ہمیں کھو کر بہت پچھتائو گے… فلمی گیتوں کو ’’سُرور‘‘ بخشنے والا شاعر …سُرور بارہ بنکوی

ہمیں کھو کر بہت پچھتائو گے… فلمی گیتوں کو ’’سُرور‘‘ بخشنے والا شاعر …سُرور بارہ بنکوی

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

پاکستانی اردو فلموں میں جن گیت نگاروں نے اپنے فن کا جادو جگایا ان میں قتیل شفائی، سیف الدین سیف، تنویر نقوی، فیاض ہاشمی، تسلیم فاضلی، کلیم عثمانی اور دیگر شامل ہیں۔ حبیب جالب اور منیرنیازی کا نام نہ لیا جائے تو یہ صریحاً ناانصافی ہوگی۔ ان دونوں شعراء نے زیادہ تعداد میں فلمی گیت تخلیق نہیں کیے لیکن جتنے نغمات بھی لکھے بے مثال لکھے۔ ماضی کے موسیقار بھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے یہ گیت نگار بہت خوش قسمت تھے جنہیں خواجہ خورشید انور، روبن گھوش، ماسٹر عنایت حسین، بابا جی اے چشتی، ماسٹر عبداللہ، نثار بزمی، حسن لطیف، ایم اشرف، رشید عطرے اور سلیم اقبال جیسے موسیقار ملے۔ ان عظیم سنگیت کاروں نے ہمارے شعراء کے نغمات کو ایسی شاندار دھنوں سے مزین کیا کہ وہ نغمات شاہکار کی حیثیت اختیار کر گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 80 ء کی دہائی تک پاکستانی اردو فلموں کی نغمہ نگاری اور موسیقی اپنے عروج پر تھی۔ بعد میں ہر چیز زوال کی دھند میں گم ہو گئی۔ایک نغمہ نگار ایسا بھی تھا جس نے اپنی الگ شناخت بنائی لیکن مقامِ افسوس ہے کہ آج وہ شاعر قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اس شاعر کا نام تھا سُرور بارہ بنکوی…سُرور بارہ بنکوی کا اصلی نام سید سعید الرحمن تھا۔ وہ 1919ء میں اُترپردیش کے قصبے بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی صوبہ ہے جہاں بھارت کے مانے ہوئے اداکار نصیر الدین شاہ پیدا ہوئے ۔سُرور بارہ بنکوی صرف فلمی نغمہ نگار ہی نہیں۔ غزل اور نظم کے بھی باکمال شاعر تھے۔ قتیل شفائی ، سیف الدین سیف اور حبیب جالب کی متفقہ رائے یہ تھی کہ سُرور بارہ بنکوی ایک اعلیٰ درجے کے گیت نگار ہیں اور انہیں بہت ارفع مقام ملنا چاہیے ۔مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) سے سُرور بارہ بنکوی کی محبت کا آغاز 1951ء میں شروع ہوا جب انہیں ڈھاکہ میں یوم آزادی کے مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ وہ بنگالی عوام کی پذیرائی سے بہت متاثر ہوئے۔ 1952 ء میں وہ دوبارہ ڈھاکہ آئے اور پھر وہیں آباد ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ انہیں ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کے دفتر میں نوکری مل گئی۔ مشرقی پاکستان میں انہیں ترقی پسند شاعر کہا جاتا تھا۔ انہوںنے تین فلمیں بھی بنائیں جن میں’’آخری اسٹیشن‘‘ سب سے مشہور ہوئی۔ یہ فلم انہوں نے ہاجرہ مسرور کے افسانے ’’پگلی‘‘ سے متاثر ہو کر بنائی تھی۔ یہ اداکارہ شبنم کی پہلی فلم تھی جس میں شبنم نے ایک گونگی لڑکی کا کردار ادا کیا اور چونکا دینے والی اداکاری کی ۔ ’’آخری ا سٹیشن‘‘ کو متحدہ پاکستان کی بہترین آرٹ فلم بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ کرشن چندر کے افسانے ’’انجان‘‘ پر بھی انہوں نے فلم بنائی جس کا نام تھا ’’تم میرے ہو‘‘ اس فلم نے بھی شائقین کو بے حد متاثر کیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد سُرور بارہ بنکوی پاکستان منتقل ہوگئے۔ وہ پاکستان کے دو لخت ہونے پر بہت دکھی اور غمزدہ تھے۔ یہاں آ کر بھی انہوں نے بہت خوبصورت شاعری کی لیکن ادبی حلقوں کی رائے میں اب ان کی شاعری میں وہ توانائی اور حرارت باقی نہ رہی تھی جو مشرقی پاکستان میں تھی۔سُرور بارہ بنکوی نے یادگار فلمی نغمات لکھے۔ 1962ء میں جب احتشام نے اپنی پہلی اردو فلم ’’چندا‘‘ بنائی تو اس کی کہانی اور نغمات سُرورصاحب نے لکھے۔ بنگال کی کوئل فردوسی بیگم نے بھی اس فلم کے کچھ گیت گائے۔ 1963ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’تلاش‘‘ میں ان کے گیت بہت ہِٹ ہوئے،یہ گیت بشیر احمد نے گائے تھے۔ اس فلم کے نغمات ’’کچھ اپنی کہیے ،کچھ میری سنیے‘‘ بہت مقبول ہوا۔ پھر بشیر احمد کا گایا ہوا یہ نغمہ ’’میں رکشہ والا بیچارا‘‘ ہر کسی کے لبوں پر تھا۔ اس کے بعد ’’کاجل‘‘ میں اُن کے لکھے ہوئے نغمات نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ خاص طور پر فردوسی بیگم کا گایا ہوا یہ گانا ’’ یہ آرزو جواں جواں،یہ چاندنی دھواں دھواں‘‘ انتہائی پسند کیا گیا۔ اداکار رحمن کی ذاتی فلم ’’ملن‘‘ میں بھی سُرور صاحب کا لکھا ہوا یہ گانا ’’ تم سلامت رہو، مسکرائو ہنسو‘‘ بہت ہٹ ہوا۔ 1968ء میں انہوں نے ’’چاند اورچاندنی‘‘ کے نغمات لکھے۔ کریم شہاب الدین کی دلکش موسیقی نے اِن گیتوں کو لازوال شہرت سے ہمکنار کردیا ۔ مالا، احمد رُشدی اور مسعود رانا نے بھی انتہائی خوبصورت گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ ’’چاند اور چاندنی‘‘ کے نغمات آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے۔٭جانِ تمنا خط ہے تمہارا پیار بھرا افسانہ ( احمد رُشدی)٭لائی گھٹا موتیوں کا خزانہ (مالا)٭اے جہاں اب ہے منزل کہاں (احمد رشدی)٭تیری یاد آ گئی، غم خوشی میں ڈھل گئے (مسعود رانا)پاکستان میں انہوں نے جن فلموں کیلئے جو عدیم النظر گیت لکھے ان میں ’’احساس، آئینہ اور نہیں ابھی نہیں‘‘ شامل ہیں۔ ان کے 90 فیصد نغمات کو روبن گھوش نے اپنی مسحور کن موسیقی سے مزین کیا۔ ذرا ’’احساس‘‘ کے گیت ملاحظہ کریں۔ ایسا سُرور ملتا ہے کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر رونا لیلیٰ کا گایا ہوا یہ نغمہ تو گویا سُرور بارہ بنکوی کو امر کرگیا۔’’ہمیں کھو کر بہت پچھتائو گے جب ہم نہیں ہونگے‘‘۔ اسی طرح 1977ء میں ریلیز ہونے والی یادگار فلم ’’آئینہ‘‘ میں بھی اُن کے لکھے ہوئے نغمات نے حشربپا کر دیا۔یوںتو ہر گیت ہی زبردست تھا لیکن مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گیت ’’کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں‘‘ بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ اِسی گانے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مہدی حسن کی فلمی گائیکی کا دوسرا جنم تھا۔ ہالی وڈ کی مشہور فلم ’’سمر آف 42‘‘سے متاثر ہو کر یہاں بھی ایک فلم بنائی گئی جس کا نام تھا ’’نہیں ابھی نہیں‘‘ ، ’’آئینہ‘‘ کے بعد ہدایتکار نذرالسلام کی یہ فلم بھی انتہائی اعلیٰ درجے کی تھی۔ اس کی موسیقی بھی روبن گھوش کی تھی۔ سُرور بنکوی کے گیت کو اِس بار اخلاق احمد نے بلندیوں پر پہنچایا۔ خاص طور پر اس گیت نے سُرور بارہ بنکوی، اخلاق احمد اور روبن گھوش کو شہرت اور عظمت کی ایک نئی منزل پر پہنچا دیا۔’’سماں وہ خواب سا سماں‘‘سُرور بارہ بنکوی ایک عمدہ غزل گو بھی تھے۔ ان کی ایک غزل کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں۔اُس نے دیکھا بہ چشمِ توبہ شکنمیری جانب بڑھا کے پیمانہمیرے ساغر پہ آج رندوں کیپڑ رہی ہے نظر حریصانہاس طرح ان کی ایک مشہور نظم ’’یوم مئی‘‘ کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:آج مئی کا پہلا دن ہے، آج کا دن مزدور کا دن ہےجبرو ستم کے مدمقابل حوصلہ ء جمہور کا دن ہےسُرور صاحب نے نعتیں بھی لکھیں۔ ان کی ایک نعت کا شعر مندرجہ ذیل ہے۔اللہ اللہ میری قسمت، ایسا رُتبہ اور میںجاگی آنکھوں سے دیکھوں خواب طیبہ اور میںسُرور بارہ بنکوی نے اپنی فلمی شاعری کا زیادہ تر عرصہ مشرقی پاکستان میں گزارا۔ اُس زمانے میں مشرقی پاکستان میں بنگالی فلموں کے علاوہ اردو فلمیں بھی اچھی خاصی تعداد میں بنائی جاتی تھیں۔ پھر یہ اردو فلمیں مغربی پاکستان میں بھی نمائش کیلئے پیش کی جاتی تھیں۔ 1971ء کے بعد وہ جب پاکستان منتقل ہوئے تو انہوںنے اپنا شعری سفر جاری رکھا۔ اپنی زندگی کے آخری دور میں وہ سقوطِ ڈھاکہ اور جنگی قیدیوں پر فلم بنانا چاہتے تھے۔ اس فلم کا سکرپٹ مکمل ہو چکا تھا جس کا نام انہوں نے رکھا تھا۔ ’’کیمپ نمبر333‘‘۔وہ اِس فلم کی شوٹنگ کے انتظامات کو آخری شکل دینے کیلئے ڈھاکہ گئے جہاں 3اپریل 1980ء کو انہیں دل کا دورہ پڑا اور فلمی گیتوں کوسُرور بخشنے والا یہ شاعر ہمیشہ کیلئے اِس دنیا سے رخصت ہوگیا۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
پلاسٹک زدہ پرندے

پلاسٹک زدہ پرندے

دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے اور اس کے سب سے ہولناک اثرات ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ان جانوروں پر جو ہماری پیدا کردہ آلودگی کا شکار ہوتے ہیں۔ حال ہی میںسامنے آنے والی چند تصاویر نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، جن میں ایسے پرندے دکھائے گئے ہیں جن کے جسم پلاسٹک سے اس قدر بھرے ہوئے ہیں کہ اُن کے اندر سے ''چرچرانے‘‘ اور ''کڑکنے‘‘ کی آوازیں آتی ہیں۔یہ وہ آواز نہیں جو عام طور پر پرندوں سے منسوب کی جاتی ہے۔ لیکن ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ''فلیش فُٹڈ شیئرواٹرز‘‘ (Flash Footed Sharewaters) کی ایک پوری کالونی ایسی ''کڑکنے‘‘ اور ''چرچرانے‘‘ کی آوازیں نکالتی ہے کیونکہ انہوں نے بہت زیادہ مقدار میں پلاسٹک نگل لیا ہے۔ آسٹریلیا کے مشرقی ساحل سے دور ایک چھوٹے آتش فشانی جزیرے، لارڈ ہاؤ پر تقریباً 44ہزار شیئر واٹرز جنہیں ''مٹن برڈز‘‘ بھی کہا جاتا ہے، موجود ہیں۔ جب یہ پرندے بچے دیتے ہیں تو اُن کے چوزے 90 دن تک اپنے بلوں میں رہتے ہیں، اور انہیں والدین کی طرف سے مچھلی اور اسکویڈ (سمندری جانور) پر مشتمل خوراک ملنی چاہیے۔ لیکن ماں باپ غلطی سے انہیں پلاسٹک پر مشتمل خوراک کھلا رہے ہیں۔ جن میں غباروں کے کلپ، لیگو (LEGO) کے ٹکڑے، قلم کے ڈھکن، بوتلوں کے ڈھکن اور کھلونا کار کے پہیے شامل ہیں۔سائنس دانوں نے ایک بار ایک 80 دن کے سمندری پرندے کے بچے کے پیٹ میں 778 پلاسٹک کے ٹکڑے دریافت کیے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اب ان کا کہنا ہے کہ ہر ایک پرندے کے معدے میں کم از کم 50 یا اس سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہیں۔ ڈاکٹر ایلکس بانڈ، جو نیچرل ہسٹری میوزیم میں پرندوں کے سینئر کیوریٹر ہیں، 2009ء سے جزیرے کے پرندوں کو درپیش خطرات کی دستاویزی تحقیق کر رہے ہیں۔پلاسٹک: خاموش قاتلپلاسٹک کی آلودگی ایک خاموش مگر تباہ کن عفریت ہے۔ ہر سال لاکھوں ٹن پلاسٹک سمندروں، جھیلوں، ندیوں اور دیگر قدرتی مقامات پر پھینکا جاتا ہے، جہاں یہ سینکڑوں سال تک گلتا سڑتا نہیں۔ یہی پلاسٹک پرندوں، مچھلیوں، کچھوؤں اور دیگر جانداروں کے جسم میں داخل ہو کر ان کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔پرندے خاص طور پر اس خطرے کا شکار ہیں۔ وہ چمکدار رنگوں یا خوراک سے مشابہ اشیاء کو کھانے کی کوشش کرتے ہیں، جو اکثر پلاسٹک ہوتی ہیں۔ پلاسٹک ان کے معدے میں جمع ہو جاتی ہے، جس سے ان کی خوراک ہضم کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، اور وہ غذائی ضرورت پورا نہ ہونے سے مر جاتے ہیں۔دل دہلا دینے والی تصاویرحال ہی میں آسٹریلیا اور دیگر ساحلی علاقوں سے سامنے آنے والی تصاویر میں مردہ پرندوں کے جسموں کو کاٹ کر دیکھا گیا، تو ان کے معدوں میں پلاسٹک کی بوتلوں کے ڈھکن، پیکنگ میٹریل، لائٹرز اور دیگر چھوٹی اشیاء کی بھاری مقدار پائی گئی۔ ماہرین کے مطابق کچھ پرندوں کے جسم اتنے پلاسٹک سے بھرے ہوتے ہیں کہ انہیں ہلانے سے ''چرچراہٹ‘‘ کی آواز آتی ہے۔یہ ایک ایسا منظر جو ہر حساس دل کو لرزا دیتا ہے۔ماہرین زندہ پرندوں کے معدے کو صاف کرنے کیلئے ان کے جسم میں نرمی سے سمندری پانی پمپ کرتے ہیں، جس سے وہ قے کرتے ہیں اور وہ مواد ایک بالٹی میں جمع ہو جاتا ہے۔جو کچھ بھی انہوں نے نگل رکھا ہوتا ہے، جیسے پلاسٹک ، وہ سب قے کے ساتھ واپس آ جاتا ہے۔ ڈاکٹر بانڈ کے مطابق یہ وہ چوزے ہیں جنہیں ان کے والدین نے غلطی سے یہ سارا پلاسٹک کھلا دیا۔یہ چوزے ابھی گھونسلے سے اڑنے کے قابل بھی نہیں ہوئے، لیکن اس وقت تک ان کے جسموں میں کوڑا کرکٹ کا یہ ڈھیر جمع ہو چکا ہوتا ہے۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بعد میں خود سے آسٹریلیا سے جاپان تک کا سفر کریں گے۔مگر اتنی مقدار میں پلاسٹک اُن کے جسموں میں ہو تو ان میں سے کئی کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ بعض اوقات جب وہ ان پرندوں کو ہاتھ میں لیتے ہیں، تو ''چرچرانے‘‘ کی آواز سنائی دیتی ہے اور وہ یہ آواز محسوس بھی کر سکتے ہیں۔ماضی میں پرندوں پر کی گئی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ جن پرندوں کے معدے میں سب سے زیادہ پلاسٹک پایا گیا، اُن کے جسمانی ٹشوز میں زہریلے مادوں کی مقدار بھی سب سے زیادہ تھی۔انسانیت کیلئے لمحہ فکریہیہ مناظر صرف جنگلی حیات کی تباہی کی کہانی نہیں سناتے، بلکہ یہ انسانوں کیلئے بھی ایک انتباہ ہیں۔ یہی پلاسٹک بالآخر ہماری خوراک، پانی اور فضا میں شامل ہو کر ہمارے جسموں میں داخل ہو رہا ہے۔ مائیکرو پلاسٹک آج ہمارے جسموں، یہاں تک کہ نوزائیدہ بچوں کے خون میں بھی پایا جا رہا ہے۔ہمیں کیا کرنا چاہیے؟مسئلہ بڑا ہے، مگر حل ناممکن نہیں۔ ہمیں درج ذیل اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔پلاسٹک کا استعمال کم کریں: خاص طور پر سنگل یوز پلاسٹک جیسے تھیلیاں، بوتلیں اور پیکنگ میٹریل سے گریز کیا جائے۔ری سائیکلنگ کو فروغ دیں: پلاسٹک کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا سیکھیں اور دوسروں کو بھی سکھائیں۔آگاہی پیدا کریں: اسکولوں، کالجوں اور میڈیا کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کیا جائے۔حکومتی سطح پر اقدامات: حکومت کو سخت قوانین اور جرمانوں کے ذریعے پلاسٹک کے استعمال کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زمین صرف انسانوں کی نہیں بلکہ لاکھوں انواع کی مشترکہ رہائش گاہ ہے۔ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو یہ زمین ہمارے لیے بھی ناقابلِ رہائش بن سکتی ہے۔ آج جو پرندے پلاسٹک سے مر رہے ہیں، کل کو یہی انجام انسانوں کا بھی ہو سکتا ہے۔

رانی ایک ناقابل فراموش اداکارہ!

رانی ایک ناقابل فراموش اداکارہ!

پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ کچھ ایسے ناموں سے جگمگا رہی ہے جنہوں نے اپنے فن، خوبصورتی اور جذباتی اداکاری سے لاکھوں دلوں پر راج کیا۔ ان ہی میں سے ایک درخشندہ نام رانی کا ہے۔اپنی دلکش مسکراہٹ، اداکاری، جذباتی مکالموں اور منفرد رقص کی بدولت رانی نے کئی دہائیوں تک فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا۔رانی کا اصل نام ناصرہ تھا۔ وہ 8 دسمبر 1946 ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام ملک محمد شفیع تھا جو ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور معروف گلوکارہ مختار بیگم کے ڈرائیور تھے۔ رانی کی فنی تربیت کا آغاز بھی اسی توسط سے ہوا جب مختار بیگم نے ان کی صلاحیتوں کو پہچانا اور انہیں رقص و موسیقی میں باقاعدہ تربیت دینا شروع کی۔ یہی بنیاد بعد میں ان کے فلمی کریئر کا سنگِ میل بنی۔رانی نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز 1962 ء میں ہدایتکار انور کمال پاشا کی فلم ''محبوب‘‘سے کیا۔ ابتدائی چند فلمیں ناکامی سے دوچار ہوئیں جس کی وجہ سے انہیں ''منحوس اداکارہ‘‘کا داغ بھی سہنا پڑا، لیکن رانی نے ہمت نہ ہاری اور اپنی لگن اور فن کی بدولت بالآخر 1967 ء میں فلم ''دیور بھابھی‘‘سے کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں۔ 1970ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''انجمن‘‘نے انہیں سپر اسٹار کے درجے پر فائز کر دیا۔رانی نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں کام کیا۔ ان کے کریڈٹ پر 168 فلمیں ہیں، جن میں سے 103 اردو اور 65 پنجابی فلمیں تھیں۔ ان کی مشہور فلموں میں ''انجمن، دیور بھابھی، شمع اور پروانہ، امرائو جان ادا، دیدار، ایک گناہ اور سہی، بہارو پھول برسائو‘‘ شامل ہیں۔رانی کا اندازِ گفتگو، جسمانی تاثر اور رقص کا انداز انہیں دیگر اداکاراں سے ممتاز کرتا تھا۔ ان کی اداکاری میں نسوانیت، درد، جذبہ اور رومان کا حسین امتزاج دکھائی دیتا تھا۔پنجابی فلموں کی بات کریں تو رانی کے فلمی کریئر کی دوسری فلم ہدایتکار اسلم ایرانی کی ایک پنجابی فلم ''موج میلہ‘‘ تھی جو 1963ء میں ریلیز ہوئی، جس میں وہ نیلو کے مقابل ثانوی کردار میں تھیں۔ ڈیڑھ درجن فلموں کے بعد اس کی دوسری فلم ''گونگا‘‘ 1966ء میں ریلیز ہوئی تھی۔رانی کو پنجابی فلموں میں فلم ''چن مکھناں‘‘ 1968ء سے بریک تھرو ملا تھا اور بھٹی بردران کی فلموں کا ایک لازمی حصہ بن گئی تھیں۔ اس کی دیگر مقبول پنجابی فلموں میں ''سجن پیارا، جند جان، مکھڑا چن ورگا، گبھرو پت پنجاب دے، کوچوان، چن سجناں، دنیا مطلب دی، ٹیکسی ڈرائیور، بابل، اچا ناں پیار دا، جی او جٹا، غیرت تے قانون اور سونا چاندی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ پنجابی فلموں میں رانی ، اپنی معصوم ، سادہ اور حقیت سے قریب تر اداکاری کی وجہ سے جانی جاتی تھیں اور نغمہ اور فردوس کے بعد تیسری مقبول ترین ہیروئن ہوتی تھیں۔رانی ، پاکستانی فلموں کی واحد اداکارہ تھیں جن کی جوڑیاں اپنے عہد کے سبھی چھوٹے بڑے اردو اور پنجابی فلموں کے فنکاروں کے ساتھ بنی تھیں۔ اردو فلموں کے بڑے ہیروز میں سے سنتوش، درپن، کمال، محمدعلی، وحیدمراد، ندیم، شاہد اور غلام محی الدین ہوں یا پنجابی فلموں کے بڑے ہیروز، سدھیر، اکمل، اعجاز، حبیب، عنایت حسین بھٹی، کیفی، یوسف خان، سلطان راہی اور اقبال حسن، رانی سب کی ہیروئن بنیں جو ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ اور تو اور رتن کمار، ہارون، علاؤالدین، اسد بخاری، مظہرشاہ، نصراللہ بٹ، بدرمنیر، ننھا اور علی اعجاز کے علاوہ غیر معروف اداکاروں زاہدخان، عادل، شہباز وغیرہ کی ہیروئن بھی رانی ہی تھیں۔رانی کی فلمی جوڑیوں میں اردو فلموں میں کمال، وحیدمراد اور شاہد کے ساتھ زیادہ پسند کی گئی تھی جبکہ پنجابی فلموں میں عنایت حسین بھٹی، یوسف خان اور علی اعجاز کے ساتھ کامیابی ملی تھی۔ رانی نے زیادہ تر اپنے خاوند حسن طارق کی فلموں میں کام کیا تھا۔1980 ء کی دہائی میں جب فلمی صنعت زوال کا شکار ہونے لگی تو رانی نے ٹیلی ویژن کی طرف رجوع کیا۔ پی ٹی وی پر ان کے مقبول ڈراموں میں ''خواہش‘‘اور ''فریب‘‘شامل ہیں، جن میں ان کی اداکاری کو ناظرین نے بے حد سراہا۔رانی کی ذاتی زندگی اتنی مستحکم نہ رہی جتنی ان کی فلمی کامیابیاں تھیں۔ ان کی پہلی شادی ہدایتکار حسن طارق سے ہوئی،اس شادی سے ان کا ایک بیٹا علی رضا پیدا ہوا۔ حسن طارق کی شخصیت جاذب اور تخلیقی تھی لیکن ان کے درمیان اختلافات بڑھتے گئے اور بالآخر یہ شادی طلاق پر ختم ہوئی۔رانی نے پاکستانی کرکٹر سرفراز نواز سے بھی شادی کی ۔ یہ رشتہ نہ صرف میڈیا میں موضوعِ بحث بنا بلکہ بہت متنازع بھی رہا۔ سرفراز نواز اور رانی کے تعلقات میں ابتدا میں بہت گرم جوشی تھی، مگر جلد ہی ان کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی۔ یہ شادی بھی طلاق پر منتج ہوئی۔رانی کا واحد بیٹا علی رضا ان کے ساتھ رہتا تھا اور وہی ان کی آخری زندگی کا سہارا تھا۔ شادیوں کی ناکامی، کینسر کی بیماری اور فلمی دنیا سے دوری نے انہیں تنہا کر دیا، مگر انہوں نے کبھی شکوہ نہ کیا۔رانی کو بریسٹ کینسر کا مرض لاحق ہوا۔ انہوں نے طویل عرصہ علاج کروایا مگر بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ 27 مئی1993 ء کو کراچی میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی عمر اس وقت صرف46 سال تھی۔ انہیں لاہور کے مسلم ٹائون کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ رانی کی زندگی کے نشیب و فراز، فلمی سفر، کامیابیاں اور ناکامیاں سب کچھ ایک فلمی کہانی کی طرح ہیں۔ ان کی اداکاری، انداز، گفتگو اور فنی خدمات کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

جنگ عظیم دوم ، بیلجیئم نے جرمنی کے سامنے ہتھیار ڈالے27 مئی 1940 کو جنگ عظیم دوم کے دوران بیلجیم نے نازی جرمنی کے سامنے رسمی طور پر ہتھیار ڈال دیے۔ یہ فیصلہ بیلجئین بادشاہ لیوپولڈ سوم نے کیا، جنہوں نے جرمن افواج کی پیش قدمی اور بیلجئین فوج کی پوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے بغیر اتحادیوں کو اعتماد میں لیے ہتھیار ڈال دیے۔بیلجیم پر 10 مئی 1940ء کو جرمنی نے حملہ کیا تھا ۔اسی دن نیدرلینڈ اور لکسمبرگ پر بھی حملہ ہوا۔18 دن کی شدید لڑائی کے بعد بیلجیم کی فوج نے زیادہ مزاحمت نہ کر پاتے ہوئے 27 مئی کو سرنڈر کر دیا۔بنگلہ دیش میں طوفان27مئی1963ء کو بنگلہ دیش (اس وقت کے مشرقی پاکستان) میں شدید طوفان آیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے خوفناک صورت اختیار کر لی۔ اس طوفان نے بہت بڑے علاقے میں تباہی مچائی جس کے نتیجے میں22ہزار افراد ہلاک جبکہ10لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے۔ اسے اس خطے میں آنے والے بدترین آفتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ لاکھوں افراد کے بے گھرہونے کی وجہ سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ بھی بڑھ گیا جس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ یوگیا کارتا زلزلہ27مئی 2006ء کو یوگیا کارتا زلزلہ جسے بنٹول زلزلہ بھی کہا جاتا ہے 6.4 شدت کا خوفناک زلزلہ تھا۔اس زلزلے میں 5ہزار 700 افراد ہلاک جبکہ لاکھوں افراد زخمی اور بے گھر ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق زلزلے کے دوران تقریباً3.1ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ عوامی انفراسٹرکچرکے ساتھ، ہاؤسنگ اور نجی کاروبار کو زیادہ نقصان پہنچا ۔ریاستہائے متحدہ کے نیشنل جیو فزیکل ڈیٹا سینٹر نے اس واقعے سے ہونے والے کل نقصان کو انتہائی درجہ کا قرار دیا۔اس زلزلے کو انڈونیشیا کی تاریخ کے بدترین زلزلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔لی پراڈس کا قتل عاملی پراڈس کا قتل عام دوسری عالمی جنگ کا ایک سنگین جنگی جرم تھا جس کا ارتکاب14ویں کمپنی کیSSڈویژن کے ارکان نے کیا تھا۔ یہ 27 مئی 1940ء کو فرانس کی جنگ کے دوران ایک ایسے وقت میں ہوا جب برطانوی مہم جوئی فورس (BEF) کے دستے ڈنکرک کی لڑائی کے دوران پاس ڈی کیلیس کے علاقے سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔دوسری بٹالین، رائل نورفولک رجمنٹ کے سپاہی اپنی یونٹ سے الگ ہو چکے تھے۔ انہوں نے لی پراڈس گاؤں میں ایس ایس فورسز کے حملے کے خلاف ایک فارم ہاؤس پر قبضہ کرلیا تاکہ اپنا دفاع کر سکیں۔ گولہ بارود ختم ہونے کے بعد، محافظوں نے جرمن فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ جرمن انہیں سڑک کے پار ایک دیوار تک لے گئے جہاں انہیں مشین گنوں سے قتل کر دیا گیا۔

یادرفتگاں: طلعت حسین

یادرفتگاں: طلعت حسین

اداکاری و صدا کاری طلعت حسین کی پہچان تھی اور وہ ریڈیو، فلم، ٹی وی اور سٹیج کے بلاشبہ ایک منجھے ہوئے اداکار تھے۔ وہ اپنی اداکاری کی بدولت پوری دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ ان کی شہرت کے ڈنکے نہ صرف پاکستان میں بلکہ انگلینڈ، امریکہ اور ناروے میں بھی بجتے تھے۔ درجنوں بین الاقومی پراجیکٹس میں کام کیا اور انہیں کئی بین الاقوامی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ طلعت حسین 18ستمبر 1940ء کو بھارتی شہر دہلی کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کا پورا نام طلعت حسین وارثی تھا۔ ان کی والدہ شائستہ بیگم ریڈیو پاکستان کی مقبول انائونسر تھیں جبکہ ان کے والد الطاف حسین وارثی انڈین سول سروس میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ان کی فیملی 1947ء میں ہجرت کر کے کراچی پہنچی۔ پاکستان آنے کے بعد والد کی بیماری کے باعث ان کی فیملی کے مالی حالات بہت خراب ہو گئے، ان کی والدہ نے ریڈیو پر ملازمت اختیار کر لی۔ طلعت حسین نے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کیا۔ گھر کے نامساعد حالات کی وجہ سے ان کی ماسٹر کرنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ وہ تین بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ طلعت حسین کو مطالعہ سے بہت شغف تھا، بقول ان کے وہ بچپن میں سوچا کرتے تھے کہ بڑے ہو کر پروفیسر بنیں گے مگر معاشی وجوہات کی بنا پر ایسا ہو نہیں سکا مگر ان کا مطالعہ کا شوق ضعیف العمری تک برقرار رہا۔ طلعت حسین نے اپنے فن کے سفر کا آغاز ریڈیو سے کیا، جب پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو وہ ٹیلی ویژن کی جانب آ گئے۔ ان کا پہلا ڈرامہ '' ارجمند‘‘ تھاجو 1967ء میںآن ایئر ہوا۔ ٹیلی ویژن پر وہ اداکاری کے علاوہ بحیثیت نیوز کاسٹر اور انائونسر بھی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 1972ء میں وہ انگلینڈ چلے گئے اور ''لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ‘‘سے وابستگی اختیار کر لی۔ ان کا پہلا برطانوی کھیل جمی پیرے اور ڈیوڈ کرافٹ کا تھا۔ جس میں انہوں نے ایک کلب مالک کا کردار ادا کیا۔ وہ بی بی سی ریڈیو کے ڈرامہ ''کرائون کوٹ‘‘ میں بھی کام کرچکے ہیں۔ طلعت حسین متعدد غیر ملکی فلموں، ٹی وی ڈراموں، لانگ پلیز میں کام کر چکے ہیں۔ انہوں نے2006ء میں ''چینل 4 ٹیلی ویژن‘‘ کی سیریل ''ٹریفک‘‘ کی چند اقساط میں بھی کام کیا۔ ناروے کی فلم ''امپورٹ ایکسپورٹ‘‘میں کام کیا جس پر انہیں بہترین معاون اداکار کے ''ایمنڈا ایوارڈز‘‘ سے نوازا گیا۔ اس فلم میں انہوں نے اللہ دتہ نامی شخص کا ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ بھارتی ہدایتکار ساون کمار کی فلم ''سوتن کی بیٹی‘‘ میں بحیثیت وکیل، طلعت حسین کی پرفارمنس اپنے عروج پر دکھائی دی۔ اس فلم میں انہوں نے بھارتی اداکارہ ریکھا اور جیتندر کے سامنے جم کر اداکاری کی۔انہوں نے 15 سے 20پاکستانی فلموں میں بھی لاجواب اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ 1970ء میں وہ فلم'' انسان اور آدمی‘‘ میں اداکار محمد علی اور زیبا کے بیٹے کے کردار میں پسند کئے گئے۔ فلم ''گمنام‘‘ میں ڈاکٹر کا کردار کو خوبصورتی سے ادا کرنے پر بیسٹ ایکٹر کا نگار ایوارڈ ملا۔ وہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ‘‘ (NAPA) میں فن اداکاری کے حوالے سے نئی نسل کی راہنمائی بھی کرتے رہے۔ طلعت حسین ایک ڈرامہ نگار بھی تھے اور انہوں نے متعدد ڈرامے لکھے۔1998ء میں انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ پر بننے والی فلم ''جناح‘‘ میں ایک مہاجر کا کردار ادا کیا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ ہالی وڈ کے اداکار سر کرسٹوفر لی، بھارتی اداکار ششی کپور بھی تھے۔فلم ''لاج‘‘ میں ایک قبائلی سردار کا کردار ادا کیا، اس فلم کی شوٹنگ کے دوران قبائلیوں نے حملہ کر دیا ان کی بے دریغ فائرنگ سے پوری ٹیم بال بال بچی۔ اس کی فلم بندی جاری تھی کہ طلعت حسین جنگ کا منظر فلم بند کراتے ہوئے پہاڑی سے گر گئے اور ان کی ٹانگ تین جگہ سے ٹوٹ گئی۔ طلعت حسین نے 1972ء میں کراچی یونیورسٹی کی پروفیسر رخشندہ سے شادی کی ، ان کے تین بچے (2بیٹے اور بیٹی ) ہیں۔ پھیپھڑوں کے مرض کے باعث گزشتہ برس ان کا 84برس کی عمر میںانتقال ہوا تھا۔اعزازات٭...حکومت نے 1982ء میں ''پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ اور 2021ء میں ''ستارہ امتیاز‘‘ سے نوازا ۔ ٭...2006ء میں ناروے میں انہوں نے بہترین معاون اداکار کا ''ایمنڈا ایوارڈ‘‘ وصول پایا، اس ایوارڈ کو ناروے میں آسکر کا درجہ حاصل ہے اور یہ ایوارڈ ہر سال ''نارویجن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول‘‘ کے موقع پر دیا جاتا ہے۔٭...1986 میں فلم ''مس بینکاک‘‘ میں بہترین معاون اداکار کا ''نگار ایوارڈ‘‘ ملا۔مشہور ڈرامےآنسو،ارجمند، دیس پردیس، ہوائیں، انسان اور آدمی،عید کا جوڑا،کشکول، تھوڑی خوشی تھوڑا غم، گھوڑا گھاس کھاتا ہے، پرچھائیاں، طارق بن زیاد، ٹائپسٹ، ٹریفک(چینل 4انگلینڈ)مشہور فلمیں٭چراغ جلتا رہا، ٭ گمنام، ٭قربانی٭...انسان اور آدمی ٭...لاج٭...جناح (بین الاقوامی فلم)،٭... سوتن کی بیٹی(بھارتی)،٭... امپورٹ ایکسپورٹ(نارویجن) 

دنیا کی خوبصورت مساجد

دنیا کی خوبصورت مساجد

جامع مسجد ڈاکار سینی گال (افریقہ)یہ مسجد سینی گال کے دارالحکومت ڈاکار میں واقع ہونے کی وجہ سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا ڈیزائن فرانسیسی اور مراکشی ماہرین تعمیرات نے باہم مل کر تیار کیا تھا اور اس کے اخراجات حکومت مراکش نے برداشت کئے۔ اس مسجد کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ 1964ء میں اس کا افتتاح دو ملکوں کے حکمرانوں مراکش کے شاہ حسن ثانی اور سینی گال کے مسیحی صدر لیوپولڈ سیڈر سنگھور نے باہم مل کر کیا۔ یہ سینی گال کیلئے ایک اعزاز کی بات ہے۔ یہ مسجد اندرونی اور بیرونی طرف انتہائی منقش کام کی وجہ سے بہت خوبصورت لگتی ہے، اس کے واحد مینار کی بلندی 220فٹ ہے۔کہا جاتا ہے کہ سینی گال کی پہلی مسجد شہری سلوی میں بنی تھی مگر اس کا سن تعمیر معلوم نہیں۔ اس وقت ڈاکار میں 1000سے زیادہ مسجدیں ہیں جبکہ پورے ملک میں مساجد کی تعداد 50ہزار سے زائد ہے۔مرکزی جامع مسجد، ابوجا( نائیجیریا)اس مسجد کو ملک کی قومی مسجد کا درجہ حاصل ہے۔ یہ مسجد نائیجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں 1984ء میں بنائی گئی۔اس کے چاروں کونوں پر چار مینار اور ان پر چار ہی چھوٹے گنبد ہیں جبکہ ایک مرکزی گنبد ہے جس کا قطر118فٹ اور بلندی 197فٹ ہے۔ ہر مینار کی بلندی 308فٹ ہے۔ مسجد کے مرکزی ہال میں 5ہزارنمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ہال کے اوپر تینوں اطراف میں گیلریاں بنی ہوئی ہیں جن میں 1500خواتین نماز پڑھ سکتی ہیں۔ اس مسجد کے ساتھ ایک لائبریری اور ایک کانفرنس روم بھی بنایا گیا ہے جس میں 1500اشخاص کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ مسجد کے چیف امام، ڈپٹی امام اور موذن کی رہائش گاہیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ابوجا کی تاریخ اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب نائیجیریا کی حکومت نے 1980ء میں لاگوس سے دارالحکومت ابو جا منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابو جا کے آزادی چوک میں دارالحکومت کے شایان شان ایک خوبصورت مرکزی مسجد تعمیر کرنے کا سوچا گیا۔ ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے فیصلہ کیا کہ اس مسجد کا ڈیزائن ایسا ہو جو شہر کے ہر حصے سے برابر نظر آئے۔ چنانچہ AIM کنسلٹنٹس کمپنی نے جو دیدہ زیب ڈیزائن بنایا واقعی وہ ایسا ہی تھا۔ اس مسجد کا رقبہ55382مربع فٹ ہے اور یہ نہ صرف ابوجا بلکہ پورے نائیجیریا کی انتہائی خوبصورت مسجد ہے۔ 

سو میری دنیا کی اولین تہذیب

سو میری دنیا کی اولین تہذیب

قدیم تہذیبوں بارے مورخین ایک عرصہ تک اس بحث میں الجھے رہے کہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب کونسی تھی۔ جب یہ طے ہو گیا کہ مصر اور میسوپوٹیمیا دو قدیم ترین تہذیبیں ہیں تو ایک نئی بحث نے جنم لیا کہ زیادہ قدیم یا قدیم ترین تہذیب ان دونوں میں سے کونسی تہذیب ہے ؟۔ تاہم بیشتر مورخین اور محققین کم از کم اب اس نقطے پر متفق ہیں کہ میسو پیٹیمیا کی سومیری تہذیب لگ بھگ 6000 مسیح اور 5500 قبل مسیح کے درمیان پروان چڑھی تھی، جبکہ قدیم مصری تہذیب کا آغاز 3100سے 4000 قبل مسیح کے دوران ہوا تھا ۔ ممفس، تھیبس اور ہیلی اوپولس مصر کے قدیم ترین شہر جبکہ عراق کے قدیم ترین شہر بابل اور نینوا ، کریٹ میں کنوسوس اسی دور کے شہروں میں اپنے زمانے کے ثقافتی اور تاریخی شہر ہوا کرتے تھے۔سومیری یا سمیری تہذیب میسوپیٹیمیا (موجودہ عراق ) کی قدیم ترین تہذیب کا نام ہے۔یہ نام انہیں ان کی زبان کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔ اسی لئے انہیں تاریخ میں ''سومیرئین‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سومیری زبان بنیادی طور پر جنوبی میسوپیٹیمیا کے رہنے والے غیر سامی النسل کے قبائل، ممکنہ طور پر اپنے ''اکدی‘‘قبائل سے لے کر آئے تھے۔اب کم از کم یہ تو ثابت ہو گیا ہے کہ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کی پہلی تحریر ''کیونی فارم رسم الخط‘‘ ایجاد کی۔اس تحریر کو وہ قوانین لکھنے ، شاہی فرمان اور حکم نامے جاری کرنے اور سلطنت کا حساب کتاب رکھنے میں استعمال کیا کرتے تھے۔ ویسے کیا باکمال لوگ تھے یہ ، مٹی کی تختیوں پر تحریریں کندہ کرتے اور پھر انہیں پکاتے تاکہ یہ تحریر لمبے عرصے تک محفوظ رہے۔ یہ تہذیب دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان واقع تھی۔بیشتر مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ سومیری ، مغربی ایشیاء کی باقاعدہ اوّلین تہذیب اور تعلیم یافتہ تہذیب تھی۔یہ لوگ سمیری زبان بولتے تھے ۔ مورخین کو اس بات کے ثبوت ان کی تحریروں ، دریاوں کے نام اور باقیات سے ملے ہیں۔ ایک تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سومیری زبان بنیادی طور پر دریائے فرات کے گرد ونواح بولی جانے والی فراتی زبان ہی کی ایک شکل ہے اور یہ لوگ صدیوں سے یہیں دریائے فرات کے آس پاس ہی آباد تھے ، باہر سے نقل مکانی کر کے نہیں آئے تھے ۔ان کا گزر بسر شکار پر تھا جو گرد ونواح کے جنگلوں سے شکار کیا کرتے تھے۔ ان کا مسکن عرب کے دلدلی علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ کچھ مورخین یہ کہتے ہیں کہ سومیری لوگ بنیادی طور پر شمالی افریقہ سے نقل مکانی کر کے دریائے فرات کے کنارے آکر آباد ہو گئے تھے۔ انہوں نے اس علاقے کو اپنے لئے موزوں پایا اور یہیں سے انہوں نے پہلی مرتبہ کاشتکاری کو باقاعدہ رواج دیا۔ اوّلین کاشتکاری کی بنیاد رکھنے والے یہی سومیری لوگ ہی تھے جنہوں نے کاشتکاری کو نہ صرف بطور پیشہ متعارف کرایا بلکہ کاشتکاری کو دنیا بھر میں پھیلایا۔ معروف مورخ لازاریدیس اپنی تحریروں میں لکھتا ہے کہ شمالی افریقہ میں غیر سامی النسل کی بنیاد رکھنے والے یہی لوگ تھے جو اس تہذیب کو وسطی ایشیاء تک لے کر آئے تھے۔ جہاں جہاں سومیریوں نے قدم جمائے۔ بعد کی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ وہاں کے کھنڈرات سے ملنے والے مٹی کے برتن اور مورتیاں بنانے کا انداز ایک جیسا ملتا ہے۔ ان برتنوں سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ سومیری ہی اوّلین لوگ تھے جنہوں نے فن ظروف سازی کی بنیاد رکھی۔ یہاں سے ملنے والے چار ڈھانچوں کے جب ڈی این اے ٹیسٹ لئے گئے تو اس تشخیص سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہاں کے لوگ ایک زمانے تک سندھ تک پھیل چکے تھے۔ چنانچہ ماہرین آثار قدیمہ کے ان اندازوں کو اس تشخیص سے تقویت ملی کہ بنیادی طور پر سندھ تہذیب کے لوگ بھی سومیری قبائل ہی کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے ہوںگے۔ بعد کی تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ سومیری قبائل کا تعلق حوریہ قبائل اور یوریٹیائی قبائل سے بھی تھا جن کا مسکن قفقاز سے تھا۔قبل از تاریخ جو قبائل سومیری علاقہ جات میں بس رہے تھے ان کو شروع میں فراتی یا عبیدی کا لقب دیا ہوا تھا۔ مورخین کہتے ہیں بنیادی طور پر میسوپیٹیمیا کی پہلی تہذیب ''سمیری تہذیب‘‘ کی بنیاد رکھنے والے یہی قبائل تھے جنہوں نے اس تہذیب کو آگے تک بڑھایا۔ دراصل یہی فراتی یا عبیدی قبائل ہی سومیری تہذیب کے بانی اور اس کی اصل طاقت تھے۔ انہوں نے دلدلی علاقوں کو زرخیز زمین میں بدلنا لوگوں کو سکھایا۔یہ اعلیٰ درجے کے کاشتکار تھے، اون سے پارچہ جات بنانے کا فن، چمڑے سے ضروریات زندگی کی اشیاء بنانے ، ظروف سازی کو متعارف کرانے اور دھاتی اشیاء بنانے کو رواج دینے والے بھی یہی لوگ تھے۔شواہد سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان لوگوں کی زبان اعلیٰ ترقی یافتہ تھی اور یہ لوگ باقاعدہ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے۔ چونکہ ان کی اپنی زبان سومری تھی اس لئے ان کی لکھی ہوئی تختیاں قدیم مصر سے ملنے والی تحریروں سے بھی پرانی ہیں۔ماہرین نے سومیرئن (سومیری لوگ ) کو دنیا کی سب سے پہلی پڑھی لکھی قوم مانا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کو رسم الخط ایجاد کرنے والی دنیا کی پہلی قوم کا اعزاز بھی جاتا ہے۔ ان کو یہ اعزاز بھی جاتا ہے کہ سومیرئن وہ پہلی قوم تھی جنہوں نے تحریر کو دائیں سے بائیں لکھنے کو رواج دیا۔ اس کے علاوہ آثار قدیمہ کے ماہرین کو پتھروں پر جو قدیم ترین کندہ کاریاں ملی ہیں ان کا تعلق 3600 قبل مسیح سے بتایا جاتا ہے۔ سومیرئن کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک دوراندیش قوم تھی جنہوں نے بہت شاندار شہر بھی بنائے جن میں ار ، ارک ، اریدو قابل ذکر ہیں۔ان شہروں میں انہوں اونچی اونچی پر شکوہ عمارات بنائیں جو بنیادی طور پر ان کی عبادت گاہیں ہوا کرتی تھیں۔ ان کے شہر اپنے دور کے انتہائی ترقی یافتہ شہر ہوا کرتے تھے جن میں درس گاہیں ، بازار اور عبادت گاہوں کو فوقیت دی جاتی تھی۔مورخین کہتے ہیں سومیرئن بہت ذہین اور سمجھدار لوگ تھے ، زراعت کو فروغ دینے کیلئے انہوں نے نہریں کھودیں اور کھیتوں تک پانی پہنچانے کا مربوط نظام بنایا۔ یہ ریاضی اور فلکیات میں حیرت انگیز طور پر مہارت رکھتے تھے۔ پہیہ کی ایجاد کا سہرا بھی سومیرئین کے سر جاتا ہے جسے انہوں نے 3500قبل مسیح میں ایجاد کیا تھا۔ 2000 قبل مسیح کے آس پاس یہ تہذیب اکادی سلطنت میں شامل ہو گئی ،تاہم سومیری تہذیب کی ایجادات اور علم کی روشنی آنے والے ادوار تک زندہ رہیں ۔ بعض ماہرین ان کی تہذیب کو کانسی دور کی تہذیب سے ملاتے ہیں۔اگرچہ بعض لوگ اس تہذیب کا تسلسل قدیم مصر کی تہذیب عیلام تہذیب، کارل سوپے کی تہذیب، قدیم سندھی تہذیب، میونسٹر اور قدیم چینی تہذیب کے عہد سے جوڑتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تہذیب ان سب سے قدیم ہے اور باقی ساری تہذیبیں سومیری تہذیب کی''توسیع ‘‘ ہو سکتی ہیں۔