کیا عظیم رومانوی داستان ’’ انا رکلی ‘‘ جھوٹ پہ مبنی ہے؟

کیا عظیم رومانوی داستان ’’ انا رکلی ‘‘ جھوٹ پہ مبنی ہے؟

اسپیشل فیچر

تحریر :


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

اُردو ڈراما کی تاریخ میں امتیاز علی تاج کی تخلیق ڈراما ’’انار کلی‘‘ کو جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے۔ یہ ڈراما پہلی بار 1932ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد اب تک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور اس ڈرامے کی مقبولیت بر قرار ہے۔ بھارت میں انارکلی کی کہانی کی اساس پر ایک فلم ’’مغل اعظم‘‘بنائی گئی جسے فلم بینوں نے بہت پسند کیا۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے انارکلی ایک ایسی رومانی داستان ہے جس کے حقیقی مآخذ کے بارے میں اب تک کوئی ٹھوس تاریخی حقیقت یا دستاویزی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ نور جہاں اور جہانگیر کے کبوتروں والا معاملہ ہے جو کبھی تھا ہی نہیں مگر لوگ اب تک اسے کالنقش فی الجر قرار دیتے ہیں۔ انار کلی کی پوری داستان ایسے واقعات سے لبریز ہے جو سرے سے کبھی وجود میں ہی نہیں آئے۔ خود امتیاز علی تاج نے اس ڈرامے کی حقیقت کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس کو تاریخی واقعات سے متصادم سمجھتے ہوئے اس کی افسانوی حیثیت کو واضح کیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ انار کلی کا واقعہ 1599ء میں وقوع پذیر ہوا۔ یورپی سیاح ولیم فنچ جو 1618ء میں لاہور پہنچا، اس نے اپنی یاد داشتوں میں اس المیے کا ذکر بڑے دردناک انداز میں کیا ہے۔ اس نے پوری کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح اس من گھڑت واقعے کے ذریعے مغل شہنشاہ اکبر کو بد نام کیا جائے۔ اس نے اکبر کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس کے بعد 1618ء میں ایک اور یورپی سیاح ایڈورڈ ٹیری لاہور آیا، اس نے بھی اپنے پیش رو سیاح کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اس فرضی داستان کو خوب نمک مرچ لگا کر پیش کیا۔ دراصل یہ ایک سازش تھی جسے مسلسل آگے بڑھایا جا رہا تھا۔ چار سال بعد یعنی 1622ء میں یورپ سے سیاحت کی غرض سے آنے والے ایک اور سیاح ہربرٹ نے بھی اس قصے کو اپنی چرب زبانی سے خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ اس کے باوجود کسی نے ان بے سروپا الزامات پر کان نہ دھرا۔ اس زمانے میں ادب کے سنجیدہ قارئین نے اس قسم کے عامیانہ نوعیت کے بیانات کو کبھی لائق اعتنا نہ سمجھا۔ پورے دو سو سال تک بر صغیر کے لوگ اس قصے سے لا علم رہے کسی غیر جانب دار مورخ کے ہاں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ نور الدین جہانگیر نے تزک جہانگیری میں کہیں اس کا ذکر نہیں کیا۔ اس عہد کے ممتاز مورخ والہ داغستانی اور خافی خان جو اکبر اور جہانگیر کی معمولی نوعیت کی لغزشوں پر بھی نظر رکھتے تھے، انھوں نے بھی کسی مقام پر اس قصے کو ذکر نہیں کیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام قصہ محض تخیل کی شادابی ہے۔ یورپی سیاحوں نے اپنی منفی سوچ کو بروئے کا لاتے ہوئے سازش کا جو بیج بویا وہ رفتہ رفتہ نمو پاتا رہا۔ 1864ء میں مولوی نور احمد چشتی نے اپنی تصنیف ’’تحقیقات چشتی‘‘میں انار کلی اور اکبر کے اس رومان کا ذکر کیا ہے۔ 1882ء میں کنہیا لال ہندی نے اپنی تصنیف ’’تاریخ لاہور‘‘میں انار کلی، اکبر اور سلیم کے اس المیہ قصے کا احوال بیان کیا ہے۔ یہ سلسلہ مقامی ادیبوں کے ہاں ایک طویل عرصے کے بعد اس قصے کی باز گشت سنائی دینے لگی۔ سید محمد لطیف نے بہت بعد میں انار کلی اور اکبر کے اس المیے کا ذکر اپنی تصنیف (History of Lahore) میں کیا ہے۔ یہ انگریزی کتاب 1892ء میں شائع ہوئی۔ تاریخ حقائق سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انار کلی، اکبر اور سلیم کا یہ رومانی المیہ جسے ابتدا میں یورپی سیاحوں نے محض تفنن طبع کے لیے اختراع کیا، آنے والے دور میں اس پر لوگوں نے اندھا اعتماد کرنا شروع کر دیا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حقیقت کو خرافات کے سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ آثار قدیمہ، تاریخی حقائق اور دستاویزی ثبوت اس تمام المیہ ڈرامے کو جھوٹ کا پلند قرار دیتے ہیں۔ وہ دیوار جس کے بارے میں یہ شو شہ چھوڑا گیا کہ اس میں انار کلی کو زندہ دفن کیا گیا۔ اس کے آثار لاہور شہر میں کہیں موجود نہیں۔ انار کلی کے تنازع پر جنرل مان سنگھ اور شہزادہ سلیم کی مسلح افواج کے درمیان جو خونریز جنگ ہوئی اس کے میدان جنگ، مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد کا کوئی علم نہیں۔ جنرل مان سنگھ تو مغل افواج کی کمان کر رہا تھا شہزادہ سلیم نے ایک بڑی فوج کہاں سے حاصل کی اور اس کی تنخواہ اور قیام و طعام کا بندوبست کیسے ہوا؟ جنرل مان سنگھ کی کامیابی کے بعد شہزادہ سلیم کی حامی اور اکبر کی مخالف فوج پر کیا گزری؟کیا اکبر کی سراغ رسانی اس قدر کم زور تھی کہ اسے دلآرام کے علاوہ کسی سراغ رساں نے اس بات کی مخبری نہ کی کہ ولی عہد شہزادہ ایک کنیز کے چنگل میں پھنس کر بغاوت پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ کیا اکبر اعظم کا نظام سلطنت اس قدر کم زور تھا کہ اسے اپنے خلاف سازش اور بغاوت کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یہ سب سوال ایسے ہیں جو اس قصے کو نہ صرف من گھڑت ثابت کرتے ہیں بلکہ اسے یورپی سیاحوں کی بد نیتی اور ذہنی افلاس پر مبنی ایک صریح جھوٹ قرار دیتے ہیں۔لاہور سول سیکرٹیریٹ میں جو انارکلی کے نام سے موسوم ہے وہ انار کلی کا مقبرہ نہیں بلکہ زین خان کوکہ کی صاحب زادی \"صاحب جمال \"کی آخری آرام گاہ ہے۔ یہ شہزادہ سلیم کی منکوحہ تھی۔ اس کا مقبرہ شہزادہ سلیم نے اپنے عہد میں تعمیر کروایا۔(فضہ پروین کی کتاب’’ادب دریچے ‘‘ سے انتخاب)٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یادِ رفتگاں عنایت حسین بھٹی:کثیرالجہات فنکار

یادِ رفتگاں عنایت حسین بھٹی:کثیرالجہات فنکار

بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے، '' عوامی گلوکار‘‘کا خطاب پایاعنایت حسین بھٹی پاکستانی فلم، موسیقی اور ریڈیو کی دنیا کا وہ درخشاں ستارہ تھے جنہوں نے اپنے فن سے عوام کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، وہ پلے بیک سنگر، اداکار، فلمساز و ہدایتکار، سکرپٹ رائٹر ، سماجی کارکن، کالم نگار اوردینی عالم تھے۔ ان کی آواز میں ایک ایسا خلوص اور اپنائیت تھی جو سیدھی دل میں اترتی تھی۔ ان کی اداکاری میں وہ سچائی تھی جو کرداروں کو زندہ کر دیتی تھی۔ انہوں نے نہ صرف پنجابی بلکہ اردو فلموں میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا اور ان کی فنی خدمات نے پاکستان کے ثقافتی ورثے کو تقویت بخشی۔ یہ مضمون عنایت حسین بھٹی کی زندگی، فنی سفر، اور ان کے سماجی و ثقافتی اثرات پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش ہے۔عنایت حسین بھٹی کی داستان زیست کا اگرجائزہ لیا جائے تو انسان حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ ایک شخص کی زندگی اور فن کی اتنی جہتیں،یقین نہیں آتا۔ ان کے کارناموں کی تفصیل جب پڑھنے کو ملتی ہے تو یقین کرنا پڑتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔12جنوری1928ء کو گجرات میں پیدا ہونے والے عنایت حسین بھٹی بلاشبہ ایک کثیرالجہات (Multi-dimensional) فنکار تھے۔ وہ 1948ء کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے لاہور آئے۔ وائی ایم سی اے ہال میں انہوں نے پہلا ڈرامہ سٹیج کیا۔ اس کے بعد وہ اعجاز گیلانی کے ساتھ ریڈیو پاکستان لاہور آگئے یہاں ان کی ملاقات ماسٹر نیاز حسین شامی سے ہوئی اور انہوں نے ان کی شاگردی اختیار کر لی۔ نیاز شامی نے انہیں ریڈیو گلوکار بنانے میں بہت مدد کی۔لاہور ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہونے والے ڈراموں میں وہ خودبھی کبھی کبھی کیریکٹر ایکٹر کے طور پر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے تھے۔ ماسٹر شامی نے 1949ء میں بھٹی صاحب کو بابا جی اے چشتی سے ملوایا جنہوں نے انہیں فلمساز و ہدایتکار نذیر کی فلم ''پھیرے ‘‘ میں چند گانے ریکارڈ کرنے کیلئے کہا۔ ان نغمات کی بدولت عنایت حسین بھٹی راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ اس کے بعد اداکار و فلمساز نذیر نے عنایت حسین بھٹی کو اپنی فلم ''ہیر‘‘ میں رانجھے کا کردار ادا کرنے کیلئے کاسٹ کر لیا۔ ان کے ساتھ ہیر کا کردار سورن لتا نے ادا کیا۔ 1960ء کی دہائی میں عنایت حسین بھٹی کو لوک تھیٹر اور گائیکی سے رغبت ہوگئی۔ وہ پنجاب کے دیہات میں وارث شاہ، بلھے شاہ، میاں محمد بخش، شاہ عبدالطیف بھٹائی اور سلطان باہو کا صوفیانہ کلام گاتے رہے اور بہت مقبولیت حاصل کی۔ فلمساز کی حیثیت سے ان کی پہلی فلم ''وارث شاہ‘‘ تھی جو 1962ء میں ریلیز ہوئی۔ 1965ء میں بطور فلمساز ان کی دوسری فلم ''منہ زور‘‘ ریلیز ہوئی۔ 1968ء میں ان کی فلم ''چن مکھناں‘‘ سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے کئی ایک سپرہٹ فلمیں دیں جن میں ''سجن پیارا جند جان، دنیا مطلب دی، عشق دیوانہ اور ظلم دا بدلہ‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے تین سرائیکی فلمیں بھی بنائیں اوران میں اداکاری بھی کی۔ انہوں نے بھٹی پکچرز کے بینر تلے 30 فلمیں بنائیں اور 300 سے زائد فلموں میں اداکاری کی۔ علاوہ ازیں انہوں نے 500 فلموں کیلئے نغمات بھی گائے۔ 1958ء میں انہوں نے ایک ترانہ ''اللہ اکبر‘‘ گایا جو اب تک اپنی شہرت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ ایمان افروز ترانہ دلوں میں نیا ولولہ پیدا کر دیتا ہے۔ ان کی مشہور فلموں میں (بطور اداکار) ''ہیر، پھیرے، جلن، شہری بابو، دنیا مطلب دی، سجن بیلی، سچا سودا، عشق دیوانہ، چن مکھناں، سجن پیارا، جند جان، کرتار سنگھ، جگا گجر اور ظلم دا بدلہ‘‘ شامل ہیں۔ جن اداکارائوں نے ان کے ساتھ کام کیا ان میں سورن لتا، زینت، نگار سلطانہ، شیریں، یاسمین، صابرہ سلطانہ، رانی، فردوس، سلونی، حسنہ، نیلو اور خانم کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ بطور گلوکار انہوں نے ملک کے نامور سنگیت کاروں کے ساتھ کام کیا، ان موسیقاروں میں بابا جی اے چشتی، ماسٹرعنایت حسین، ماسٹر غلام حیدر، اصغر علی، محمد حسین، رشید عطرے، صفدر حسین، گل حیدر، طفیل فاروقی، رحمان ورما شامل ہیں۔عنایت حسین بھٹی 1970ء کے عشرے میں '' بھٹی دا ڈیرہ‘‘ کے نام سے ٹی وی پر میوزیکل ٹاک شو کرتے رہے۔ ایک اور ٹی وی پروگرام ''اجالا‘‘ کی کمپیئرنگ کی۔ یہ پروگرام پاکستان کے صوفی بزرگوں کے بارے میں تھا۔ ایک اخبار میں ان کا اردو کالم کئی برسوں تک شائع ہوتا رہا۔ 1971ء میں انہوں نے گلاب دیوی ہسپتال میں ٹی بی وارڈ قائم کی۔ یہاں غریب مریضوں کا مفت علاج ہوتا تھا۔ عنایت حسین بھٹی نے سیاست کے میدان میں بھی قسمت آزمائی کی۔1975ء میں پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی اور کئی انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔ وہ بڑے زبردست مقرر تھے اور ان کی تقریر کے دوران مکمل خاموشی چھا جاتی تھی۔ 1990ء کے انتخابات میں انہوں نے پی ڈی اے کے امیدوار اصغر خان کی انتخابی مہم میں حصہ لیا اور اپنی جاندار تقریروں سے لوگوں کے دل موہ لئے۔انہوں نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں بھی حصہ لیا۔1997 ء میں عنایت حسین بھٹی پر فالج کا حملہ ہوا۔31مئی 1999ء کو یہ بے مثال فنکار اور مرد طرحدار اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا، بلاشبہ ان کا نام اور کام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔''اے مردِ مجاہد، جاگ ذرا......‘‘1958ء میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ''چنگیز خان‘‘ کے تاریخی رزمیہ ترانہ '' اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقت شہادت ہے آیا‘‘ نے عنایت حسین بھٹی کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر کر دیا ہے۔ عنایت حسین بھٹی کی پرجوش اور جذبات سے لبریز آواز نے ایک پورے عہد کے جذبۂ حب الوطنی کو زبان دی۔ یہ کلام اُن قومی نغموں میں شامل ہے جنہوں نے نہ صرف جنگی محاذوں پر لڑنے والے سپاہیوں کے حوصلے بلند کیے بلکہ عام پاکستانی کے دل میں بھی وطن کیلئے قربانی کا جذبہ بیدار کیا۔ اس نغمے کو 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران خاص طور پر مقبولیت ملی، جب ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے ایسے ترانے قوم کے جوش و ولولے کا نشان بن گئے تھے۔یہ مصرعہ محض ایک شعری سطر نہیں بلکہ ایک پکار ہے، اس کی ادائیگی میں عنایت حسین بھٹی کا انداز، گونج دار آواز اور ان کے لہجے کی گہرائی ایسا رنگ بھرتی ہے کہ سننے والا خود کو کسی محاذِ جنگ پر کھڑا محسوس کرتا ہے۔ 

31مئی:انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن

31مئی:انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن

ہر سال 31 مئی کو دنیا بھر میں انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے آگاہ کیا جا سکے اور صحت مند طرزِ زندگی کو فروغ دیا جا سکے۔ اس دن کا آغاز عالمی ادارۂ صحت (WHO) نے 1987ء میں کیا تھا، اور تب سے یہ دن تمباکو کی لعنت کے خلاف ایک مضبوط عالمی پیغام بن چکا ہے۔ اس سال کا تھیم ہے: ''چمکدار مصنوعات، تاریک ارادے‘‘ (Bright Products, Dark Intentions) کے عنوان سے منایا جا رہا ہے۔ اس تھیم کے ذریعے تمباکو اور نکوٹین کی صنعتوں کی اُن خطرناک حکمتِ عملیوں کو بے نقاب کیا جا رہا ہے جو وہ نوجوانوں کو اپنی مصنوعات کی جانب راغب کرنے کیلئے اپناتے ہیں۔ جدید اور دلکش پیکنگ، فلیورز کا اضافہ اور سوشل میڈیا پر مارکیٹنگ ایسی ہی تدابیر ہیں جن کے ذریعے نئی نسل کو اس زہر آلود عادت کا شکار بنایا جا رہا ہے۔دنیا میں ہر سال 80 لاکھ سے زائد اموات تمباکو نوشی سے منسلک بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پھیپھڑوں کا سرطان، دل کی بیماریاں، بلند فشار خون اور دیگر کئی مہلک امراض کا تعلق تمباکو نوشی سے ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ صرف تمباکو نوش افراد ہی نہیں بلکہ ان کے اردگرد موجود غیر تمباکو نوش افراد بھی متاثر ہوتے ہیں۔پاکستان میں تمباکو نوشی ایک سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل خاص طور پر اس کی زد میں ہے۔ سرکاری سطح پر کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جیسے عوامی مقامات پر تمباکو نوشی کی ممانعت، تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی پر پابندی اور تمباکو مصنوعات کی تشہیر پر بندش۔ لیکن ان قوانین پر عملدرآمد کمزور ہے اور مارکیٹ میں ہر جگہ سستے داموں تمباکو مصنوعات کی دستیابی ان تمام کوششوں کو کمزور کرتی ہے۔تمباکونوشی سے ہونیوالے نقصاناتجب کوئی انسان تمباکونوشی کرتا ہے تو سات ہزار سے زائد کیمیائی مادے اس کے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ کینسر سوسائٹی آئر لینڈ اور امریکن لنگ ایسوسی ایشن نے ان خطرناک اور مہلک ترین کیمیائی مادوں کی باقاعدہ نشاندہی کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ کس قدر انسانی صحت کیلئے خطرناک ہیں جنہیں تمباکو نوش جانتے بوجھتے اپنے جسم میں داخل کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مختلف مہلک امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جب کوئی انسان سگریٹ، پان ، نسوار، گٹکا ، شیشہ یا حقے کا استعمال کرتا ہے تو یہ تمام نقصان دہ کیمیائی مادے جن میں کاربن مونو آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، سائنائڈف، ٹار وغیرہ شامل ہیں اس کے پھیپھڑوں اور جسم کے دیگر حصوں تک پہنچ جاتے ہیں۔پھیپھڑوں کا کینسر90فیصد تمباکو کی وجہ سے ہوتا ہے۔انسانی نفسیات پر اثراتتمباکونوشی کے صرف انسانی جسم ہی نہیں ، نفسیات پر بھی انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ تمباکو کا استعمال کرنے والے ذہنی تناؤ کو کم کرنے، تھکاوٹ کو دور کرنے، سکون کے حصول اور پریشانی سے نجات کو اس کا جواز بناتے ہیں۔ اکثر لوگ بے بنیاد طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ تمباکونوشی ان کیلئے آسودگی و سکون کا باعث ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی بوریت کو دور کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ان بے بنیاد خیالات کو امریکی یونیورسٹی کی طبی تحقیق میں غلط ثابت کیا گیا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق تمباکونوشی نفسیاتی دباؤ کم کرنے کی بجائے ذہنی دباؤ اور ڈپریشن میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ سیکنڈ ہینڈ سموکنگتمباکونوشی سے خود اس فرد کی زندگی اور صحت پر جو برے اثرات پڑتے ہیں ، وہ اپنی جگہ مسلمہ ہیں لیکن دوسری جانب دوسرے ایسے لوگ جو سگریٹ نوشی نہیں کرتے، وہ بھی اس کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔ اس عمل کو ''پیسو سموکنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ گھر کا ایک فرد اگر تمباکونوشی کرتا ہے تو اس دوران اس کے اہل خانہ اور خاندان کے دیگر افراد بھی اس کے ہمراہ موجود ہوتے ہیں۔ اس کے دہرے اثرا ت ہوتے ہیں۔ ایک تو اس کے بچوں اور دیگر کم عمر افراد میں اس عمل کا شوق پیدا ہوتا ہے دوسرا وہ اس کے دھوئیں کے منفی اثرات کی براہ راست زد میں ہوتے ہیں۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ تمباکو نوش کے ساتھ رہنے والا ایک گھنٹے میں جتنا تمباکو سونگھتا ہے، وہ ایک سگریٹ پینے کے برابر ہے۔ تمباکونوشی سے نجاتتمباکو کی عادت پڑنے کے بعد اس کو چھوڑنا آسان نہیں لیکن اگر انسان عزم کر لے تو سب کچھ ممکن ہے۔ تمباکونوشی سے نجات کیلئے سب سے زیادہ ضروری اور بنیادی چیز قوت ارادی ہے۔ یہ معلوم ہے کہ ماہِ رمضان میں تمباکونوش حضرات بھی سحری تا افطار اس عادت کو ترک کئے رکھتے ہیں۔اگر ذرا سی کوشش کی جائے تو اس عادت سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ اسی بناء پر ماہِ رمضان المبارک کو تمباکونوشی سے نجات کیلئے ایک قیمتی موقع کے طور پر بیان کیا جاتا ہے ۔ دورانِ روزہ سگریٹ نوشی ترک کرنے سے 8 گھنٹے بعد خون میںنکوٹین اور کاربن مونوآکسائیڈ کی سطح نصف سے کم رہ جاتی ہے جبکہ 48 گھنٹے بعد جسم اور پھیپھڑے کاربن مونوآکسائیڈ سے پاک ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے تو اس عادت کو پختہ بنا کر رمضان کے بعد بھی اس تمباکوشی سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟انسداد تمباکو نوشی صرف حکومتوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی کوشش کا تقاضا کرتا ہے۔والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور اْنہیں تمباکو کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ اساتذہ تعلیمی اداروں میں آگاہی مہمات کا آغاز کریں۔ میڈیا صحت مند طرزِ زندگی کی تشہیر کرے اور تمباکو نوشی کے خلاف سخت مہم چلائے۔ عوامی مقامات پر قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں رپورٹنگ کو فروغ دیا جائے۔انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن ہمیں ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر سوچیں، اقدامات کریں اور تمباکو کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔ یہ صرف ایک دن کا پیغام نہیں، بلکہ ایک مستقل طرزِ فکر ہے جس کے ذریعے ہم اپنے معاشرے کو صحت مند، محفوظ اور خوشحال بنا سکتے ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

کولڈ ہاربر کی جنگامریکی خانہ جنگی کے دوران ورجینیا میں 31 مئی 1864ء کو ایک جنگ لڑی گئی جسے کولڈ ہاربر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس جنگ کے دوران سب سے اہم لڑائی 3جون کو لڑی گئی اور یہ یونین لیفٹیننٹ جنرل یولیسز کی آخری لڑائیوںمیں سے ایک تھی۔جنگ کے دوران ایس گرانٹ کی اوور لینڈ مہم کو امریکی تاریخ کی سب سے خونریز، خطرناک اور یکطرفہ لڑائیوںمیں شمار کیا جاتا ہے۔ کنفیڈریٹ جنرل رابرٹ ای لی کی فوج کی مضبوط حکمت عملی اور پوزیشن کے خلاف یونین افواج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور کمزور حملے کی وجہ سے یونین افواج کے ہزاروں فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے۔ کوئٹہ زلزلہ31مئی 1935ء کو کوئٹہ جو اس وقت سلطنت برطانیہ کا حصہ تھا میں رات 2 سے 3بجے کے درمیان ایک خوفناک زلزلہ آیاجس نے پورے شہر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ زلزلے کی شدت7.7تھی۔ رپورٹس کے مطابق اس زلزلے کے نتیجے میں تقریباً60 ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ 2005ء میں کشمیر میں آنے والے زلزلے تک جنوبی ایشیا میں آنے والے زلزلوں میں سب سے زیادہ خطرناک تھا۔ زلزلے کا مرکز علی جان، بلوچستان اس وقت کے برطانوی ہندوستان سے 4 کلومیٹر جنوب مغرب میں تھا۔ جانسٹاؤن سیلاب31مئی1889ء کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے علاقے پنسلوینیا کے قصبے میں جنوبی فورک ڈیم جو دریائے لٹل کونیماؤ کے جنوبی کنارے پر 23کلومیٹر اوپر کی جانب واقع ہے میں خرابی کی وجہ سے سیلاب آیا۔ڈیم کئی دن کی مسلسل بارش کی وجہ سے دباؤ برداشت نہیں کر سکا اور پھٹ گیا۔خرابی کی وجہ سے ڈیم سے14.55ملین کیوبک مکعب پانی چھوڑ دیا گیا۔پانی کے شدید بہاؤ کی وجہ سے سیلاب آگیا جس کی وجہ سے 2ہزار209افراد لقمۂ اجل بنے۔اس سیلاب کے نتیجے میں 513ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔اس واقع کو امریکہ کی تاریخ میں پیش آنے والی بدترین آفات میں شمار کیا جاتا ہے۔کنکورڈ سروس کا اختتامکنکورڑ جہاز کو اب تک دنیا کا تیز ترین مسافر جہاز تصور کیا جاتا ہے۔ کنکورڈ نے اپنی پہلی فلائٹ2مارچ1969ء بھری جو کامیاب رہی ۔ کنکورڈ سروس شروع ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد اس جہاز کے ساتھ ایک خوفناک حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں جہاز ائیرپورٹ سے کچھ فاصلے پر گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے کے بعد انتظامیہ کے لئے کنکورڈ سروس کو جاری رکھنا ناممکن ہوگیا اور 31 مئی2003ء کو اس سروس کا اختتام کر دیا گیا۔  

پلاسٹک زدہ پرندے

پلاسٹک زدہ پرندے

دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے اور اس کے سب سے ہولناک اثرات ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ان جانوروں پر جو ہماری پیدا کردہ آلودگی کا شکار ہوتے ہیں۔ حال ہی میںسامنے آنے والی چند تصاویر نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، جن میں ایسے پرندے دکھائے گئے ہیں جن کے جسم پلاسٹک سے اس قدر بھرے ہوئے ہیں کہ اُن کے اندر سے ''چرچرانے‘‘ اور ''کڑکنے‘‘ کی آوازیں آتی ہیں۔یہ وہ آواز نہیں جو عام طور پر پرندوں سے منسوب کی جاتی ہے۔ لیکن ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ''فلیش فُٹڈ شیئرواٹرز‘‘ (Flash Footed Sharewaters) کی ایک پوری کالونی ایسی ''کڑکنے‘‘ اور ''چرچرانے‘‘ کی آوازیں نکالتی ہے کیونکہ انہوں نے بہت زیادہ مقدار میں پلاسٹک نگل لیا ہے۔ آسٹریلیا کے مشرقی ساحل سے دور ایک چھوٹے آتش فشانی جزیرے، لارڈ ہاؤ پر تقریباً 44ہزار شیئر واٹرز جنہیں ''مٹن برڈز‘‘ بھی کہا جاتا ہے، موجود ہیں۔ جب یہ پرندے بچے دیتے ہیں تو اُن کے چوزے 90 دن تک اپنے بلوں میں رہتے ہیں، اور انہیں والدین کی طرف سے مچھلی اور اسکویڈ (سمندری جانور) پر مشتمل خوراک ملنی چاہیے۔ لیکن ماں باپ غلطی سے انہیں پلاسٹک پر مشتمل خوراک کھلا رہے ہیں۔ جن میں غباروں کے کلپ، لیگو (LEGO) کے ٹکڑے، قلم کے ڈھکن، بوتلوں کے ڈھکن اور کھلونا کار کے پہیے شامل ہیں۔سائنس دانوں نے ایک بار ایک 80 دن کے سمندری پرندے کے بچے کے پیٹ میں 778 پلاسٹک کے ٹکڑے دریافت کیے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اب ان کا کہنا ہے کہ ہر ایک پرندے کے معدے میں کم از کم 50 یا اس سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہیں۔ ڈاکٹر ایلکس بانڈ، جو نیچرل ہسٹری میوزیم میں پرندوں کے سینئر کیوریٹر ہیں، 2009ء سے جزیرے کے پرندوں کو درپیش خطرات کی دستاویزی تحقیق کر رہے ہیں۔پلاسٹک: خاموش قاتلپلاسٹک کی آلودگی ایک خاموش مگر تباہ کن عفریت ہے۔ ہر سال لاکھوں ٹن پلاسٹک سمندروں، جھیلوں، ندیوں اور دیگر قدرتی مقامات پر پھینکا جاتا ہے، جہاں یہ سینکڑوں سال تک گلتا سڑتا نہیں۔ یہی پلاسٹک پرندوں، مچھلیوں، کچھوؤں اور دیگر جانداروں کے جسم میں داخل ہو کر ان کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔پرندے خاص طور پر اس خطرے کا شکار ہیں۔ وہ چمکدار رنگوں یا خوراک سے مشابہ اشیاء کو کھانے کی کوشش کرتے ہیں، جو اکثر پلاسٹک ہوتی ہیں۔ پلاسٹک ان کے معدے میں جمع ہو جاتی ہے، جس سے ان کی خوراک ہضم کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، اور وہ غذائی ضرورت پورا نہ ہونے سے مر جاتے ہیں۔دل دہلا دینے والی تصاویرحال ہی میں آسٹریلیا اور دیگر ساحلی علاقوں سے سامنے آنے والی تصاویر میں مردہ پرندوں کے جسموں کو کاٹ کر دیکھا گیا، تو ان کے معدوں میں پلاسٹک کی بوتلوں کے ڈھکن، پیکنگ میٹریل، لائٹرز اور دیگر چھوٹی اشیاء کی بھاری مقدار پائی گئی۔ ماہرین کے مطابق کچھ پرندوں کے جسم اتنے پلاسٹک سے بھرے ہوتے ہیں کہ انہیں ہلانے سے ''چرچراہٹ‘‘ کی آواز آتی ہے۔یہ ایک ایسا منظر جو ہر حساس دل کو لرزا دیتا ہے۔ماہرین زندہ پرندوں کے معدے کو صاف کرنے کیلئے ان کے جسم میں نرمی سے سمندری پانی پمپ کرتے ہیں، جس سے وہ قے کرتے ہیں اور وہ مواد ایک بالٹی میں جمع ہو جاتا ہے۔جو کچھ بھی انہوں نے نگل رکھا ہوتا ہے، جیسے پلاسٹک ، وہ سب قے کے ساتھ واپس آ جاتا ہے۔ ڈاکٹر بانڈ کے مطابق یہ وہ چوزے ہیں جنہیں ان کے والدین نے غلطی سے یہ سارا پلاسٹک کھلا دیا۔یہ چوزے ابھی گھونسلے سے اڑنے کے قابل بھی نہیں ہوئے، لیکن اس وقت تک ان کے جسموں میں کوڑا کرکٹ کا یہ ڈھیر جمع ہو چکا ہوتا ہے۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بعد میں خود سے آسٹریلیا سے جاپان تک کا سفر کریں گے۔مگر اتنی مقدار میں پلاسٹک اُن کے جسموں میں ہو تو ان میں سے کئی کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ بعض اوقات جب وہ ان پرندوں کو ہاتھ میں لیتے ہیں، تو ''چرچرانے‘‘ کی آواز سنائی دیتی ہے اور وہ یہ آواز محسوس بھی کر سکتے ہیں۔ماضی میں پرندوں پر کی گئی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ جن پرندوں کے معدے میں سب سے زیادہ پلاسٹک پایا گیا، اُن کے جسمانی ٹشوز میں زہریلے مادوں کی مقدار بھی سب سے زیادہ تھی۔انسانیت کیلئے لمحہ فکریہیہ مناظر صرف جنگلی حیات کی تباہی کی کہانی نہیں سناتے، بلکہ یہ انسانوں کیلئے بھی ایک انتباہ ہیں۔ یہی پلاسٹک بالآخر ہماری خوراک، پانی اور فضا میں شامل ہو کر ہمارے جسموں میں داخل ہو رہا ہے۔ مائیکرو پلاسٹک آج ہمارے جسموں، یہاں تک کہ نوزائیدہ بچوں کے خون میں بھی پایا جا رہا ہے۔ہمیں کیا کرنا چاہیے؟مسئلہ بڑا ہے، مگر حل ناممکن نہیں۔ ہمیں درج ذیل اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔پلاسٹک کا استعمال کم کریں: خاص طور پر سنگل یوز پلاسٹک جیسے تھیلیاں، بوتلیں اور پیکنگ میٹریل سے گریز کیا جائے۔ری سائیکلنگ کو فروغ دیں: پلاسٹک کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا سیکھیں اور دوسروں کو بھی سکھائیں۔آگاہی پیدا کریں: اسکولوں، کالجوں اور میڈیا کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کیا جائے۔حکومتی سطح پر اقدامات: حکومت کو سخت قوانین اور جرمانوں کے ذریعے پلاسٹک کے استعمال کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زمین صرف انسانوں کی نہیں بلکہ لاکھوں انواع کی مشترکہ رہائش گاہ ہے۔ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو یہ زمین ہمارے لیے بھی ناقابلِ رہائش بن سکتی ہے۔ آج جو پرندے پلاسٹک سے مر رہے ہیں، کل کو یہی انجام انسانوں کا بھی ہو سکتا ہے۔

رانی ایک ناقابل فراموش اداکارہ!

رانی ایک ناقابل فراموش اداکارہ!

پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ کچھ ایسے ناموں سے جگمگا رہی ہے جنہوں نے اپنے فن، خوبصورتی اور جذباتی اداکاری سے لاکھوں دلوں پر راج کیا۔ ان ہی میں سے ایک درخشندہ نام رانی کا ہے۔اپنی دلکش مسکراہٹ، اداکاری، جذباتی مکالموں اور منفرد رقص کی بدولت رانی نے کئی دہائیوں تک فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا۔رانی کا اصل نام ناصرہ تھا۔ وہ 8 دسمبر 1946 ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام ملک محمد شفیع تھا جو ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور معروف گلوکارہ مختار بیگم کے ڈرائیور تھے۔ رانی کی فنی تربیت کا آغاز بھی اسی توسط سے ہوا جب مختار بیگم نے ان کی صلاحیتوں کو پہچانا اور انہیں رقص و موسیقی میں باقاعدہ تربیت دینا شروع کی۔ یہی بنیاد بعد میں ان کے فلمی کریئر کا سنگِ میل بنی۔رانی نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز 1962 ء میں ہدایتکار انور کمال پاشا کی فلم ''محبوب‘‘سے کیا۔ ابتدائی چند فلمیں ناکامی سے دوچار ہوئیں جس کی وجہ سے انہیں ''منحوس اداکارہ‘‘کا داغ بھی سہنا پڑا، لیکن رانی نے ہمت نہ ہاری اور اپنی لگن اور فن کی بدولت بالآخر 1967 ء میں فلم ''دیور بھابھی‘‘سے کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں۔ 1970ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''انجمن‘‘نے انہیں سپر اسٹار کے درجے پر فائز کر دیا۔رانی نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں کام کیا۔ ان کے کریڈٹ پر 168 فلمیں ہیں، جن میں سے 103 اردو اور 65 پنجابی فلمیں تھیں۔ ان کی مشہور فلموں میں ''انجمن، دیور بھابھی، شمع اور پروانہ، امرائو جان ادا، دیدار، ایک گناہ اور سہی، بہارو پھول برسائو‘‘ شامل ہیں۔رانی کا اندازِ گفتگو، جسمانی تاثر اور رقص کا انداز انہیں دیگر اداکاراں سے ممتاز کرتا تھا۔ ان کی اداکاری میں نسوانیت، درد، جذبہ اور رومان کا حسین امتزاج دکھائی دیتا تھا۔پنجابی فلموں کی بات کریں تو رانی کے فلمی کریئر کی دوسری فلم ہدایتکار اسلم ایرانی کی ایک پنجابی فلم ''موج میلہ‘‘ تھی جو 1963ء میں ریلیز ہوئی، جس میں وہ نیلو کے مقابل ثانوی کردار میں تھیں۔ ڈیڑھ درجن فلموں کے بعد اس کی دوسری فلم ''گونگا‘‘ 1966ء میں ریلیز ہوئی تھی۔رانی کو پنجابی فلموں میں فلم ''چن مکھناں‘‘ 1968ء سے بریک تھرو ملا تھا اور بھٹی بردران کی فلموں کا ایک لازمی حصہ بن گئی تھیں۔ اس کی دیگر مقبول پنجابی فلموں میں ''سجن پیارا، جند جان، مکھڑا چن ورگا، گبھرو پت پنجاب دے، کوچوان، چن سجناں، دنیا مطلب دی، ٹیکسی ڈرائیور، بابل، اچا ناں پیار دا، جی او جٹا، غیرت تے قانون اور سونا چاندی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ پنجابی فلموں میں رانی ، اپنی معصوم ، سادہ اور حقیت سے قریب تر اداکاری کی وجہ سے جانی جاتی تھیں اور نغمہ اور فردوس کے بعد تیسری مقبول ترین ہیروئن ہوتی تھیں۔رانی ، پاکستانی فلموں کی واحد اداکارہ تھیں جن کی جوڑیاں اپنے عہد کے سبھی چھوٹے بڑے اردو اور پنجابی فلموں کے فنکاروں کے ساتھ بنی تھیں۔ اردو فلموں کے بڑے ہیروز میں سے سنتوش، درپن، کمال، محمدعلی، وحیدمراد، ندیم، شاہد اور غلام محی الدین ہوں یا پنجابی فلموں کے بڑے ہیروز، سدھیر، اکمل، اعجاز، حبیب، عنایت حسین بھٹی، کیفی، یوسف خان، سلطان راہی اور اقبال حسن، رانی سب کی ہیروئن بنیں جو ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ اور تو اور رتن کمار، ہارون، علاؤالدین، اسد بخاری، مظہرشاہ، نصراللہ بٹ، بدرمنیر، ننھا اور علی اعجاز کے علاوہ غیر معروف اداکاروں زاہدخان، عادل، شہباز وغیرہ کی ہیروئن بھی رانی ہی تھیں۔رانی کی فلمی جوڑیوں میں اردو فلموں میں کمال، وحیدمراد اور شاہد کے ساتھ زیادہ پسند کی گئی تھی جبکہ پنجابی فلموں میں عنایت حسین بھٹی، یوسف خان اور علی اعجاز کے ساتھ کامیابی ملی تھی۔ رانی نے زیادہ تر اپنے خاوند حسن طارق کی فلموں میں کام کیا تھا۔1980 ء کی دہائی میں جب فلمی صنعت زوال کا شکار ہونے لگی تو رانی نے ٹیلی ویژن کی طرف رجوع کیا۔ پی ٹی وی پر ان کے مقبول ڈراموں میں ''خواہش‘‘اور ''فریب‘‘شامل ہیں، جن میں ان کی اداکاری کو ناظرین نے بے حد سراہا۔رانی کی ذاتی زندگی اتنی مستحکم نہ رہی جتنی ان کی فلمی کامیابیاں تھیں۔ ان کی پہلی شادی ہدایتکار حسن طارق سے ہوئی،اس شادی سے ان کا ایک بیٹا علی رضا پیدا ہوا۔ حسن طارق کی شخصیت جاذب اور تخلیقی تھی لیکن ان کے درمیان اختلافات بڑھتے گئے اور بالآخر یہ شادی طلاق پر ختم ہوئی۔رانی نے پاکستانی کرکٹر سرفراز نواز سے بھی شادی کی ۔ یہ رشتہ نہ صرف میڈیا میں موضوعِ بحث بنا بلکہ بہت متنازع بھی رہا۔ سرفراز نواز اور رانی کے تعلقات میں ابتدا میں بہت گرم جوشی تھی، مگر جلد ہی ان کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی۔ یہ شادی بھی طلاق پر منتج ہوئی۔رانی کا واحد بیٹا علی رضا ان کے ساتھ رہتا تھا اور وہی ان کی آخری زندگی کا سہارا تھا۔ شادیوں کی ناکامی، کینسر کی بیماری اور فلمی دنیا سے دوری نے انہیں تنہا کر دیا، مگر انہوں نے کبھی شکوہ نہ کیا۔رانی کو بریسٹ کینسر کا مرض لاحق ہوا۔ انہوں نے طویل عرصہ علاج کروایا مگر بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ 27 مئی1993 ء کو کراچی میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی عمر اس وقت صرف46 سال تھی۔ انہیں لاہور کے مسلم ٹائون کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ رانی کی زندگی کے نشیب و فراز، فلمی سفر، کامیابیاں اور ناکامیاں سب کچھ ایک فلمی کہانی کی طرح ہیں۔ ان کی اداکاری، انداز، گفتگو اور فنی خدمات کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

جنگ عظیم دوم ، بیلجیئم نے جرمنی کے سامنے ہتھیار ڈالے27 مئی 1940 کو جنگ عظیم دوم کے دوران بیلجیم نے نازی جرمنی کے سامنے رسمی طور پر ہتھیار ڈال دیے۔ یہ فیصلہ بیلجئین بادشاہ لیوپولڈ سوم نے کیا، جنہوں نے جرمن افواج کی پیش قدمی اور بیلجئین فوج کی پوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے بغیر اتحادیوں کو اعتماد میں لیے ہتھیار ڈال دیے۔بیلجیم پر 10 مئی 1940ء کو جرمنی نے حملہ کیا تھا ۔اسی دن نیدرلینڈ اور لکسمبرگ پر بھی حملہ ہوا۔18 دن کی شدید لڑائی کے بعد بیلجیم کی فوج نے زیادہ مزاحمت نہ کر پاتے ہوئے 27 مئی کو سرنڈر کر دیا۔بنگلہ دیش میں طوفان27مئی1963ء کو بنگلہ دیش (اس وقت کے مشرقی پاکستان) میں شدید طوفان آیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے خوفناک صورت اختیار کر لی۔ اس طوفان نے بہت بڑے علاقے میں تباہی مچائی جس کے نتیجے میں22ہزار افراد ہلاک جبکہ10لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے۔ اسے اس خطے میں آنے والے بدترین آفتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ لاکھوں افراد کے بے گھرہونے کی وجہ سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ بھی بڑھ گیا جس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ یوگیا کارتا زلزلہ27مئی 2006ء کو یوگیا کارتا زلزلہ جسے بنٹول زلزلہ بھی کہا جاتا ہے 6.4 شدت کا خوفناک زلزلہ تھا۔اس زلزلے میں 5ہزار 700 افراد ہلاک جبکہ لاکھوں افراد زخمی اور بے گھر ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق زلزلے کے دوران تقریباً3.1ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ عوامی انفراسٹرکچرکے ساتھ، ہاؤسنگ اور نجی کاروبار کو زیادہ نقصان پہنچا ۔ریاستہائے متحدہ کے نیشنل جیو فزیکل ڈیٹا سینٹر نے اس واقعے سے ہونے والے کل نقصان کو انتہائی درجہ کا قرار دیا۔اس زلزلے کو انڈونیشیا کی تاریخ کے بدترین زلزلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔لی پراڈس کا قتل عاملی پراڈس کا قتل عام دوسری عالمی جنگ کا ایک سنگین جنگی جرم تھا جس کا ارتکاب14ویں کمپنی کیSSڈویژن کے ارکان نے کیا تھا۔ یہ 27 مئی 1940ء کو فرانس کی جنگ کے دوران ایک ایسے وقت میں ہوا جب برطانوی مہم جوئی فورس (BEF) کے دستے ڈنکرک کی لڑائی کے دوران پاس ڈی کیلیس کے علاقے سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔دوسری بٹالین، رائل نورفولک رجمنٹ کے سپاہی اپنی یونٹ سے الگ ہو چکے تھے۔ انہوں نے لی پراڈس گاؤں میں ایس ایس فورسز کے حملے کے خلاف ایک فارم ہاؤس پر قبضہ کرلیا تاکہ اپنا دفاع کر سکیں۔ گولہ بارود ختم ہونے کے بعد، محافظوں نے جرمن فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ جرمن انہیں سڑک کے پار ایک دیوار تک لے گئے جہاں انہیں مشین گنوں سے قتل کر دیا گیا۔