شوکت حسین رضوی… ایک بے مثال ہدایتکار بھارت اور پاکستان میں ان کا یکساں طور پر احترام کیا جاتا تھا

شوکت حسین رضوی… ایک بے مثال ہدایتکار بھارت اور پاکستان میں ان کا یکساں طور پر احترام کیا جاتا تھا

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

دلیپ کمار نے ایک مرتبہ کہا تھا ’’میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے شوکت حسین رضوی جیسے ہدایتکار نے اپنی فلم ’’جگنو‘‘ میں نور جہاں کے مقابل ہیرو کاسٹ کیا۔ اس فلم کی شاندار کامیابی کے بعد پھر میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘‘۔دلیپ کمار بالکل درست کہتے ہیں۔ ان کی پہلی تین فلمیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی تھیں لیکن پھر 1947ء میں ’’جگنو‘‘ ریلیز ہوئی جس نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ اس فلم سے نہ صرف دلیپ کمار کے کیریئر کو ایک نئی سمت مل گئی بلکہ اس فلم سے محمد رفیع کو بھی شہرت نصیب ہوئی۔ انہوں نے اس فلم میں اداکاری بھی کی اورپھر گلوکاری کے میدان میںبھی قدم جمالئے۔جی ہاں! یہ وہی شوکت حسین رضوی ہیں جنہوں نے پہلے بھارت اور پھر پاکستان میں بطور ایڈیٹر، پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور معاون اداکار کے طور پر اپنے آپ کو منوایا۔ انہوں نے پاکستان کی فلمی صنعت کی آبیاری کیلئے بھی جو کاوشیں کیں ان کی تحسین نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ شوکت حسین رضوی 1914ء میں اعظم گڑھ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کلکتہ میں اسسٹنٹ پراجیکشنسٹ کی حیثیت سے اپنے کیریئرکا آغاز کیا۔ پھر انہوں نے فلم میکنگ سیکھی۔ ہندوستانی فلمی صنعت کی معروف شخصیات نے شوکت حسین رضوی کی قابلیت کو فوری طور پر تسلیم کرلیا۔ اس وقت کے نامور پروڈیوسر سیٹھ دل سکھ پنچولی انہیں کلکتہ سے لاہور لے آئے۔ یہاں انہوں نے کئی فلموں کی ایڈیٹنگ کی۔ جن میںگُل بکائولی (1939ء)، خزانچی (1941ء) وغیرہ شامل ہیں۔ ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کی فلموں ’’یملا جٹ‘‘ اور ’’دوست‘‘ کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے بعد دل سکھ پنچولی نے انہیں اپنی اگلی فلم خاندان (1942ء) کی ہدایات کے فرائض سونپے۔ ’’خاندان‘‘ نے پورے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا۔ اس میں نور جہاں اور پران کی اداکارانہ صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں۔ نورجہاں نے نہ صرف شائقین فلم کے دلوں کو فتح کرلیا بلکہ شوکت حسین رضوی کا دل بھی جیت لیا۔ ’’خاندان‘‘ کی عدیم النظیر کامیابی کے بعد شوکت حسین رضوی اور نور جہاں ممبئی چلے گئے جہاں رضوی صاحب نے اپنی اگلی فلم نوکر (1943ء) کی ہدایات دیں۔ یہ فلم سعادت حسن منٹو کے ایک افسانے سے ماخوذ تھی۔ رضوی صاحب نے سکرپٹ میں بہت سی تبدیلیاں کردیں جس کی وجہ سے یہ فلم باکس آفس پر ناکام ہوگئی۔ اسی سال نورجہاں اور شوکت حسین رضوی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ ان کے ہاں تین بچے ہوئے۔ اکبر حسین رضوی، اصغر حسین رضوی اور ظل ہما۔ اس کے بعد اس جوڑے نے کئی فلمیں بنائیں۔ شوکت رضوی ان فلموں کے یا تو پروڈیوسر تھے اور یا ڈائریکٹر۔ جب نور جہاں نے ان کی فلموں میں اداکاری بھی کی اور گلوکاری بھی۔ ان فلموں میں ’’زینت‘‘ اور ’’جگنو‘‘ شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1944ء میں بننے والی فلم ’’دوست‘‘ میں شوکت حسین رضوی نے معاون اداکار کے طور پر کام کیا اور اس فلم میں وہ نور جہاں کے بھائی بنے تھے۔ اس فلم کی ہدایات بھی شوکت حسین رضوی نے دی تھیں۔ اس فلم کے گیت شمس لکھنوی نے تحریر کیے تھے جو بہت مشہور ہوئے۔1947ء میں تقسیم ہند کے بعد شوکت حسین رضوی اور نورجہاں اپنے تینوں بچوں سمیت پاکستان چلے آئے۔ آتے وقت شوکت حسین رضوی وہ کیمرہ بھی ساتھ لے آئے جس سے انہوں نے اپنی فلم ’’جگنو‘‘ کی شوٹنگ کی تھی۔ پاکستان آنے کے بعد نور جہاں اور شوکت رضوی نے تین سال تک کوئی کام نہ کیا۔ اس عرصے کے دوران شوکت حسین رضوی نے ملتان روڈ پر شاہ نور سٹوڈیو قائم کیا جہاں انہوں نے اپنی پہلی پنجابی فلم ’’چن وے‘‘ کی شوٹنگ شروع کی جو 1951ء میں ریلیز ہوئی۔ شوکت حسین رضوی اس فلم کے پروڈیوسر اور معاون ہدایتکار تھے۔ اس فلم نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔ لیکن اس کا کریڈٹ بہرحال شوکت رضوی کو نہیں جاتا تھا کیونکہ وہ اس فلم کے معاون ہدایتکار تھے۔ اس کے بعد معروف دانشور اور ڈرامہ نویس امتیاز علی تاج نے شوکت رضوی کی فلم ’’گلنار‘‘ کی ہدایات دیں۔ اس دوران ان کے اپنی اہلیہ نورجہاں سے شدید اختلافات پیدا ہوگئے اور دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ نورجہاں کو اپنی بیٹی ظل ہما اپنے پاس رکھنے کیلئے شاہ نور سٹوڈیو کے حصے سے دستبردار ہونا پڑا جس سے شوکت رضوی کے کیریئر کو شدید دھچکا لگا کیونکہ وہ نور جہاں کے شوہر کی حیثیت سے بھی اہم مقام حاصل کرچکے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اس وقت کی معروف اداکارہ یاسمین سے شادی کرلی جن سے ان کے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ شہنشاہ حسین رضوی اور علی مجتبیٰ رضوی۔ یہ شادی کامیاب ثابت ہوئی جس سے شوکت رضوی اور یاسمین دونوں کو فائدہ ہوا۔ نور جہاں سے طلاق کے بعد انہوں نے صرف تین اردو فلمیں بنائیں جن کے نام تھے ’’جان بہار‘‘، ’’عاشق‘‘ اور ’’دلہن رانی‘‘۔ انہوں نے ’’ جان بہار‘‘ کا ایک گیت گوانے کے لئے اپنی سابقہ اہلیہ نو جہاں سے کہا اور انہوں نے حامی بھرلی۔ یہ گیت مسرت نذیر پر پکچرائز ہوا جس نے شائقین فلم کو مسحور کر دیا۔’’دلہن رانی‘‘ کے فلاپ ہونے کے بعد شوکت حسین رضوی کو مایوسیوں نے آن گھیرا۔ انہوں نے فلموں سے ریٹائرمنٹ لے لی جس کے بعد ان کے چاروں بیٹوں نے شاہ نور سٹوڈیو کا انتظام سنبھال لیا۔ افسوس آج وہی شاہ نور سٹوڈیو خستہ حال ہے اور اس تاریخی سٹوڈیو کی یہ حالت دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔شوکت حسین رضوی بڑے وجیہہ اور دلکش نوجوان تھے۔ سعادت حسن منٹو نے ان کے بارے میںکہا تھا کہ وہ ایک دراز قد اور دلکش نوجوان ہے جو انتہائی خوش لباس ہے۔ جوانی میں انہیں کھیلوں سے بھی دلچسپی تھی اور وہ 1930ء کے اوائل میں کلکتہ میں فٹ بال کھیلتے تھے۔ شوکت حسین رضوی کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی فلمی صنعت کی نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کیا۔شوکت حسین رضوی اپنی خودداری اور وضع داری کیلئے بھی بہت مشہور تھے۔ ان کی انسان دوستی پر بھی کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت کی معروف اداکارہ ششی کلا نے ایک مرتبہ اپنے فنی سفر کے حوالے سے بتایا تھا کہ انہیں سب سے پہلے شوکت حسین رضوی کی فلم ’’زینت‘‘ میں میڈم نور جہاں کی سفارش پر کام ملا تھا۔ اس وقت ان کے گھریلو حالات خراب تھے اور ان کا خاندان غربت و افلاس کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ شوکت رضوی نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اپنی اس فلم میں عورتوں کی ایک قوالی کے شرکاء میں بٹھا دیا۔ یہ 1940ء کے اوائل کی بات ہے۔ اس زمانے میں ششی کلا کو 25 روپے معاوضہ دیا گیا۔ اسی طرح ’’جگنو‘‘ میں دلیپ کمار کا ہیرو کے طور پر انتخاب بھی ان کی فراست کابین ثبوت تھا۔ انہوںنے ایک ناکام اداکار کو میڈم نورجہاں کے مقابل کاسٹ کیا کیونکہ دلیپ کمار سے پہلے انہوں نے جتنے اداکاروں کو کاسٹ کیا وہ شوکت رضوی کی توقعات پر پورا نہیں اترے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سب میڈم نورجہاں کے سامنے اداکاری کرتے ہوئے شدید گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے تھے۔ لیکن دلیپ کمار نے پہلے ہی شاٹ میں زبردست اعتماد کا مظاہرہ کیا اور مکالموں کی ادائیگی کے خوبصورت انداز سے شوکت رضوی اور سیٹ پر موجود تمام لوگوں کو ششدر کر دیا۔ اس پہلے شاٹ کے موقع پر پرتھوی راج کپور بھی موجود تھے۔ انہوں نے وہیں شوکت رضوی سے کہا تھا کہ یاد رکھنا یہ لڑکاایشیا کا سب سے بڑا اداکار ثابت ہوگا۔1988ء میں جب دلیپ کمار پہلی بار پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو انہوں نے خصوصی طور پر شوکت حسین رضوی سے ملاقات کی تھی۔ دونوں نے اس ملاقات کے دوران اس سنہری دور کی یادوں کو تازہ کیا۔1999ء میں 85 سال کی عمر میں شوکت حسین رضوی کا انتقال ہوگیا۔ ہندوستان اور پاکستان کی فلمی صنعت کی تمام قابل ذکر شخصیات نے ان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور ان کی خدمات کو سراہا۔ شوکت حسین رضوی کا نام برصغیر کی فلمی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو چکا ہے۔ ان کا نام اور کام دونوں زندہ رہیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
جانوروں کے دماغ جدید ٹیکنالوجی کیلئے اہم کنجی

جانوروں کے دماغ جدید ٹیکنالوجی کیلئے اہم کنجی

آج کے جدید دور میں، جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے، جانوروں کے دماغوں کی ساخت اور ان کے کام کرنے کے طریقے ہمیں حیرت انگیز معلومات فراہم کر رہے ہیں جو مختلف شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتی ہیں۔ خاص طور پر ٹیکنالوجی کی دنیا اور قدرتی ماحول کے تحفظ میں جانوروں کے دماغ کی تحقیق ایک نئی امید بن کر سامنے آئی ہے۔آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی کی جانوروں کے شعور اور رویوں پر ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جانوروں کے دماغ ممکنہ طور پر جدید ٹیکنالوجی کیلئے اہم کنجی ثابت ہو سکتے ہیں۔ جانوروں کی ذہانت انسانی ذہانت کی ارتقاء کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرتی ہے اور اس سے مصنوعی ذہانت اور حیاتیاتی نظاموں سے متاثر شدہ کمپیوٹیشنل سسٹمز جیسے زیادہ ذہین اور فہم رکھنے والے مصنوعی نظام تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔جانوروں کے دماغ اور ان کی کارکردگیجانوروں کے دماغ ایک پیچیدہ نیٹ ورک ہوتے ہیں جو ان کے ماحول سے مؤثر طریقے سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ مختلف جانوروں کی دماغی ساخت اور فنکشنز کا گہرائی سے مطالعہ کرنے سے ہمیں ان کی ذہانت، حافظہ، نیویگیشن اور سماجی رویوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مثلاًچھپکلی کے دماغ کی ساخت سے ہلکی روشنی میں بھی اشیاء کی پہچان کا طریقہ معلوم ہوا، جسے اب بصری ٹیکنالوجی میں شامل کیا جا رہا ہے۔ٹیکنالوجی میں جانوروں کے دماغ کی تقلیدجدید روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت (AI) میں جانوروں کے دماغ کے کام کرنے کے طریقے کی تقلید کی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر مکھیوں اور پرندوں کے دماغوں کی نیورولوجیکل ساخت کی بنیاد پر ایسے الگورتھمز تیار کیے جا رہے ہیں جو روبوٹس کو تیز رفتاری اور موثر طریقے سے حرکت کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔ اسی طرح مچھلیوں اور دیگر آبی جانداروں کے نیویگیشن سسٹمز کو دیکھ کر خودکار جہاز اور ڈرونز کیلئے بہتر نیوی گیشن تکنیکیں تیار کی جا رہی ہیں۔ماحولیاتی تحفظ اور جانوروں کی دماغی تحقیقجانوروں کے دماغ اور ان کے رویے کی سمجھ بوجھ ماحولیاتی تحفظ کیلئے بھی بہت اہم ہیں۔ جانوروں کی نیند، خوراک اور سماجی رویے کے بارے میں معلومات ہمیں ان کی فطری بقا کیلئے مناسب ماحول فراہم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ مثلاً ہاتھیوں کے دماغی ردعمل کو جانچ کر جنگلات کی حفاظت میں ان کی نقل و حرکت کو سمجھنا اور ان کے رہائشی علاقوں کی نشاندہی کرنا ممکن ہوا ہے، جس سے انسانی مداخلت کم ہو رہی ہے۔ مزید برآں حیاتیاتی تنوع کو بچانے کیلئے جانوروں کے دماغی سگنلز کا استعمال کر کے ان کی صحت اور تناسل کی نگرانی کی جا رہی ہے۔مستقبل کی راہیںجانوروں کے دماغ کی تحقیق مستقبل میں مزید ترقی کی راہیں کھول رہی ہے۔ حیاتیاتی نیوروسائنس اور ٹیکنالوجی کا امتزاج ایسے آلات اور مشینیں تیار کر رہا ہے جو نہ صرف انسانی زندگی کو آسان بنائیں گے بلکہ قدرتی ماحولیاتی نظام کو بھی تحفظ فراہم کریں گے۔ اس تحقیق سے حاصل ہونے والی معلومات سے ایسے ذہین روبوٹ، خودکار گاڑیاں اور ماحولیاتی نگرانی کے نظام تیار کیے جا سکیں گے جو انسانی غلطیوں کو کم کریں اور ماحول دوست ٹیکنالوجی کی ترقی کو فروغ دیں گے۔جانوروں کے دماغ کی سمجھ بوجھ نہ صرف حیاتیاتی تحقیق بلکہ انسانی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کیلئے بھی ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ اس سے ہمیں قدرت کی پیچیدگیوں کو بہتر طور پر جاننے اور ان سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ آنے والے وقت میں یہ تحقیق دنیا کو ٹیکنالوجی اور ماحول دونوں میں مثبت تبدیلیاں لانے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔

چہرے پر ننھے دانے یا خطرناک کینسر؟

چہرے پر ننھے دانے یا خطرناک کینسر؟

جلد پر نمودار ہونے والا ایک عام سا دانہ، جو بظاہر مہاسے یا خارش کی وجہ سے نکلا ہو، عموماً معمولی خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم، حالیہ تحقیق اور ماہرینِ امراضِ جلد کے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بعض اوقات ایسا دانہ جلدی کینسر کی ابتدائی مگر خاموش علامت بن سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، بعض جلدی کینسرز، خاص طور پر ''بیسل سیل کارسینوما‘‘ ابتدا میں ایسے نظر آتے ہیں جیسے وہ عام مہاسے یا کیل ہوں۔ مگر ان کی مخصوص علامات انہیں عام دانوں سے ممتاز کرتی ہیں، جیسے دانہ مستقل رہنا یا وقت کے ساتھ بڑھنا، چھونے سے سخت محسوس ہونا، دانے سے خون رسنا یا بار بار زخم بن جانا، رنگت میں غیر معمولی تبدیلی یا چمکدار سطح۔ڈاکٹر زکا کہنا ہے کہ بہت سے مریض ان علامات کو عام جلدی مسائل سمجھ کر نظرانداز کرتے ہیں، جس سے کینسر مزید پھیل سکتا ہے۔ جلدی تشخیص سے نہ صرف علاج آسان ہوتا ہے بلکہ زندگی بھی بچائی جا سکتی ہے۔ہارورڈ سے تربیت یافتہ ماہرِ جلد ڈاکٹر ڈینیئل سوگائی نے کینسر کی ایک کم جانی پہچانی علامت کی نشاندہی کی ہے جسے مریض اکثر ہارمونی دانہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ ''پمپل‘‘ یا دانہ خشک ہو کر زخم بن جائے اور خون آ جائے تو یہ غالباً جلد کا کینسر ہو سکتا ہے۔انسٹاگرام پر ایک ویڈیو میں، جسے اب تک ایک لاکھ 34ہزار سے زائد بار دیکھا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر سوگائی نے خبردار کیا کہ جلد کے کینسر کی سب سے عام قسم، بیسل سیل کارسینوما (BCC)، چہرے پر کوئی واضح ابھار یا گٹھلی بننے کی صورت میں ظاہر ہونا ضروری نہیں۔بلکہ یہ ایک چھوٹا، نہ بھرنے والا زخم، دانہ یا حتیٰ کہ چپٹی، خشک اور کھردری جلد کا دھبہ بھی ہو سکتا ہے۔ویڈیو میں انہوں نے ان عام علامات کا ذکر کیا جو ان کے ان مریضوں میں پائی گئیں جنہوں نے ابتدا میں اس انتباہی علامت کو نظر انداز کیا۔انہوں نے کہا: ایک شکایت جو میں اکثر سنتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے اپنا چہرہ دھویا اور ایک جگہ سے بار بار خون آنے لگا اور وہ جگہ خون آنے اور زخم بننے کے چکر میں رہتی ہے تو اگر آپ کے جسم پر کوئی ایسی جگہ ہے جو مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہو رہی یا معمولی رگڑ سے جیسے چہرہ دھونے پر زخمی ہو جاتی ہے، تو فوراً ماہر امراضِ جلد سے رجوع کریں۔یہ اس لیے ہو سکتا ہے کہ BCC عموماً نازک قسم کے ٹیومر ہوتے ہیں اور ان میں افزائش کیلئے خون کی نئی نالیاں بن سکتی ہیں، جس سے ان کا خون بہنا آسان ہو جاتا ہے۔امریکہ کی ''سکن کینسر فائونڈیشن‘‘ (Skin Cancer Foundation) کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال ایک کروڑ سے زائد افراد جلدی کینسر کی مختلف اقسام میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد کیسز'' بیسل سیل کارسینوما ‘‘(Basal Cell Carcinoma) یا ''اسکوامس سیل کارسینوما‘‘ (Squamous Cell Carcinoma)کے ہوتے ہیں، جو اگر وقت پر شناخت نہ کیا جائے تو جسم کے دیگر حصوں میں بھی پھیل سکتا ہے۔ایک برطانوی تحقیقی ادارے نے حالیہ اسٹڈی میں بتایا ہے کہ تقریباً 30 فیصد افراد ایسے جلدی کینسر کے مریض نکلے جنہوں نے ابتدائی علامت کو صرف مہاسا یا ''ہیٹ ریش‘‘ سمجھ کر طبی امداد حاصل نہیں کی۔پاکستان میں صورتِ حالپاکستان میں جلدی بیماریوں کے بارے میں شعور کی کمی کی وجہ سے اکثر مریض دیر سے معالج کے پاس پہنچتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تو یہ معاملہ اور بھی سنگین ہے جہاں نہ صرف ماہر ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوتے بلکہ عوامی آگاہی کا بھی فقدان ہے۔آگاہی ہی بچاؤ ہے!ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جلدی کینسر قابلِ علاج ہے، بشرطیکہ اسے ابتدائی مراحل میں شناخت کر لیا جائے۔ اس کیلئے عوامی سطح پر آگاہی مہمات، میڈیا کے ذریعے معلومات کی ترسیل اور اسکولوں میں صحت کے مضامین میں جلدی بیماریوں پر بات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اپنے جسم کے ساتھ ایماندار رہیں، معمولی سی تبدیلی کو معمولی نہ سمجھیں، کیونکہ کبھی کبھار ایک چھوٹا سا دانہ ایک بڑی وارننگ ہو سکتا ہے۔خطرے کی نشانیاںماہرین کے مطابق اگر درج ذیل علامات آپ کی جلد پر ظاہر ہوں تو فوری طور پر ماہرِ امراضِ جلد سے رجوع کریں۔٭...دانہ جو چند ہفتوں میں ٹھیک نہ ہو یا بار بار اُبھر آئے۔٭...ایسا دانہ جس کی سطح چمکدار یا موم جیسی ہو۔٭...ایسا دانہ جو خارش کرے، خون رسائے، یا زخم بن جائے۔٭...جلد پر نئی رسولی یا ابھار جو پہلے موجود نہ تھا۔٭...رنگت میں غیر معمولی تبدیلی، خاص طور پر سیاہی مائل یا سرخی مائل ہونا۔احتیاطی تدابیر اور خود احتسابیماہرین تجویز کرتے ہیں کہ:٭...سورج کی شعاعوں سے بچاؤ کے لیے روزانہ سن بلاک کا استعمال کریں۔٭...جلد پر کسی بھی غیر معمولی تبدیلی کو نظر انداز نہ کریں۔٭...اگر دانہ یا نشانی دو ہفتوں سے زائد موجود رہے تو فوری چیک اپ کروائیں۔٭...خود کا باقاعدہ معائنہ کریں، خاص طور پر چہرہ، گردن، بازو، اور کان۔

آج کا دن

آج کا دن

کارلو کی لڑائی25مئی 1798ء کو آئر لینڈ کے شہر کارلو میں لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب کارلو باغی 1798 ء کی بغاوت کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔یہ بغاوت کائونٹی کلڈیرے میں ایک دن پہلے شروع ہوئی تھی۔ کارلو میں یونائیٹڈ آئرش مین آرگنائزیشن کی قیادت ایک نوجوان کر رہا تھا جس کا نام مک ہیڈن تھا۔ اس نوجوان کو پچھلے رہنما پیٹر آئورز کی گرفتاری کے بعد قیادت دی گئی تھی۔ سابق رہنما کو مارچ میں اولیور بانڈ کے گھر سے متحدہ آئرلینڈ کے کئی دیگر سرکردہ افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔گرفتاری سے قبل وہ اپنے رضاکاروں کے ساتھ کاؤنٹی ٹاؤن پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے اور ان کی تعدا1200کے قریب پہنچ چکی تھی۔انقلاب مئیانقلاب مئی ریو ڈی لا پلاٹا کے وائسرائیلٹی کے دارالحکومت بیونس آئرس میں 18 سے 25 مئی 1810ء تک ہونے والے واقعات کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ اس ہسپانوی کالونی میں تقریباً موجودہ ارجنٹائن، بولیویا، پیراگوئے، یوراگوئے اور برازیل کے کچھ حصے شامل تھے۔ نتیجتاً 25 مئی کو وائسرائے بالتاسر ہائیڈالگو ڈی سیسنیروس کی برطرفی ہوئی اور ایک مقامی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔اسے وہاں سے نکال دیا گیا اور اس کی حکوت کو صرف ان علاقوں تک محدود کر دیا گیاجو ارجنٹائن سے تعلق رکھتے تھے۔اسلحہ ڈپو میں دھماکہ25 مئی 1865 کو جنوبی ریاست ہائے متحدہ میں الاباما میں ایک اسلحہ ڈپو میں دھماکہ ہوا جس میں تقریباً 300 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ واقعہ امریکی خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد، فاتح افواج کے شہر پر قبضے کے دوران پیش آیا۔یہ ڈپو بیورگارڈ اسٹریٹ پر ایک گودام تھا جہاں فوجیوں نے تقریباً 200 ٹن گولے اور پاؤڈر رکھے ہوئے تھے۔ 25 مئی کی دوپہر کے وقت سیاہ دھویں کا بادل ہوا میں اٹھا اور زمین گڑگڑانے لگی۔ آگ کے شعلے آسمان کی طرف اٹھے اور پورے شہر میں گولہ باری کی آوازیں سنی گئیں۔ قریبی ندی میں دو بحری جہاز ڈوب گئے ،دھماکے سے کئی مکانات بھی منہدم ہوگئے۔ایکسپلورر32ایکسپلورر32جسے Atmosphere Explorerبھی کہا جاتا ہے۔یہ ناسا کی جانب سے بھیجے جانے والا ایک سیٹلائٹ تھا جسے زمین کے اوپری ماحول کا جائزہ لینے کیلئے لانچ کیا گیا تھا۔ ایکسپلورر 32 کو 25مئی 1966ء کو ڈیلٹا C1وہیکل کیپ کینورل کے ذریعے لانچ کیا گیا تھا۔ یہ لانچ کئے جانے والے پانچ ایکسپلوررز میں سے ایک تھااور اس کا نمبر دوسرا تھا اس سے پہلے ایکسپلورر17لانچ کیا گیا تھا اگرچہ اسے خرابی کی وجہ سے توقع سے زیادہ مدار کے قریب رکھا گیا تھا۔ اپنی لانچ وہیکل پر دوسرے مرحلے میں، ایکسپلورر 32 نے ناکام ہونے سے پہلے دس ماہ تک ڈیٹا بھیجا۔

یادرفتگاں:رنگیلا کا ہر رنگ نرالا ، انداز جداگانہ

یادرفتگاں:رنگیلا کا ہر رنگ نرالا ، انداز جداگانہ

''وے سب توں سوہنیا ، ہائے وے من موہنیا۔۔!‘‘پاکستان فلم انڈسٹری کے ہر فن مولا فنکار کی آج 20ویں برسی ہےاداکاری کے مخصوص انداز سے شائقین کے دلوں پر راج کرنے والے اداکا ررنگیلا کو بچھڑے 20 برس بیت گئے، فلموں میں 42سال تک ہنسانے والے رنگیلا فلم انڈسٹری کا اثاثہ تھے۔آج ان کی برسی منائی جا رہی ہے۔وہ پاکستان فلم انڈسٹری کی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انہوں نے بطور ورسٹائل اداکار، پروڈیوسر، ہدایتکار، مصنف، نغمہ نگار، گلوکار اورموسیقار خدمات سر انجام دیں۔ایک ایکسٹرا اداکار سے چوٹی کا مزاحیہ اداکار بننے والے اس عظیم فنکار نے وہ مقام حاصل کر لیا تھا کہ اسے کچھ کہنے ، کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کیونکہ فلم بین اسے دیکھتے ہیں ہنس پڑتے تھے۔جب اس نے فلم بنانے کا اعلان کیا تو لوگ اسے بھی مذاق ہی سمجھے لیکن جب1969ء میں اس نے بطور فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف ، فلم '' دیا اور طوفان‘‘ بنائی تو ناقدین حیران رہ گئے ۔ اوپر سے بطور گلوکار بھی اس کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا تھا اور ''گا میرے منوا گاتا جارے‘‘ ہر طرف گایا جانے لگا تھا۔ لطف کی بات یہ تھی کہ یہ مشہورزمانہ گیت لکھا ہوا بھی ان کا اپنا تھا۔اس کے بعد جب اس نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اپنے فلمی نام پر فلم ''رنگیلا‘‘ بنائی تو اس میں وہ ہیرو بھی خود تھے۔ وہ شکل سے ہیرو لگتے ہی نہیں تھے لیکن کمال دیکھیے کہ پورا ملک ان کے حسن کے ترانے گنگنانے پر مجبور ہو گیا تھا کہ ''وے سب توں سوہنیا ، ہائے وے من موہنیا!‘‘ اس نے بطور موسیقار اور نغمہ نگار بھی تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیا تھا۔یکم جنوری 1937ء کوخیبر پختونخواہ کے علاقے پاراچنار میں پیدا ہونے والے سعید خان نے رنگیلا کے نام سے شہرت پائی۔عملی زندگی کا آغاز باڈی بلڈنگ سے کیا، اس عظیم فنکارنے شروع میں کئی فلموں کے بورڈ تک بھی پینٹ کئے اور پھر اسٹیج کی ر اہ اختیار کرلی۔اپنے فلمی کریئر کا آغاز انہوں نے 1958 میں فلم ''جٹّی‘‘ سے کیا جس میں انہوں نے اپنی مزاحیہ اداکاری کے جوہر دکھائے۔1969ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''دیا اور طوفان‘‘ میں بہترین مزاحیہ اداکاری کے ساتھ ساتھ بطور رائٹر، گلو کار، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کے طور پر عوام کے سامنے آئے اور اپنی قابلیت منوائی۔رنگیلا پروڈکشن کے بینر تلے انہوں نے متعدد فلمیں بنائیں، ان کی مشہور فلموں میں رنگیلا، دل اور دنیا، کبڑا عاشق، عورت راج، پردے میں رہنے دو، ایماندار، بے ایمان، انسان اور گدھا اوردو رنگیلے‘‘ شامل ہیں۔ رنگیلا کی بطور ہدایتکار 21 فلمیں ہیں اور گیارہ گیارہ فلمیں بطور فلمساز اور مصنف تھیں۔ بطور موسیقار اور نغمہ نگار دو دو فلمیں تھیں۔بطور گلوکار 21 فلموں میں 32 گیت ملتے ہیں اور متعدد سپرہٹ گیت گائے تھے۔رنگیلا نے فلموں کے عام کامیڈین سے ہیرو شپ تک کا سفر انتھک محنت اور خداداد صلاحیتوں کے بل پر طے کیا، پردہ سکرین پر رنگیلا اور منور ظریف کی آمد فلم بینوں میں ارتعاش پیدا کر دیتی تھی۔انہوں نے اپنے دور کی تمام ہیروئینوں کے مقابل مرکزی کردار ادا کئے، اس کے علاوہ بہترین اداکاری اور دیگر شعبوں میں شاندار کاکردگی پر 9 مرتبہ نگار ایوارڈ بھی انہوں نے اپنے نام کیے۔اداکاری ہو یا گلوکاری رنگیلا نے ہر شعبے میں اپنے آپ کو منوایا۔بیالیس برسوں پر محیط کریئر میں چھ سو سے زائد فلموں میں فن کے جوہر دکھائے اور متعدد ایوارڈ اپنے نام کئے۔ان کی مقبول فلموں میں کبڑا عاشق، دوستی، دل اور دنیا، رنگیلا، دیا اور طوفان، نوکر تے مالک، سونا چاندی، مس کولمبو، نمک حلال، راجہ رانی شامل ہیں۔رنگیلا پر مسعودرانا کے چار درجن کے قریب گیت فلمائے گئے تھے جن میں زیادہ تر مزاحیہ گیت تھے۔ان میں 21گیت اردو تھے جبکہ 26گیت پنجابی زبان میں تھے۔1991ء میں رنگیلا نے جگر اور گردے کے عارضے میں مبتلا رہنے کے باعث فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور پھر24 مئی 2005 کو اس دنیا ئے فانی سے کوچ کرگئے۔رنگیلا کا ہر رنگ نرالا اور انداز جداگانہ تھا، انہوں نے لوگوں میں بے شمار خوشیاں بانٹیں اور فلم انڈسٹری پر وہ ان مٹ نقوش چھوڑے کہ ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی فلمی تاریخ ہمیشہ ادھوری رہے گی۔اداکار رنگیلا کو مزاح کا  بادشاہ کہا جائے تو  بے جا نہ ہو گا،انہوں نے68 برس کی عمر میں وفات پائی لیکن آج بھی وہ اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ 

گلیشیئرز کی کٹائی !

گلیشیئرز کی کٹائی !

ماحولیاتی نظام خطرے میں،قانون سازی کی جائےسیاحت کے دوران اہم مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلند دروں پر پڑی برف نے راستے روک رکھے ہوتے ہیں اور گلیشیر کی وجہ سے اہم گزر گاہیں بند ملتی ہیں۔ ناران سے گلگت جاتے ہوئے بھی یہی مسئلہ درہیش ہوتا ہے کہ وسط جون تک بابوسر ٹاپ بند ملتا ہے۔ راستہ کھولنے کیلئے برف کے حصاروں کو توڑ کر اور کاٹ کر راستہ بنایا جاتا ہے۔ ہم نے خود متعدد بار یہ بھی دیکھا کہ مزدور بیلچوں سے برف کاٹ کر ٹرکوں میں بھرتے ہیں اور پھر وہ چلاس اور رائے کوٹ کے بازاروں میں فروخت ہوتی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ نے ماحولیاتی مسائل پر کام کرنے والے وکلاء کی درخواست پر چترال سمیت مالاکنڈ ڈویڑن کے مختلف اضلاع میں برفانی تودے کاٹنے اور اس کو فروخت کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔پشاور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرواتے ہوئے استدعا کی گئی تھی کہ چترال، سوات، دیر، شانگلہ اور کاغان/ ناران میں برفانی تودوں کی کٹائی سے ماحولیاتی نظام کو نقصان ہو رہا ہے۔برفانی تودوں کے کمرشل استعمال پر بات کرنے سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ گلیشیئر اور ایوالانچ، جنہیں اردو میں عام طور پر برفانی تودا ہی کہا جاتا ہے، میں کیا فرق ہے۔حمید احمد چترال میں گلیشیئرز کے حوالے سے یونائیٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کے منصوبے GLOF کے سابق منیجر اور ابھی ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے کوآرڈینیٹر ہیں اور گلیشیئرز پر مختلف تحقیقی مقالوں کا حصہ رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ میں نے پڑھا ہے، لیکن اس میں کچھ چیزیں تکنیکی ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔برفانی تودا کاٹنے اور اس کے کمرشل استعمال کی بات جب آتی ہے، تو اس میں گلیشیئرز نہیں بلکہ ایوالانچ کا استعمال ہوتا ہے، جس کو برف کے استعمال کیلئے کاٹ کر فروخت کیا جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ گلیشیئرز بہت زیادہ بلندی پر ہوتے ہیں اور وہاں جانا اور پھر اس کو کاٹنا بہت مشکل عمل ہے، جبکہ گلیشیئرز کو کسی عام آلے سے کاٹنا بھی ممکن نہیں ہے، کیونکہ وہ عام برف سے سو گنا سخت ہوتا ہے، جبکہ عام برف کی ایک کیوبک میٹر کا وزن 300 کلوگرام، جبکہ گلیشیئر کا ایک کیوبک میٹر وزن ایک ہزار کلوگرام ہوتا ہے۔ گلیشیئرز کسی ایک موسم یا سال میں نہیں بنتے بلکہ اس کے بننے میں دہائیاں لگتی ہیں اور تب جا کر گلیشیئر بنتا ہے۔عدالتی فیصلے میں جس بات کا ذکر ہوا ہے، وہ اصل میں ایوالانچ ہے۔ ایوالانچ اور گلیشیئر کو عام زبان میں برفانی تودا کہا جاتا ہے، گو کہ دونوں مختلف چیزیں ہیں۔سوئٹزرلینڈ کے '' انسٹیٹوٹ فار سنو اینڈ ایوالانچ ریسرچ‘‘ کے مطابق ایوالانچ کی تین بنیادی قسمیں ہیں، جن میں ایک ''سنو ایوالانچ‘‘ کہلاتا ہے، جب سنو (آئس نہیں) کی کمزور سلیب کے اوپر برف کی مضبوط تہہ بن جائے۔دوسری قسم کو ''لوز سنو ایوالانچ‘‘ کہا جاتا ہے، جس کو عام طور پر پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں برف باری کے موسم میں دیکھا جاتا ہے اور یہ پہاڑیوں کی نچلی سطح پر ہوتا ہے، جبکہ تیسری قسم کو ''گلائیڈنگ ایوالانچ‘‘ کہا جاتا ہے، جو کہ گھاس یا پتھر کے اوپر برف پڑنے سے بن جاتا ہے۔سائمن فریزر یونیورسٹی کے مطابق گلیشیئرز گرنے سے بھی ایوالانچ بن سکتا ہے، لیکن حمید احمد کے مطابق چترال، کاغان، ناران یا سوات میں گلیشیئر کا ایوالانچ نہیں بنتا بلکہ برف باری کے دوران پہاڑوں میں برف پڑنے سے ایوالانچ بنتا ہے۔ایوالانچ کے کاٹنے کے حوالے سے حمید نے بتایا کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ ایوالانچ کے کاٹنے سے ماحولیات کو نقصان پہنچتا ہے، کیونکہ ایوالانچ آہستہ پگھل کر پودوں اور زرعی زمینوں کیلئے پانی کا ایک اہم ذخیرہ ہے۔ چترال میں 2017 سے پہلے یہ پریکٹس بہت عام تھی، لیکن اب بجلی آنے کے بعد گھروں میں فریج کا استعمال کیا جاتا ہے، تو ایوالانچ کاٹ کر برف حاصل کرنا اتنا زیادہ نہیں رہا۔ایوالانچ کی بھی پھر مختلف اقسام ہیں، جن میں ''آئس ایوالانچ‘‘ اور ''سنو ایوالانچ‘‘ شامل ہیں۔عدالت میں دائر درخواست کے مطابق یہ برفانی تودوں کے پگھلنے سے مختلف پودوں، درختوں، جانوروں اور زرعی زمینوں کیلئے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے، جبکہ اس کو کاٹنے سے سیلاب کا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے۔تاہم درخواست گزار کے مطابق برفانی تودوں کو کمرشل مقاصد کیلئے بلاک کی شکل میں کاٹ کر فروخت کیا جا رہا ہے، جس سے اس اہم ذخیرے کو خطرہ لاحق ہے اور یہ خیبر پختونخوا ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے۔درخواست کے مطابق پاکستان اقوام متحدہ کے فریم ورک برائے موسمیاتی تبدیلی سمیت پیرس کے بائیو ڈائیور سٹی فریم ورک پر دستخط کر چکا ہے اور اسی کے تحت گلیشیئرز کا کاٹنا غیر قانونی عمل ہے۔اسی طرح اقوام متحدہ کے سسٹینیبل ڈویلپمنٹ گول 13 بھی گلیشیئرز کے تحفظ کے حوالے سے ہے اور پاکستان کو اس غیر قانونی عمل کو روکنا چاہیے۔ درخواست گزار طارق افغان نے بتایا کہ اس حوالے سے ہم نے گزشتہ سال خیبر پختونخوا محکمہ ماحولیات میں بھی درخواست دی تھی، لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور اسی وجہ سے عدالت میں درخواست جمع کرائی۔عدالت میں 6 مئی کو درخواست پر دو رکنی بینچ نے سماعت کی اور متعلقہ اضلاع کو گلیشیئرز کی کٹائی روکنے کے احکامات جاری کیے۔ ارجنٹینا اور تاجکستان نے گلیشیئرز پر قانون سازی کی ہے تو پاکستان بھی اس کیلئے قانون سازی کرے اور گلیشیئر کی غیر قانونی کٹائی فوری طور پر روکی جائے۔

بھائی  ایک رشتہ، ایک سایہ، ایک محبت!

بھائی ایک رشتہ، ایک سایہ، ایک محبت!

اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو رشتوں کی لڑی میں پرویا ہے۔ ہر رشتہ اپنی جگہ خاص اور انمول ہے۔ بھائی ایک ایسا رشتہ ہے جس میں محبت، تحفظ، قربانی، ہمدردی اور بے لوث خلوص پایا جاتا ہے۔ بھائی وہ ہوتا ہے جو بچپن کی شرارتوں میں ساتھی، مشکل وقت میں سائبان، اور کامیابیوں کے سفر میں حوصلہ افزائی کا ذریعہ ہوتا ہے۔یہ رشتہ صرف خون کا نہیں ہوتا بلکہ روح کی گہرائیوں سے جُڑا ہوتا ہے۔ ایک بھائی کا درد دوسرے بھائی کے دل میں گونجتا ہے، ایک کی خوشی دوسرے کی مسکراہٹ بن جاتی ہے۔ جب دنیا منہ موڑلیتی ہے، تب بھائی سہارا بنتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ''ورلڈ برادرز ڈے‘‘ 24 مئی کو منایا جاتاہے، جس کا مقصد بھائی کے رشتے کی عظمت کو اجاگر کرنا، اس کی اہمیت کو تسلیم کرنا اور عوامی شعور بیدار کرنا ہے۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے، جس کا مفہوم ہے: تم میں سب سے اچھے اخلاق والا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے۔ اصل اخلاق وہی ہے جو آپ گھر میں اپناتے ہیں، جہاں کوئی دکھاوا نہیں، صرف حقیقت ہوتی ہے۔ہر رشتے کو وقت دینا پڑتا ہے۔ موجودہ دور میں ہمارے معاشرے میں کئی نوجوان دوستوں کو تو وقت دیتے ہیں، گھنٹوں ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں، ان کی باتیں سنتے ہیں، ہنستے کھیلتے ہیں، لیکن حقیقی بھائی کیلئے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ یہ رویہ نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ قابلِ مزمت بھی ہے۔ بھائی وہ ہوتا ہے جو بچپن کا گواہ ہوتا ہے، جو ماں کی گود میں ساتھ بیٹھ کر پلا بڑھا ہوتا ہے، جس نے ہماری ہر کامیابی پر خوشی سے تالیاں بجائی ہوتی ہیں۔ اگر آپ باہر کی دنیا میں اچھے رویے سے پیش آنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اپنے سگے بھائی سے بدزبانی کرتے ہیں، اسے طنز کا نشانہ بناتے ہیں، تو آپ کو اپنے کردار اور اخلاق پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔حقیقی بھائیوں سے محبت سے پیش آئیں، اگر آپ بڑے بھائی ہیں، تو چھوٹے بھائیوں کیلئے آپ صرف بھائی نہیں بلکہ والد کے بعد ایک راہنما، محافظ اور محبت بھرا سایہ ہیں۔ ان کے کندھوں پر شفقت سے ہاتھ رکھیں، ان کی بات توجہ سے سنیں، ان کے خوابوں اور جذبوں کی قدر کریں، اور جب وہ زندگی میں کسی الجھن کا شکار ہوں تو ان کا سہارا بنیں۔ اور اگر آپ چھوٹے بھائی ہیں، تو بڑے بھائیوں کا ادب کریں، ان کی عزت دل سے کریں۔ ان کے تجربات سے سیکھیں، ان کے فیصلوں میں ان کا ساتھ دیں۔ اگر کبھی بڑے بھائی کسی وجہ سے ڈانٹ دیں اور آپ کو اختلاف ہو بھی جائے تو آپ کا انداز مؤدبانہ ہونا چاہیے، جیسے والدین سے گفتگو کرتے وقت ہوتا ہے۔ بڑے بھائی کی شخصیت، مزاج، اور رائے کا احترام کرنا آپ کے اخلاق کا عکس ہے۔ ان کے سامنے اونچی آواز سے بات نہ کریں، ان کے ساتھ مشورہ کریں اور ان کی بات کو اہمیت دیں۔