہتھیاروں کے استعمال سے شہریوں کو کم نقصان پہنچے گا جبکہ انسانی حقوق کے ماہرین اور بین الاقوامی تنظیمیں اس پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ خودکار ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ کئی اخلاقی، قانونی اور سکیورٹی چیلنجز سامنے آ رہے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا مشینوں کو انسانوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کرنے کا اختیار دینا درست ہے؟ ایسے ہتھیار غلطی سے غیر متعلقہ افراد کو نشانہ بنا سکتے ہیں، جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خطرہ ہے۔بین الاقوامی قوانین کے مطابق جنگ کے دوران شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔ لیکن خودکار ہتھیاروں کی غیر متوقع حرکتیں اور غلط فیصلے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں۔ کئی ممالک اور ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ ان ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی یا سخت قوانین بنائے جائیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کے استعمال میں انسانی مداخلت ضروری ہے تاکہ غلطی یا غیر ارادی نقصان کو کم کیا جا سکے۔ مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے ہمیشہ اخلاقی اور انسانی اصولوں کے مطابق نہیں ہوتے، اس لیے ایک نگرانی کا نظام قائم کرنا اہم ہے۔کئی ممالک اور تنظیمیں عالمی سطح پر ایسے معاہدے کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جن کے تحت خودکار ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کو محدود کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر اس معاملے پر بحث جاری ہے تاکہ انسانیت کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔خودکار ہتھیاروں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے استعمال نے دنیا کو ایک نیا چیلنج دیا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ عالمی برادری اس مسئلے پر غور کرے اور ایسی پالیسیز وضع کرے جو انسانی حقوق اور عالمی امن کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ ہتھیار عالمی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند دہائیوں میں خودکار ہتھیاروں اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے چلنے والے سسٹمز نے جنگوں کے طریقہ کار کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ یوکرین سے غزہ تک جدید خودکار ہتھیار میدان جنگ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان ہتھیاروں کا استعمال اور ترقی تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن ان کے استعمال کو قواعد و ضوابط کے تحت لانے کی عالمی کاوشیں اب تک ناکام رہی ہیں۔خود کار اور خود مختار ہتھیاروں کے بڑھتے استعمال اور اس سے جڑے خطرات کے پیش نظر اس سال 12 مئی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خودکار ہتھیاروں پر عالمی سطح پر ضوابط کے قیام کے حوالے سے پہلی بار خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا مقصد ان ہتھیاروں کے استعمال کے خطرات اور اخلاقی چیلنجز پر غور کرنا تھا۔ خودکار ہتھیاروں کے حوالے سے بات چیت کا یہ سلسلہ 2014ء سے جاری ہے جب کنونشن آن کنونشنل ویپنز(CCW) کے تحت ممالک نے جنیوا میں مکمل طور پر خودکار ہتھیاروں پر پابندی کے امکان پر غور شروع کیا تھا۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے 2026 ء تک خودکار ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے عالمی اصول وضع کرنے کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے تاہم انسانی حقوق کے ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ حکومتوں کے درمیان اتفاق رائے کی کمی اس ہدف کو مشکل بنا رہی ہے۔اقوام متحدہ کے اجلاس میں دنیا کے 164 ممالک نے ایک قرارداد کی حمایت کی جس میں خودکار ہتھیاروں کے خطرات سے نمٹنے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا، تاہم امریکہ، روس، چین اور بھارت نے اس عالمی معاہدے پر اعتراض کیا ہے۔تکنیکی ترقی اور انسانی حقوقموجودہ حالات میں خودکار ہتھیاروں کے تیز رفتار پھیلاؤ کے پیش نظر عالمی قوانین کی عدم موجودگی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ روس کے 'Veter‘ کامی کازی ڈرونز اور یوکرین کے نیم خودکار ڈرونز اس کی ایک مثال ہیں کہ خودکار ہتھیاروں کا استعمال جنگی حکمت عملی میں اضافہ کر رہا ہے۔اس پرانسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق، بغیر نگرانی کے خودکار ہتھیاروں کا استعمال نہ صرف انسانی حقوق کیلئے خطرہ ہے بلکہ ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا بھی موجب بن سکتا ہے۔ماہرین کا مؤقفماہرین کے مطابق دفاعی کمپنیوں کو خودکار ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے خود مختار نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ''سٹاپ کلر روبوٹس‘‘ کی مہم سے منسلکLaura Nolan کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں پر اعتماد کرنا غیر منطقی ہوگا کیونکہ دفاعی صنعت کا مفاد ہمیشہ عالمی سلامتی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتا۔اقوام متحدہ کے اس اجلاس کو اس بات کا امتحان سمجھا جا رہا ہے کہ آیا عالمی برادری خودکار ہتھیاروں کے حوالے سے کوئی مشترکہ لائحہ عمل اپنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی، یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا عسکری طاقت رکھنے والے ممالک عالمی امن کی خاطر اپنے مفادات کو پس پشت ڈالنے کیلئے تیار ہوں گے یا نہیں۔ 

انگلیاں کینسر کا پیغام دیتی ہیں!

انگلیاں کینسر کا پیغام دیتی ہیں!

ہم اکثر سوچتے ہیں کہ کینسر جیسی خطرناک بیماری کی علامات صرف بڑے پیمانے پر ظاہر ہوتی ہیں، مثلاًمسلسل کھانسی، وزن میں واضح کمی، یا کسی گلٹی کا اْبھر آنا۔ لیکن کبھی کبھی ہمارا جسم بہت خاموشی سے، نہایت نفاست کے ساتھ ایک وارننگ دیتا ہے اور یہ وارننگ کہیں اور نہیں بلکہ ہماری اپنی انگلیوں کی پوروں پر لکھی ہوتی ہے۔جی ہاں، انگلیوں کی نوک میں ہونے والی ایک عام سی تبدیلی، جسے اکثر لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں، دراصل ایک مہلک بیماری کی ابتدائی جھلک ہو سکتی ہے۔ ایک حالیہ طبی تحقیق میں انکشاف کیاگیا ہے کہ انگلیوں کی نوک میں ہونے والی معمولی تبدیلی بعض اوقات مہلک کینسر، خاص طور پر پھیپھڑوں کے کینسر، کی ابتدائی علامت ہو سکتی ہے۔ ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ اگر لوگوں کی انگلیوں کی پوریں نرم ہو جائیں، یا ناخن کے نیچے جلد کا حصہ پھول جائے، تو یہ ''کلبنگ‘‘ (Clubbing) کی علامت ہو سکتی ہے، جو جسم میں آکسیجن کی کمی اور کسی خطرناک بیماری کا اشارہ دے سکتی ہے۔''کلبنگ‘‘ کیا ہے؟میڈیکل سائنس میں جس تبدیلی کو ''کلبنگ‘‘ ( Clubbing) کہا جاتا ہے، وہ ایک ایسی حالت ہے جس میں انگلیوں کی نوک نرم ہو جاتی ہے، ناخن مڑے ہوئے یا چمچ جیسے دکھنے لگتے ہیں اور انگلیوں کے سرے موٹے ہو جاتے ہیں، جیسے کسی نے ان پر غیر مرئی ہوا بھر دی ہو۔یہ تبدیلی دیکھنے میں بے ضرر لگتی ہے، مگر اس کے پیچھے جسم کی ایک خاموش چیخ چھپی ہوتی ہے، جو اکثر پھیپھڑوں، دل یا جگر کی شدید بیماریوں، خصوصاً پھیپھڑوں کے کینسر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جب ناخنوں نے جان بچائی،سچا واقعہکراچی کی 42 سالہ ثمینہ ملک ایک اسکول ٹیچر ہیں۔ انھیں چند ماہ سے سانس لینے میں معمولی سی تکلیف محسوس ہو رہی تھی، مگر انھوں نے اسے موسم یا تھکن کا نتیجہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ ایک دن ان کی بیٹی نے مذاقاً کہا: امی آپ کے ناخن تو ایسے لگتے ہیں جیسے چھوٹے چمچے ہوں!۔یہی جملہ ثمینہ کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا، جہاں معائنے اور سی ٹی اسکین کے بعد ان میں پھیپھڑوں کے ابتدائی مرحلے کا کینسر تشخیص ہوا۔ مرض کی تشخیص ہونے پر ان کا علاج بروقت شروع ہوا اور آج ثمینہ صحت مند زندگی گزار رہی ہیں۔یہ تبدیلی کیوں ہوتی ہے؟کلبنگ اس وقت ہوتا ہے جب جسم کے مختلف حصوں، خاص طور پر انگلیوں تک آکسیجن کی ترسیل متاثر ہوتی ہے۔ جب آکسیجن کی کمی مستقل ہو، تو جسم ناخنوں کے نیچے موجود بافتوں میں خون کی روانی بڑھا دیتا ہے، جس سے وہ موٹے اور نرم ہو جاتے ہیں۔یہ کیفیت مختلف بیماریوں کی علامت ہو سکتی ہے، جن میں شامل ہیںپھیپھڑوں کا کینسر،پھیپھڑوں میں ریشہ ،دل کی پیدائشی بیماریاں،کچھ جگر اور معدے کی بیماریاںوغیرہ۔خود تشخیص کیسے کریں؟کلبنگ کی پہچان کیلئے ایک سادہ سا ٹیسٹ موجود ہے جسے ''شیمروتھ سائن‘‘ (Schamroth Signs) کہا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ آپ گھر میں خود بھی کر سکتے ہیں۔ اپنی دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو ایک دوسرے سے ایسے ملائیں کہ ناخن ایک دوسرے کو چھوئیں۔اگر ناخنوں کے درمیان ایک چھوٹا سا تکونی خلا نظر آتا ہے، تو یہ نارمل ہے۔اگر وہ خلا غائب ہے اور ناخن بالکل جڑے ہوئے ہیں، تو یہ کلبنگ کی ممکنہ علامت ہو سکتی ہے۔یاد رکھیں، یہ صرف ایک اشارہ ہے، حتمی تشخیص ہمیشہ ماہر ڈاکٹر ہی کرے گا۔چھوٹا اشارہ، بڑی بچتانگلیوں کی یہ نرم، خاموش سرگوشی ہمیں وقت سے پہلے خطرے سے آگاہ کر سکتی ہے۔ یہ وہ موقع ہے جب ایک عام سی علامت غیرمعمولی معنویت اختیار کر لیتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ یا تو اسے خوبصورتی کا مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، یا پھر کسی روایتی علاج سے قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔اپنی انگلیوں سے بات کرنا سیکھیںہمارا جسم ایک حیران کن مشین ہے اور یہ مشین اکثر ہمیں اشاروں میں بہت کچھ بتاتی ہے۔ انگلیوں کی یہ معمولی تبدیلی ایک خاموش الارم ہے۔ اگر ہم سنجیدگی سے اس پر توجہ دیں، تو وقت سے پہلے قدم اٹھا کر نہ صرف کینسر کی شناخت ممکن ہے، بلکہ کئی زندگیاں بھی بچائی جا سکتی ہیں۔کیوں نہ آج ہی اپنے ناخنوں کو غور سے دیکھیں؟ شاید وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

''عالمی یوم عجائب گھر‘‘18مئی کو دنیا بھر میں ''عالمی یوم عجائب گھر‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کی منظوری اقوام متحدہ نے 1977ء میں ماسکو میں ہونے والے اجلاس میں دی تھی جس کی سفارش عجائب گھروں کی تنظیم انٹرنیشنل کونسل آف میوزیم نے کی تھی اور 1978ء سے یہ دن ہر سال باقاعدگی کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے عوام میں تہذیب اور تاریخ کے ساتھ ماضی کو محفوظ رکھنے اور اس کے مسلسل مطالعے کا شعور پیدا کرنا ہے۔ وکسبرگ کا محاصرہامریکی خانہ جنگی کے دوران 18 مئی 1863ء میں وکسبرگ کا محاصرہ ایک بڑی فوجی کارروائی تھی۔ ٹینیسی کی فوج نے دریائے مسیسیپی کو عبور کیا اور لیفٹیننٹ جنرل جان سی پیمبرٹن کی قیادت میں کنفیڈریٹ آرمی آف مسیسیپی کو چاروں طرف سے دفاعی محاصرے میں لے لیا۔ وِکسبرگ دریائے مسیسیپی پر کنفیڈریٹ کا آخری بڑا گڑھ تھا۔ لہٰذا اس پر قبضہ کرنے سے شمالی حکمت عملی، ایناکونڈا پلان کا دوسرا حصہ مکمل ہوا۔ چالیس دن کے بعدسامان ختم ہونے پر گیریژن نے ہتھیار ڈال دیے۔تاتاریوں کی جلاوطنیکریمیائی تاتاریوں کی جلا وطنی دراصل ایک ثقافتی نسل کشی تھی جوجوزف سٹالن کی جانب سے سوویت ریاستی پولیس کی سربراہی میں کی گئی۔18مئی 1944ء کو تاتاری بچے، بوڑھوں اور خواتین کو جلاوطن کرنے کیلئے مویشی لے جانے والی ٹرینوں کا استعمال کیا گیا۔تمام لوگوں کو سوویت افواج کی سربراہی میں روانہ کیا گیا۔یہ لوگ ان متعدد نسلوں میں سے ایک تھے جو سوویت یونین میں سٹالن آبادی کی منتقلی کی پالیسی میں شامل تھے۔اصل میں اس جلاوطنی کا مقصد ان تاتاریوں کو سزا دینا تھا جن پر نازی جرمنی کا ساتھ دینے اور تعاون کرنے کا الزام تھا۔جلاوطنی کے دوران تقریباً دو لاکھ افرادکا قتل عام کیا گیا۔پائلٹ جیکولین کوچران کا ریکارڈ جیکولین کوچران کا شمار امریکی ریسنگ پائلٹس میں ہوتا ہے۔ جیکولین نے متعدد ریکارڈ اپنے نام کئے۔ 18 مئی 1953ء کو آواز کی رفتار کو عبور کرنے والی یہ دنیا کی پہلی خاتون پائلٹ تھیں۔ان کا شمار امریکہ کی ان خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے جنگی حالات میں بھی جہاز اڑانے کی تربیت حاصل کر رکھی تھی۔جاسوس کو سزائے موتالیاہو بین شاوّل کوہن جسے عرف عام میں ایلی کوہن کہا جاتا ہے، ایک مصری نژاد اسرائیلی جاسوس تھا۔ وہ شام میں 1961ء سے 1965ء تک اپنی جاسوسی کیلئے مشہور تھا۔ جہاں اس نے شام کے سیاسی اور فوجی رہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے تھے۔شامی کاؤنٹر انٹیلی جنس نے بالآخر جاسوسی کا پردہ فاش کیا اور کوہن کو اپنے قانون کے مطابق مجرم ٹھہرایا۔ اسے 18مئی 1965ء کو سزائے موت سنائی گئی اور سرعام پھانسی دی گئی۔

یاد رفتگاں ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘کے خالق  اصغر سودائی

یاد رفتگاں ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘کے خالق اصغر سودائی

ہمہ پہلو شخصیت کے مالک شاعر، ماہر تعلیم ، ادیب اور افسانہ نگاربھی تھےاصغر سودائی ایک ہمہ پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ادیب، شاعر اور ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے افسانہ نگار بھی تھے۔ طالب علمی کے دور میں انہوں نے تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن کے طور پر کام کیا، گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور ان دنوں تحریک پاکستان کا سب سے بڑا مرکز تھا جہاں وہ زیرتعلیم تھے۔ اسلامیہ کالج کے جلسوں میں اصغر سودائی اپنے ولولہ انگیز کلام سے لوگوں کے دلوں کو گرماتے۔ انہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔انہیں قائد اعظمؒ سے بے پناہ محبت تھی۔ ایک بار قائد اعظم ؒ نے خود یہ کہا تھا کہ تحریکِ پاکستان میں 25فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے۔پروفیسر اصغر سودائی تحریک پاکستان کے ممتاز اراکین میں سے ایک ہیں، جن کا نعرہ ''پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ ابھی تک زندۂ جاوید ہے اور یہ نعرہ ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔پروفیسر سودائی نے 1944ء میں اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک پاکستان کے دوران ایک نظم ''ترانہ پاکستان‘‘کہی تھی اور یہ بے مثال مصرع اسی نظم کا ہے۔ مذکورہ بالا نعرہ پاکستان کی مذہبی شناخت بن گیا۔ 26ستمبر1926ء کو سیالکوٹ میں جنم لینے والے اصغر سودائی کا اصل نام محمد اصغر تھا اور تخلص سودائی تھا۔ان کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے مختلف حوالہ جات ملتے ہیں۔ وہ مرے کالج میں بھی زیر تعلیم رہے ،یہ وہی درس گاہ ہے جس میں علامہ اقبالؒ اور فیض احمدفیض جیسی قد آور شخصیات نے اپنی علمی پیاس بجھائی۔انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کی اور پنجاب یونیورسٹی سے اقتصادیات میں ایم اے کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے شعبہ تعلیم کو اپنا پیشہ بنایا، اسلامیہ کالج سیالکوٹ اور علامہ اقبال کالج سیالکوٹ کے پرنسپل کے طور پر کام کرتے رہے اور ڈائریکٹر ایجوکیشن پنجاب بھی رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سیالکوٹ کالج آف کامرس اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن کی ایڈوائزی کونسل کے رکن بھی رہے۔ دوران ملازمت انہوں نے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ ان کانعتیہ مجموعہ ''کلام شہ دوسرا‘‘ اور شعری مجموعے ''کرن گھٹا کی طرح‘‘، ''چلن صبا کی طرح‘‘ اور ''بدن حنا کی طرح‘‘ اشاعت پذیر ہوئے۔ انہیں ان کی خدمات حکومت کی طرف سے ''تمغۂ حسنِ کارکردگی‘‘ سے نوازا گیا۔ انہیں سیالکوٹ کی ادبی فضا میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ عمر بھر شعر و ادب سے وابستہ رہے۔ ہمعصروں سے محبت اور جونیئرز سے شفقت ان کا معمول تھا۔ اصغر سودائی سیالکوٹ کے ایک مشہور ریسٹورنٹ میں اکثر جایا کرتے تھے، یہ لاہور کے پاک ٹی پائوس کی طرز کا ریسٹورنٹ ہے،جہاں عموماًشعراء ، صحافی اورادب سے دلچسپی رکھنے والے حضرات جمع ہوتے تھے۔ پروفیسر اصغر سودائی وہاں آنے والے لوگوں کو تحریک پاکستان، قائداعظم ؒ کے سیالکوٹ کے دورے اور اپنے مصرعے کے متعلق دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے۔اسی وجہ سے لوگ انہیں تحریک پاکستان کا چلتا پھرتا ''انسائیکلوپیڈیا‘‘ بھی کہتے تھے۔ ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ یہ مصرع ''پاکستان کا مطلب کیا‘‘ آپ کے ذہن میں کیسے آیا؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ جب لوگ پوچھتے تھے پاکستان کا مطلب کیا ہے تو میرے ذہن میں آیا کہ سب کو بتانا چاہئے کہ ''پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ اس نعرے نے بہت مقبولیت حاصل کی اور پھر سب کو تسلیم کرنا پڑا کہ تحریک پاکستان اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہیں۔ کردار سازی اور انسان دوستی ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا وہ شرافت اور سادگی کا مجسمہ تھے۔ اکثر پیدل سفر کرتے تھے۔ پروفیسر اصغر سودائی کے شاگردوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔ ان شاگردوں میں زیادہ تر نے سودائی صاحب کا اسلوبِ حیات اپنایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اصغر سودائی نے اپنے بہت سے شاگردوں کو متاثر کیا۔ انہوں نے زندگی کو نئے معانی دیئے اور فکر کے ایسے چراغ روشن کئے کہ بعد میں آنے والے لوگوں نے ان سے روشنی پائی۔اصغر سودائی کی عادت تھی کہ وہ اپنی قمیض کا اوپر والا بٹن بھی بند رکھتے تھے۔ ان کا موقف تھا وضع داری کا تقاضا ہے کہ اساتذہ کے سامنے قمیص کے سارے بٹن بند ہونے چاہئیں۔ انہوں نے ساری زندگی تعلیم و ادب کی آبیاری میں گزاری۔ اصغر سودائی کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔اس کا انداز دلربا میں تھادیکھتا وہ تھا آئینہ میں تھارات دل کھول کر کئے ہیں سخنایک میں اور دوسرا میں تھاایک اور غزل کے خوبصورت اشعار قارئین کی نذر ہیں۔جب آنکھ میں تری صورت سمائی لگتی ہےمجھے خود اپنی نظر ہی پرائی لگتی ہےیہ تیرا قحطِ تبسم میں کھلھلا دینامجھے تو صورتِ رنج آشنائی لگتی ہےلگی ہیں تہمتیں اصغر تری شرافت پرنظر میں شر ہو تو نیکی برائی لگتی ہے17مئی 2008ء کو اصغر سودائی اس جہانِ رنگ و بو سے کوچ کر گئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر 81برس تھی۔وفات سے تقریباً چار پانچ سال پہلے ان پر فالج کا حملہ ہواتھا۔ اپنی گراں قدر علمی و ادبی خدمات کی بدولت ان کا نام تادیر زندہ رہے گا ۔ایک غزل کے چند اشعارباندھا ہے اس شوخ سے پیمان محبتپل بھر میں جو دروازے کو دیوار کرے ہےپھول کو یوں نہ لگا منہ کہ غضب ہو جائےبرگ گل کو تو ہوس ہے ترا لب ہو جائےیہ بھی امکاں ہے کہ دیوار کا پہلا پتھرساری دیوار کے گرنے کا سبب ہوجائےعقل کا پردہ تہذیب کہاں تک اصغرآدمی اصل میں دیوانہ ہے ، جب ہو جائےاصغر سودائی کا لافانی ترانہپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہشب ظلمت میں گزاری ہےاٹھ وقت بیداری ہےجنگ شجاعت جاری ہےآتش و آہن سے لڑ جاپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہہادی و رہبر سرور دیںصاحب علم و عزم و یقیںقرآن کی مانند حسیںاحمد مرسل صلی علیپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہچھوڑ تعلق داری چھوڑاٹھ محمود بتوں کو توڑجاگ اللہ سے رشتہ جوڑغیر اللہ کا نام مٹاپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہجرات کی تصویر ہے توہمت عالمگیر ہے تودنیا کی تقدیر ہے توآپ اپنی تقدیر بناپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہنغموں کا اعجاز یہیدل کا سوز و ساز یہیوقت کی ہے آواز یہیوقت کی یہ آواز سناپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہپنجابی ہو یا افغانمل جانا شرط ایمان ایک ہی جسم ہے ایک ہی جانایک رسولؐ اور ایک خداپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہتجھ میں ہے خالد کا لہوتجھ میں ہے طارق کی نموشیر کے بیٹے شیر ہے توشیر بن اور میدان میں آپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہمذہب ہو تہذیب کہ فنتیرا جداگانہ ہے چلناپنا وطن ہے اپنا وطنغیر کی باتوں میں مت آپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہاے اصغر اللہ کرےننھی کلی پروان چڑھےپھول بنے خوشبو مہکےوقت دعا ہے ہاتھ اٹھاپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہزرق زیب شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں، ان کے تحقیقی و معلوماتی مضامین مختلف جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں 

قطب جنوبی برف سے ڈھکا براعظم

قطب جنوبی برف سے ڈھکا براعظم

66درجے عرض بلد جنوبی سے نیچے جو علاقہ ہے اسے قطب جنوبی انٹارکٹیکا کہتے ہیں۔ قطب جنوبی تقریباً 53لاکھ مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تمام تر وسعتوں میں جمی ہوئی برف کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ دنیا کی 90فیصدبرف یہاں جمع ہے۔ قطب جنوبی عالمی موسم پر ہی اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے سمندروں کو ہزاروں میل تک متاثر کرتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یہاں زندہ رہنا ناممکن تھا لیکن مختلف سائنسی ایجادات اور اختراعات نے یہ مشکل بھی آسان کر دی۔ اب جاپان، آسٹریلیا، امریکہ، برطانیہ، نیوزی لینڈ، بیلجئم، ناروے، ارجنٹینا، چلی اور فرانس نے یہاں اپنے اڈے اور تجربہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ ماہرین طبقات الارض کا کہنا ہے کہ کسی زمانے میں قطب جنوبی، امریکہ، افریقہ، ہندوستان اور آسٹریلیا سے ملا ہوا تھا لیکن کروڑوں برس پہلے زمین کی داخلی قوتوں نے اس کی سطح کو کچھ یوں تہ و بالا کردیا کہ مختلف براعظم ایک دوسرے سے پرے ہٹ گئے اور ان کے درمیان سمندر حائل ہو گئے۔ قطب جنوبی میں کوئلے، لوہے، کرومیم، تانبے، سرمے، ٹین اور یورینیم کی موجودگی کا سراغ بھی ملا۔ قیاس ہے کہ یہاں تیل کے ذخائر بھی موجود ہیں لیکن ان معدنی وسائل سے استفادہ کرنا مشکل ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دوسرے براعظموں میں جب معدنی وسائل کماحقہ ختم ہو جائیں گے تو ہم اپنی ضروریات کی تکمیل کیلئے قطب جنوبی کے معدنی وسائل بروئے کار لانے کی فکر کریں گے۔قطب جنوبی پر پانی کمیاب ہے اور اسی سبب سے گراں قیمت بھی۔ اس کے باوجود یہاں کی برفانی چوٹیوں میں ٹھوس شکل میں پانی کا اتنا ذخیرہ موجود ہے جو دنیا بھر کے دریائوں اور جھیلوں کے پانی کی مجموعی مقدار سے بھی زیادہ ہے۔ صحرائے اعظم میں تو پھر بھی کہیں نہ کہیں پانی مل جاتا ہے لیکن یہاں پانی کا ملنا محال ہے۔ جب ذرا گرمی کا موسم آتا ہے تو کہیں کہیں چھوٹے تالاب نمودار ہو جاتے ہیں لیکن گرمی کے رخصت ہوتے ہی پھر برف میں بدل جاتے ہیں۔ سائنسدان اپنے پینے اور دوسرے استعمال کیلئے برف پگھلا کر پانی حاصل کرتے ہیں۔یہاں پر جنوبی سمندر میں کئی ایک جزیرے ہیں جو بالکل بنجر اور ہر وقت طوفانی ہوائوں کی زد میں رہتے ہیں۔ ان میں سینٹ اکینز سینڈوچ آ ئی لینڈ، آئس لینڈ، پیٹر آئی لینڈ اور کرجیلین وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔قطب جنوبی کی دریافت کیلئے سب سے پہلے برطانوی مہم جو کیپٹن جیمز کک نے 1772-73ء میں بحری سفر کیا اور اس دشوار گزار حلقے کو عبور کیا۔1889ء میں ولیم سمتھ نے چند ایک جزائر کا پتہ لگایا اور ان کا نام جنوبی شیٹ لینڈ رکھا۔ اسی زمانے میں ایک روسی جہاز رواں بلنگ شوسن بھی قطب جنوبی کی طرف معلومات حاصل کرنے کیلئے روانہ ہوا۔ اس نے سینڈوچ کے جزیرے کا کھوج لگایا۔ ان کے نام اپنے بادشاہوں کے اعزاز میں پیٹر اوّل اور الیگزینڈر اوّل رکھے۔1823ء میں ایک مہم جو ویڈل 74درجے عرض بلد تک چلا گیا۔1830ء کے لگ بھگ گراہم لینڈ کا انکشاف ہوا۔1840ء میں کیپٹن جے سی اور کیپٹن ہو کر نے ایک جزیرے کا انکشاف کیا جس کا نام وکٹوریہ لینڈ رکھا گیا۔ اس جزیرے میں سب سے پہلے بلجیئم کے جہاز راں گرلاشے نے سردیوں کے دن گزارے تھے جو 1898ء میں موسم سرما میں یہاں پر رہا۔1901ء میں ڈسکوری نامی جہاز کے ذریعے آر ایف اسکاٹ نے ایک جزیرہ ایڈورڈ ہفتم لینڈ دریافت کیا۔ انہیں دنوں ایک جرمن جہاز راں نے بحرویڈل کی مہم شروع کی اور بحرویڈل کے جنوب مشرقی کنارے کی طرف ایک برفانی دیوار کا انکشاف کیا جہاں پر شیکلٹن 1908ء یا 1909ء میں برف کے دشوار گزار راستوں سے ہوتا ہوا پہنچا۔ وہاں سے قطب جنوبی صرف 111میل دور رہ جاتا ہے۔14ستمبر1911ء کو ورلڈ ایمنڈسن قطب جنوبی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور جنوری 1912ء میں اسکاٹ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ وہاں تک پہنچ گیا۔ اس نے ایمنڈسن کے خیمے کو وہاں دیکھا۔ ایمنڈسن واپسی پر برفانی تھپیڑوں کا مقابلہ نہ کر سکا تھا اور مارا گیا تھا۔ شیکلٹن قطب جنوبی کے دوسرے سفر پر نکلا اور راستے میں ہی ہلاک ہو گیا۔ ویلکنس نے ہوائی جہاز کے ذریعے قطب جنوبی کا سفر کیا اور یہ انکشاف کیا کہ یہ جزیرہ نما نہیں بلکہ چند جزائر کا مجموعہ ہے۔ایڈمرل بانٹرڈ نے طیارے کے ذریعے 19 گھنٹوں میں قطب جنوبی کے گرد چکر لگایا۔ 1931ء میں ایس لارنس نے کوئین موڈ لینڈ کا انکشاف کیا اور قطب جنوبی کے جزائر کا مکمل چکر لگایا۔1936ء میں لنکن السورتھ نے اس کی پیمائش کی۔ اس کا طیارہ راستے میں ہی ٹوٹ کر تباہ ہو گیا مگر ایک انگریز جہاز راں نے اس کی جان بچائی۔ اس طرح قطب جنوبی کی مکمل دریافت ہوئی۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ٹیلی کمیونی کیشن اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈے دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے اور اس دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونی کیشن کی اہمیت سے سب اچھی طرح واقف ہیں۔آج دنیا بھر میں ٹیلی کمیونی کیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا عالمی دن منایاجا رہا ہے۔ 17مئی کو اس دن کو منانے کا مقصد دورحاضر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی افادیت کے بارے میں عوام الناس کو آگاہ کرنا اور ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے اس کے پھیلاؤ میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔دنیا میں سب سے پہلے ٹیلی کمیونی کیشن کا دن1969ء میں منایا گیاتھا۔17مئی 1965ء میں ٹیلی کمیونیکیشن ڈے کو ''ورلڈ انفارمیشن سوسائٹی ‘‘کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔بیلجیئم پر قبضہ دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی کی جانب سے بیلجیئم پر حملہ کیا گیا۔ حملہ10مئی 1940ء کو کیا گیا لیکن 17مئی تک جرمن افواج نے بیلجیئم کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔جرمن افواج کے سامنے بیلجیئم کی افواج نے ہتھیار ڈال دیئے جس کے نتیجے میں جرمنی اس ملک پر قابض ہوا۔10 مئی 1940ء کو جرمنی نے آپریشنل پلان فال گیلب (کیس یلو) کے تحت لکسمبرگ، نیدرلینڈز اور بیلجیم پر حملہ کیا۔ اتحادی فوجوں نے بیلجیئم میں جرمن فوج کو روکنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔نیو یارک سٹاک ایکسچینج کا قیامبٹن ووڈ معاہدہ(Buttonwood Agreement) کے تحت نیویارک سٹاک ایکسچینج کا قیام عمل میں آیا۔ اس لئے اس معاہدہ کو نیویارک سٹاک ایکسچینج کا بانی دستاویز بھی قرار دیا جاتا ہے۔یہ امریکی تاریخ کا ایک اہم ترین مالیاتی معاہدہ تھا۔ معاہدے کیلئے نیویارک شہر میں تجارت کااہتمام گیا اور17مئی1792ء کو 68وال سٹریٹ سے باہر سٹاک بروکرز کے درمیان اس پر دستخط کئے گئے۔ یہ دستخط بٹن ووڈ کے درخت کے نیچے کئے گئے تھے اس لئے اس معاہدے کا نام بٹن ووڈ رکھا گیا۔لبنان معاہدہلبنانی خانہ جنگی کے دوران 17مئی 1983ء کو اسرائیل نے سابق معاہدے کو ختم کرتے ہوئے لبنان کے سرحدی علاقوں پر حملہ کر کے بیروت کا محاصرہ کر لیا۔اس محاصر ے کو ختم کرنے کیلئے لبنان اور اسرائیل کے درمیان ایک نیا معاہدہ طے پایا جس کے مطابق اسرائیل اپنی فوج لبنانی علاقوں سے واپس بلائے گا اور آئندہ بھی لبنانی خود مختاری کا احترام کرئے گا۔