ادب کی دنیا : ماہرؔ القادری

ادب کی دنیا :   ماہرؔ القادری

اسپیشل فیچر

تحریر : سید ابو الہاشم


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

ماہرؔ القادری کا اصل نام منظور حسین اور ماہرؔ تخلص تھا۔ وہ30 جولائی1906ء کو ضلع بلند شہر (یو۔پی بھارت) کے ایک قصبہ کسہیہ کلاں میں پیدا ہوئے۔اُن کے والد کا نام معشوق علی تھا۔ماہر القادری نے قرآنِ حکیم اور اُردو کی ابتدائی تعلیم گائوں کے مکتب سے حاصل کی۔1926ء میں انہوں نے میٹرک کا امتحان مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے پاس کیا۔ مولانا عبد القادر بدایونی کی سفارش پر ماہر صاحب نے 1926ء کو حیدر آباد دکن میں محکمہ ڈاک میں ملازمت حاصل کی۔ حیدر آباد دکن میں کم و بیش پندرہ برس تک مقیم رہے۔ 1944ء میں بمبئی منتقل ہوئے۔قیامِ پاکستان کے بعد اپریل1949ء کو ماہر نے ماہنامہ ’’فاران‘‘ کا اجراء کیا جو بڑی پابندی کے ساتھ29 برس تک شائع ہوتا رہا۔1954ء میں ماہر صاحب نے حج کے مشاہدات و تاثرات پر ’’کاروان حجاز‘‘ کے نام سے کتاب تحریر کی۔ ماہر القادری کی شاعری کی کتب1939ء سے 1956ء تک منظر عام پر آتی رہیں، جو درج ذیل ہیں:۱۔ ظہورِ قدسی (نعتیہ مجموعہ) ۲۔ محسوسات ماہر ۳۔ نغماتِ ماہر۴۔ ذکرِ جمیل ۵۔ جذباتِ ماہر ۶۔ فردوسمجموعی اعتبار سے ماہر کی صحت عمر بھر قابل رشک رہی آخری چند سال وہ عارضہ قلب میں مبتلا رہے اور72 برس کی عمر میں1978ء کو وفات پا گئے۔آخر میںاُن کی ایک حمد پیش ِ خدمت ہے:خدا کا نام سہارا ہے ہر کسی کے لیےخدا کا ذکر ہی تسکیں ہے زندگی کے لیےدل و نظر کو ضرورت نہیںچراغوں کییقیں کی شمع ہی سب کچھ ہے روشنی کے لیےمیں کیوں جہاں میں کسی اور کی طرف دیکھوںخدا کی ذات ہی کافی ہے دوستی کے لیےاسی کا نام فنا ہے، اس کا نام بقارضائے دوست ضروری ہے زندگی کے لیےگمان و وہم کے آگے یقیں کی منزل ہےپھر اس کے بعد اُجالا ہے آدمی کے لیےزباں پہ اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلّہ ہے ماہرؔیہی وظیفہ ہے ایماں کی تازگی کے لیے٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
فیلڈ مارشل کا عہدہ تاریخ، اہمیت اور تفصیلات

فیلڈ مارشل کا عہدہ تاریخ، اہمیت اور تفصیلات

دنیا بھر میں عسکری مراتب کی باقاعدہ درجہ بندی ہوتی ہے جس کے ذریعے افواج میں قیادت، اختیارات اور ذمہ داریوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ ان مراتب میں سب سے اعلیٰ اور باوقار عہدہ ''فیلڈ مارشل‘‘ (Field Marshal) کا ہوتا ہے، جو عموماً جنگی مہارت، عسکری خدمات اور قومی سطح پر دفاعی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا جاتا ہے۔ یہ عہدہ اکثر علامتی نوعیت کا بھی ہوتا ہے لیکن اس کی تاریخی اہمیت اور عسکری وقار غیر معمولی ہے۔فیلڈ مارشل ایک پانچ ستارہ فوجی عہدہ ہے جو بری فوج میں دیا جاتا ہے۔ یہ عہدہ عام طور پر کسی افسر کو اس وقت دیا جاتا ہے جب وہ نہ صرف افواج کی قیادت کے اعلیٰ معیار پر پورا اترے بلکہ قومی سطح پر اس کی عسکری خدمات نمایاں ہوں۔ فیلڈ مارشل کا رینک جنرل سے بھی بلند ہوتا ہے اور یہ جنگی تاریخ میں ایک مخصوص مقام رکھتا ہے۔عہدے کا تاریخی پس منظرفیلڈ مارشل کا تصور سب سے پہلے یورپ میں ابھرا تھا۔ خاص طور پر جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں۔ اس کا آغاز 17ویں صدی کے دوران ہوا۔ جرمنی میں ''فیلڈ مارشل‘‘ (Feldmarschall) کا عہدہ سلطنتِ مقدسِ روم (Holy Roman Empire) کے دور میں مستعمل تھا جبکہ فرانس میں بھی اس کا ہم پلہ عہدہ ''مارشل آف فرانس‘‘ (Marshal of France) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ برطانیہ میں فیلڈ مارشل کا عہدہ 1736ء میں متعارف ہوا اور تب سے اب تک یہ عہدہ مخصوص عسکری شخصیات کو دیا جاتا رہا ہے۔ برطانوی سلطنت کے زیرِ اثر ممالک، بشمول پاکستان،بھارت، آسٹریلیا، مصر اور دیگر ممالک میں بھی یہ عہدہ وقتاً فوقتاً دیا جاتا رہا ہے۔ بعض ممالک میں، جیسا کہ سپین اور میکسیکو، یہ عہدہ کبھی ڈویژنل کمانڈ کی نشاندہی کرنے کیلئے استعمال ہوتا تھا جبکہ پرتگال اور برازیل میں یہ بریگیڈ کمانڈ کیلئے۔ بہرحال یہ رینک انتہائی معتبر ہے اس لیے پوری تاریخ میں کچھ انتہائی نامور عسکری عہدیدار ہی اس عہدے کو حاصل سکے ہیں۔ خصوصیات و علامتی حیثیت٭...فیلڈ مارشل کا عہدہ عمومی طور پر پانچ ستارہ (Five star) درجہ رکھتا ہے۔ ٭...تاحیات ہوتا ہے یعنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہ اعزازی حیثیت میں برقرار رہتا ہے۔٭... اسے قومی ہیرو یا جنگی فاتح کے طور پر اعزاز کے طور پر دیا جاتا ہے۔ ٭...اس کا تعلق عام فوجی کمان سے کم اور قومی اعزاز سے زیادہ ہوتا ہے۔٭...اکثر ممالک میں یہ عہدہ علامتی ہوتا ہے تاہم اس کے حامل عسکری مشاورت یا عسکری نمائندگی کی سطح پر موجود رہتے ہیں۔ فیلڈ مارشل کے مشہور حاملینفیلڈ مارشل برنارڈ مونٹگمری (برطانیہ) : دوسری جنگ عظیم کے ممتاز برطانوی جنرل جنہوں نے نازی جرمنی کے خلاف افواج کی قیادت کی۔فیلڈ مارشل برنارڈ مونٹگمری شاید جدید سینئر رینکنگ برطانوی افسران میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ انہوں نے پہلی جنگ عظیم اور آئرش جنگِ آزادی میں خدمات انجام دیں لیکن غیر مبہم طور پر اپنی شہرت دوسری جنگ عظیم میں اپنی خدمات کے دوران حاصل کی۔ انہوں نے شمالی افریقہ میں اروین رومیل کے خلاف اتحادیوں کی قیادت کی نیز اٹلی اور نارمنڈی میں لینڈنگ کے دوران برطانوی اور کینیڈین افواج کی قیادت کی۔فیلڈ مارشل ارون رومیل (جرمنی) : نازی جرمنی کے مشہور ''ڈیزرٹ فاکس‘‘جنہوں نے شمالی افریقہ میں جنگ لڑی۔ ایرون رومیل نے دوسری جنگ عظیم کے شمالی افریقی تھیٹر میں فوجوں کی قیادت کی اور فرانس پر حملے کے دوران 7ویں پینزر ڈویژن کی کمان کی۔جلد ہی انہیں شمالی افریقہ منتقل کر دیا گیا جہاں انہوں نے ایک ٹینک کمانڈر کی حیثیت سے خاصی شہرت حاصل کی اور اس کے بعد فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی حاصل کر لی۔ اسی مہم کے دوران انہیں ''ڈیزرٹ فاکس‘‘ کا لقب ملا۔ ایرش جارج ایڈورڈ وون مانسٹائن:پہلی جنگ عظیم میں خدمات انجام دینے کے بعد ایرش وون مانسٹائن کو ایک مضبوط حکمت کار سمجھا جاتا تھا۔جب وہ دوسری جنگ عظیم میں جرمن فوجی صفوں میں آگے بڑھے۔ درحقیقت یہ ان کا منصوبہ تھا جسے 1940ء میں فرانس پر حملے کے لیے منتخب کیا گیا تھا تاہم جنگ میں ان کا بنیادی کردار جون 1941ء میں شروع ہونے والے سوویت یونین پر حملے میں تھا۔ وان مانسٹین کو یکم جولائی 1942ء کو سیواستوپول کے محاصرے اور جزیرہ نما کرچ کی جنگ کے بعد فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ سوویت یونین میں ان کی کئی کوششیں ناکام رہیں لیکن 1943ء میں کرسک کی جنگ کے دوران انہوں نے کامیابی حاصل کی تاہم اپنی فوجوں کی کمان کرتے ہوئے جرمن قیادت کے ساتھ جنگ لڑنے کے طریقوں کے بارے میں ان کے مسلسل اختلافات رہے۔ایچ آر ایچ پرنس فلپ:ہز رائل ہائینس پرنس فلپ، ڈیوک آف ایڈنبرا اور مرحوم ملکہ الزبتھ دوم کے شوہر نے دوسری جنگ عظیم میں خدمات انجام دیں لیکن یہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ انہیں فیلڈ مارشل بنایا گیا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو انہوں نے پہلے ہی ڈارٹموتھ میں برطانوی رائل نیول کالج میں شرکت کرتے ہوئے بحری کیریئر کا آغاز کر دیا تھا۔وہیں ان کی ملاقات اپنی مستقبل کی شریک حیات سے ہوئی۔ انہوں نے پوری جنگ میں بحریہ میں خدمات انجام دیں۔ 1940ء میں انہوں نے بحر ہند میں تعینات ایک جہاز پر خدمات انجام دیں اور پھر 1941ء میں سکندریہ‘ مصر چلے گئے۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ انہیں فرسٹ لیفٹیننٹ کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ یہ عہدہ جنگ کے خاتمے پر ان کے پاس برقرار رہا اور 1947ء میں انہوں نے الزبتھ کر لی۔ جب 1952ء میں اُن کی اہلیہ تخت نشین ہوئیں تو فلپ کو متعدد فوجی عہدے دیئے گئے جن میں برطانیہ کے فیلڈ مارشل کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں بھی عہدے شامل تھے۔پاکستان میں فیلڈ مارشل کا عہدہپاکستان میں آج تک صرف دو شخصیات کو فیلڈ مارشل کا درجہ دیا گیا ہے: جنرل محمد ایوب خان اور جنرل سید عاصم منیر۔ایوب خان کا فیلڈ مارشل بننا ایوب خان پاکستان کے پہلے مقامی سپہ سالار تھے جنہیں 1951ء میں آرمی چیف بنایا گیا۔ 1958ء میں وہ ملک کے پہلے فوجی آمر کے طور پر ابھرے جب انہوں نے مارشل لاء نافذ کیا۔1959ء میں بطور صدر اور آرمی چیف انہوں نے خود کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی۔ ان کا یہ اقدام بعض حلقوں میں سیاسی علامتی قدم سمجھا گیا جس کا مقصد اپنی طاقت اور وقار کو فوجی اور سیاسی دونوں سطح پر مستحکم کرنا تھا۔ ان کے دورِ حکومت میں فیلڈ مارشل کی وردی، سلامی اور دیگر اعزازات کا استعمال سرکاری طور پر ہونے لگا۔یہ امر قابلِ غور ہے کہ ایوب خان کو یہ عہدہ جنگی فتوحات یا عسکری میدان میں عظیم کارنامے انجام دینے کے باعث نہیں بلکہ بطور سیاسی حکمران خودساختہ طور پر دیا گیا تھا، جس پر بعد ازاں کئی تجزیہ نگاروں اور تاریخ دانوں نے تنقید کی۔  

اڑنے والی کار اڑان بھرنے کو تیار

اڑنے والی کار اڑان بھرنے کو تیار

جدید ٹیکنالوجی کے ایک اور خواب کو حقیقت کا روپ دینے کا وقت قریب آ گیا ہے ۔ دنیا کی پہلی بڑے پیمانے پر تیار کی جانے والی اْڑنے والی کار آئندہ چند ماہ میں فروخت کیلئے پیش کی جا رہی ہے، لیکن یہ خواب ہر کسی کیلئے نہیں، بلکہ صرف اْن کیلئے ہے جو 10 لاکھ امریکی ڈالر (تقریباً 28 کروڑ 37لاکھ پاکستانی روپے) ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔سلوواکیہ کی کمپنی ''کلین وژن‘‘ کا دعویٰ ہے کہ اس کی ''ایئر کار‘‘ دنیا کی پہلی بڑے پیمانے پر تیار کی جانے والی اْڑنے والی کار 2026ء کے اوائل میں فروخت کیلئے دستیاب ہوگی۔یہ جدید اڑن کار ایک ایسے وقت میں مارکیٹ میں آ رہی ہے جب شہروں میں ٹریفک کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور لوگ سفر کے لیے تیز تر اور آسان ذرائع تلاش کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایجاد شہری نقل و حمل کے ایک نئے دور کی شروعات ہو سکتی ہے۔کار کی خصوصیاتاس جدید گاڑی کو ''Pal-v Liberty‘‘ یا ''Model A‘‘ جیسے نام دیے جا رہے ہیں۔یہ عجیب و غریب ہائبرڈ گاڑی، جو ایک اسپورٹس کوپ کی طرح تیار کی گئی ہے، چار پہیوں اور دو پروں پر مشتمل ہے۔ یہ پہلے رن وے پر رفتار پکڑتی ہے اور پھر ہوا میں بلند ہو جاتی ہے۔ یہ چند منٹوں میں زمین سے فضا میں بلند ہو سکتی ہے اور ایک مخصوص حد تک اڑان بھر سکتی ہے۔یہ دو نشستوں والی گاڑی صرف دو منٹ سے بھی کم وقت میں اپنے فولڈ ہونے والے پر نکال سکتی ہے تاکہ پرواز کے لیے تیار ہو سکے، اور منزل پر پہنچنے کے بعد وہ پروں کو دوبارہ سمیٹ لیتی ہے۔ 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی ہوائی رفتار تک پہنچ سکتی ہے،زمین پر عام کار کی طرح دوڑ سکتی ہے،مکمل چارج یا ایندھن پر 150 کلومیٹر تک پرواز کر سکتی ہے۔''کلین وژن‘‘ کے بانی اسٹیفن کلین نے کہا ہے کہ ''ایئر کار‘‘ ایک طویل عرصے کا خواب پورا کرنے جا رہی ہے، یعنی مسافروں کی پرواز کو عام لوگوں کی دسترس میں لانا۔انہوں نے کہا ''ہماری پروڈکشن پروٹو ٹائپ کے آغاز کے ساتھ، ہم دنیا میں نقل و حرکت کا انداز بدلنے کے ایک قدم اور قریب آ چکے ہیں۔ سڑک اور آسمان کو ذاتی آمد و رفت کے ایک نئے دور میں ضم کرتے ہوئے‘‘۔کلین وژن کا اندازہ ہے کہ یہ گاڑی 2026ء کی پہلی تین ماہ میں فروخت کیلئے پیش کی جائے گی لیکن یہ سستی ہرگز نہیں ہوگی۔کون خریدے گا؟ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی خریداروں میں ارب پتی افراد، ٹیکنالوجی کے شوقین اور کار کلیکٹرز شامل ہوں گے۔ کچھ ممالک میں اس قسم کی پرواز کیلئے مخصوص لائسنس کی ضرورت ہو گی، جو صرف تربیت یافتہ افراد کو دیا جائے گا۔ٹریفک کا حل یا لگژری کا نیا کھلونا؟جہاں کچھ لوگ اس ایجاد کو مستقبل کی آمدورفت کا انقلابی قدم قرار دے رہے ہیں، وہیں کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ابھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے اور فی الحال صرف امیر طبقے کیلئے ایک ''لگژری کھلونا‘‘ ہے۔ماہرین کی رائےایوی ایشن ماہر ڈاکٹر مائیکل ہارپر کہتے ہیں: ''یہ آغاز ہے ایک نئے دور کا۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کرے گی، قیمتیں گریں گی اور مستقبل میں ہم اْڑنے والی گاڑیاں عام لوگوں کے لیے بھی قابلِ رسائی بنتی دیکھیں گے‘‘۔خلاصہاڑنے والی کار، جو کبھی سائنس فکشن میں دیکھی جاتی تھی، اب حقیقت بننے کے قریب ہے۔ لیکن فی الحال، یہ صرف ان کیلئے ہے جو دس لاکھ ڈالر کی قیمت ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ کیا ہم ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں؟ وقت ہی بتائے گا۔ 

آج کا دن

آج کا دن

فیفا کا قیام21مئی 1904ء کوفٹ بال کی عالمی تنظیم ''فیفا‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کا مقصد بیلجیم، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈز، سپین، سویڈن اور سوئٹزرلینڈ کی قومی ٹیموں کے درمیان بین الاقوامی مقابلے کی نگرانی کرنا تھا۔اس کا مرکزی دفتر زیورخ، سوئٹزرلینڈ میں واقع ہے۔211ممالک کے پاس فیفا کی رکنیت موجود ہے۔روس کے یوکرین پر حملے کے بعد اس کی رکنیت معطل کر دی گئی ہے۔ الجیریا میں زلزلہ21مئی 2003ء کو شمالی الجیریا میں ایک خوفناک زلزلہ آیا۔اس زلزلے کی شدت 6.8 ریکارڈ کی گئی۔یہ الجزائر میں20 سالوں میں آنے والے زلزلوں میں سب سے زیادہ شدت والا زلزلہ تھا۔ اس سے قبل 1980ء میں بھی ایک تباہ کن زلزلہ آیا تھا جس کی شدت7.1تھی اور اس کے نتیجے میں 2ہزار 633 افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ 2003ء کا زلزلہ اس کے بعد سب سے زیادہ خوفناک سمجھا جاتا ہے۔کولمبیا میں غلامی کا خاتمہ 21مئی1851ء میں کولمبیا میں غلامی کا خاتمہ کیا گیا۔کولمبیا میں غلامی کا آغاز 16ویں صدی کے آغاز سے ہوا اور اس کا حتمی خاتمہ 1851ء میں کیا گیا۔ اس عمل میں افریقی اور مقامی نژاد لوگوں کی سمگلنگ شامل تھی جو پہلے ہسپانوی نوآبادیاتی باشندوں کے ذریعہ اور بعد میں جمہوریہ نیو گراناڈا کے تجارتی اشرافیہ کے ذریعہ کی جاتی تھی ۔میکسیکو اور فرانس کے درمیان معاہدہ21مئی 1911ء کو فرانسیسی انقلابی لیڈر اور میکسیکو کے صدر ڈیاز کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے نے فرانس اور میکسیکو کی حمایت کرنے والی افواج کے درمیان لڑائی کا خاتمہ کیا ۔معاہدے میں یہ طے پایاتھا کہ ڈیاز کے ساتھ ساتھ اس کے نائب صدر رامون کورل کو مئی کے آخر تک سبکدوش کر دیا جائے گا اور اس کے بعد صدارتی انتخابات کروائے جائیں گے۔اٹلانٹا میں آتشزگی21مئی 1917ء کو دوپہر کے وقت اٹلانٹا، جارجیا کے اولڈ وارڈ میں آگ بھڑک اٹھی۔ اس آگ کو بڑھانے میں گرم موسم اور ہوائوں نے ایندھن کا کردار ادا کیا۔یہ آگ تقریباً10گھنٹے تک جلتی رہی جس نے 300ایکٹر رقبے پر مشتمل 1900 مختلف املاک کو نقصان پہنچایا۔ اس آگ کی وجہ سے تقریباً10ہزار افراد بے گھر ہوئے۔اس حادث کے نتیجے میں نقصانات کا تخمینہ 50 لاکھ ڈالر لگایا گیا۔ جو2022ء کے100 ملین ڈالر کے برابر ہے۔ 

پاکستانی فلمی موسیقی کا درخشاں باب اے حمید

پاکستانی فلمی موسیقی کا درخشاں باب اے حمید

پاکستانی فلمی موسیقی کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی، تو ایک نام سنہری حروف میں ضرور رقم ہوگا،اور وہ نام ہے اے حمید کا۔ تین دہائیوں پر محیط شاندار فلمی کریئر، 70 سے زائد فلموں کی موسیقی اور 450 سے زیادہ دل کو چھو لینے والے نغمے اس عظیم موسیقار کے فن کا واضح ثبوت ہیں۔ے حمید پاکستانی فلمی موسیقی کا ایک بہت بڑا نام تھے۔ وہ کمال کے موسیقار تھے کہ ان کے بہت کم گیت ایسے ہیں جو مقبول نہ ہوئے ہوں، ان کے سپرہٹ گیتوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ مادری زبان پنجابی ہونے کے باوجود اردو فلموں کے سکہ بند موسیقار تھے اور پورے فلمی کریئر میں صرف 8 پنجابی فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔1933ء میں امرتسر (بھارت) میں پیدا ہونے والے شیخ عبدالحمید، جنہیں فلمی دنیا میں اے حمید کے نام سے شہرت ملی، نے تقسیم ہندکے بعد پاکستان میں فنِ موسیقی کا آغاز کیا۔ ان کی پہلی فلم ''انجام‘‘ 1957ء میں ریلیز ہوئی، لیکن اصل شہرت انہیں 1960ء کی فلم ''رات کے راہی‘‘ سے ملی۔ اس فلم کا لازوال گیت ''کیا ہوا دل پہ ستم، تم نہ سمجھو گے بلم‘‘ آج بھی سننے والوں کو ایک الگ ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔اسی برس ایس ایم یوسف کی فلم ''سہیلی‘‘ نمائش پذیر ہوئی، جس نے نہ صرف باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑے بلکہ اے حمید کی حیثیت کو بھی مستحکم کر دیا۔اس فلم کے گیت ''کہیں دو دل جو مل جاتے‘‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔1962ء کی فلم ''اولاد‘‘، اور بعد ازاں آشیانہ (1964ء)، توبہ (1965ء ) اور بہن بھائی (1968ء ) میں ان کے کمپوز کردہ نغمات زبان زد عام ہوئے۔ فلم ''توبہ‘‘ کی قوالی ''نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ہم کہاں جاتے‘‘ آج بھی کلاسیکی موسیقی کے چاہنے والوں کے دلوں کو چھو جاتی ہے۔اے حمید کا فن صرف رومانوی یا روایتی فلمی دھنوں تک محدود نہیں رہا۔ 1971ء میں ریاض شاہد کی فلم ''یہ امن‘‘ میں انہوں نے سنجیدہ اور قومی جذبے سے بھرپور موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم کا گیت ''ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو‘‘ مہدی حسن اور نور جہاں کی آواز میں ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔1972ء میں شریف نیئر کی فلم ''دوستی‘‘ نے سپر ہٹ کا درجہ حاصل کیا۔ اے حمید کی ترتیب دی گئی موسیقی، قتیل شفائی، کلیم عثمانی اور تنویر نقوی کے لکھے ہوئے گیتوں کے ساتھ، فلم کی کامیابی کی بنیاد بنی۔ ''یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شاہ زادیاں‘‘ اور ''چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے‘‘ جیسے گیت آج بھی شائقین کو جھومنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔1974ء میں فلم ''سماج‘‘ کیلئے ان کا دیا ہوا سنگیت، اور 1976ء میں حسن طارق کی فلم ''ثریا بھوپالی‘‘ کی موسیقی، اے حمید کے فن کی معراج سمجھی جاتی ہے۔ خصوصاً ناہید اختر کی آواز میں گائے گئے گیت آج بھی دل کی گہرائیوں تک اثر کرتے ہیں۔پنجابی زبان ان کی مادری زبان تھی، مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تمام تر فنی زندگی میں صرف آٹھ پنجابی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان میں 1976ء کی فلم ''سوہنی مہینوال‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، جس کے نغمے سیف الدین سیف کے لکھے ہوئے تھے اور اے حمید نے انہیں جادوئی دھنوں سے سجا دیا۔اے حمید کو موسیقی سے والہانہ لگاؤ تھا۔ انہوں نے پونا فلم انسٹی ٹیوٹ سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ پیانو بجانے میں بھی مہارت رکھتے تھے اور ان کے بیشتر کمپوزیشنز میں مغربی اور مشرقی موسیقی کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ان کے ساتھ کام کرنے والے شعرا میں فیاض ہاشمی، قتیل شفائی، سیف الدین سیف اور حبیب جالب جیسے بڑے نام شامل ہیں، جنہوں نے ان کے سنگیت کو نغمات کی شکل میں امر کر دیا۔20 مئی 1991ء کو راولپنڈی میں ان کا انتقال ہوا، مگر ان کی موسیقی آج بھی زندہ ہے، دلوں کو چھوتی ہے اور سننے والوں کو ماضی کے سنہری دور میں لے جاتی ہے۔ اے حمید کا نام ہمیشہ پاکستانی فلمی موسیقی کی تاریخ میں روشن رہے گا۔اے حمید کے چند مقبول عام گیتکیا ہوا دل پہ ستم ، تم نہ سمجھو گے بلم(رات کے راہی)ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے(سہیلی)مکھڑے پہ سہرا ڈالے ، آجا او آنے والے (سہیلی)کہیں دو دل جو مل جاتے، بگڑتا کیا زمانے کا (سہیلی)نام لے لے کے تیرا ہم تو جئیں جائیں گے (فلم اولاد)نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا، ہم کہاں جاتے(توبہ)چٹھی جرا سیاں جی کے نام لکھ دے(دوستی)یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شاہ زادیاں (دوستی)کس نام سے پکاروں، کیا نام ہے تمہارا(غرناطہ)ظلم رہے اور امن بھی ہو ، کیا ممکن ہے(یہ امن)اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں(انگارے)چند دلچسپ حقائق٭... پہلی فلم کی طرح ان کی آخری فلم ''ڈسکو دیوانے‘‘کے ہدایتکار بھی جعفربخاری تھے۔٭...اے حمید نے سو سے زائد گیت نغمہ نگار فیاض ہاشمی سے لکھوائے تھے۔٭...زیادہ تر گیت میڈم نورجہاں ، مالا ، مہدی حسن اور منیر حسین سے گوائے۔٭...گلوکار اے نیر کو دریافت کیا،فلم ''بہشت‘‘ (1974ء) میں روبینہ بدر کے ساتھ دوگانا ''یونہی دن کٹ جائیں، یونہی شام ڈھل جائے‘‘ گوایا تھا۔٭...معروف پاپ سنگر نازیہ حسن کو بھی پہلی بار ہدایتکار حسن طارق کی اردو فلم سنگدل (1982) میں گوایا تھا جس میں یہ گیت تھا ''ڈسکو دیوانے‘‘ بین الاقوامی شہرت کی حامل اس پاکستانی گلوکارہ کی پہچان اس کا پہلا سپرہٹ ڈسکو گیت تھا''آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے‘‘یہ گیت بھارتی فلم ''قربانی‘‘ کیلئے گایا گیا تھا۔ 

جنگ عظیم اول ٹینن برگ اور جھیل میسورین کے محاذ

جنگ عظیم اول ٹینن برگ اور جھیل میسورین کے محاذ

جنگ عظیم اوّل 1914ء سے 1918ء تک جاری رہی، اس دوران جنگ میں شریک ممالک کے درمیان مختلف محاذوں پر مختلف لڑائیاں ہوئیں۔ جن میں سے کچھ کی شہرت اور اہمیت اپنی مثال آپ ہے۔ ان ہی لڑائیوں میں سے ایک ٹینن برگ کے محاذ پر لڑی گئی جبکہ دوسری جھیل میسورین کے محاذپر لڑی گئی، جن کا ذکر نیچے کیا جا رہا ہے۔ٹینن برگ کا محاذروس اپنے اتحادی فرانس کی خوشنودی اور اپنے دیرینہ دشمن جرمنی پر حملہ کرنے کیلئے جنگ کے آغاز سے ہی بے چین تھا۔ جنگ چھڑتے ہی روسی جنرل آف سٹاف کو معلوم ہو گیا تھا کہ جرمنی فرانس پر حملہ کر چکا ہے۔ اس صورتحال میں دوسرا منصوبہ عمل میں لایا گیا۔ جس کے تحت 20لاکھ فوج جو روس کی کل فوج کا ایک تہائی تھا، جرمنی کی سرحد پر صف آرا کر دی گئی۔مشرقی پروشیا پر مشرق اور جنوب مشرق سے حملہ کرنے کیلئے پہلی آرمی جنرل پاوّل رینن کیمپف اور دوسری آرمی جنرل الیگزینڈر سام سونوو کی قیادت میں روانہ کی گئی۔ ان دو آرمیز کی کمان جنرل آئیوان زہیلن سکائی کے ذمے تھی۔ جنرل زہیلن سکائی نے اپنے دونوں افواج کو تیزی سے سرحدوں کی طرف بڑھ کر دشمن پر حملہ کرنے کی ہدایت کی۔17اگست کو جنرل رینن کیمپف کی پہلی آرمی نے سرحد پار کی۔ منصوبے کے مطابق جنرل سام سونوو کو 5دن بعد سرحد عبور کرنا تھی۔ جنرل رینن کیمپف نے جرمن افواج کو شمال اور مشرق میں منتشر کرنا تھا جبکہ جنرل سام سونوو نے آگے بڑھ کر ان کے عقب سے حملہ آور ہو کر پہلی آرمی سے آن ملنا تھا۔جرمن مشرقی محاذ کے کمانڈر جنرل میکس وان پریٹ ویٹز نے روس کی پہلی آرمی کو مشرقی پروشیاء میں داخل ہو کر آگے بڑھنے کا موقع دینے اور پھر اچانک اس پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہوئے سرحد پار دھکیل دینے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اس کے پہلی کور کے سرگرم کمانڈر جنرل ہرمن وان فرینکوئز نے از خود آگے بڑھ کر روس کی پہلی آرمی کا راستہ روک دیا اور روسی افواج کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ جنرل فرینکوئز کا یہ عمل ایک مستحسن اقدام تھا مگر دوسری طرف جنرل پریٹ وٹز کے منصوبے کے منافی تھا۔جنرل پریٹ وٹز کیلئے وقت بہت قیمتی تھا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ 5دن بعد جنرل سام سونوو اپنی دوسری آرمی کے ہمراہ سرحد عبور کر لے گا۔ اس لئے اسے 5دن سے پہلے پہلے روس کی پہلی آرمی سے فیصلہ کن جنگ کرکے اسے انتہائی لاغر کرتے ہوئے سرحد پار دھکیلنا اور جنوب میں آنے والی پہلی آرمی کیلئے صف آرا ہونا تھا۔ خوش قسمتی سے جنرل رینن کیمپف کو کسی بڑے خطرے کا احساس ہی نہ ہوا اور وہ جنرل فرینکوائز کے اچانک پیچھے ہٹ جانے کے باوجود مسلسل دو دن تک آگے بڑھتا رہا۔20اگست کو جنرل پریٹ وٹز نے ایک بھرپور حملے کا حکم دیا۔ اس شدید حملے سے خاطر خواہ کامیابی تو حاصل نہ ہوئی مگر کسی قدر فتح ملی۔ تاہم اس ابتدائی معمولی کامیابی کے بعد صورتحال جوں کی توں رہی۔ اسی روز جنرل پریٹ وٹز کو یہ اطلاع ملی کہ جنرل سام سونوو کی دوسری آرمی بھی مشرقی پروشیا میں داخل ہو چکی ہے۔ تو اس نے دریائے وسٹولا کی طرف پسپائی کا حکم دیا۔اس صورتحال پر جنرل پریٹ وٹز کو برطرف کرتے ہوئے ریٹائر جنرل پائول وان ہنڈن برگ اور جنرل ایرک ایف ڈبلیو لیوڈنڈروف کو صورتحال سے نمٹنے کیلئے روانہ کیا۔ ہر دو جرنیلوں نے اپنی افواج کو دونوں محاذوں پر تقسیم کردیا۔ اس طرح جو فوج جنرل رینن کیمپف سے برسر پیکار تھی وہ اسے الجھاتی ہوئی شمال مغربی جانب لے گئی، جبکہ باقی فوج جنرل سام سونوو کی پہلی آرمی کو شمال، جنوب اور سامنے سے گھیرتی ہوئی ٹینن برگ کے تنگ مقام تک لے آئی۔ یہاں جرمن فوج کے پہلے کور نے دشمن کے تین کور جو عقب کے علاوہ تینوں اطراف سے گھرے ہوئے تھے، عقب میں آکر دشمن کو محصور کر دیا۔شدید لڑائی ہوئی۔31اگست تک روس کی ڈیڑھ لاکھ فوج میں سے صرف 10ہزارفوجی ہی جان بچا سکے۔ جرمن افواج کو شاندار فتح ہوئی۔ اور ان کے 10سے 15ہزار فوجی جنگ میں کام آئے۔ روسی جرنیل جنرل الیگزینڈر سام سونوو نے انتہائی مایوس صورتحال میں خود کشی کرلی۔جھیل میسورین کا محاذروس کے جرنیل زہیلن سکائی نے پہلی آرمی کو دوسری آرمی کی مدد کیلئے واپس بلایا مگر پہلی آرمی کے پہنچنے سے قبل ہی دوسری آرمی کا جرمن افواج کے ہاتھوں صفایا ہو گیا۔ تب پہلی آرمی نے واپس اپنے محاذ کا رخ کیا۔ اب بحیرہ بالکان سے لے کر جھیل میسورین تک روس کے اوّلین محاذ کی پٹی پر پہلی آرمی کو صف آرا ہونا تھا۔ کیونکہ زہیلن سکائی سمجھ رہا تھا کہ جرمن وارسا پر ضرور حملہ آور ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ روس کے جنوبی محاذ پر آسٹریا، ہنگری کی گلیشیا میں صورتحال بہت نازک تھی اور وہ جرمن افواج سے وارسا پر حملہ کرنے کا تقاضا کر رہے تھے تاکہ دشمن کی توجہ گلیشیا سے ہٹ کر وارسا کے دفاع کی جانب مبذول ہو جائے۔لیکن جرمن افواج کیلئے وارسا پر حملہ آور ہونے سے پہلے جنرل رہینن کیمپف کی آرمی کو ختم کرنا اہم تھا۔9،10ستمبر کو جرمن پہلے کور نے لائک کے قریب روس کے دوسرے کور کو شدید لڑائی کے بعد پسپا کر دیا۔ جنرل رہینن کیمپف نے ایک اور ٹینن برگ کے خوف سے فوراً ہی اپنی افواج کو دستبردار ہوتے ہوئے پسپائی کا حکم دیا۔چونکہ ابھی روسی افواج پوری طرح زیر و زبر نہیں ہوئی تھیں۔ ان میں دم خم باقی تھا۔ اس لئے جنرل ہینن کیمپف نے جرمن حملے کے خدشے کے پیش نظر ایک جوابی حملہ کیا۔ جس میں جرمن افواج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ تاہم روس کی پہلی آرمی کو 50گھنٹے میں 55 کلو میٹر پسپا ہو کر روس کی سرحد میں داخل ہونا پڑا۔ اس مرتبہ جنرل رہینن کیمپف کی پہلی آرمی دوسری آرمی کی طرح مکمل طور پر گھیرے میں نہ آ سکی۔ پھر بھی جرمن افواج روس کی پہلی آرمی کو شدید نقصانات پہنچانے میں کامیاب رہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

کاسمک مائیکرو رتابکاری کی دریافتکاسمک مائیکرو بیک گرائونڈ تابکاری کی دریافت کو جدید طبعی کاسمولوجی میں ایک اہم پیش رفت سمجھا جاتاہے۔ اس کی دریافت امریکی ماہر طبیعیات آرنو ایلن اور ریڈیو فلکیات دان رابرٹ ووڈ روولسن کی جانب سے20مئی 1964ء کو کی گئی۔کاسمک تابکاری کی دریافت پر ان ماہرین کو فزکس کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ ان کی اس دریافت کو جدید فزکس کا نقطہ آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔کیوبا آزاد ہواکیوبا جسے جمہوریہ کیوبا بھی کہا جاتا ہے نے 20مئی1902ء کو ریاستہائے متحدہ سے آزادی حاصل کی۔کیوبا دراصل ایک جزیزہ نما ملک ہے بلکہ کئی چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے۔ کیوبا یوکاٹن جزیرہ کے مشرق میں امریکی ریاست فلوریڈا اور بہاماس دونوں کے جنوب میں جبکہ ہسپانیولا کے مغرب میں اور جمیکا اور کیمن جزائر کے شمال میں واقع ہے۔ ہوانا اس کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ دوسرے بڑے شہروں میں سینٹیاگو ڈی کیوبا اور کیماگوئی شامل ہیں۔ جاپان میں بدترین زلزلہ20مئی 1293ء کو جاپان میں تاریخ کے بدترین زلزلوں میں سے ایک زلزلہ آیا۔ اس زلزلے میں 30 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ جاپان چونکہ بہت سی فالٹ لائنز پر موجو ہے، اس لئے اس کو زلزلوں کی سرزمین بھی کہا جاتاہے کیونکہ دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے جاپان میں ہی آتے ہیں۔ 1293ء کو آنے والے زلزلے کو جاپان کی تاریخ کے بدترین زلزلوں میں شمار کیاجاتا ہے۔ اس زلزلے کی وجہ سے جاپان میںبے گھر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔سنیما کا آغاز20مئی 1891ء کو جدید دور کے سنیما کا آغاز ہوا جب تھامس ایڈیسن کی جانب سے بنایا گیا ایک پروٹو ٹائپ منظر عام پر آیا۔ اس پروٹو ٹائپ کا نام کینیٹو سکوپ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ابتدائی موشن پکچر کا نمائشی آلہ بھی تھا جو فلموں کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا تاکہ ایک سے زیادہ افراد ایک ہی جگہ پر موجود ہوتے ہوئے فلم کسی بڑی سکرین پر فلم دیکھ سکیں۔ کینیٹو سکوپ پروجیکٹر تو نہیں لیکن اس نے آگے چل کر پروجیکٹر کی ایجاد میںاہم کردار ادا کیا۔مورحین کینیٹو کے ڈیزائن کو جدید سنیما کا نقطہ آغاز تصور کرتے ہیں۔