آج کا پاکستان: صرف 21 فیصد تعلیم یافتہ

آج کا پاکستان: صرف 21 فیصد تعلیم یافتہ

اسپیشل فیچر

تحریر :


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، شرح خواندگی میں پاکستان جنوبی ایشیاء میں صرف افغانستان اور بنگلہ دیش سے اوپر ہے جبکہ چین، ایران، سری لنکا، نیپال اور برما بھی پاکستان سے آگے ہیں۔لمحہ فکریہ یہ ہے کہ پاکستان کی نئی نسل میں تعلیم کا رجحان روز بہ روز کم ہو رہا ہے۔ صرف 2012ء تک کی بات کریں، تو اس سال تک ملک بھر میں صرف 21 فیصد افراد پڑھے لکھے اور 79 فیصد ان پڑھ تھے۔ ان دونوں ہندسوں کا درمیانی فرق 21 ویں صدی کے جدید ترین دور میں حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ افسوسناک بھی ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کا کہنا ہے کہ دنیا کے 221 ممالک میں مذکورہ بالا شرح خواندگی کے ساتھ پاکستان 180 ویں نمبر پر ہے۔عمر کے لحاظ سے دیکھیں تو جو لوگ زیادہ پڑھے لکھے ہیں ان کی عمریں 55سے 64سال کے درمیان ہیں اور ان کی شرح خواندگی 57 فیصد بنتی ہے جبکہ 15سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں کی شرح 72فیصد ہے یعنی تعلیم کا گراف گررہا ہے, جنہوں نے پہلے پڑھا ، سو پڑھا، نئی نسل میں تعلیم کا رجحان ہی کم ہے۔پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان نے یونیسکو کی جاری کردہ اِسی رپورٹ کے حوالے سے کچھ مزید اعداد و شمار بھی جاری کئے ہیں جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:٭ ملک بھر میں 75 فیصد لڑکے اور لڑکیاں میٹرک یعنی 10 ویں کلاس سے بھی پہلے اسکول کوہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہہ دیتے ہیں۔٭ 81 فیصد طالب علم انگریزی کے الفاظ نہیں پڑھ سکتے۔٭ تین سے پانچ سال کی عمر کے سندھ سے تعلق رکھنے والے 72 اور بلوچستان کے 78 فیصد طلبا اسکول نہیں جاتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
نوم پنہ کمبوڈیا کا دل دھڑکتا شہر

نوم پنہ کمبوڈیا کا دل دھڑکتا شہر

جنوب مشرقی ایشیا کے قلب میں واقع نوم پنہ نہ صرف کمبوڈیا کا دارالحکومت ہے بلکہ یہ ملک کی سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی زندگی کا مرکز بھی ہے۔ میکانگ اور ٹونلے سپ جیسی عظیم ندیوں کے کنارے آباد یہ شہر ایک جانب اپنے شاندار تاریخی ورثے کی یاد دلاتا ہے، تو دوسری جانب تیزرفتار شہری ترقی اور جدید طرزِ زندگی کی تصویر بھی پیش کرتا ہے۔ نوم پنہ وہ مقام ہے جہاں بدھ مت کے قدیم مندروں کی گھنٹیاں، فرانسیسی نوآبادیاتی عمارتوں کی شان و شوکت اور جدید فلک بوس عمارتوں کی چمک ایک ساتھ سانس لیتی ہیں۔ یہ شہر نہ صرف کمبوڈیا کی تاریخ کا امین ہے بلکہ ایک ایسے مستقبل کی امید بھی ہے جہاں روایت اور ترقی ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوں۔نوم پنہ کا قیام 15ویں صدی میں ہوا تھا، جب یہ خمر سلطنت کے زوال کے بعد دارالحکومت بنایا گیا۔ شہر کا نام ''نوم دا پین‘‘ (پین پہاڑی) پر تعمیر شدہ ایک بدھ مندر سے ماخوذ ہے، جو آج بھی ''وات نوم‘‘ کے نام سے ایک اہم زیارت گاہ ہے۔ نو آبادیاتی دور میں فرانسیسی اثرات نے شہر کی ساخت اور فن تعمیر پر گہرے نقوش چھوڑے، جو آج بھی فرانسیسی عمارتوں اور وسیع شاہراہوں میں نظر آتے ہیں۔نوم پنہ کمبوڈیا ملک کے جنوبی حصے میں دریائے میکونگ اور Tonle Sab کے سنگم پر واقع ہے۔یہ ایک اہم بندرگاہ ہے۔یہ شہر 1970 کی دہائیوں میں جنگ و جدل کے دوران بری طرح تباہ و برباد ہوگیا تھااور اس کی آبادی میں بھی خاصی حد تک کمی واقع ہوگئی تھی لیکن 1980ء کی دہائی میں اس کی دوبارہ تعمیر کا آغاز کیا گیا۔یہ شہر روایتی طور پر میکونگ وادی کیلئے تجارتی شہر تھا۔ چونکہ یہاں ذرائع آمد و رفت کی تمام سہولتیں میسر تھیں۔ مال کی برآمدگی جنوبی چین کے سمندری راستے کے ذریعے اس کا نکاس میکونگ ڈیلٹا کے ذریعے جنوبی چائنا کے سمندری راستے سے ویت نام تک ہوتا ہے، ان کی بڑی مصنوعات میں ٹیکسٹائلز، کھانے پینے کی اشیاء اور بیوریجز شامل ہیں۔اس شہر میں فرانسیسیوں کی قابل قدر نو آبادکاری ہوتے ہوئے بھی یہ ایشیا کا دلکش شہر تصور کیا جاتا ہے۔نوم پنہ ثقافتی اور تعلیمی انسٹی ٹیوٹ کا گہوارہ تھا مگر یہاں کے بیشتر ادارے 1975ء میں بند کردئیے گئے جن میں Khmer تہذیب و تمدن اور آرٹ کا اعلیٰ نمونہ گوتم بدھ میوزیم انسٹیٹیوٹ تھا۔ قومی عجائب گھر جو چھٹی صدی کی نوادرات سے مزین تھا اس کی اہمیت کو بھی نقصان پہنچا، اعلیٰ تعلیم کیلئے نوم پنہ یونیورسٹیاں جو 1960ء سے موجود تھیں وہ بھی متاثر ہوئیں۔1954ء میں بڈھسٹ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور فائن آرٹس یونیورسٹی 1965ء میں قائم ہوئی۔ علاوہ ازیں سائنسی بنیادوں پر زرعی یونیورسٹی بھی 1965ء میں ہی قائم کی گئی۔یہاں کی دلکشی اور دلچسپی کیلئے گوتم بدھ کے مندر (Temples) اور سابقہ حکمرانوں کے محل ہیں جو قابل دید ہیں۔ Khmers قوم سے غالباً 14 ویں صدی کے آخر میں پہلی آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا اور 1434ء میں ان لوگوں نے Angkor Thumکو اپنا گڑھ بنالیا۔نوم پنہ بدمعاش لوگوں کی آماجگاہ تھا۔ یعنی اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور 1867ء میں کمبوڈیا کا دارالحکومت بننے سے پہلے کئی مرتبہ انہیں کے زیرتسلط رہا۔ 1970ء کی دہائی میں کمبوڈیا کی جنگ و جدل میں شہر میں سماجی سطح پر انقلاب آیا اور اس وقت تقریباً دو ملین شہریوں نے زرعی ترقی کیلئے کام کیے۔ لہٰذا 1980ء میں یہ شہر دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا اور کچھ تہذیبی انسٹیٹیوٹ اور تعلیمی سینٹر دوبارہ کھول دیے گئے۔نوم پنہ آج ایک جدید اور متحرک شہر بنتا جا رہا ہے۔ شاندار عمارتیں، شاپنگ مالز، ہوٹل اور کیفے، اس کی تیز رفتار ترقی کی گواہی دیتے ہیں۔ تاہم، تیز شہری ترقی کے ساتھ ساتھ ٹریفک کا بڑھتا ہوا دباؤ، ماحولیاتی مسائل اور شہری منصوبہ بندی کی کمزوریاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔شہر میں سیاحوں کیلئے کئی پرکشش مقامات موجود ہیں، جن میں شاہی محل، نیشنل میوزیم، چیونگ ایک قتل گاہ (Killing Fields)، اور تل سلینگ میوزیم خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ مقامات کمبوڈیا کی شاندار تاریخ اور خونی ماضی دونوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ روایتی رقص، کھمر موسیقی اور مقامی کھانوں سے بھرپور بازار سیاحوں کیلئے کشش کا باعث بنتے ہیں۔نوم پنہ صرف ایک دارالحکومت نہیں، بلکہ یہ کمبوڈیا کی روح کا عکاس ہے۔ یہاں ماضی کی گونج اور حال کی تپش ایک ساتھ محسوس کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ شہر کو کئی مسائل کا سامنا ہے، مگر اس کی توانائی، ثقافت اور عوام کی مہمان نوازی اسے جنوب مشرقی ایشیا کے نمایاں شہروں میں شامل کرتی ہے۔ 

جنگ عظیم اول آرک اور جھیل مارن کی لڑائیاں

جنگ عظیم اول آرک اور جھیل مارن کی لڑائیاں

جنگ عظیم اوّل 1914ء سے 1918ء تک جاری رہی، اس دوران جنگ میں شریک ممالک کے درمیان مختلف محاذوں پر مختلف لڑائیاں ہوئیں۔ جن میں سے کچھ کی شہرت اور اہمیت اپنی مثال آپ ہے۔ ان ہی لڑائیوں میں سے ایک آرک کے محاذ پر لڑی گئی جبکہ دوسری جھیل مارن کے محاذپر لڑی گئی، جن کا ذکر نیچے کیا جا رہا ہے۔ آرک کی لڑائیچھٹی آرمی5ستمبر کو دریائے آرک کو پار کرنے کے لئے بڑھ رہی تھی۔ اسی دوران جنرل ہینز کی قیادت میں جرمن پہلی آرمی کا چوتھا محفوظ کور جنوب کی جانب بڑھتے ہوئے دریا کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ مارچ کر رہا تھا۔ اس وقت جنرل ہینز نے فرانسیسی افواج کی بھاری نقل و حرکت کی اطلاعات ملنے پر اپنی کمزور صورتحال کے باوجود فرانس کی فوج کے عزائم جاننے کیلئے ایک ہی طریقہ اختیار کیا کہ ان پر حملہ کردیا جائے۔اس اچانک حملے کیلئے چھٹی آرمی بالکل ہی تیار نہ تھی۔ جرمن افواج کامیابی سے فرانس کی چھٹی آرمی کو دھکیلتی رہیں۔ تاہم شام ہونے تک جنرل ہینز کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ اپنے سے کئی گنا بھاری دشمن سے نمبرد آزما ہے لہٰذا اس نے اپنی افواج کو خاموشی سے پیچھے ہٹ کر ایک محفوظ دفاعی مقام پر صف آرا کر لیا۔کلاک نے مطلع ہونے پر ایک کور مزید بھیج دی۔ 6ستمبر کا پورا دن چھٹی آرمی جرمنی کے دو کورز کے ساتھ دریائے آرک کے کنارے برسر پیکار رہی۔ جرمن کور کمانڈر بار بار جنرل کلارک کو مدد کیلئے اپیل کرتے رہے لیکن جنرل کلاک اس جنگ کی اہمیت سے آگاہ نہ ہو سکا۔ اگلے دن جب فرانس کے مفتوحہ کیمپس میں سے جنرل جوفر کے ہدایت نامے کی نقل ملی تو اس نے اپنے دو محفوظ کور مارن کے شمال سے آرک کی جانب روانہ کئے جن کی آمد سے جرمن پہلی اور دوسری آرمی کے درمیان پہلے سے پیدا شدہ فاصلہ کم ہو گیا۔جنرل کلاک یہ سمجھ رہا تھا کہ برطانوی افواج اب مزاحمت کے قابل نہ ہیں۔ اس لئے وہ ان سے کچھ زیادہ خطرہ محسوس نہیں کر رہا تھا۔ دوسری طرف جنرل مائونیوری کو جنرل گیلینی کی طرف سے مسلسل کمک اور حوصلہ مل رہا تھا۔ اس نے 7اور 8ستمبر کو بھرپور حملے کئے۔ جنرل کیلینی نے کمک کیلئے ٹیکسیوں کو استعمال میں لاتے ہوئے دو رجمنٹس کمک کیلئے بھیجیں۔ جنرل کلاک نے 9ستمبر کو ایک فیصلہ کن حملہ کرنے کا حکم دیا۔دوسری طرف جنرل مائونیوری نے اپنے اعلیٰ حکام سے قدم بقدم پیرس کی طرف پسپائی کا منصوبہ بنانے کی اپیل کی۔ اس طرح فرانس کی افواج کے پیچھے مزید آگے بڑھنے پر جرمنی پہلی اور دوسری آرمی کے درمیان50کلو میٹر کا فاصلہ پیدا ہو جاتا۔ اگر اس لمحے جنرل بُولو کی آرمی مغربی سمت میں پیش قدمی کرتی تو یہ فاصلہ پیدا نہ ہوتا۔ جرمن افواج میں باہمی ربط کا فقدان مشاہدہ میں آتا ہے۔ ہیڈ کوارٹر سے رابطہ میں تاخیر، نامکمل معلومات و ہدایات اور انفرادی کوششیں کسی بہتر نتیجے کی راہ میں رکاوٹ بنتی رہیں۔مارن کی دوسری لڑائیجنرل فرینچٹ ڈی ایسپیرے کی پانچویں آرمی 6ستمبر کو اپنے منصوبے کے مطابق آگے بڑھ رہی تھی۔ اسے کلاک کی پہلی آرمی کے دو کوروں سے مارن کے جنوب میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور رات تک لڑائی جاری رہی۔ جب جنرل کلاک نے دریائے آرک کی لڑائی کیلئے اپنے دو کوروں کو طلب کر لیا تو پانچویں آرمی کے دائیں کور نے پیش قدمی کرتے ہوئے بلا مزاحمت آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ لیکن اپنے متعین مقام پر پہنچنے سے پہلے اس کا جنرل بوُلو کے ایک کور سے تصادم ہو گیا۔جنرل فرینچٹ نے7ستمبر کو ایک عام حملے کا حکم دیا۔ جنرل بوُلو اپنے دائیں بازو کے غیر محفوظ ہونے پر پیچھے ہٹ گیا اور حکم دیا کہ دریائے پٹیٹ مارن کے دوسرے کنارے صف بندی کی جائے۔ 8ستمبر کو فرانس کی افواج نے دوسری آرمی کا پیچھا کرتے ہوئے اس پر دریا کے دوسری جانب حملے جاری رکھے مگر کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ سہ پہر کو جنرل بوُلو نے ایک ناکام حملہ کیا جس میں اس کی قوت میں کمی کا احساس ہونے پر جنرل فرینچٹ نے رات کے عمل میں ایک فیصلہ کن حملہ کیا جس میں فرانس کی افواج کو کامیابی ہوئی اور جنرل بوُلو کی آرمی 6 میل تک پسپا ہو گئی۔اس حملے کے نتیجے میں پہلی اور دوسری آرمی کے درمیان ایک بہت بڑا فاصلہ پیدا ہو گیا۔ صرف توپ خانے کے دو کور جو بمشکل تمام 10ہزار فوجیوں پر مشتمل تھے اس فاصلے کی حفاظت کیلئے مامور تھے۔ برطانوی فوج جو اب تک کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکی تھی اب جوابی حملے کیلئے تیار ہو رہی تھی۔ اس فاصلے میں گھس کر ہر دو آرمیوں کو ایک دوسرے سے کاٹنے کیلئے آگے بڑھنے لگی۔ان کی رفتار انتہائی سست تھی جبکہ دوسری طرف جرمن محفوظ دستوں نے بھرپور مزاحمت کی اور تین دن تک برطانوی فوج صرف 25میل تک ہی پیش قدمی کر سکی۔ اس پیش قدمی کی وجہ بھی یہ تھی کہ محاذ جنگ سے جرمن پہلی آرمی کے دو کور دریائے آرک کی طرف بڑھ گئے تھے اور پیچھے برطانوی فوج کی مزاحمت کیلئے کوئی خاص فوج نہیں رہ گئی تھی۔اب جرمن افواج کیلئے صورتحال انتہائی نازک ہو چکی تھی۔ برطانوی فوج درمیانی فاصلے میں سے ہوتے ہوئے جرمن پہلی آرمی کے عقب میں پہنچ سکتی تھی۔ جبکہ فرانس کی پانچویں آرمی جرمنی کی دوسری آرمی کے دائیں بازو پر بھرپور حملہ کر سکتی تھی۔ مگر اس کے لئے ضروری تھا کہ ایک طرف تو جنرل مائونیوری پہلی آرمی کے سامنے ڈٹا رہے۔ دوسری طرف جنرل فوش اپنی نویں آرمی کو جرمن دوسری آرمی کے بائیں بازو اور جنرل ہوسین کی تیسری آرمی کے مخالف الجھائے رکھے۔

آج کا دن

آج کا دن

ٹرائینن جنگ بندیپیرس امن کانفرنس میں ''ٹرائینن معاہدہ‘‘ تیار کیا گیا، جس پر 4جون 1920ء کو دستخط کئے گئے۔ اس معاہدے کے بعد پہلی عالمی جنگ کے بیشتر اتحادیوںاور ہنگری کے درمیان جنگ کا باقاعدہ اختتام ہوا۔اس معاہدے کو مرتب کرنے کیلئے فرانسیسی سفارت کاروں نے اہم کردار ادا کیا۔اس معاہدے نے ہنگری کی فوج کو 35ہزار افسران اور جوانوں تک محدود کر دیا اور آسٹرو ہنگری بحریہ کا وجود ختم ہو گیا۔ یہ فیصلے اور ان کے نتائج اب تک ہنگری میں شدید ناراضگی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ڈریگن اسپیس کرافٹ ''ڈریگن سپیس کرافٹ‘‘ سپیس ایکس کے تیار کردہ ڈریگن خلائی جہاز کادوسرا ورژن تھا۔ڈریگن کی شکل اور بڑے پیمانے پر درجہ بندی کرنے کیلئے اسے زمین پر مختلف ٹیسٹ کرنے کے بعد اسپیس ایکس نے 4 جون 2010 کو فالکن 9 راکٹ کی پہلی پرواز پر زمین کے نچلے مدار میں لانچ کیا۔ خلائی جہاز نے 27 جون کو مدار سے زوال پذیر ہونے اور فضا میں دوبارہ داخل ہونے سے پہلے 300 سے زیادہ بار زمین کا چکر لگایا۔قبرص معاہدہ4جون1878ء کو برطانیہ اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان ایک معاہدہ ہو ا،جس کے مطابق سلطنت عثمانیہ نے عثما نیوں کی حمایت کے بدلے میں قبرص کا انتظامی کنٹرول برطانیہ کے حوالے کر دیا۔اس معاہدے میں موجود دفعات کے مطابق برطانیہ کے انتظامی کنٹرول کے باوجود قبرص کی سرزمین پر عثمانی حقوق برقراررکھے گئے تھے۔اس معاہدے سے قبل دونوںسلطنتوں کے درمیان خفیہ مذاکرات بھی ہو چکے تھے۔ یہ معاہد ہ برطانیہ کی جانب سے سلطنت عثمانیہ کے ساتھ جنگ کے دوران5نومبر1914ء میں منسوخ کر دیا گیا۔ ارزماس دھماکہارزماس دھماکہ جسے ''ارزماس ٹرین ڈیزاسٹر‘‘ بھی کہا جاتا ہے، ایک ریلوے حادثہ تھا جو 4 جون 1988ء کو ارزماس، سوویت یونین میں پیش آیا۔ٹرین ریلوے کراسنگ سے گزر رہی تھی جب دھماکہ ہوا۔ اس خوفناک حادثے میں91افراد ہلاک اور 1500زخمی ہوئے۔ ٹرین میں 118ٹن دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔یہ مال بردار گاڑی تھی جو سامان والی تین ویگنوں پر مشتمل تھی۔ تحقیقات میں دھماکہ کی وجہ نامعلوم بتائی گئی۔دھماکے نے گردو نواح میں واقعہ عمارات کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ 

یادرفتگاں: رنگ کا بادشاہ باکسر محمد علی

یادرفتگاں: رنگ کا بادشاہ باکسر محمد علی

دنیا کی باکسنگ کی تاریخ میں اگر کسی ایک نام کو بے مثال عظمت، بے خوف حوصلے اور بے بدل شخصیت کی علامت قرار دیا جائے تو وہ نام محمد علی کا ہے۔ ایک ایسا باکسر جو صرف رنگ کا چیمپئن نہ تھا، بلکہ ضمیر، وقار اور انصاف کی لڑائی میں بھی فاتح رہا۔ ''I am the greatest ‘‘کا نعرہ لگانے والا یہ شخص نہ صرف اپنی بے مثال مہارت اور رفتار سے دنیا کو حیران کرتا رہا بلکہ نسلی امتیاز، جنگ اور انسانی حقوق جیسے حساس معاملات پر اپنے بے باک مؤقف کے باعث عالمی سطح پر ایک طاقتور آواز بن کر ابھرا۔ محمد علی کی کہانی صرف کھیل کی نہیں، ایک عظیم انسان کی ہے، جس نے شہرت، دولت اور طاقت کو اصولوں کے تابع رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی انہیں کھیل، سیاست، سماج اور انسانیت، ہر میدان میں ایک ناقابلِ فراموش علامت کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔17 جنوری 1942ء کو مسیحی خاندان میں پیدا ہونے والے محمد علی کا نام کیسیئس مارسیلس کلے جونیئر تھا۔ 1964ء میں اسلام قبول کرنے کے بعد نام محمد علی رکھ لیا۔محمد علی کے دل میں بچپن سے ہی کچھ کرنے کی امنگ تھی ،کچھ نیا کرنے کی۔تاہم ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن وہ عظیم ترین باکسر بن جائیں گے۔دوسرے سیاہ فاموں کی طرح وہ بھی کسی اچھے بزنس کی تلاش میں تھے۔ بارہ برس کی عمرمیں وہ سیاہ فاموں کو برگر، سموسے اور پاپ کارن کا بزنس سکھانے کیلئے بلائے گئے ایک اجلاس میں شریک ہوئے۔ سرخ اور سفید رنگ کی پسندیدہ بائیک باہر کھڑی کر کے خوداندر چلے گئے۔ واپسی پربائیک کو غائب پایا۔ کوئی چور لے اڑا تھا۔ قریبی موجود''کولمبیا جم‘‘ کے مالک نے انہیں پولیس سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ اپنی خود نوشت میںمحمد علی لکھتے ہیں کہ ''میں بائیک کی تلاش میں ہر جگہ دوڑ رہا تھا۔وہ تو نہ ملی لیکن ایک رنگ میں ہونے والے باکسنگ میچ کی آوازیں ضرور سنائی دیں اورمیں باکسنگ رنگ کی جانب لپکا۔ یہ آواز میرے دل کو اس قدر بھائی کہ میں بائیک کو بھول گیا‘‘۔ جم کے مالک نے ان کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا، اگر آپ بھی باکسنگ کھیلنا چاہتے ہیں تو یہ رہا فارم!۔ پہلی بار وہ ایک بڑے باکسر سے مقابلے کیلئے رنگ میں اترے۔ اس تجربہ کار باکسر نے مار مار کران کی ناک موٹی کر دی تھی، جگہ جگہ سے کھال پھٹ گئی تھی اور خون رس رہا تھا۔ ایک ہی منٹ میں ایسی درگت بنی کہ انہیں رنگ سے نکال دیا گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے ہر کسی کو ہرانے کا عزم کیا تھا۔ وہ ایک ہی رائونڈ میں باکسنگ کی باریکیاں سمجھ گئے تھے۔ ٹھیک چھ ہفتے بعد وہ دوبارہ رنگ میں اترے۔ مقابلے پر تجربہ کار باکسر رونی او کیفی تھے لیکن محمد علی فاتح بن کر نکلے۔یہ مقابلہ ان کی ریاست کینٹکی میں ٹی وی پر دکھایا گیا،شہر بھر میںان کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔ان کے والد کاسیئس کلے سینئر نے محمد علی کی باکسنگ کا انداز دیکھتے ہی کہہ دیا تھا ''میرا بیٹا مستقبل کا عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن بنے گا!‘‘۔ 1954ء میں پہلے اہم مقابلے میں کامیابی کے بعدانہیں عالمی چیمپئن بننے کا یقین ہو گیا تھا۔ انہیں پہلی انٹرنیشنل فتح اٹھارہ سال کی عمر میں نصیب ہوئی، جب انہوں نے 1960ء کے اولمپک مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتا۔محمد علی کونسل پرستی کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنا کریئر جاری رکھا اور بڑے بڑے باکسر کو رنگ میں چاروں شانے چت کر دیا۔ 22 سالہ محمد علی نے 1964ء میں دنیائے باکسنگ کے خطرناک ترین کھلاڑی سونی لسٹن کو شکست دے کر بے پناہ شہرت حاصل کی۔باکسر محمد علی نے اپنے کریئر میں 61 مقابلے لڑے جس میں انہوں نے 56 میں کامیابی حاصل کی جبکہ صرف 5 مقابلوں میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے مجموعی مقابلوں میں سے37 مقابلوں میں انہوں نے اپنے حریفوں کو ناک آؤٹ کیا۔ وہ 1964ء، 1974ء اور 1978ء میں باکسنگ کے عالمی چیمپئن رہے۔محمد علی لیجنڈ باکسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک درد مند انسان بھی تھے اور معاشرے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سراپا احتجاج رہتے تھے۔ 1960ء کی دہائی میں وہ سیاہ فارم آزادی کے علمبردار تھے۔ ویت نام جنگ کے دوران 28 اپریل 1967ء کو محمد علی نے امریکی فوج میں شامل ہونے کے عہد نامے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد انہیں ان کے اعزاز سے محروم کر کے 5 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے عوامی احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد علی کو سزا سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔''ہالی وڈ واک آف فیم‘‘ میں شامل واحد شخصیت تھے جن کے نام کا ستارہ زمین کے بجائے دیوار پر لگایا گیا۔ محمد علی نے کہا تھا ان کے نام میں حضورﷺ کا نام آتا ہے اسے زمین پر کندہ نہیں کیا جائے۔جب انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو باکسنگ رنگ میں بھی کسی کی پرواہ کئے بغیر رب کریم کے سامنے سر جھکا دیتے تھے،پہلے نماز کا فرض ادا کرتے۔ محمد علی نماز کی ادائیگی کے بعد ہی رنگ میں اترتے تھے۔وہ دیر تک اس دیوار کو چومتے رہتے، جس دیوار پر رب کریم یا حضرت محمد ﷺ کا مبارک نام لکھا ہوتا تھا۔20 صدی کے عظیم باکسر محمد علی کو 1984 میں پارکنسنز نامی بیماری کی تشخیص ہوئی جس کے بعد انہوں نے باکسنگ کو خیرباد کہہ دیا اور 2016ء میں 3 جون کو وہ اسی بیماری سے لڑتے ہوئے انتقال کرگئے۔ آج بھی عظیم باکسر کے مداح انہیں یاد کرتے ہیں اور ان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔   

اڑتا محل اور غزہ میں غضب کاغذائی بحران

اڑتا محل اور غزہ میں غضب کاغذائی بحران

چند روزپہلے سوشل میڈیا پر گردش کرتی شمالی غزہ کی ایک فوٹیج میں کفنوں میں لپٹی خون آلود لاشوں کے آس پاس بین کرتی خواتین میں سے ایک خاتون ایک کفن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی '' اس نو ماہ کے بچے نے کسی کا کیا بگاڑا ہے‘‘۔ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا ایک شخص کہہ رہا تھا، ''یہاں جو فضائی حملوں سے بچ جاتے ہیں وہ بھوک سے مر جاتے ہیں اور جو بھوک سے نہیں مرتے وہ دوائی کی عدم دستیابی سے مر جاتے ہیں‘‘۔ یہ چند لائنیں فلسطین با لخصوص غزہ کی موجودہ صورت حال کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم غزہ کے معصوم اور بے بس شیر خواروں سمیت تواتر سے ہوتی ان سینکڑوں ہلاکتوں کا ذکر کریں جو اسرائیلی وحشت، بربریت اور خوراک کی کمی کے باعث کرہ ارض پر بسنے والے 2 ارب مسلمانوں سمیت 8 ارب بے حس انسانوں کو خواب غفلت سے بیدار نہیں کر سکی ہیں ، پہلے ہم دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی اس مسلم معیشت کا ذکر کرتے ہیں جس کے شاہی خاندان نے غزہ کے قاتلوں (اسرائیل )کے سرپرست ملک کے سربراہ کو اپنے ملک میں خوش آمدید کے طور پر ''فلائنگ پیلس ‘‘ ( یعنی اڑتا محل ) نامی ، سونے سے مزین ، تاریخ کا سب سے بڑا اور پرتعیش طیارہ تحفے کے طور پیش کیا ہے۔ 400 ملین ڈالر مالیت (تقریباً 108 ارب روپے) کا ''بوئنگ 747-8‘‘ نامی یہ طیارہ جدید ترین سہولیات سے آراستہ ہے۔ اس کی رینج 13 ہزار کلومیٹر جبکہ اس کی فی گھنٹہ رفتار 900 کلومیٹر سے بھی زائد ہے۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی مدت ملازمت کے بعد اس طیارے کی ملکیت ''ٹرمپ پریذیڈنشنل لائبریری فاونڈیشن‘‘ کو منتقل ہو جائے گی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ عربی شاہی روایات کے مطابق اگرچہ اس طرح کے تحائف کے تبادلے کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن فلسطین میں مسلمانوں پر اسرائیل کی ظالمانہ اور وحشیانہ کارروائیوں کے نتیجے میں امریکہ کی سرپرستی کو جس طرح دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس نے تجزیہ نگاروں کو قطر کے اس رویے پر حیران کر کے رکھ دیا ہے۔ نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم پر تبصرہ کرتے ہوئے مغربی ممالک کے کچھ تجزیہ کار ایک ٹی وی پروگرام میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کا بار بار ذکر کر رہے تھے جسے پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس ضمن میں 13مئی 2025ء کو اقوام متحدہ کی جاری کردہ اس رپورٹ کے کچھ اہم نقاط میں قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ اس کے بعد اسرائیلی مظالم اور امریکی خاموشی بارے مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی۔ عالمی اداروں کے خدشات امدادی امور کیلئے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی کار ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں شہریوں پر دانستہ اور شرمناک طریقے پر زندگی اجیرن کر رکھی ہے جبکہ غزہ کی 21 لاکھ کی آبادی کو نسل کشی کا سامنا ہے۔مشرق وسطی بالخصوص غزہ کی صورت حال پر منعقدہ سلامی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ٹام فلیچر نے کہا کہ اقوام متحدہ اور اس کے شراکت دار دنیا بھر سے غزہ کیلئے بڑے پیمانے پر امدادی سامان پہنچانے کیلئے کوشاں ہیں لیکن اسرائیل اس مقصد کیلئے وہاں تک رسائی دینے سے انکاری ہے اور غزہ کو خالی کرانے کے اپنے ہدف کو انسانی جانوں پر ترجیح دے رہا ہے۔ٹام فلیچر نے کہا کہ اقوام متحدہ نے سلامتی کونسل کو غزہ میں انسانی جانی نقصان ، تباہی ، بھوک، بیماری تشدد اور لوگوں سے دیگر ظالمانہ ، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک روا رکھے جانے ، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور امدادی سرگرمیوں میں دانستہ رکاوٹیں ڈالنے بارے میں آگاہ کیا ہے۔عالمی عدالت انصاف بھی اس امر کا جائزہ لے رہی ہے کہ آیا غزہ میں واقعی نسل کشی ہو رہی ہے یا نہیں۔ ٹام فلیچرنے کہا اگرچہ وہ اس بارے میں امدادی اداروں کی پیش کردہ شہادتوں کا جائزہ لے گی لیکن اس میں بہت تاخیر ہو جائے گی۔ ٹام فلیچر نے سلامتی کونسل سے سوال کیا کہ اسے غزہ میں بپا اس قیامت کے حوالے سے مزید کتنے ثبوت درکار ہیں؟۔کیا اب نسل کشی کو روکنے اور بین الاقوامی انسانی قانون کا احترام یقینی بنانے کیلئے کچھ کیا جائے گا ؟۔یا یہ کہ کونسل صرف یہ کہے گی کہ وہ جو کچھ کرسکتی ہے اس نے کر دیا ہے ؟۔اسی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت کی ڈائریکٹر انجلیکا جیکم نے کونسل کو بتایا کہ غزہ کے حالات انتہائی خطرناک ہیں،لاکھوں لوگوں کو شدید غذائی عدم تحفظ اور قحط کے خطرے کا سامنا ہے۔ شہریوں کو خوراک کی قلت ہی کا سامنا نہیں بلکہ علاقے میں صحت کی خدمات ، روزگار کا نظام اور لاتعداد سماجی مسائل بھی پیدا ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے لوگ مایوسی، تباہی اور موت کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ غزہ میں زرعی غذائی نظام منہدم ہو چکا ہے ، خوراک کی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور مقامی سطح پر اب خوراک کی تیاری ممکن نہیں رہی۔ جنگ میں 75 فیصد زرعی اراضی کو نقصان پہنچایا گیا ہے یا مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ تقریباً 95 فیصد گائے بیل اور نصف سے زائد بھیڑ بکریاں ہلاک کر دی گئی ہیں۔فروری کے بعد آٹے کی قیمتوں میں 3000 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔انہوں نے اپنی تقریر میں خبردار کیا کہ ، قحط کا اعلان ہونے سے پہلے ہی غزہ میں لوگ بھوک سے مرنا شروع ہو جائیں گے اور اس کے اثرات آنے والی نسلوں تک جاری رہیں گے۔چنانچہ ایسے حالات سے بچنے کیلئے بلا تاخیر لوگوں تک مدد پہنچانا انتہائی ضروری ہے۔ فلسطین کیلئے عالمی ادارہ صحت کے نمائندے ڈاکٹر رگ پیپر کورن نے جینیوا میں اپنے ایک بیان میں بتایا کہ غزہ میں بھوک کا بدترین بحران جنم لے رہا ہے۔ادارے کے پاس شدید درجے کی غذائی قلت کا شکار صرف500 بچوںکے علاج کا سامان رہ گیا ہے۔ اس ضمن میں غذائی تحفظ کے ماہرین پہلے ہی خبر دار کرتے آرہے ہیں کہ غزہ میں تقریبا" 5 لاکھ لوگوں کو خوراک کی قلت کے باعث فاقہ کشی کا،سامنا ہے ، اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو خطرہ ہے کہ ستمبر کے اختتام تک بہت سارے علاقے قحط کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

''جیمنی4‘‘کی لانچنگ ''جیمنی 4‘‘ ناسا کے پروجیکٹ جیمنی میں دوسری خلائی پرواز تھی جو3 جون 1965ء میں ہوئی ۔اس پرواز میںخلاباز جیمز میک ڈیوٹ اور ایڈ وائٹ نے چار دنوں میں 66 بار زمین کا چکر لگایا۔ یہ سوویت ووسٹوک 5 کی پانچ روزہ پرواز کے قریب پہنچنے والی پہلی امریکی پرواز ہے۔ مشن کی خاص بات یہ تھی کہ اس پرواز کے دوران کسی بھی امریکی خلاء باز نے پہلی بار خلا میں چہل قدمی ( سپیس واک) کی۔ خلا باز وائٹ تقریباً 23 منٹ تک خلائی جہاز کے باہر رہا۔یہ پرواز پہلی امریکی پرواز تھی جس نے خلا میں بہت سے سائنسی تجربات کئے۔Pemex حادثہمیکسیکو کی سرکاری تیل کمپنی Pemex تیل کے حصول کیلئے 3 کلومیٹر گہرے کنویں کی کھدائی کر رہی تھی جب سوراخ کرنے والی رگ میں مٹی کی وجہ سے کچھ خرابی پیدا ہوئی۔جدید روٹری ڈرلنگ میں مٹی کو ڈرل پائپ کے نیچے رکھا جاتا ہے اس طریقہ کا مقصد شافٹ کے ذریعے دباؤ کو برابر کرنا ہوتا ہے تاکہ گیس باہر کی جانب نکل سکے۔رگ میں خرابی کی وجہ سے دباؤ زیادہ ہوا اور کنویں میں موجود تیل کو آگ لگ گئی۔اس حادثے کے نتیجے میں تقریباً30لاکھ بیرل تیل سمند میں گر گیا۔ اسے دنیا کی تاریخ میں پیٹرولیم انڈسٹری کا دوسرا بدترین حادثہ تصور کیا جاتا ہے۔''نووگوروڈ معاہدہ‘‘''نووگوروڈ‘‘ کے معاہدے پر 3 جون 1326ء کو نووگوروڈ میں دستخط کیے گئے۔ اس معاہدئے کے تحت دور شمالی علاقوں ناروے اور نوگوروڈین کے سرحدی علاقوں میں کئی دہائیوں سے لڑی جانے والی جنگ اختتام پذیر ہوئی۔اس معاہدے میں 10 سال کیلئے جنگ بندی کی شرائط رکھی گئیں۔ کچھ سال پہلے 1323ء میں جمہوریہ نوگوروڈ نے سویڈن کے ساتھ معاہدہ نوٹبرگ میں اپنا تنازع طے کر لیا تھا۔اس معاہدے میں سرحد کی وضاحت نہیں کی گئی تھی بلکہ یہ طے کیا گیا تھا کہ سامی قوم کا کونسا حصہ ناروے کا رہے گا اور کونسا نوگوروڈ کا، جس سے ملکوں کے درمیان ایک قسم کا بفر زون قائم ہو گیا۔''آپریشن بلیو سٹار ‘‘''آپریشن بلیو سٹار‘‘ ویسے تو یکم جون کو شروع ہوا لیکن اس کا باقاعدہ آغاز3جون 1984ء کو کیا گیا جو 10جون1984ء تک جاری رہا۔یہ بھارتی افواج کا مسلح آپریشن تھا جس میں دمدی ٹکسال کے رہنما جرنیل سنگھ بھنڈراں والے اور ان کے ساتھیوں کو امرتسر میں سکھ مذہب کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کیلئے کیا گیا۔آپریش شروع کرنے کی اجازت اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے دی تھی۔ جولائی1982ء میں سکھ پارٹی شرومنی اکالی دل کے صدر ہرچند سنگھ لونگووال نے حکومتی گرفتاری سے بچنے کیلئے بھنڈراںوالے کو گولڈن ٹیمپل میں رہائش اختیار کرنے کی دعوت دی تھی۔