’’ننھا مصور‘‘
ایڈون کوجانوروں سے بہت پیار تھا۔ جب وہ ابھی ننھا بچہ تھا۔ وہ اپنے ننھے ہاتھ پھیلا کرراستے میں گزرنے والے گھوڑوں کو تھپتپھاتا تھا اور اپنے والد کے پالتو کتے کی نرم کھال بھی سہلا لیا کرتا تھا۔ اس کا باپ مصور تھا اور اس کے بڑے بھائیوں کا رجحان بھی فنکار بننے کی طرف ہی تھا۔ اسی لئے جب ابھی وہ بچہ ہی تھا، اس کے بڑے بھائی اسے پنسل کاغذ تھمادیتے اور پھر بڑے شوق سے اس کے بنائے ہوئے ٹیڑھے میڑھے خاکوں کا موازنہ اس کے ہم عمر بچوں کے خاکوں سے کرتے۔ اس کی باپ کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ وہ بڑا ہو کرایک اچھا فنکاربنے۔ لہٰذا ایڈون جب تھوڑا سا بڑا ہوا، تو وہ جانوروں کی بہت اچھی تصویریں بنانے لگا۔ اسے جانوروں سے بہت پیار تھا اور جانور بھی اس سے محبت کرتے تھے۔یہ پرانے وقتوں کی بات ہے تب لندن میں کھیت کھلیانوں والا مضافاتی علاقہ زیادہ تھا۔ ایڈون ہمیشہ کھیتوں کے اردگرد بنائی ہوئی باڑوں پر چڑھ کر پالتو جانوروں کو دیکھتا رہتا یا وہ چڑیا گھر چلا جاتا ،جو اُس وقت لندن کے مشہور گھڑیال کے نزدیک تھا۔ جب وہ پانچ سال کا ہوا، تو اس کے والد اسے ایک دن لندن کے مضافاتی علاقے میں لے گئے ۔ وہ ایک کھیت سے گزرے ،جہاں ایک گائے بیٹھی جگالی کر رہی تھی۔ ایڈون کے والد نے اس کو کہا کہ گائے کی تصویر بنائے۔ ایڈون نے گائے کی تصویر بنائی۔ اس نے نہایت احتیاط سے گائے کے جسم کے حصوں کو اجاگر کیا۔ حتیٰ کہ گائے کے کانوں کے اندر اُگے ہوئے سیاہ بال بھی تصویر میں نمایاں تھ۔ اس نے گائے کی کھال پر بنے ہر دھبے کا خیال کیا اور جیسے وہ گھاس پر اپنی ٹانگوں کو سکیڑے لیٹی ہوئی تھی ۔اس کی صحیح منظر کشی کرنے کی کوشش کی۔ پھر جیسے ہی اس نے تصویر مکمل کی۔ اس نے تصویر والا کاغذ اپنے والد کے حوالے کردیا۔ اس کے والد نے تصویر کو بہت پسند کیا۔ البتہ اس نے وہیں ایڈون کے ساتھ بیٹھ کر گائے کی ٹانگوں کی پوزیشن تصویر میں درست کی۔ پھر دونوں باپ بیٹے چائے پینے گھر واپس لوٹے۔ اس رات ایڈون کے والد نے وہ تصویر اپنی لائبریری میں محفوظ کرلی کیونکہ وہ ایڈون کے بنائے ہوئے سکیچ سے بہت خوش تھا۔ یہ تصویر بڑے بڑوں کی بنائی تصویروں سے بہتر تھی۔ پانچ سال کے بچے کیلئے تو یہ بہت ہی حیران کن بات تھی۔ اب ایڈون کیلئے یہ معمول بن گیا۔ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیتوں میں نکل جاتا۔ وہ گھاس پر بیٹھ جاتے۔ پھر اپنی سکیچ بکس نکالتے۔ شام کو چائے کے وقت تک وہ بھیڑوں، گدھوں اور جوبھی جانور نظر آتا کی تصویریں بناتے رہتے۔ ان کے والد انہیں گھر واپس لے جانے کیلئے آتے لیکن گھر جانے سے پہلے وہ ان کی بنائی تصویریں بغور دیکھتے اور پھر ان کی تصحیح کرتے تاکہ وہ مزید خوبصورت دکھائی دیں۔اسی طرح جانوروں کی تصویریں بناتا بناتا ایڈون تھوڑا اور بڑا ہو گیا۔ اس نے تصویرں بنا بنا کر منوں سفید کاغذ سیاہ کرڈالے۔ کھیت کھلیانوں میں چرتے ہوئے جانور، چڑیا گھرکے شیر اور چیتے اور یقینا کتے۔ ہر طرح کے کتے۔ ہر نسل کے کتے۔ ایسا لگتا تھا جیسے سب کتے ایڈون کوجانتے ہیں۔ گلیوں کے آوارہ کتے بھی اس کے پاس آتے۔ حتیٰ کہ لڑنے والے خوفناک کتے بھی اس کی ٹانگوں سے لپٹتے رہتے تاکہ وہ ان کی کمر سہلائے۔ ایک دن ایڈون شہر میں اکیلا کسی کام سے جا رہا تھا، تو اس نے ایک بہت بڑا کتا دیکھا۔ وہ سینٹ برنارڈ نسل کا تھا۔ اس نے آج تک اتنا بڑا کتا نہیں دیکھا تھا۔ ایڈون کا دل فوراً مچل گیا کہ کس طرح وہ اس کتے کی تصویر بنائے، لیکن اس کیلئے کتے کا کسی ایک جگہ ٹھہرنا ضروری تھا، لیکن کتا بڑے بڑے ڈگ بھرتاہوا اتنا تیز چل رہا تھا کہ ایڈون کواس کا ساتھ دینے کیلئے تقریباً دوڑنا پڑ رہا تھا۔ سینٹ برنارڈ نے پہلے ایک لمبی گلی عبور کی پھر وہ ایک موڑ مڑا۔ پھر ایک چوک سے دوسری گلی میں داخل ہوا اور اس کے پیچھے پیچھے ہانپتا ہوا ایڈون بھی۔ آخر کار کتا ایک گھرکے باہر گیٹ میں داخل ہوا اور گھر کے پچھواڑے جا کرغائب ہوگیا۔ایڈون نے گھر کا گیٹ کھٹکھٹایا اور گھر کے مالک کودرخواست کی کیا وہ اس کے کتے کی تصویر بنا سکتا ہے؟ مالک نے حیرت سے ایڈون کو دیکھا، لیکن پھر خوش دلی سے اسے اجازت دے دی۔ وہ ایڈون کو گھر کے اندر ایک کمرے میں لے گیا۔ جہاں سینٹ برنارڈ پائوں پسارے فرش پر بیٹھا تھا۔ ایڈونایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ جیب سے کاغذ پنسل نکالا اور تصویر بنانی شروع کردی۔ کئی سال گزر گئے۔ ایڈون نے کتوں کی بہت سی تصویریں بنائیں۔ بڑے کتے، چھوٹے کتے۔ اداس کتے، خوش باش کتے اور جب تک وہ جوان ہوا۔ لندن میں ہر بندہ ایڈون لینڈ سیر کوایک ایسے مصور کے طور پر جانتا تھا،جو جانوروں کی تصویریں سب سے بہترین بناتا ہے۔ پھر آخر ایک دن ملکہ وکٹوریہ نے اسے بلا بھیجا تاکہ وہ اس کے پالتو جانوروں کی تصویریں بنائے یہ ایڈون کیلئے نہایت خوشی کا دن تھاکیونکہ محل میںہر طرح کے کتے تھے۔ کالے، بھورے ، گھنگھریالے بالوں والے اور سیدھی جت والے بھی۔ ایڈون نے کام شروع کردیا، تو کئی دفعہ ملکہ وکٹوریہ اس کا کام دیکھنے خود اس کے پاس تشریف لائیں۔ ملکہ نے ایڈون سے پوچھا کہ وہ کیسے جانوروں کی اتنی خوبصورت تصاویر بنالیتا ہے کہ ان پر اصل کا گمان ہوتا ہے؟تو اس نے جواب دیا کہ وہ ان کے دلوں کی دھڑکنیں تک سنتا ہے۔ ملکہ نے پوچھا کیا وہ بچوں کی تصاویر بنا سکتا ہے؟ تو ایڈون نے کہا کیوں نہیں؟تب ملکہ عالیہ نے فرمائش کی کہ وہ اس کے بچوں کی تصویریں بنائے۔ تب ایڈون نے جانوروں کی تصاویر مکمل کرنے کے بعد برطانیہ کے شہزادوں اور شہزادیوں کی تصاویر بنائیں۔ مگر ہر تصویر میں ان کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کوئی نہ کوئی کتا موجود تھا۔ اب وہ مشہور مصور تھا اس کی تصویریں خریدنے والوں کی تعداد اب ہزاروں میں تھی۔اگر آپ ایڈون لینڈ سیر کا بنایا ہوا کوئی شہ پارہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس کیلئے آپ کو ٹرافلگراسکوائر لندن جانا پڑے گا۔ جہاں ہروقت فوارے اچھلتے ہیں اور کبوتر دانہ چگتے اور ہوا میں اڑتے ہیں اور ان کے درمیان تانبے سے بنے چارعظیم لاشان شیروں کے مجسمے ہیں، جو فخر انداز میں سر اٹھائے آج کے لندن میں گھومنے والے لوگوں کا طائرانہ جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے یہاں بیٹھے بیٹھے کئی زمانے بدلتے دیکھے ہیں،لیکن شاید انہیں اب پرانے وقتوں کا کچھ یاد نہیں! لیکن لگتا ہے کہ انہیں آج بھی وہ شخص یاد ہو، جس نے انہیں بنایا تھا یا وہ کتا جو اس مصور کے پیروں میں بیٹھا رہتا تھا۔ٹرافلگراسکوائر کے چاروں شیرایڈون لینڈ سیر نے بنائے تھے، جو خود ساری زندگی جانوروں سے گہری محبت میں مبتلا رہا۔٭…٭…٭