قلعہ ملوٹ

قلعہ ملوٹ

اسپیشل فیچر

تحریر :


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

کوہستان نمک اور پوٹھوہار میں لاتعداد چھوٹے اور بڑے قلعے ہیں ان قلعوں میں حکمرانوں کی قسمت کے فیصلے ہوتے رہے ہیں مقامی حکمران یہ قلعے پہاڑیوں کی چوٹیوں پر تعمیر کرکے اپنے آپ کو کسی حد تک حملہ آوروں سے محفوظ خیال کیا کرتے۔ یہ قلعے تراشے ہوئے پتھروں سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس دور میں انسان کتنا جفاکش اور مضبوط جسم کامالک ہوتا تھا۔ بلند سے بلند پہاڑ پر تعمیرات کا سامان لے کر چڑھ جاتا، کوہستان نمک کے ایسے ہی قلعوں میں قلعہ ملوٹ اور اس کے مندر کسی حد تک صحیح حالت میں ہیں۔ کلرکہار سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر چواسیدن شاہ، کٹاس روڈ پر جلیبی چوک سے ایک سڑک ملوٹ گائوں کی طرف جاتی ہے۔ جلیبی چوک سے ملوٹ تقریباً چودہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔قلعہ ملوٹ اور مندر کے لیے کوئی راستہ نہیں۔ ہر طرف قلعہ کے تراشے ہوئے پتھر بکھرے پڑے ہیں ملوٹ گائوں سے تقریباً ڈیڑھ دو کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑ کے عین چوٹی پر قلعہ اور مندر تعمیر کیے گئے ہیں مندر تعداد میں دو ہیں مغرب کی جانب مندر صحیح حالت میں ہے دوسرے مندر کے نقش و نگار صحیح حالت میں ہیں۔ سرخ پتھر تراش کر چاروں اطراف خوبصورتی پیدا کی گئی ہے۔ یہ مندر تقریباً چھ سات فٹ بلند چبوترے پر تعمیر کیے گئے ہیں چاروں کونوں پر پتھروں کو تراش کر مینار تعمیر کیے گئے ہیں دیواروں پر مورتیاں بنائی گئی ہیں مورتیوں کے نیچے چھوٹی مورتیاں شیر اور دوسرے جانوروں کی شکلیں بنائی گئی ہیں۔ یہ فن سنگ تراشی کا بہترین نمونہ ہیں۔ پتھروں کی تراش اور صفائی اپنی مثال آپ ہے یہ مندر جو کشمیری اسلوب تعمیر کا نمونہ ہے اس میں ریتلا پتھر استعمال ہوا ہے جو موسم کے اثرات سے متاثر ہوتا ہے چنانچہ سنگ تراشی کے نمونے ریتلا پتھر ہونے کی وجہ سے ختم ہو رہے ہیں۔ اس کے بارے میں جنرل کنگھم کا کہنا ہے کہ یہ مندر اندر کی طرف 18 مربع فٹ تھا مشرق کی طرف دروازے کے قریب ایک محرابی شکل کی عمارت تھی، باہر کی طرف چاروں کونے سجائے گئے تھے اور ایسے محراب جن پر آرائش و تزئین کی گئی تھی ہر مینارے پر دو زانوں شکل نظر آتی تھی۔ چبوترے کے ارد گرد نقوش کے آثار ملتے ہیں اس کا مجموعی تاثر شاندار اور خوبصورت ہے البتہ زمانے نے اس کے قدیم حسن کو مجروح کر دیا ہے۔ اس کی بلندی 350 فٹ تک ہے۔ مندر کا داخلی حصہ سادہ نظر آتا ہے اور اس میں کسی بت کے آثار دکھائی نہیں دیتے روایت ہے کہ اس جگہ شیولنگ نصب تھا اور غالباً یہ روایت صحیح ہے کہ یہ بدھ کا مندر نہیں تھا۔ اس کا دروازہ مندر سے 58 فٹ مشرق کی طرف تھا یہ بڑی بھاری اور مضبوط عمارت ہے 25 فٹx 22 فٹ اس میں دو کمرے8x15 کے ہیں ستون خالص کشمیری فن تعمیر کا نمونہ ہیں کشمیری مندروں کی نسبت ان پر یونانی فنی تعمیر کا زیادہ اثر ہے ستونوں کے ارد گرد نیم دائرے کی وسعت میں ابھرے ہوئے نقش بنے ہیں جو کسی زمانے میں بہت خوبصورت ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مندر کو پانڈیوں نے تعمیر کیا تھا اور کشمیر کے مندروں کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ جہاں تک ملوٹ کے وجہ تسمیہ کا تعلق ہے اس سلسلہ میں ایک اساطیری روایت کے مطابق جنجوعہ راجپوتوں کے ایک مورث اعلیٰ کے نام ’’ملودیویا ملو‘‘ کی نسبت سے اس کا نام ملوٹ پڑا لیکن تاریخ راجپوتاں کے مصنف کے مطابق ملوٹ ملک کوٹ کا مخفف ہے۔ اس کے مطابق مسلم سلاطین ملک کا خطاب اس راجہ کو دیتے تھے جو اس کی بالادستی کو قبول کر لیتا تھا اور خودمختار بھی ہوتا تھا اس بیان کی تائید تزک بابری سے بھی ہوتی ہے۔(پاکستان کے آثارِ قدیمہ)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یاد رفتگاں ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘کے خالق  اصغر سودائی

یاد رفتگاں ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘کے خالق اصغر سودائی

ہمہ پہلو شخصیت کے مالک شاعر، ماہر تعلیم ، ادیب اور افسانہ نگاربھی تھےاصغر سودائی ایک ہمہ پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ادیب، شاعر اور ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے افسانہ نگار بھی تھے۔ طالب علمی کے دور میں انہوں نے تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن کے طور پر کام کیا، گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور ان دنوں تحریک پاکستان کا سب سے بڑا مرکز تھا جہاں وہ زیرتعلیم تھے۔ اسلامیہ کالج کے جلسوں میں اصغر سودائی اپنے ولولہ انگیز کلام سے لوگوں کے دلوں کو گرماتے۔ انہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔انہیں قائد اعظمؒ سے بے پناہ محبت تھی۔ ایک بار قائد اعظم ؒ نے خود یہ کہا تھا کہ تحریکِ پاکستان میں 25فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے۔پروفیسر اصغر سودائی تحریک پاکستان کے ممتاز اراکین میں سے ایک ہیں، جن کا نعرہ ''پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ ابھی تک زندۂ جاوید ہے اور یہ نعرہ ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔پروفیسر سودائی نے 1944ء میں اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک پاکستان کے دوران ایک نظم ''ترانہ پاکستان‘‘کہی تھی اور یہ بے مثال مصرع اسی نظم کا ہے۔ مذکورہ بالا نعرہ پاکستان کی مذہبی شناخت بن گیا۔ 26ستمبر1926ء کو سیالکوٹ میں جنم لینے والے اصغر سودائی کا اصل نام محمد اصغر تھا اور تخلص سودائی تھا۔ان کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے مختلف حوالہ جات ملتے ہیں۔ وہ مرے کالج میں بھی زیر تعلیم رہے ،یہ وہی درس گاہ ہے جس میں علامہ اقبالؒ اور فیض احمدفیض جیسی قد آور شخصیات نے اپنی علمی پیاس بجھائی۔انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کی اور پنجاب یونیورسٹی سے اقتصادیات میں ایم اے کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے شعبہ تعلیم کو اپنا پیشہ بنایا، اسلامیہ کالج سیالکوٹ اور علامہ اقبال کالج سیالکوٹ کے پرنسپل کے طور پر کام کرتے رہے اور ڈائریکٹر ایجوکیشن پنجاب بھی رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سیالکوٹ کالج آف کامرس اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن کی ایڈوائزی کونسل کے رکن بھی رہے۔ دوران ملازمت انہوں نے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ ان کانعتیہ مجموعہ ''کلام شہ دوسرا‘‘ اور شعری مجموعے ''کرن گھٹا کی طرح‘‘، ''چلن صبا کی طرح‘‘ اور ''بدن حنا کی طرح‘‘ اشاعت پذیر ہوئے۔ انہیں ان کی خدمات حکومت کی طرف سے ''تمغۂ حسنِ کارکردگی‘‘ سے نوازا گیا۔ انہیں سیالکوٹ کی ادبی فضا میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ عمر بھر شعر و ادب سے وابستہ رہے۔ ہمعصروں سے محبت اور جونیئرز سے شفقت ان کا معمول تھا۔ اصغر سودائی سیالکوٹ کے ایک مشہور ریسٹورنٹ میں اکثر جایا کرتے تھے، یہ لاہور کے پاک ٹی پائوس کی طرز کا ریسٹورنٹ ہے،جہاں عموماًشعراء ، صحافی اورادب سے دلچسپی رکھنے والے حضرات جمع ہوتے تھے۔ پروفیسر اصغر سودائی وہاں آنے والے لوگوں کو تحریک پاکستان، قائداعظم ؒ کے سیالکوٹ کے دورے اور اپنے مصرعے کے متعلق دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے۔اسی وجہ سے لوگ انہیں تحریک پاکستان کا چلتا پھرتا ''انسائیکلوپیڈیا‘‘ بھی کہتے تھے۔ ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ یہ مصرع ''پاکستان کا مطلب کیا‘‘ آپ کے ذہن میں کیسے آیا؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ جب لوگ پوچھتے تھے پاکستان کا مطلب کیا ہے تو میرے ذہن میں آیا کہ سب کو بتانا چاہئے کہ ''پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ اس نعرے نے بہت مقبولیت حاصل کی اور پھر سب کو تسلیم کرنا پڑا کہ تحریک پاکستان اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہیں۔ کردار سازی اور انسان دوستی ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا وہ شرافت اور سادگی کا مجسمہ تھے۔ اکثر پیدل سفر کرتے تھے۔ پروفیسر اصغر سودائی کے شاگردوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔ ان شاگردوں میں زیادہ تر نے سودائی صاحب کا اسلوبِ حیات اپنایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اصغر سودائی نے اپنے بہت سے شاگردوں کو متاثر کیا۔ انہوں نے زندگی کو نئے معانی دیئے اور فکر کے ایسے چراغ روشن کئے کہ بعد میں آنے والے لوگوں نے ان سے روشنی پائی۔اصغر سودائی کی عادت تھی کہ وہ اپنی قمیض کا اوپر والا بٹن بھی بند رکھتے تھے۔ ان کا موقف تھا وضع داری کا تقاضا ہے کہ اساتذہ کے سامنے قمیص کے سارے بٹن بند ہونے چاہئیں۔ انہوں نے ساری زندگی تعلیم و ادب کی آبیاری میں گزاری۔ اصغر سودائی کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔اس کا انداز دلربا میں تھادیکھتا وہ تھا آئینہ میں تھارات دل کھول کر کئے ہیں سخنایک میں اور دوسرا میں تھاایک اور غزل کے خوبصورت اشعار قارئین کی نذر ہیں۔جب آنکھ میں تری صورت سمائی لگتی ہےمجھے خود اپنی نظر ہی پرائی لگتی ہےیہ تیرا قحطِ تبسم میں کھلھلا دینامجھے تو صورتِ رنج آشنائی لگتی ہےلگی ہیں تہمتیں اصغر تری شرافت پرنظر میں شر ہو تو نیکی برائی لگتی ہے17مئی 2008ء کو اصغر سودائی اس جہانِ رنگ و بو سے کوچ کر گئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر 81برس تھی۔وفات سے تقریباً چار پانچ سال پہلے ان پر فالج کا حملہ ہواتھا۔ اپنی گراں قدر علمی و ادبی خدمات کی بدولت ان کا نام تادیر زندہ رہے گا ۔ایک غزل کے چند اشعارباندھا ہے اس شوخ سے پیمان محبتپل بھر میں جو دروازے کو دیوار کرے ہےپھول کو یوں نہ لگا منہ کہ غضب ہو جائےبرگ گل کو تو ہوس ہے ترا لب ہو جائےیہ بھی امکاں ہے کہ دیوار کا پہلا پتھرساری دیوار کے گرنے کا سبب ہوجائےعقل کا پردہ تہذیب کہاں تک اصغرآدمی اصل میں دیوانہ ہے ، جب ہو جائےاصغر سودائی کا لافانی ترانہپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہشب ظلمت میں گزاری ہےاٹھ وقت بیداری ہےجنگ شجاعت جاری ہےآتش و آہن سے لڑ جاپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہہادی و رہبر سرور دیںصاحب علم و عزم و یقیںقرآن کی مانند حسیںاحمد مرسل صلی علیپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہچھوڑ تعلق داری چھوڑاٹھ محمود بتوں کو توڑجاگ اللہ سے رشتہ جوڑغیر اللہ کا نام مٹاپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہجرات کی تصویر ہے توہمت عالمگیر ہے تودنیا کی تقدیر ہے توآپ اپنی تقدیر بناپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہنغموں کا اعجاز یہیدل کا سوز و ساز یہیوقت کی ہے آواز یہیوقت کی یہ آواز سناپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہپنجابی ہو یا افغانمل جانا شرط ایمان ایک ہی جسم ہے ایک ہی جانایک رسولؐ اور ایک خداپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہتجھ میں ہے خالد کا لہوتجھ میں ہے طارق کی نموشیر کے بیٹے شیر ہے توشیر بن اور میدان میں آپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہمذہب ہو تہذیب کہ فنتیرا جداگانہ ہے چلناپنا وطن ہے اپنا وطنغیر کی باتوں میں مت آپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہاے اصغر اللہ کرےننھی کلی پروان چڑھےپھول بنے خوشبو مہکےوقت دعا ہے ہاتھ اٹھاپاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہزرق زیب شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں، ان کے تحقیقی و معلوماتی مضامین مختلف جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں 

قطب جنوبی برف سے ڈھکا براعظم

قطب جنوبی برف سے ڈھکا براعظم

66درجے عرض بلد جنوبی سے نیچے جو علاقہ ہے اسے قطب جنوبی انٹارکٹیکا کہتے ہیں۔ قطب جنوبی تقریباً 53لاکھ مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تمام تر وسعتوں میں جمی ہوئی برف کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ دنیا کی 90فیصدبرف یہاں جمع ہے۔ قطب جنوبی عالمی موسم پر ہی اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے سمندروں کو ہزاروں میل تک متاثر کرتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یہاں زندہ رہنا ناممکن تھا لیکن مختلف سائنسی ایجادات اور اختراعات نے یہ مشکل بھی آسان کر دی۔ اب جاپان، آسٹریلیا، امریکہ، برطانیہ، نیوزی لینڈ، بیلجئم، ناروے، ارجنٹینا، چلی اور فرانس نے یہاں اپنے اڈے اور تجربہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ ماہرین طبقات الارض کا کہنا ہے کہ کسی زمانے میں قطب جنوبی، امریکہ، افریقہ، ہندوستان اور آسٹریلیا سے ملا ہوا تھا لیکن کروڑوں برس پہلے زمین کی داخلی قوتوں نے اس کی سطح کو کچھ یوں تہ و بالا کردیا کہ مختلف براعظم ایک دوسرے سے پرے ہٹ گئے اور ان کے درمیان سمندر حائل ہو گئے۔ قطب جنوبی میں کوئلے، لوہے، کرومیم، تانبے، سرمے، ٹین اور یورینیم کی موجودگی کا سراغ بھی ملا۔ قیاس ہے کہ یہاں تیل کے ذخائر بھی موجود ہیں لیکن ان معدنی وسائل سے استفادہ کرنا مشکل ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دوسرے براعظموں میں جب معدنی وسائل کماحقہ ختم ہو جائیں گے تو ہم اپنی ضروریات کی تکمیل کیلئے قطب جنوبی کے معدنی وسائل بروئے کار لانے کی فکر کریں گے۔قطب جنوبی پر پانی کمیاب ہے اور اسی سبب سے گراں قیمت بھی۔ اس کے باوجود یہاں کی برفانی چوٹیوں میں ٹھوس شکل میں پانی کا اتنا ذخیرہ موجود ہے جو دنیا بھر کے دریائوں اور جھیلوں کے پانی کی مجموعی مقدار سے بھی زیادہ ہے۔ صحرائے اعظم میں تو پھر بھی کہیں نہ کہیں پانی مل جاتا ہے لیکن یہاں پانی کا ملنا محال ہے۔ جب ذرا گرمی کا موسم آتا ہے تو کہیں کہیں چھوٹے تالاب نمودار ہو جاتے ہیں لیکن گرمی کے رخصت ہوتے ہی پھر برف میں بدل جاتے ہیں۔ سائنسدان اپنے پینے اور دوسرے استعمال کیلئے برف پگھلا کر پانی حاصل کرتے ہیں۔یہاں پر جنوبی سمندر میں کئی ایک جزیرے ہیں جو بالکل بنجر اور ہر وقت طوفانی ہوائوں کی زد میں رہتے ہیں۔ ان میں سینٹ اکینز سینڈوچ آ ئی لینڈ، آئس لینڈ، پیٹر آئی لینڈ اور کرجیلین وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔قطب جنوبی کی دریافت کیلئے سب سے پہلے برطانوی مہم جو کیپٹن جیمز کک نے 1772-73ء میں بحری سفر کیا اور اس دشوار گزار حلقے کو عبور کیا۔1889ء میں ولیم سمتھ نے چند ایک جزائر کا پتہ لگایا اور ان کا نام جنوبی شیٹ لینڈ رکھا۔ اسی زمانے میں ایک روسی جہاز رواں بلنگ شوسن بھی قطب جنوبی کی طرف معلومات حاصل کرنے کیلئے روانہ ہوا۔ اس نے سینڈوچ کے جزیرے کا کھوج لگایا۔ ان کے نام اپنے بادشاہوں کے اعزاز میں پیٹر اوّل اور الیگزینڈر اوّل رکھے۔1823ء میں ایک مہم جو ویڈل 74درجے عرض بلد تک چلا گیا۔1830ء کے لگ بھگ گراہم لینڈ کا انکشاف ہوا۔1840ء میں کیپٹن جے سی اور کیپٹن ہو کر نے ایک جزیرے کا انکشاف کیا جس کا نام وکٹوریہ لینڈ رکھا گیا۔ اس جزیرے میں سب سے پہلے بلجیئم کے جہاز راں گرلاشے نے سردیوں کے دن گزارے تھے جو 1898ء میں موسم سرما میں یہاں پر رہا۔1901ء میں ڈسکوری نامی جہاز کے ذریعے آر ایف اسکاٹ نے ایک جزیرہ ایڈورڈ ہفتم لینڈ دریافت کیا۔ انہیں دنوں ایک جرمن جہاز راں نے بحرویڈل کی مہم شروع کی اور بحرویڈل کے جنوب مشرقی کنارے کی طرف ایک برفانی دیوار کا انکشاف کیا جہاں پر شیکلٹن 1908ء یا 1909ء میں برف کے دشوار گزار راستوں سے ہوتا ہوا پہنچا۔ وہاں سے قطب جنوبی صرف 111میل دور رہ جاتا ہے۔14ستمبر1911ء کو ورلڈ ایمنڈسن قطب جنوبی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور جنوری 1912ء میں اسکاٹ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ وہاں تک پہنچ گیا۔ اس نے ایمنڈسن کے خیمے کو وہاں دیکھا۔ ایمنڈسن واپسی پر برفانی تھپیڑوں کا مقابلہ نہ کر سکا تھا اور مارا گیا تھا۔ شیکلٹن قطب جنوبی کے دوسرے سفر پر نکلا اور راستے میں ہی ہلاک ہو گیا۔ ویلکنس نے ہوائی جہاز کے ذریعے قطب جنوبی کا سفر کیا اور یہ انکشاف کیا کہ یہ جزیرہ نما نہیں بلکہ چند جزائر کا مجموعہ ہے۔ایڈمرل بانٹرڈ نے طیارے کے ذریعے 19 گھنٹوں میں قطب جنوبی کے گرد چکر لگایا۔ 1931ء میں ایس لارنس نے کوئین موڈ لینڈ کا انکشاف کیا اور قطب جنوبی کے جزائر کا مکمل چکر لگایا۔1936ء میں لنکن السورتھ نے اس کی پیمائش کی۔ اس کا طیارہ راستے میں ہی ٹوٹ کر تباہ ہو گیا مگر ایک انگریز جہاز راں نے اس کی جان بچائی۔ اس طرح قطب جنوبی کی مکمل دریافت ہوئی۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ٹیلی کمیونی کیشن اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈے دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے اور اس دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونی کیشن کی اہمیت سے سب اچھی طرح واقف ہیں۔آج دنیا بھر میں ٹیلی کمیونی کیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا عالمی دن منایاجا رہا ہے۔ 17مئی کو اس دن کو منانے کا مقصد دورحاضر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی افادیت کے بارے میں عوام الناس کو آگاہ کرنا اور ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے اس کے پھیلاؤ میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔دنیا میں سب سے پہلے ٹیلی کمیونی کیشن کا دن1969ء میں منایا گیاتھا۔17مئی 1965ء میں ٹیلی کمیونیکیشن ڈے کو ''ورلڈ انفارمیشن سوسائٹی ‘‘کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔بیلجیئم پر قبضہ دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی کی جانب سے بیلجیئم پر حملہ کیا گیا۔ حملہ10مئی 1940ء کو کیا گیا لیکن 17مئی تک جرمن افواج نے بیلجیئم کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔جرمن افواج کے سامنے بیلجیئم کی افواج نے ہتھیار ڈال دیئے جس کے نتیجے میں جرمنی اس ملک پر قابض ہوا۔10 مئی 1940ء کو جرمنی نے آپریشنل پلان فال گیلب (کیس یلو) کے تحت لکسمبرگ، نیدرلینڈز اور بیلجیم پر حملہ کیا۔ اتحادی فوجوں نے بیلجیئم میں جرمن فوج کو روکنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔نیو یارک سٹاک ایکسچینج کا قیامبٹن ووڈ معاہدہ(Buttonwood Agreement) کے تحت نیویارک سٹاک ایکسچینج کا قیام عمل میں آیا۔ اس لئے اس معاہدہ کو نیویارک سٹاک ایکسچینج کا بانی دستاویز بھی قرار دیا جاتا ہے۔یہ امریکی تاریخ کا ایک اہم ترین مالیاتی معاہدہ تھا۔ معاہدے کیلئے نیویارک شہر میں تجارت کااہتمام گیا اور17مئی1792ء کو 68وال سٹریٹ سے باہر سٹاک بروکرز کے درمیان اس پر دستخط کئے گئے۔ یہ دستخط بٹن ووڈ کے درخت کے نیچے کئے گئے تھے اس لئے اس معاہدے کا نام بٹن ووڈ رکھا گیا۔لبنان معاہدہلبنانی خانہ جنگی کے دوران 17مئی 1983ء کو اسرائیل نے سابق معاہدے کو ختم کرتے ہوئے لبنان کے سرحدی علاقوں پر حملہ کر کے بیروت کا محاصرہ کر لیا۔اس محاصر ے کو ختم کرنے کیلئے لبنان اور اسرائیل کے درمیان ایک نیا معاہدہ طے پایا جس کے مطابق اسرائیل اپنی فوج لبنانی علاقوں سے واپس بلائے گا اور آئندہ بھی لبنانی خود مختاری کا احترام کرئے گا۔ 

’’لاہور کی بندرگاہ‘‘

’’لاہور کی بندرگاہ‘‘

''بھارت نے تو لاہور کی بندرگاہ پر بھی قبضہ کر لیا تھا جو آپ نے (بھارتی میڈیا) پر دیکھا۔ جب لاہوریوں سے پوچھا گیا کہ یہاں بندرگاہ کہاں ہے تو لاہوری حیران رہ گئے اور کہا کہ لاہور میں تو سمندر ہی نہیں تو بندرگاہ کہاں سے آ گئی؟‘‘۔ وائس ایڈمرل راجہ رب نواز نے 11 مئی کو ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ پریس کانفرنس میں جب یہ جملہ بولا تو اس کا ایک پورا پس منظر تھا۔ دراصل آٹھ مئی کی شام کو بھارتی نیوز چینلز پر پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے جب جھوٹی خبریں دینے کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک سے زائد چینلوں نے یہ خبر بار بار چلائی کہ بھارت کے بحری بیڑے ''وکرانت آئی این ایس‘‘ نے لاہور کی بندرگاہ پرقبضہ کر لیا ہے۔ ویسے تو اُس رات بھارتی چینلوں کی تمام ٹرانسمیشن ہی مضحکہ خیز تھی مگر لاہور میں بندرگاہ کی موجودگی کا دعویٰ سن کر سب چونک گئے کہ لاہور میں بندرگاہ کہاں سے آ گئی۔ اب تو لاہور کا دریا بھی سوکھ چکا ہے اور صرف نہر ہی میں پانی نظر آتا ہے تو کیا بھارت کا بحری بیڑا خشکی پر چل کر لاہور پہنچا ہے؟ پھر کہاں سمندر اور کہاں لاہور، یہ کیسے ممکن ہے کہ راتوں رات بحری بیڑہ لاہور پہنچ جائے۔ شاید بھارتی چینلوں کے رپورٹروںاور تجزیہ کاروں نے اپنی چشم تصور سے بحری بیڑے کو واہگہ کے راستے لاہور میں داخل ہوتے دیکھا ہو۔تفنن برطرف! آج یقینا لاہور میں بندرگاہ نہیں ہے، البتہ ایک ڈرائی پورٹ ضرور ہے مگر وہ زیادہ سٹرٹیجک اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ البتہ یہ سچ ہے کہ کسی دور میں لاہور بھی بندرگاہ یعنی فیری پورٹ کی سہولت سے مالا مال تھا، البتہ یہ فیری پورٹ کسی سمندر پر نہیں بلکہ دریائے راوی پر قائم تھی۔ یہ تب کی بات ہے کہ جب راوی دریا لاہور شہر کی فصیل کے ساتھ بہتا تھا۔ اُس زمانے کے دریا کے روٹ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ شاہی قلعے کے شمال مغرب سے بہتا ہوا موری گیٹ کے بالکل باہر (آج کے اردو بازار کے ساتھ) جنوب مغرب کی طرف بڑھتا اور پھر اس ٹیلے کے گرد گھومتا جہاں آج کل ڈسٹرکٹ عدالتیں ہیں۔ اکبر کے چچا کامران مرزا جو لاہور کے حاکم تھے‘ کی بارہ دری جو آج سوکھے ہوئے دریا کے ایک جزیرے پر ہے، اُس زمانے میں دریا سے ڈھائی کلومیٹر دور تھی۔ ''لاہورکی یادیں‘‘ از اے حمید میں اُس کی پوری منظر کشی کی گئی ہے۔ قلعہ لاہور کی حالت اس زمانے میں کچھ اچھی نہ تھی۔ اس لیے کامران نے دریا کے پار اپنے لیے وسیع و گل ریز باغ کے درمیان ایک عالی شان محل (بارہ دری) تعمیر کرایا۔ تب ٹھٹھہ اورلاہری بندر (گاہ) سندھ‘ ملتان اور پنجاب کو ہرمز‘ بشہر (ایرانی شہر صفی آباد) اور بصرہ سے جوڑتے اور مغربی ہندوستان کا فارس سے تجارتی رابطہ بناتے۔ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں خضری دروازہ دریا کے گھاٹ کے ساتھ تھا اور کشتیاں یہیں سے چلا کرتی تھیں۔ اسی دور لاہور کے خضری دروازے کی بنائی گئی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ راوی شہر کی دیواروں سے ٹکراتا گزرتا تھا۔ اکبر کے دور میں لاہورمیں دو بحری جہاز بھی تعمیر ہوئے تھے۔ تاریخ میں ان جہازروں کی تعمیر کا سنہ 1594ء اور 1596ء درج ہے۔ ''آئین اکبری‘‘ میں ایک باب ''آئین میر بحری‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں لکھا ہے کہ مشرق‘ مغرب اور جنوب کے ساحل پر بڑے بڑے جہاز بنائے گئے جو مسافروں کیلئے راحت کا سامان ہیں۔ بندرگاہوں پر خوشحالی آگئی ہے اورعلم کو فروغ ملا ہے۔ ابو الفضل نے ''اکبر نامہ‘‘ میں لکھاہے کہ شہنشاہ اکبر نے سمندر کا تجربہ 1572ء میں تب کیا جب گجرات پر قبضہ کیا۔ سورت‘ جسے خلیج کیمبے کی بڑی بندرگاہ بننا تھا‘ کو فتح کرنے کے بعد اکبر نے اپنے بیٹے سلیم کے نام پر دو بحری جہاز 'سلیمی‘ اور 'الٰہی‘ تیار کرائے۔ معروف بھارتی محقق پروفیسر شیریں موسوی طاہر محمد سبزواری کی کتاب روضۃ الطاہرین کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ سندھ کی لاہری بندرگاہ کے قریب جنگلات نہیں تھے، سو جہاز گجرات میں تیار اور مرمت ہوتے اسی لیے اکبر کو لاہور میں جہاز بنانے کی سوجھی۔ انہیں ہمالیہ کی لکڑی سے تیار کیا گیا اور دریائے سندھ کے نظام کے ذریعے لاہری بندرگاہ لے جایا گیا۔ موسوی کے مطابق ''نجانے یہ لاہورسے ٹھٹھہ کی دوری کے باعث تھا یا اکبر کے 1598ء میں دکن کی مہم کیلئے لاہور چھوڑنے کی وجہ سے کہ جہاز سازی کا یہ تجربہ جاری نہ رہا‘‘۔ 1598ء میں لاہور میں بحری جہاز بننا تو بند ہو گئے مگر بڑی‘ چھوٹی کشتیاں بنتی رہیں کیونکہ کوئی پل نہ ہونے کے باعث یہ دریا کے پار جانے، دریائی سفر اور تجارت کی ضرورت تھیں۔ شہنشاہ جہانگیر کے دور میں جب لاہور بین الاقوامی تجارت کا ایک حب بن چکا تھا، مغربی ایشیاسے یورپ تک کے تاجروں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ اس وقت شہر کے بیوپاری مختلف اشیا کو کشتیوں میں راوی کے ذریعے ملتان اور ٹھٹھہ پہنچاتے۔ سولہویں صدی کے ڈچ تاجر Francisco Pelsaert کی یادداشتوں میں بھی اس حوالے سے تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ ''جٹمل ناہر‘‘ نے جہانگیر کے دور میں پچپن اشعار پر مشتمل ''لاہورکی غزل‘‘ میں لکھا ہے کہ راوی لاہورکے ساتھ ساتھ بہتا تھا۔ یہاں ہمیشہ بہت سی کشتیاں ہوتیں اور صاف شفاف پانی میں بطخیں اور بگلے تیر رہے ہوتے۔ سترھویں صدی کے برطانوی تاجر William Finch کے مطابق لاہور سے راوی اور سندھ دریائوں کے راستے 60 ٹن یا اس سے اوپر کی کئی کشتیاں سندھ میں ٹھٹھہ تک جاتی تھیں اور یہ تقریباً 40 دنوں کا سفر تھا۔ اسی دور کے برطانوی سفارتکار Thomas Roe نے بھی یہ نشاندہی کر رکھی ہے کہ دریائے سندھ زیادہ آسان راستہ تھا، جس میں لاہور سے کوئی بھی چیز پانی کے ذریعے جا سکتی تھی۔ البتہ ملتان اور سندھ کے شہروں کی نسبت لاہور سے نقل وحمل مارچ کے شروع سے اکتوبر میں ٹھنڈ شروع ہونے تک ہی جاری رہتی تھی۔ اس دور کے مؤرخین اور تاجروں کی یادداشتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لاہور میں قندھار جانے والے یا دریا کے ذریعے سندھ جانے والے تمام سامان پر کسٹم ڈیوٹی 2.25 فیصد تھی۔ گھاٹ یا گزرگاہ پر 0.25 فیصد ٹیکس اس کے علاوہ تھا۔ اے حمید کے مطابق بادشاہ محمد شاہ کے زمانے میں عہد مغلیہ میں دریا کے پار امرا نے بہت سے باغات اور مکانات تعمیر کروا رکھے تھے مگر جب دریا نے اپنا رخ لاہور سے شاہدرہ کی طرف کر لیا تو (بیچ میں آنے والے) بہت سے باغ دریا برد ہو گئے اور جو باقی بچے وہ زمانے کی دستبرد سے مٹ گئے۔سکھ دور میں بھی دریا کے ذریعے سامان کی نقل و حمل کا ثبوت ملتا ہے اور مشہورِ زمانہ زمزمہ توپ کو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے لاہور سے کشتی میں لاد کر ہی ملتان کی جنگ کیلئے بھیجا تھا۔ اس وقت فیری پورٹ شیخوپورہ میں بیگم کوٹ کے پاس جا چکی تھی۔ سکھوں کے زمانے میں جب دریا مزید آگے بڑھ گیا تو فیری سٹیشن خاموش ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد ازاں برطانوی دور کے مؤرخین نے سندھ سے پنجاب تک کسی بھی قسم کی دریائی تجارت کی نفی کی ہے۔ گویا انیسویں صدی کے اوائل میں لاہور میں تجارتی کشتیوں کا دور ختم ہو چکا تھا۔ 

یادرفتگاں: فاروق قیصر بے مثل فنکاروڈرامہ نویس

یادرفتگاں: فاروق قیصر بے مثل فنکاروڈرامہ نویس

پاکستانی مزاح، پتلی تماشا اور ادبی تخلیق کے منظرنامے پر اگر کوئی نام سب سے زیادہ اثر انداز ہوا تو وہ نام ہے فاروق قیصر۔ ایک ہمہ جہت شخصیت، جنہوں نے نہ صرف بچوں کو قہقہے عطا کیے بلکہ بڑوں کو بھی آئینہ دکھایا۔ وہ بیک وقت مصنف، کالم نگار، کارٹونسٹ، پروڈیوسر، سکرپٹ رائٹر، صداکار، استاد، شاعر اور سب سے بڑھ کر ایک باشعور اور باوقار انسان تھے۔اگر کہا جائے کہ انکل سرگم کے خالق فاروق قیصر فن و ادب کی دنیا کا ایک روشن ستارہ تھے تو یہ ہرگز مبالغہ نہ ہوگا۔ ان کے تخلیق کردہ کردار جیسے ماسی مصیبتے،بونگا بخیل،ہیگا،رولا اورشرمیلا آج بھی ہمارے حافظے میں تازہ ہیں۔ یہ سب کردار ایک سماجی شعور کے ساتھ تخلیق کیے گئے، جنہوں نے عوامی زبان میں بڑے مسائل کی نشاندہی کی۔فاروق قیصر 31 اکتوبر 1945ء کو لاہور میں پیدا ہوئے، تاہم ان کی پرورش پاکستان کے مختلف شہروں میں ہوئی۔ ان کے والد سرکاری ملازم تھے، جس کے باعث تعلیمی سفر بھی پشاور، کوئٹہ اور لاہور کے درمیان بٹا رہا۔ میٹرک پشاور سے، ایف اے کوئٹہ سے اور گریجویشن نیشنل کالج آف آرٹس لاہور سے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں کیا۔ فائن آرٹس میں ماسٹرز کی ڈگری رومانیہ سے حاصل کی، جب کہ 1999ء میں امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا سے ماس کمیونیکیشن میں دوسرا ماسٹرز بھی مکمل کیا۔فاروق قیصر کی فنی زندگی کا آغاز پی ٹی وی کے پروگرام ''اکڑ بکڑ‘‘ سے ہوا، جس میں انہیں فیض احمد فیض کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی نے متعارف کروایا۔ تاہم اصل شہرت انہیں 1976ء میں شروع ہونے والے شہرہ آفاق پروگرام ''کلیاں‘‘ سے ملی۔ اس شو میں ''انکل سرگم‘‘ کا کردار فاروق قیصر کی پہچان بن گیا۔ کلیاں اگرچہ بچوں کا پروگرام تھا، مگر اس میں موجود طنز و مزاح نے ہر عمر کے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔فاروق قیصر کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے کپڑے کی پتلیوں سے وہ باتیں کہلوائیں، جو زندہ انسان کہنے سے گھبراتے تھے۔ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں ٹیلی وژن کو عوامی شعور اجاگر کرنے کا ذریعہ بنایا اور نااہلی، کرپشن اور ادارہ جاتی بگاڑ کو لطیف انداز میں بے نقاب کیا۔ ان کا یہ جملہ خاصا مشہور ہے: ''فرد ہر بات کہہ سکتا ہے، بس کہنے کا ڈھنگ آنا چاہیے‘‘۔ان کی دیگر مشہور تخلیقات میں ''ڈاک ٹائم‘‘، ''سرگم سرگم‘‘،''سیاسی کلیاں‘‘ اور ''سرگم بیک ہوم‘‘ شامل ہیں۔ ان تمام پروگراموں میں کرداروں کی تخلیق، ڈیزائننگ اور آواز کا کام خود فاروق قیصر نے انجام دیا۔فاروق قیصر کی ایک اور تخلیقی پہچان ''حشر نشر‘‘ کے نام سے پیش کیا جانے والا مزاحیہ صداکاری پر مبنی پروگرام تھا، جس میں انہوں نے انگریزی فلموں پر پنجابی فلموں کے انداز میں ڈبنگ کی۔ اس نئے طرز نے پاکستانی ٹی وی پر طنز و مزاح کی نئی راہیں کھول دیں، جو بعدازاں ایک مقبول رجحان بن گیا۔ان کی خدمات کا دائرہ صرف تفریح تک محدود نہیں تھا۔ وہ یونیسکو کے مختلف منصوبوں سے وابستہ رہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں صحت، تعلیم اور ثقافتی آگاہی کیلئے کام کیا۔ لوک ورثہ کے بورڈ آف گورنرز کا حصہ رہے اور نیشنل کالج آف آرٹس و فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی سمیت کئی جامعات میں تدریسی فرائض بھی انجام دیے۔انہوں نے 40 سے زائد ڈرامے، بے شمار نغمات اور کئی اخباروں کیلئے مستقل کالمز تحریر کیے۔ ان کی چار کتابیں ''ہور پْچھو‘‘، ''کالم گلوچ‘‘، ''میٹھے کریلے‘‘ اور ''میرے پیارے اللہ میاں‘‘ ان کے ادبی ذوق کی عکاس ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز اور تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا۔14 مئی 2021ء کودل کا دورہ ان کی جان لے گیا۔ وہ 75 برس کی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آج جب ان کی چوتھی برسی منائی جا رہی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارا بچپن، ہماری مسکراہٹیں اور ہمارے خواب بھی ان کے ساتھ جڑے تھے۔فاروق قیصر کی فنی زندگی صرف کرداروں، پتلیوں یا جملوں تک محدود نہ تھی بلکہ ایک ایسے شعور کا نام تھی جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنا جانتا تھا۔ بلاشبہ وہ پاکستان میں پتلی تماشا کے بانی بھی تھے اور مزاح کی زبان میں سنجیدہ بات کہنے کے ماہر بھی۔ان کا خلا کبھی پُر نہ ہو سکے گا۔ 

آج کا دن

آج کا دن

امریکی خلائی مشن ''سکائی لیب‘‘ کی روانگی 1973ء میں آج کے روز امریکہ نے اپنا پہلا خلائی اسٹیشن ''سکائی لیب‘‘ روانہ کیا۔یہ مشن 24ہفتوں پر مشتمل تھا جو مئی 1973ء سے فروری 1974ء تک جاری رہا۔اس دوران تین خلائی مشن ''سکائی لیب2‘‘، ''سکائی لیب 3‘‘ اور ''سکائی لیب 4‘‘ سر انجام دیئے گئے جن کا مقصد شمسی نظام اور زمین کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ سیکڑوں تجربات کرنا تھا۔ چیچک کی ویکسین کی ایجاد 14 مئی 1796ء کو برطانوی طبیب و سائنسدان ایڈورڈ جینرنے چیچک کے مرض کیلئے ویکسین ایجاد کی۔ایڈورڈ جینرکو ویکسین کابانی تصور کیا جاتا ہے ، ان کی بنائی ہوئی چیچک کی ویکسین دنیا کی پہلی ویکسین کہلاتی ہے۔چیچک ایک ایسی بیماری تھی جو ویریولا وائرس کی وجہ سے ہوتی تھی ۔اس کے آخری کیس کی تشخیص 1977 ء میں ہوئی تھی اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے 1980ء میں اس بیماری کے عالمی خاتمے کی تصدیق کی تھی۔ امریکی خانہ جنگی''جیکسن جنگ‘‘ یعنی امریکی خانہ جنگی کے دوران14مئی1863ء کو وکسبرگ مہم کے ایک حصے کے طور پر جیکسن اور مسیسیپی کے درمیان لڑی گئی۔ ریاست مسیسیپی میں داخل ہونے کے بعد، یونین آرمی نے اپنی فورس کو اندرون ملک منتقل کر دیا تاکہ مسیسیپی کے سٹریٹجک شہر وِکسبرگ پر حملہ کیا جا سکے۔ شہر پر قبضہ کرنے کے بعد، یونین فوجیوں نے اقتصادی اور فوجی بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا اور شہریوں کے گھروں کو بھی لوٹ لیا۔ پرتگال میں بغاوت14مئی1915ء میں برتگال میں ایک فوجی بغاوت ہوئی جس کی قیادت الوارو ڈی کاسترو اور جنرل سا کارڈوسونے کی۔اس بغاوت کا آغاز لزبن سے ہوا، جس کا واحد مقصد اس وقت کے حکمران جنرل پیمینٹاڈی کاسترو کی آمریت سے نجات حاصل کرنا تھا۔اس بغاوت کی قیادت کرنے والے رہنماؤں نے واضح کر دیا تھا کہ ہم کسی کو بھی غیر ضروری نقصان نہیں پہنچائیں گے ، جنرل کاسترو سے اقتدار چھین کرتحریک کا اختتام کر دیں گے۔ روٹر ڈیم پر حملہدوسری عالمی جنگ کے دوران نیدرلینڈز پر جرمن حملے کے دوران روٹرڈیم کو نازی افواج نے شدید فضائی بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس کا مقصد شہر میں لڑنے والے جرمن فوجیوں کی مدد کرنا، ڈچ مزاحمت کو توڑنا اور ڈچ فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا تھا۔ بمباری 10 مئی کو شروع ہوئی اور 14 مئی کو تاریخی شہر کے مرکز کی تباہی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔اس بمباری کو ''روٹرڈیم بلٹز ‘‘بھی کہا جاتا ہے، جس میں تقریباً 1150 لوگ مارے گئے۔