لوری

لوری

اسپیشل فیچر

تحریر : اختر رسول جنجوعہ


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

ماں کی گود کا پہلا سبق اب مائوں کو بھی بھولنے لگابچپن کا وقت پل بھر میں گزر جاتا ہے اور اس دور کی یادیں انسان کے لاشعور میں لا محالہ طور پر اثرات دکھاتی ہیں اور اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوئے بنا نہیں رہ سکتیں ۔ بچپن میں ماں باپ،رشتہ دار،بڑوں کا پیاران کو لاڈ دکھانا اور معصوم سی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو سینے میں لیے خواب کی طرح سوچنا، ان خوابوں کے تانے بانے کے لیے ماں کی مادر پدر آغوش میں سر رکھ کر سہانے سپنے لیے سو جانا آج جب یہ وقت اور یہ باتیں انسان کو یاد آتی ہیں تو پورے جسم میں ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور دوسری طرف اس بچپن کے دور کو یاد کر کے انسان سوچتا ہے کہ کاش وہ وقت وہیں تھم جاتا مگر یہ قدرت کا قانون ہے اور قدرت کے قوانین کو توڑا نہیں جا سکتا اور یوں یہ انسان بتدریج زندگی کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے گہرائی کی آغوش میں چلا جاتا ہے ۔بچے کی تربیت کی پہلی سیڑھی ماں کی آغوش ہوتی ہے یہیں سے بچہ سیکھتا ہے ۔انتہائی بچپن کے دور میں جب بچہ روتا ہے ، ضد کرتا ہے تو ہمیشہ ایک سگھڑ ماں اپنے بچے کو گود میں لٹا کر ہلکورے دیتی ہوئی بچے کو سلا دیتی ہے۔ ماں خود جو سراپا شفقت ہے اور اس کی اپنے بچوں کے ساتھ محبت بے لوث ہوتی ہے تو دوسری طرف وہ لوری کی صورت میں مدھر گیتوں کے ساتھ بچے کے تابناک مستقبل کو روشن دیکھتے ہوئے ان بولوں میں دعا کرتی ہے یہ لوری ماں کی محبت اور ہمارے ورثہ کا ایک باب بن گیاجو آج بھی پنجاب کے ساتھ ساتھ دیگر قوموں اور قبیلوں میں مختلف ناموں کے ساتھ آج بھی جاری ہے : اللہ توں والی توںدتا ای تے پالی توںماں اپنے بچے کو جس روپ میں بھی دیکھنا چاہتی ہے لوری انہیں کے جذبات و خیالات کا اظہار کرتی ہے اور اس کی مکمل عکاسی کرتے ہوئے میٹھے لفظوں میں بچے کو سلا دیتی ہے کیونکہ پنجاب کے دیہاتی کلچر میں لوری بچے کی تربیت کا پہلا درس ہے جس میں ماں کی محبت ،خواہشات اور زندگی کا تجربہ شہد کی طرح میٹھے الفاظ میں ڈھل کر گیت کے بول بن کر ماں کے خوبصورت لبوں سے نکلتے ہیں جس میں دنیا بھر کا پیار شامل ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنے میکے گھر کے باسیوں کے لیے بھی دعائیں شامل ہوتی ہیں جس کو وہ چھوڑ کر اپنے اصل گھر میں آ جاتی ہے اور اس دور کی یادیں اور گھر میں رہنے والوں کی محبتوں کو وہ ساری عمر یاد کرتی رہتی ہے اور اپنے اس بچے کے مستقبل کو ہمیشہ بڑا ظاہر کرتی ہے :اللہ لو ری گنے دی پوریپھل گلاب دا منڈا پت نواب دالوری جو مختلف قبیلوں قوموں میں رائج زبانوں میں اپنی ایک علیحدہ حیثیت رکھتی ہے اور اس کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ۔ پنجاب کے دیہاتی کلچر کے ساتھ ساتھ پشتونخواہ قبیلوں میں بھی مائیں اپنے بچوں کو سلانے کے لیے خوش آوازی کے ساتھ لوری دیتی ہیں جہاں لوری کو اللہ ہو کا نام دیا گیا ہے۔ بچے کو اللہ کا نام لے کر سلانا نیک شگون ظاہر کیا جاتا ہے ۔پشتو کی لوری اپنی انفرادیت کے لحاظ سے اس لیے بھی مختلف ہے جس میں ماں اپنے بچے کو باپ کی بہادری کے واقعات اور اسلاف کی اولعز می کے کارنامے بیان کرتی ہے اور اپنے بچے کو خوبصورت الفاظ میں جذباتی انداز میں دشمن سے بڑا ہو کر انتقام لینے کی تلقین کرتی ہے :یو وزری د رہ مورپلار د نشتہ دے پہ کو نہ م خورشتہ نہ مورہم صحرا کوم ،ھم کور اللہ ہو شہ اللہ ہو شہللے للو للے للو اللہ ہو(ترجمہ: تیری ماں تنہا ہے ،تیرا والد گھر پر موجود نہیں،میری ماں ہے نہ میری بہن، جنگل سے ایندھن بھی لاتی ہوں اور گھر کا کام بھی کرتی ہوں، سو جائو سو جائو)ماں ہمیشہ اپنے بچے کو جس روپ میں بھی دیکھنا چاہتی ہے لوری ان جذبات کی عکاسی کرتی ہے جس سے بچہ ماں کی میٹھی آواز کے سروں میں گم ہو کر آہستہ آہستہ نیند کی وادیوں میں جاتے جاتے خوابوں میں کھو جاتا ہے :اللہ پاوے سکھ دکھاوے سکھ دی گھڑی میرے بچےتے آوےلوری کے بول خواہشوں اور سفنوں کے ملے جلے رد عمل کا اظہار ہوتے ہیں جن کو ایک ماں خوابوں کی طرح تانے بانے بن کر اپنے بچے کے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرتی ہے جب کہ اگر گھر میں بڑی بہن آپی ہو تو وہ اپنے بھائی کو لوری سناتی ہے جو اس نے اپنے گھر میں بڑی بی اماں یا دیگر سے سنتی چلی آ رہی ہے:سونے دا پنگھوڑا سونے دی کٹوریتینوں ماں دیوے لوری تینوں بہن دیوے لوریاس طرح بہن لوری کی صورت میں اپنے بھائی ،بہن کے ساتھ لاڈ پیار لوٹاتی رہتی ہے اور اس کو سلانے کے ساتھ ساتھ خود بھی سو جاتی ہے:صدقے صدقے امی ورگیاں اکھیاںابو ورگا نکلوری کے بولوں میں بچے کی اخلاقی تربیت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے اور بچپن سے ہی لوری کی صورت میں ماں پہلا درس فراہم کرتی رہتی ہے اور اس بچے کی دینی تربیت بھی لوری میں شامل ہوتی ہے:اللہ ہو لوا دے کھوکھو،تے بہہ کے نماز پڑھیےاللہ میاں نوں یاد کریےلوری کا مقصد بچے کی تربیت کے ساتھ ساتھ بچے کو سلانا ،اپنے جذبات کی عکاسی کرنا ہے اور خاص کر اس لوری کے پس منظر میں ایک سلیقہ شعار ماں کی ذہانت بھی کام کرتی ہے ۔ بچوں کو لوری دینے کا رواج اب آہستہ آہستہ کم ہو گیا ہے اور دور دراز کے علاقوں ،گوٹھوں،ڈیروں میں آپ کو مائیں اب بھی اپنے بچوں کو لوری دینے کی آواز ضرور سنائی دیتی ہے مگر اس کے بر عکس شہر کے لوگ لوری کے بولوں سے مکمل طور پر نا آشنا ہو چکے ہیں لوری کے بولوں کی جگہ اب نوجوان نسل کے کانوں اور ان کے ذہنوں پر غیر ملکی موسیقی کے اثرات نمایاں ہو چکے ہیں اور یوں یہ ہمارا روایتی دیہاتی کلچر معدوم ہوتا جا رہا ہے ۔janjua_j@yahoo.com٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
موسمیاتی تبدیلیاں مویشیوں کیلئے بھی خطرہ

موسمیاتی تبدیلیاں مویشیوں کیلئے بھی خطرہ

دنیا بھر میں موسمی تبدیلیاں، زرعی معیشت اور مویشی پال کسانوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بن چکی ہیں۔پاکستان جیسے زرعی ملک میں مویشی پالنا لاکھوں افراد کا ذریعہ معاش ہے تاہم بدلتے موسموں نے اس شعبے کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق پاکستان میں مویشی پالنے کا شعبہ جی ڈی پی کا تقریباً 11.7 فیصد ہے اور زراعت کے شعبے کا 60 فیصد حصہ مویشیوں سے جڑا ہوا ہے۔تاہم موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث درجہ حرارت میں اضافے، بارشوں کے بے وقت اور شدید پیٹرن، خشک سالی اور چارے کی قلت جیسے مسائل نے مویشیوں کی صحت، پیداوار اور افزائش نسل پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق 2022ء میں جنوبی پنجاب اور سندھ میں شدید گرمی کی لہر کے دوران مویشیوں میں ہلاکتوں کی شرح میں 20 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اسی طرح بارشوں اور سیلاب کے دوران سینکڑوں جانور ہلاک ہو گئے جبکہ ہزاروں بیمار پڑے۔ گرمی کے باعث دودھ دینے والی گایوں اور بھینسوں کی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق درجہ حرارت میں ہر 1 ڈگری سیلسیس اضافے سے دودھ کی پیداوار میں 3 سے 5 فیصد کمی آتی ہے۔موسمی تبدیلی سے پیدا ہونے والی نئی بیماریاں، جیسے لمپی سکن بیماری، مویشیوں کیلئے جان لیوا ثابت ہو رہی ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے حکومت کو موسمیاتی پالیسیوں میں مویشیوں کے تحفظ کو شامل کرنا ہوگا، اور کسانوں کو بروقت آگاہی، ویکسی نیشن اور چارہ فراہم کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی تغیرات پاکستان میں ہر جاندار کو متاثر کر رہے ہیں۔ درخت کم ہو رہے ہیں،گلیشیئر پگھل رہے ہیں، بارشیں اور سیلاب زیادہ شدت اختیار کر رہے ہیں اور آبی ذخائر کم ہونے کی وجہ سے یہ پانی ضائع ہورہا ہے اور سال کا اکثر وقت کسان اور جانور پانی کی کمی کا شکار ہونے لگے ہیں۔ تھر میں پچھلے کئی سال سے موسم گرما میں قحط سالی کے باعث مرنے والے موروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔پانی کے پرندے بھی یہاں سے ہجرت کر رہے ہیں۔ جانوروں کی نسلیں معدوم ہو رہی ہیں۔ یہ سب ایکو سسٹم کی تباہی کے اشارے ہیں جو بالآخر انسانوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں جنگلی حیات اور مویشیوں کو خاص طورپر متاثر کرتی ہے۔اس کے نتیجے میں ان کے مسکنوں کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ خوراک کی دستیابی میں کمی ہو رہی ہے، بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو رہا اور بعض انواع کی معدومیت کے خطرات بھی پیدا ہو چکے ہیں ۔ یہ اثرات جنگلی جانوروں اور پالتو مویشیوں کو متاثر کرتے ہیں جس کی وجہ سے پیداواری صلاحیت، افزائش نسل اور جانوروں کی صحت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی قدرتی رہائش گاہوں کے نقصان اور جنگلی حیات کی بقا کیلئے اہم جنگلات اوردلدلی علاقوں اور گھاس کے میدانوںکا نقصان کرتی ہے۔بارش کے پیٹرن میں تبدیلی اور درجہ حرارت میں اضافہ پودوں کی نشوؤنما کو متاثر کر تا ہے اور جانوروں کیلئے خوراک کی دستیابی کو کم کر سکتی ہے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں رینج لینڈز پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔آب و ہوا میں تبدیلیاں پرندوں اور دیگر جانوروں کی نقل مکانی کے راستوں میں خلل ڈال سکتی ہیں جس سے ان کی خوراک اور افزائش نسل کے ٹھکانے تلاش کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ زیادہ درجۂ حرارت اور بارش کے موسموں میں تبدیلی جانوروں میں بیماریوں کے پھیلاؤ کیلئے سازگار حالات پیدا کر سکتی ہے جس سے جنگلی حیات کی آبادی متاثر ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بدلتی ہوئی آب و ہوا کی وجہ سے کچھ جانوروں کی نسلیں ممکن ہے معدوم ہو جائیں۔ گرمی کا دباؤ، خوراک کی دستیابی میں کمی اور بیماریوں سے مویشیوں میں دودھ اور گوشت کی پیداوار کم ہو سکتی ہے۔موسمیاتی تبدیلی مویشیوں کی تولیدی کارکردگی کو بھی متاثر کر سکتی ہے ۔ سیلاب اور خشک سالی جیسے شدید موسمی واقعات پسماندہ علاقوں میںبطور خاص مویشیوں کیلئے خطرہ بنتے ہیں۔ گرمی کی شدت، پانی کی کمی اور بیماریوں کے پھیلنے سے جانوروں کی صحت متاثر ہوتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی مویشیوں اور دیگر شعبوں کے میں پانی اور زمینی وسائل کیلئے مسابقت کو بڑھا سکتی ہے ۔ایسے میں ماہرین کو موسمیاتی تغیر برداشت کرنے والے مویشیوں کی نسلیں تیار کرنا ہوں گی۔ معروف جریدے ''سائنس ڈائریکٹ‘‘ (Science Direct) نے رپورٹ کیا ہے کہ محققین مویشیوں کی نئی نسلوں کو تیار کرنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں جو گرمی کے دباؤ اور خشک سالی کو زیادہ برداشت کرتی ہیں۔لیکن جنگلی جانوروں کی معدومیت کا کیا کیا جائے؟آبپاشی کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور پانی کے تحفظ کے اقدامات سے پانی کی کمی کو دور کرنے اور مویشیوں کو خشک سالی سے بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔ کسانوں کو اپنی فصلوں اور لائیو سٹاک کے نظام کو متنوع بنانے کی ترغیب دینے سے انہیں بدلتے ہوئے موسمی حالات کے مطابق ڈھالنے میں مدد مل سکتی ہے اور انتہائی موسمی حالات سے ان کے خطرے کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کسانوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور موافقت کے اقدامات کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا انہیں باخبر فیصلے کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ جہاں دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جاتی ہے وہاں پانی ذخیرہ کرنے کی سہولیات پر سرمایہ کاری پہ بھی توجہ دی جانی چاہیے کیونکہ اس بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے پانی کے وسائل کو زیادہ مؤثر طریقے سے منظم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

یادرفتگاں:2عظیم فنکار۔۔۔۔۔مجیب عالم اور ننھا

یادرفتگاں:2عظیم فنکار۔۔۔۔۔مجیب عالم اور ننھا

پاکستانی فلم اور ٹیلی وژن کی تاریخ میں کئی ایسے فنکار گزرے ہیں جنہوں نے اپنے منفرد انداز اور بے مثال فن کے ذریعے عوام کے دلوں میں لازوال مقام بنایا۔ انہی عظیم فنکاروں میں گلوکار مجیب عالم اور اداکار ننھا (رفیع خاور) کا شمار ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی آواز اور اداکاری سے فنونِ لطیفہ کو نئی جہت دی۔ ایک نے اپنے سریلے نغموں سے دلوں کو چھوا، تو دوسرے نے اپنے معصوم اور پرخلوص مزاح سے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں۔ یہ دونوں فنکار نہ صرف اپنے دور کے ہر دلعزیز چہرے تھے، بلکہ آج بھی ان کی یادیں پاکستان کی فنی تاریخ کا روشن باب ہیں۔ ان کی خدمات اور فن کا اعتراف کرنا محض خراجِ عقیدت نہیں بلکہ ہماری ثقافتی شناخت کے تحفظ کی ایک کوشش ہے۔ گلوکار مجیب عالم نے ساٹھ کی دہائی کے آخر میں اپنی منفرد گائیکی سے اہل موسیقی کو چونکا کے رکھ دیا تھا۔4 ستمبر1948ء کو کانپور (بھارت) میں پیدا ہونے والے مجیب عالم کا فلمی کریئر اتنا طویل نہ تھا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے کم فلمی گیت گائے لیکن ان کے سپرہٹ گیتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔1967ء میں ندیم اورشبانہ کی مشہور زمانہ فلم ''چکوری‘‘ ریلیز ہوئی تو اس کے نغمات نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں مقبولیت کی تمام حدیں پار کرلیں۔ اس فلم میں فردوسی بیگم، ندیم اور احمد رشدی نے اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔ اس فلم کے سارے گیت ہی مقبول ہوئے اور ان میں ایک گیت ''وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں‘‘مجیب عالم نے گایا تھا جس نے مجیب عالم کو بہت شہرت بخشی۔ اس کے بعد فلم ''سوغات‘‘ میں ان کا گایا ہوا یہ گیت ''دنیا والو تمہاری دنیا میں‘‘بہت پسند کیا گیا۔ ''سوغات‘‘ کے بھی تمام گیت ہٹ ہوئے لیکن مجیب عالم کے گائے ہوئے اس گیت کی بات ہی کچھ اور تھی۔ مجیب عالم کی کامیابیوں کا سفر جاری رہا۔ ندیم، رانی اور شبنم کی یادگار فلم ''شمع‘‘ اور ''پروانہ‘‘ ریلیز ہوئی۔ نثار بزمی کی موسیقی میں اس فلم کے بھی تمام نغمات سپرہٹ ہوئے۔ اس میں مجیب عالم کے گائے ہوئے دو نغمات ''میں ترے اجنبی شہر میں‘‘ اور ''میں ترا شہر چھوڑ جائوں گا‘‘ بہت مشہور ہوئے۔ اب تک ان نغمات کی مقبولیت برقرار ہے۔مجیب عالم نے فلم ''رنگوجٹ‘‘ میں میڈم نور جہاں کے ساتھ ایک پنجابی دوگانا گایا جو بہت پسند کیا گیا۔70ء کی دہائی کے شروع میں بھی ان کی مقبولیت برقرار رہی۔ فلم ''اک نگینہ‘‘ میں ان کے گائے ہوئے گیت ''یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم، اب ہوش میں آنا مشکل ہے‘‘کو بہت پسند کیا گیا ۔ 70ء کے وسط میں مجیب عالم کی مقبولیت میںکمی آ گئی۔ اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ دو نئے پلے بیک سنگرز اخلاق احمد اور اے نیئرفلمی صنعت میں داخل ہوگئے تھے۔ دونوں کی آواز میں ایک نیا پن تھا۔فلمسازوں نے مجیب عالم کو نظرانداز کرنا شروع کردیا۔مجیب عالم کو کئی ایوارڈ دیئے گئے۔ انہوں نے بنگلہ اور پشتو زبان میں بھی کئی گانے گائے اور ان کی 12آڈیو البم ہیں۔ 1979ء میںمجیب عالم فلمی گائیکی سے ریٹائر ہوگئے تھے۔مجیب عالم کی گائیکی کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ وہ طربیہ اور المیہ دونوں قسم کے نغمات یکساں مہارت سے گاتے تھے۔2جون 2004ء کو مجیب عالم اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ اداکار ننھا کا اصل نام رفیع خاور تھا اور وہ 1942ء میں ساہیوال میں پیدا ہوئے۔ کریئر کا آغاز تھیٹر سے کیا ، 1964ء میں ریڈیو پاکستان کے ایک پروگرام کے ذریعے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو اس طرح بھرپور انداز میں پیش کیا کہ شائقین کی نظروں میں آ گئے ۔ کمال احمد رضوی کے پہلے ڈرامہ ''آئو نوکری کریں‘‘ سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا، اس کے بعد کمال احمد رضوی کی ہی ڈرامہ سیریز ''الف نون‘‘ سے انہیں شہرت ملی۔ اس سیریز میں ان کا کام دیکھ کر شباب کیرانوی نے انہیں اپنی فلم ''وطن کا سپاہی‘‘ میں مزاحیہ کردار دیا۔ جس نے یہ فلم دیکھی وہ ان کا معترف ہو گیا۔1976ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''نوکر‘‘نے ننھا کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، جس کے بعد انہیں فلموں میں ہیروکے طور پر کاسٹ کیا جانے لگا۔ فلم ''ٹکا پہلوان‘‘ ان کی بطورہیروپہلی فلم تھی۔ بطور ہیرو ''دبئی چلو‘‘ کی کامیابی نے انہیں ملک گیر شہرت بخشی۔ننھا دو دہائیوں تک فلمی دنیا میں بطور مزاحیہ اداکار چھائے رہے ۔تاہم کئی مواقع پر انہوں نے اپنی سنجیدہ اداکاری سے بھی بہت متاثر کیا۔انہوں نے مجموعی طور پر 391 فلموں میں کام کیا۔ جس میں سے 166اُردو، 221پنجابی ، 3 پشتو اور ایک فلم سندھی زبان میں بنائی گئی۔ ان کی مقبول فلموں میں ''سوہرا تے جوائی،سالا صاحب، سو نا چاندی، زمرد، بھروسہ، پلے بوائے، لو سٹوری، دوستانہ ،پردے میں رہنے دو،آس، نوکر، دبئی چلو،آخر ی جنگ،نوکر تے مالک ،دلاں دے سودے ، قدرت ، مرزا مجنوں، رانجھا، صاحب جی ، مہندی، نمک حلال، تیری میری اک مرضی شامل ہیں۔ بطور اداکار ان کی آخری فلم ''ہم سے نہ ٹکرانا‘‘ تھی جبکہ ان کی آخری ریلیز ہونے والی فلم '' پسوڑی بادشاہ‘‘ تھی۔ ننھا کی ٹائٹل رول پر مشتمل فلم ''سالا صاحب‘‘ نے لاہور میں مسلسل 300 ہفتوں تک زیر نمائش رہ کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ ننھا بلا شبہ پاکستانی فلمی تاریخ میں ایک بہت بڑا اور معتبر نام ہے جس نے اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں ایسا مقام پید ا کیا جو فلم بینوں کو ہمیشہ یاد رہے گا۔وہ دو دہائیوں تک 1966ء سے 1986 ء تک فلم بینوں کے دلوں پر راج کرتے رہے اورفلموں کی ضرورت بنے رہے۔ وہ 2 جون 1986ء کو اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائے گئے او رانہیں علامہ اقبال ٹائون لاہور کے قبرستان میںدفن کیا گیا۔لوگ مزاحیہ اداکار ننھا کو 39سال گزرنے کے باوجود بھی نہیں بھلا سکے۔آج بھی وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔مجیب عالم کے مشہورگیت-1 وہ مرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں-2 میں ترے اجنبی شہر میں-3 میں ترا شہر چھوڑ جائوں گا-4 اے جان آرزو-5 خدا کبھی نہ کرے-6 کوئی جاکے ان سے کہہ دے-7 ذرا تم ہی سوچو، بچھڑ کے یہ ملنا-8 یوںکھو گئے تیرے پیار میں ہم 

دنیا کی خوبصورت مساجد

دنیا کی خوبصورت مساجد

جامع مسجد روم(اٹلی)یہ مسجد نہ صرف اٹلی بلکہ پورے یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے۔ اس کا رقبہ 3لاکھ 20ہزار مربع فٹ ہے اور اس میں 12ہزارنمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ مسجد روم شہر میں مائونٹ انٹین کے دامن میں واقع ہے جو کہ سر سبز علاقہ ہے۔ یہ اٹلی کا مرکزی اسلامک سنٹر بھی ہے۔1970ء کی دہائی میں افغانستان کے ایک جلاوطن شہزادے محمد حسن اور اس کی بیوی شہزادی رضیہ بیگم کے باہمی اشتراک سے اس مسجد کی تعمیر عمل میں آئی اور شاہ فیصل نے بھی مالی معاونت کا وعدہ کیا۔ روم شہر کی سٹی کونسل نے اس کے لئے زمین تحفتاً دی لیکن کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر اس کا سنگ بنیاد 1984ء (1405ھ) میں رکھا گیا۔ کیتھولک فرقہ کے روحانی پیشوا پوپ جان پال دوم نے خصوصی دُعا کی۔ جب مسجد مکمل ہو گئی تو جذبہ خیر سگالی کے پیش نظر اٹلی کے صدر نے 21جون 1995ء کو اس کا افتتاح کیا۔کیتھولک مسیحی فرقے کے گڑھ میں یورپ کی سب سے بڑی مسجد کا وجود ہی اسلام کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کی تعمیر میں تھوڑا سا اختلاف اس وقت پیدا ہوا جب مسجد کے مینار کی بلندی رومن چرچ سے بڑھنے لگی لیکن بعد ازاں اس مسئلے کو نہایت خوش اسلوبی سے اس طرح حل کر لیا گیا کہ مینار کی بلندی سینٹ پیٹر چرچ سے دو فٹ کم کردی گئی۔ اب گنبد کی بلندی 130 فٹ اور مینار کی بلندی 141فٹ ہے۔ اس مسجد کے ساتھ ایک لائبریری بھی قائم کی گئی ہے جس میں دس ہزار کتابیں رکھی گئی ہیں۔باب السلام مسجد پیرو( جنوبی امریکہ) مسجد باب السلام جنوبی امریکہ کے ملک پیرو کے شہر ٹاکنا (Tacna)میں تعمیر کی گئی ہے۔ یہ واحد مسجد ہے جو پیرو میں تعمیر کی گئی ہے۔ یہ مسجد پاکستان سے آئے ہوئے مہاجرین نے 2000ء میں تعمیر کی۔ یہ خوبصورت مسجد شہر کے مرکزی حصے (ڈائون ٹائون) میں واقع ہے۔ یہ اتنی خوبصورت ہے کہ دور دور سے آئے ہوئے سیاح بھی اس کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ مسجد وہاں کے مسلمانوں کے جذبہ ایمانی اور دین اسلام سے محبت کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ مسجد سے ملحق مسلم بچوں کی دینی اور جدید تعلیم کیلئے ایک سکول قائم کیا گیا ہے۔ اس مسجد کو تعمیر کروانے کا سہرہ ایک پاکستانی تاجر شیر افضل خاں بارہ کوٹی کے سر ہے۔ شیرافضل خاں شاہ ولی اللہ سکول آف سائنسز بھی تعمیر کروا رہے ہیں۔ اتنے دور افتادہ مقام پر اس مسجد کا تعمیر ہونا مسلمانوں کے لئے باعث فخر ہے جہاں پر پانچوں وقت اذان اور تکبیر کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ ٹاکنا کا شہر چلی کی سرحد کے قریب کوہستان اینڈیز کی ڈھلان پر سطح سمندر سے 2000فٹ بلندی پر واقع ہے۔

عمر رسیدہ افراد کے جسمانی،ذہنی اور معاشرتی مسائل

عمر رسیدہ افراد کے جسمانی،ذہنی اور معاشرتی مسائل

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان کی جسمانی، ذہنی اور معاشرتی حالت میں نمایاں تبدیلیاں آتی ہیں۔ زندگی کا یہ مرحلہ خصوصی توجہ کا متقاضی ہوتا ہے کیونکہ اسی عمر میں انسان مختلف مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان سمیت دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک میں بزرگ شہریوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے، جو ان کی صحت اور خوش حالی پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔عمر رسیدہ افراد میں عام جسمانی بیماریاںبڑھتی عمر کے ساتھ جسمانی نظام سست ہو جاتے ہیں، قوت مدافعت کمزور پڑتی ہے اور مختلف بیماریوں کا سامنا عام ہو جاتا ہے۔ ان میں ہائی بلڈ پریشر اور شوگر،گردوں کے امراض، جوڑوں کا درد اور گنٹھیا، نظر کی کمزوری اور موتیا، قبض، ہاضمے کے مسائل اور یورینری انفیکشن اور دل کی بیماریاں نمایاں ہیں۔ ان تمام بیماریوں کا بروقت علاج، مناسب پرہیز اور میڈیکل چیک اپ انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ذہنی صحت کے عام مسائلبزرگوں میں ذہنی صحت کے مسائل کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے حالانکہ یہ ان کی مجموعی صحت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ عام ذہنی مسائل میں ڈپریشن، یادداشت کی کمزوری (ڈیمینشیا / الزائمر)، بے چینی، نیند کی کمی، مستقبل کا خوف اور زندگی کا بے مقصد محسوس ہونا شامل ہیں۔معاشرتی مسائلبزرگ افراد کو معاشرتی سطح پر بھی کئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، جن میں تنہائی اور سماجی علیحدگی، نظراندازی اور بے توقیری، اولاد کا مصروف طرز زندگی اور عدم دلچسپی، معاشی انحصار اور خودمختاری کی کمی، ریٹائرمنٹ کے بعد بیکاری کا احساس نمایاں ہیں۔ یہ تمام عوامل ان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔بزرگوں کی فلاح و بہبود کے اہدافایک صحت مند معاشرہ تبھی قائم ہو سکتا ہے جب ہر عمر کے افراد کو مساوی حقوق اور سہولیات دی جائیں۔ بزرگوں کیلئے فلاح و بہبود کے اہداف درج ذیل ہو سکتے ہیں۔بہتر صحت کی سہولیات،معاشی تحفظ،سماجی قبولیت،ذہنی و جذباتی سکون اورفعال معاشرتی کردار۔ اہداف کا حصول کیسے ممکن؟یہ اہداف حاصل کرنے کیلئے حکومت، خاندان، صحت کے ادارے اور معاشرہ سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ریگولر ہیلتھ چیک اپ کروائیں،بزرگوں کیلئے مخصوص ہسپتال یا وارڈز کا قیام عمل میں لایا جائے،ذہنی صحت کے ماہرین تک رسائی ممکن بنائی جائے، معاشی معاونت، پنشن اسکیم اور صحت انشورنس دی جائے،روزمرہ سرگرمیوں میں بزرگوں کی شمولیت،خصوصی نشستیں، بزرگ دوستانہ انفراسٹرکچرفراہم کیا جائے۔خاندان اور معاشرے کی ذمہ داریاںبزرگوں کی فلاح و بہبود میں سب سے اہم کردار ان کے قریبی رشتہ داروں اور معاشرے کا ہوتا ہے۔ ان ذمہ داریوں میں محبت اور توجہ دینا،ان کی رائے کو اہمیت دینا،وقت دینا اور بات چیت کرنا،روزمرہ امور میں ان کی شمولیت،معاشی طور پر سہارا دینا اوران کی عزت نفس کا خیال رکھناشامل ہیں۔اسلام کی بزرگوں سے متعلق رہنمائیاسلام بزرگوں کی عزت، خدمت اور ان سے حسن سلوک پر بہت زور دیتا ہے۔ قرآن و حدیث میں کئی مقامات پر اس حوالے سے رہنمائی موجود ہے۔''اور اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘ (البقرہ: 83)، ''جو شخص کسی بوڑھے کا احترام کرتا ہے، اللہ اس کیلئے بھی ایسے لوگوں کو مقرر کرتا ہے جو اس کی بڑھاپے میں خدمت کریں‘‘(حدیث نبوی)۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ''بوڑھوں کے چہروں میں تم اپنے کل کو دیکھو‘‘فلاحی ادارے کا کردارکراچی میں واقع رفاعی ادارہ بزرگوں کی صحت کے حوالے سے ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔ یہاں روزانہ درجنوں بزرگ مریضوں کو مفت ڈائلاسس، ادویات اور مشورے فراہم کیے جاتے ہیں۔ سینٹر کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر اسفند یار احمد نہ صرف ماہر نیفرو لوجسٹ ہیں بلکہ بزرگوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے: ''ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بزرگ افراد نہ صرف ہمارے معاشرے کا اثاثہ ہیں بلکہ ان کی دعائیں ہمارے ادارے کی ترقی کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ انہیں وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے‘‘۔بزرگوں کو نظر انداز کیے جانے کی وجوہاتبدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بزرگوں کو کئی وجوہات کی بنا پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جن میں تیز رفتار طرز زندگی،افرادِ خانہ کی ترجیحات میں تبدیلی،معاشی مسائل اور سہولیات کی کمی،سوشل میڈیا اور موبائل کی مصروفیت شامل ہیں۔ بزرگ افراد ہمارے معاشرے کا وہ آئینہ ہیں جو ہمارے ماضی کو حال سے جوڑتے ہیں۔ ان کی صحت، عزت اور خوش حالی نہ صرف انسانی، بلکہ اسلامی و سماجی فریضہ بھی ہے۔ ہمیں بطور فرد اور ادارہ یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم بزرگوں کو وہ عزت، سہولت اور محبت دیں جو ان کا حق ہے۔  

حکایت سعدیؒ :زخمی درویش

حکایت سعدیؒ :زخمی درویش

بیان کیا جاتا ہے، ایک درویش سمندر کے کنارے اس حالت میں زندگی گزار رہا تھا کہ اس کے جسم پر چیتے کے ناخنوں کا لگا ہوا ایک زخم ناسور بن چکا تھا۔ اس ناسور کی وجہ سے درویش بہت تکلیف میں مبتلا تھا مگر اس حالت میں بھی وہ اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔اس سے سوال کیا گیا کہ اے مرد خدا! یہ شکر کرنے کا کون سا موقع ہے؟ درویش نے جواب دیا، میں اس بات کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مصیبت میں مبتلا ہوں معصیت میں نہیں۔ تو نے سنا نہیں کہ اللہ والے گناہ کے مقابلے میں مصائب کو پسند کرتے ہیں۔ جب عزیز مصر کی بیوی زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانے میں ڈلوا دینے کی دھمکی دی تو انھوں نے فرمایا تھا کہ اے اللہ، مجھے قید کی مصیبت اس گناہ کے مقابلے میں قبول ہے جس کی طرف مجھے بلایا جا رہا ہے۔ درویش نے مزید کہ اللہ والوں کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے رب کو راضی رکھنے کی تمنا کرتے ہیں۔مجھے قتل کرنے کا دیں حکم اگرنہ ہو گا مجھے اپنی جاں کا ملالمیں سوچوں گا کیوں مجھ سے ناراض ہیںستائے گا ہر وقت بس یہ خیالاس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے انسان کے اس بلند مرتبے کا حال بیان کیا ہے جب وہ ہر بات کو من جانب اللہ خیال کرتا ہے اور ہر وقت اس خیال میں رہتا ہے کہ میرا خدا مجھ سے کس طرح راضی ہو گا۔ یہی وہ روحانی منزل ہے جب انسان کو سچااطمینان اور سچی راحت حاصل ہوتی ہے۔ اور وہ خوف اور غم سے پاک ہو جاتا ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

جامعہ الازہر کا قیام972ء میں قاہرہ میں جامعہ الازہر کا قیام عمل میں آیاجو اپنے علمی و ادبی معیار کی بدولت عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہے۔ الازہر یونیورسٹی کی بنیاد ایک مسجد کے طورپر رکھی گئی تھی جس کا نام مسجد الازہر ہے۔ اس مسجد کو بعدازاں یونیورسٹی میں تبدیل کردیا گیا اوریہ جامعہ الازہر کے نام سے مشہور ہوئی۔ تین ٹرینوں کا بد ترین تصادم2023ء میںبھارت میں تین ٹرینوں کا بدترین حادثہ پیش آیا ۔ جس میں 295 سے زیادہ افراد ہلاک اور 1100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ کورو منڈل ایکسپریس ایک مال بردار ٹرین سے ٹکرا گئی۔ دوسری سمت سے آنے والی یشونت پور ہاوڑہ پٹری سے اتر گئی اور دیگر بوگیوں سے ٹکرا گئی۔ملکہ ایلزبتھ کی رسم تاج پوشی 1953ء کو آنجہانی برطانوی ملکہ ایلزبتھ کی رسم تاج پوشی ہوئی۔ ایلزبتھ دوم اپنے والد جارج ششم کی وفات پر 25 سال کی عمر میں تخت پر بیٹھی تھیں۔ 9 ستمبر 2015ء کو انھوں نے ملِکہ وِکٹوریا کے سب سے لمبے دورِ حکومت کے رِیکارڈ کو توڑا۔ وہ پورے عالم میں سب سے لمبے وقت تک حکومت کرنے والی ملکہ تھیں۔ حسنی مبارک کو عمر قید کی سزا2012ء میں سابق مصری صدر حسنی مبارک کو 2011ء کے مصری انقلاب کے دوران مظاہرین کے قتل میں ان کے کردار کیلئے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ حسنی مبارک مصری سیاستدان اور فوجی افسر تھے جنہوں نے 1981ء سے 2011ء تک مصر کے چوتھے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔سیاست میں آنے سے پہلے، مبارک مصری فضائیہ میں پیشہ ور افسر تھے۔