لوری

اسپیشل فیچر
ماں کی گود کا پہلا سبق اب مائوں کو بھی بھولنے لگابچپن کا وقت پل بھر میں گزر جاتا ہے اور اس دور کی یادیں انسان کے لاشعور میں لا محالہ طور پر اثرات دکھاتی ہیں اور اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوئے بنا نہیں رہ سکتیں ۔ بچپن میں ماں باپ،رشتہ دار،بڑوں کا پیاران کو لاڈ دکھانا اور معصوم سی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو سینے میں لیے خواب کی طرح سوچنا، ان خوابوں کے تانے بانے کے لیے ماں کی مادر پدر آغوش میں سر رکھ کر سہانے سپنے لیے سو جانا آج جب یہ وقت اور یہ باتیں انسان کو یاد آتی ہیں تو پورے جسم میں ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور دوسری طرف اس بچپن کے دور کو یاد کر کے انسان سوچتا ہے کہ کاش وہ وقت وہیں تھم جاتا مگر یہ قدرت کا قانون ہے اور قدرت کے قوانین کو توڑا نہیں جا سکتا اور یوں یہ انسان بتدریج زندگی کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے گہرائی کی آغوش میں چلا جاتا ہے ۔بچے کی تربیت کی پہلی سیڑھی ماں کی آغوش ہوتی ہے یہیں سے بچہ سیکھتا ہے ۔انتہائی بچپن کے دور میں جب بچہ روتا ہے ، ضد کرتا ہے تو ہمیشہ ایک سگھڑ ماں اپنے بچے کو گود میں لٹا کر ہلکورے دیتی ہوئی بچے کو سلا دیتی ہے۔ ماں خود جو سراپا شفقت ہے اور اس کی اپنے بچوں کے ساتھ محبت بے لوث ہوتی ہے تو دوسری طرف وہ لوری کی صورت میں مدھر گیتوں کے ساتھ بچے کے تابناک مستقبل کو روشن دیکھتے ہوئے ان بولوں میں دعا کرتی ہے یہ لوری ماں کی محبت اور ہمارے ورثہ کا ایک باب بن گیاجو آج بھی پنجاب کے ساتھ ساتھ دیگر قوموں اور قبیلوں میں مختلف ناموں کے ساتھ آج بھی جاری ہے : اللہ توں والی توںدتا ای تے پالی توںماں اپنے بچے کو جس روپ میں بھی دیکھنا چاہتی ہے لوری انہیں کے جذبات و خیالات کا اظہار کرتی ہے اور اس کی مکمل عکاسی کرتے ہوئے میٹھے لفظوں میں بچے کو سلا دیتی ہے کیونکہ پنجاب کے دیہاتی کلچر میں لوری بچے کی تربیت کا پہلا درس ہے جس میں ماں کی محبت ،خواہشات اور زندگی کا تجربہ شہد کی طرح میٹھے الفاظ میں ڈھل کر گیت کے بول بن کر ماں کے خوبصورت لبوں سے نکلتے ہیں جس میں دنیا بھر کا پیار شامل ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنے میکے گھر کے باسیوں کے لیے بھی دعائیں شامل ہوتی ہیں جس کو وہ چھوڑ کر اپنے اصل گھر میں آ جاتی ہے اور اس دور کی یادیں اور گھر میں رہنے والوں کی محبتوں کو وہ ساری عمر یاد کرتی رہتی ہے اور اپنے اس بچے کے مستقبل کو ہمیشہ بڑا ظاہر کرتی ہے :اللہ لو ری گنے دی پوریپھل گلاب دا منڈا پت نواب دالوری جو مختلف قبیلوں قوموں میں رائج زبانوں میں اپنی ایک علیحدہ حیثیت رکھتی ہے اور اس کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ۔ پنجاب کے دیہاتی کلچر کے ساتھ ساتھ پشتونخواہ قبیلوں میں بھی مائیں اپنے بچوں کو سلانے کے لیے خوش آوازی کے ساتھ لوری دیتی ہیں جہاں لوری کو اللہ ہو کا نام دیا گیا ہے۔ بچے کو اللہ کا نام لے کر سلانا نیک شگون ظاہر کیا جاتا ہے ۔پشتو کی لوری اپنی انفرادیت کے لحاظ سے اس لیے بھی مختلف ہے جس میں ماں اپنے بچے کو باپ کی بہادری کے واقعات اور اسلاف کی اولعز می کے کارنامے بیان کرتی ہے اور اپنے بچے کو خوبصورت الفاظ میں جذباتی انداز میں دشمن سے بڑا ہو کر انتقام لینے کی تلقین کرتی ہے :یو وزری د رہ مورپلار د نشتہ دے پہ کو نہ م خورشتہ نہ مورہم صحرا کوم ،ھم کور اللہ ہو شہ اللہ ہو شہللے للو للے للو اللہ ہو(ترجمہ: تیری ماں تنہا ہے ،تیرا والد گھر پر موجود نہیں،میری ماں ہے نہ میری بہن، جنگل سے ایندھن بھی لاتی ہوں اور گھر کا کام بھی کرتی ہوں، سو جائو سو جائو)ماں ہمیشہ اپنے بچے کو جس روپ میں بھی دیکھنا چاہتی ہے لوری ان جذبات کی عکاسی کرتی ہے جس سے بچہ ماں کی میٹھی آواز کے سروں میں گم ہو کر آہستہ آہستہ نیند کی وادیوں میں جاتے جاتے خوابوں میں کھو جاتا ہے :اللہ پاوے سکھ دکھاوے سکھ دی گھڑی میرے بچےتے آوےلوری کے بول خواہشوں اور سفنوں کے ملے جلے رد عمل کا اظہار ہوتے ہیں جن کو ایک ماں خوابوں کی طرح تانے بانے بن کر اپنے بچے کے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرتی ہے جب کہ اگر گھر میں بڑی بہن آپی ہو تو وہ اپنے بھائی کو لوری سناتی ہے جو اس نے اپنے گھر میں بڑی بی اماں یا دیگر سے سنتی چلی آ رہی ہے:سونے دا پنگھوڑا سونے دی کٹوریتینوں ماں دیوے لوری تینوں بہن دیوے لوریاس طرح بہن لوری کی صورت میں اپنے بھائی ،بہن کے ساتھ لاڈ پیار لوٹاتی رہتی ہے اور اس کو سلانے کے ساتھ ساتھ خود بھی سو جاتی ہے:صدقے صدقے امی ورگیاں اکھیاںابو ورگا نکلوری کے بولوں میں بچے کی اخلاقی تربیت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے اور بچپن سے ہی لوری کی صورت میں ماں پہلا درس فراہم کرتی رہتی ہے اور اس بچے کی دینی تربیت بھی لوری میں شامل ہوتی ہے:اللہ ہو لوا دے کھوکھو،تے بہہ کے نماز پڑھیےاللہ میاں نوں یاد کریےلوری کا مقصد بچے کی تربیت کے ساتھ ساتھ بچے کو سلانا ،اپنے جذبات کی عکاسی کرنا ہے اور خاص کر اس لوری کے پس منظر میں ایک سلیقہ شعار ماں کی ذہانت بھی کام کرتی ہے ۔ بچوں کو لوری دینے کا رواج اب آہستہ آہستہ کم ہو گیا ہے اور دور دراز کے علاقوں ،گوٹھوں،ڈیروں میں آپ کو مائیں اب بھی اپنے بچوں کو لوری دینے کی آواز ضرور سنائی دیتی ہے مگر اس کے بر عکس شہر کے لوگ لوری کے بولوں سے مکمل طور پر نا آشنا ہو چکے ہیں لوری کے بولوں کی جگہ اب نوجوان نسل کے کانوں اور ان کے ذہنوں پر غیر ملکی موسیقی کے اثرات نمایاں ہو چکے ہیں اور یوں یہ ہمارا روایتی دیہاتی کلچر معدوم ہوتا جا رہا ہے ۔janjua_j@yahoo.com٭…٭…٭