ہمیں کھو کر بہت پچھتائو گے… فلمی گیتوں کو ’’سُرور‘‘ بخشنے والا شاعر …سُرور بارہ بنکوی

اسپیشل فیچر
پاکستانی اردو فلموں میں جن گیت نگاروں نے اپنے فن کا جادو جگایا ان میں قتیل شفائی، سیف الدین سیف، تنویر نقوی، فیاض ہاشمی، تسلیم فاضلی، کلیم عثمانی اور دیگر شامل ہیں۔ حبیب جالب اور منیرنیازی کا نام نہ لیا جائے تو یہ صریحاً ناانصافی ہوگی۔ ان دونوں شعراء نے زیادہ تعداد میں فلمی گیت تخلیق نہیں کیے لیکن جتنے نغمات بھی لکھے بے مثال لکھے۔ ماضی کے موسیقار بھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے یہ گیت نگار بہت خوش قسمت تھے جنہیں خواجہ خورشید انور، روبن گھوش، ماسٹر عنایت حسین، بابا جی اے چشتی، ماسٹر عبداللہ، نثار بزمی، حسن لطیف، ایم اشرف، رشید عطرے اور سلیم اقبال جیسے موسیقار ملے۔ ان عظیم سنگیت کاروں نے ہمارے شعراء کے نغمات کو ایسی شاندار دھنوں سے مزین کیا کہ وہ نغمات شاہکار کی حیثیت اختیار کر گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 80 ء کی دہائی تک پاکستانی اردو فلموں کی نغمہ نگاری اور موسیقی اپنے عروج پر تھی۔ بعد میں ہر چیز زوال کی دھند میں گم ہو گئی۔ایک نغمہ نگار ایسا بھی تھا جس نے اپنی الگ شناخت بنائی لیکن مقامِ افسوس ہے کہ آج وہ شاعر قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اس شاعر کا نام تھا سُرور بارہ بنکوی…سُرور بارہ بنکوی کا اصلی نام سید سعید الرحمن تھا۔ وہ 1919ء میں اُترپردیش کے قصبے بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی صوبہ ہے جہاں بھارت کے مانے ہوئے اداکار نصیر الدین شاہ پیدا ہوئے ۔سُرور بارہ بنکوی صرف فلمی نغمہ نگار ہی نہیں۔ غزل اور نظم کے بھی باکمال شاعر تھے۔ قتیل شفائی ، سیف الدین سیف اور حبیب جالب کی متفقہ رائے یہ تھی کہ سُرور بارہ بنکوی ایک اعلیٰ درجے کے گیت نگار ہیں اور انہیں بہت ارفع مقام ملنا چاہیے ۔مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) سے سُرور بارہ بنکوی کی محبت کا آغاز 1951ء میں شروع ہوا جب انہیں ڈھاکہ میں یوم آزادی کے مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ وہ بنگالی عوام کی پذیرائی سے بہت متاثر ہوئے۔ 1952 ء میں وہ دوبارہ ڈھاکہ آئے اور پھر وہیں آباد ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ انہیں ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کے دفتر میں نوکری مل گئی۔ مشرقی پاکستان میں انہیں ترقی پسند شاعر کہا جاتا تھا۔ انہوںنے تین فلمیں بھی بنائیں جن میں’’آخری اسٹیشن‘‘ سب سے مشہور ہوئی۔ یہ فلم انہوں نے ہاجرہ مسرور کے افسانے ’’پگلی‘‘ سے متاثر ہو کر بنائی تھی۔ یہ اداکارہ شبنم کی پہلی فلم تھی جس میں شبنم نے ایک گونگی لڑکی کا کردار ادا کیا اور چونکا دینے والی اداکاری کی ۔ ’’آخری ا سٹیشن‘‘ کو متحدہ پاکستان کی بہترین آرٹ فلم بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ کرشن چندر کے افسانے ’’انجان‘‘ پر بھی انہوں نے فلم بنائی جس کا نام تھا ’’تم میرے ہو‘‘ اس فلم نے بھی شائقین کو بے حد متاثر کیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد سُرور بارہ بنکوی پاکستان منتقل ہوگئے۔ وہ پاکستان کے دو لخت ہونے پر بہت دکھی اور غمزدہ تھے۔ یہاں آ کر بھی انہوں نے بہت خوبصورت شاعری کی لیکن ادبی حلقوں کی رائے میں اب ان کی شاعری میں وہ توانائی اور حرارت باقی نہ رہی تھی جو مشرقی پاکستان میں تھی۔سُرور بارہ بنکوی نے یادگار فلمی نغمات لکھے۔ 1962ء میں جب احتشام نے اپنی پہلی اردو فلم ’’چندا‘‘ بنائی تو اس کی کہانی اور نغمات سُرورصاحب نے لکھے۔ بنگال کی کوئل فردوسی بیگم نے بھی اس فلم کے کچھ گیت گائے۔ 1963ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’تلاش‘‘ میں ان کے گیت بہت ہِٹ ہوئے،یہ گیت بشیر احمد نے گائے تھے۔ اس فلم کے نغمات ’’کچھ اپنی کہیے ،کچھ میری سنیے‘‘ بہت مقبول ہوا۔ پھر بشیر احمد کا گایا ہوا یہ نغمہ ’’میں رکشہ والا بیچارا‘‘ ہر کسی کے لبوں پر تھا۔ اس کے بعد ’’کاجل‘‘ میں اُن کے لکھے ہوئے نغمات نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ خاص طور پر فردوسی بیگم کا گایا ہوا یہ گانا ’’ یہ آرزو جواں جواں،یہ چاندنی دھواں دھواں‘‘ انتہائی پسند کیا گیا۔ اداکار رحمن کی ذاتی فلم ’’ملن‘‘ میں بھی سُرور صاحب کا لکھا ہوا یہ گانا ’’ تم سلامت رہو، مسکرائو ہنسو‘‘ بہت ہٹ ہوا۔ 1968ء میں انہوں نے ’’چاند اورچاندنی‘‘ کے نغمات لکھے۔ کریم شہاب الدین کی دلکش موسیقی نے اِن گیتوں کو لازوال شہرت سے ہمکنار کردیا ۔ مالا، احمد رُشدی اور مسعود رانا نے بھی انتہائی خوبصورت گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ ’’چاند اور چاندنی‘‘ کے نغمات آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے۔٭جانِ تمنا خط ہے تمہارا پیار بھرا افسانہ ( احمد رُشدی)٭لائی گھٹا موتیوں کا خزانہ (مالا)٭اے جہاں اب ہے منزل کہاں (احمد رشدی)٭تیری یاد آ گئی، غم خوشی میں ڈھل گئے (مسعود رانا)پاکستان میں انہوں نے جن فلموں کیلئے جو عدیم النظر گیت لکھے ان میں ’’احساس، آئینہ اور نہیں ابھی نہیں‘‘ شامل ہیں۔ ان کے 90 فیصد نغمات کو روبن گھوش نے اپنی مسحور کن موسیقی سے مزین کیا۔ ذرا ’’احساس‘‘ کے گیت ملاحظہ کریں۔ ایسا سُرور ملتا ہے کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر رونا لیلیٰ کا گایا ہوا یہ نغمہ تو گویا سُرور بارہ بنکوی کو امر کرگیا۔’’ہمیں کھو کر بہت پچھتائو گے جب ہم نہیں ہونگے‘‘۔ اسی طرح 1977ء میں ریلیز ہونے والی یادگار فلم ’’آئینہ‘‘ میں بھی اُن کے لکھے ہوئے نغمات نے حشربپا کر دیا۔یوںتو ہر گیت ہی زبردست تھا لیکن مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گیت ’’کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں‘‘ بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ اِسی گانے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مہدی حسن کی فلمی گائیکی کا دوسرا جنم تھا۔ ہالی وڈ کی مشہور فلم ’’سمر آف 42‘‘سے متاثر ہو کر یہاں بھی ایک فلم بنائی گئی جس کا نام تھا ’’نہیں ابھی نہیں‘‘ ، ’’آئینہ‘‘ کے بعد ہدایتکار نذرالسلام کی یہ فلم بھی انتہائی اعلیٰ درجے کی تھی۔ اس کی موسیقی بھی روبن گھوش کی تھی۔ سُرور بنکوی کے گیت کو اِس بار اخلاق احمد نے بلندیوں پر پہنچایا۔ خاص طور پر اس گیت نے سُرور بارہ بنکوی، اخلاق احمد اور روبن گھوش کو شہرت اور عظمت کی ایک نئی منزل پر پہنچا دیا۔’’سماں وہ خواب سا سماں‘‘سُرور بارہ بنکوی ایک عمدہ غزل گو بھی تھے۔ ان کی ایک غزل کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں۔اُس نے دیکھا بہ چشمِ توبہ شکنمیری جانب بڑھا کے پیمانہمیرے ساغر پہ آج رندوں کیپڑ رہی ہے نظر حریصانہاس طرح ان کی ایک مشہور نظم ’’یوم مئی‘‘ کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:آج مئی کا پہلا دن ہے، آج کا دن مزدور کا دن ہےجبرو ستم کے مدمقابل حوصلہ ء جمہور کا دن ہےسُرور صاحب نے نعتیں بھی لکھیں۔ ان کی ایک نعت کا شعر مندرجہ ذیل ہے۔اللہ اللہ میری قسمت، ایسا رُتبہ اور میںجاگی آنکھوں سے دیکھوں خواب طیبہ اور میںسُرور بارہ بنکوی نے اپنی فلمی شاعری کا زیادہ تر عرصہ مشرقی پاکستان میں گزارا۔ اُس زمانے میں مشرقی پاکستان میں بنگالی فلموں کے علاوہ اردو فلمیں بھی اچھی خاصی تعداد میں بنائی جاتی تھیں۔ پھر یہ اردو فلمیں مغربی پاکستان میں بھی نمائش کیلئے پیش کی جاتی تھیں۔ 1971ء کے بعد وہ جب پاکستان منتقل ہوئے تو انہوںنے اپنا شعری سفر جاری رکھا۔ اپنی زندگی کے آخری دور میں وہ سقوطِ ڈھاکہ اور جنگی قیدیوں پر فلم بنانا چاہتے تھے۔ اس فلم کا سکرپٹ مکمل ہو چکا تھا جس کا نام انہوں نے رکھا تھا۔ ’’کیمپ نمبر333‘‘۔وہ اِس فلم کی شوٹنگ کے انتظامات کو آخری شکل دینے کیلئے ڈھاکہ گئے جہاں 3اپریل 1980ء کو انہیں دل کا دورہ پڑا اور فلمی گیتوں کوسُرور بخشنے والا یہ شاعر ہمیشہ کیلئے اِس دنیا سے رخصت ہوگیا۔٭…٭…٭