ڈاونچی کوڈ کے مصنف ڈین براؤن کے تازہ ناول Inferno کا شہرہ

ڈاونچی کوڈ کے مصنف ڈین براؤن کے تازہ ناول Inferno کا شہرہ

اسپیشل فیچر

تحریر : سید ابوالہاشم


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

امریکی ادیب ڈین براؤن کا لکھا ہوا تازہ ناول(انفیرنوInferno) آج کل جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل کی تفریحی ادب کی بیسٹ سیلر فہرست میں سب سے اُوپر جا رہا ہے۔ اس میں اُنھوں نے عالمی آبادی میں ہونے والے خطرناک اضافے کو موضوع بنایا ہے۔اس ناول کی تشہیر کے سلسلے میں ڈین براؤن نے گزشتہ دنوں جرمنی بھی گئے ہوئے تھے، جہاں اُنھوں نے کولون میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں اپنے اس ناول میں سے اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے۔ یاد رہے کہ ڈین براؤن کا شمار دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ ڈین براؤن کا تازہ ناولInferno مئی کے وسط میں منظر عام پر آیا تھا جب کہ وہ مئی کے اواخر میں کولون گئے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ ڈین براؤن کسی عوامی اجتماع میں شریک ہوں۔ کولون میں منعقدہ تقریب جرمنی بھر میں واحد تقریب تھی، جس میں وہ شریک ہوئے۔اس موقع پر اُنھوں نے بتایا کہ آج کل ہر روز عالمی آبادی میں دو لاکھ انسانوں کا اضافہ ہو رہا ہے اور یہ کہ اُن کی نظر میں آج کل دنیا کا سب سے بڑا اور خطرناک مسئلہ آبادی میں تیزی سے ہوتا ہوا یہی اضافہ ہے۔ ڈین براؤن نے اپنے اس تازہ سنسنی خیز ناول میں اسی موضوع پر قلم اُ ٹھایا ہے۔اپنے اس ناول میں ڈین براؤن نے اس عالمی مسئلے کو دانتے کی ’ڈیوائن کامیڈی‘ میں بیان کیے گئے دوزخ کے منظر نامے سے مربوط کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’عالمی آبادی میں حد سے زیادہ اضافے کے بارے میں پڑھتے پڑھتے اچانک مجھے محسوس ہوا کہ دانتے نے دوزخ کا جو نقشہ کھینچا ہے، وہ ہمارے مستقبل سے کافی ملتا جلتا ہے چناں چہ مجھے ایک ایسا ولن تخلیق کرنے کا خیال آیا، جو دانتے کے تصورات کو محض ایک کہانی کے طور پر نہیں بل کہ ایک پیش گوئی کے طور پر لیتا ہے‘‘۔ ناولInferno کے واقعات زیادہ تر اطالوی شہر فلورینس میں پیش آتے ہیں، جو کہ دانتے کا شہر رہا۔ اسی شہر میں ڈین براؤن اپنے اس ناول کے سلسلے میں تحقیق بھی کرتے رہے ہیں۔ڈین براؤن خود کو ایک محتاط اور ہجوم سے گریزاں شخص قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کی کتابوں کا اولین مقصد قاری کو تفریح فراہم کرنا ہوتا ہے، لیکن اُن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ناولوں کے لیے کسی اہم موضوع کا انتخاب کریں۔ ڈین براؤن کے مطابق ’’جب لوگ ناولوں میں بیان کیے گئے مقامات اور فنی شاہکاروں میں دلچسپی لیتے ہیں ،تو اُنھیں اور بھی زیادہ خوشی ملتی ہے‘‘۔ امریکی ادیب ڈین براؤن کا کہنا ہے ’’اُن کی کتابوں کو ملنے والی بے پناہ کامیابی سے اُن کی زندگی میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے، ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ اُنھوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر شہر سے دُور دیہی علاقے میں ایک خوبصورت گھر ضرور بنایا ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنی کتاب ’’ ڈا ونچی کوڈ‘‘ کی اشاعت کے برسوں بعد بھی وہ اپنی پرانی کار ہی استعمال کر رہے ہیں: ’’مَیں اور میری بیوی، ہم دو ایسے انسان ہیں، جنھیں آرٹ اور فن تعمیر سے دلچسپی ہے، ہمیں کاروں، زیورات اور اس طرح کی چیزوں کا کوئی شوق نہیں‘‘۔واضح رہے کہ ڈین براؤن کی کتاب ’’ ڈا ونچی کوڈ‘‘ نے پوری دنیا میں زبردست شہرت حاصل کی ہے، اس ناول پر فلم بھی بنائی گئی ہے۔ کولون میں اپنے تازہ ناول کے حوالے سے ڈین براؤن کا کہنا تھا: ’’اس کتاب کو تحریر کرنے میں تین سال سے کچھ زیادہ عرصہ لگا ہے تاہم ’ ڈاونچی کوڈ‘ کی کامیابی کے بعد مجھے ایسے بہت سے خفیہ مقامات کا پتا چلا ہے، جن کا مجھے پہلے علم نہیں تھا‘‘۔اپنی کتابوں میں ڈین براؤن نے جس انداز سے مسیحیت کو پیش کیا ہے، اُس پر ویٹی کن کے نمایندے اُن سے کافی ناراض ہیں۔ خود براؤن ہرگز نہیں سمجھتے کہ مذہب اور سائنس کے درمیان کوئی تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جتنا زیادہ اُنھوں نے الجبرا یا طبیعیات پر غور کیا ہے، اتنا زیادہ اُن پر مذہبی جہات کے دَر وَا ہوتے چلے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ آج کل اُنھیں اس بات کا یقین ہے کہ سائنس اور مذہب در حقیقت دو مختلف زبانیں ہیں، جو ایک ہی کہانی بیان کرتی ہیں، یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، دشمن نہیں‘‘۔ڈین براؤن 1964ء میں امریکی ریاست نیو ہیمپشائر میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد الجبرا کے پروفیسر تھے جب کہ والدہ موسیقار تھیں۔ ہنگامہ خیز ناولوں سے شہرت پانے سے پہلے اُنھوں نے انگریزی زبان کے اُستاد کے طور پر کام کیا۔ اپنے سنسنی خیزی، سائنسی اور تاریخی موضوعات اور سازشی نظریات سے عبارت ناولوں کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں گزشتہ چند عشروں کے کامیاب ترین ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
الیکٹرک گاڑیوں کا بڑھتا رجحان اور لیتھیم بیٹری کچرے کا مسئلہ

الیکٹرک گاڑیوں کا بڑھتا رجحان اور لیتھیم بیٹری کچرے کا مسئلہ

دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی، پٹرول و ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں اور تیل کی درآمد پر انحصار کم کرنے کے لیے الیکٹرک گاڑیاں (EVs) تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی گزشتہ چند برسوں میں اس شعبے میں واضح پیش رفت دیکھی جا رہی ہے۔ حکومت کی پالیسیز، درآمدی ڈیوٹی میں کمی اور نجی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے باعث الیکٹرک بائیکس، رکشہ، کاریں اور بسیں سڑکوں پر نظر آنے لگی ہیں۔ تاہم جہاں یہ ٹیکنالوجی ماحولیاتی لحاظ سے ایک مثبت تبدیلی ہے وہیں اس کے ساتھ ایک بڑا چیلنج لیتھیم آئن بیٹریوں کے کچرے کی صورت میں سامنے آنے والا ہے۔لیتھیم بیٹری کچرے کا مسئلہالیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے والی لیتھیم آئن بیٹریاں محدود عمر کی حامل ہوتی ہیں۔ عام طور پر یہ بیٹریاں 8 سے 12 سال تک کارآمد رہتی ہیں اس کے بعد ان کی چارجنگ صلاحیت اور کارکردگی کم ہونے لگتی ہے۔ پرانی بیٹریاں نہ صرف ناکارہ ہو جاتی ہیں بلکہ اگر مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگائی جائیں تو یہ ماحول اور انسانی صحت دونوں کے لیے خطرناک ہیں۔ ان بیٹریوں میں لیتھیم، کوبالٹ، نکل اور مینگنیز جیسے دھاتیں شامل ہوتی ہیں جو زمین اور پانی کو آلودہ کر سکتی ہیں اور زہریلا کیمیکل فضا میں خارج کر سکتی ہیں۔ آنے والے 10 سے 20 سال کا منظرنامہفی الحال پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد زیادہ نہیں لیکن اگر موجودہ رفتار سے یہ رجحان بڑھا تو اگلے 10 سال میں لاکھوں الیکٹرک گاڑیاں سڑکوں پر عام ہوں گی۔ عالمی اعداد و شمار کے مطابق ہر الیکٹرک گاڑی میں اوسطاً 250 سے 500 کلوگرام وزنی بیٹری پیک ہوتا ہے۔ اگر ان بیٹریوں کو دوبارہ استعمال یا ری سائیکل نہ کیا جائے تو یہ ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ بن جائے گا۔ مثال کے طور پراگر 2035ء تک پاکستان میں 10 لاکھ الیکٹرک گاڑیاں ہو گئیں تو اس کا مطلب ہے کم از کم 2.5 سے پانچ لاکھ ٹن بیٹری کچرا پیدا ہوگا۔2045ء تک یہ مقدار کئی گنا بڑھ کر لاکھوں ٹن تک جا سکتی ہے۔ پاکستان میں فی الحال اس کچرے کومحفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے یا ری سائیکل کرنے کی کوئی منظم سہولت موجود نہیں۔اس مسئلے سے کیوں نمٹنا ضروری ہے؟ بیٹریوں کے دھاتیں زمین و زیرزمین پانی کو آلودہ کر کے زراعت، پینے کے پانی اور ماحول پر مہلک اثر ڈال سکتی ہیں ۔ بیٹریوں میں موجود دھاتیں سانس کی بیماریوں، جلدی مسائل اور اعصابی نظام کی خرابی کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ بیٹریوں میں موجود قیمتی دھاتیں بھی ری سائیکلنگ کی ضرورت کو واضح کرتی ہیں کیونکہ انہیں دوبارہ استعمال کے قابل نہ بنایا گیا تو ان کی درآمد میں اضافہ ہو گا ۔اس لیے ضروری ہے کہ لیتھیم بیٹری ری سائیکلنگ پلانٹس قائم ہونے چاہئیں۔ ان پلانٹس کے ذریعے پرانی بیٹریوں سے لیتھیم، کوبالٹ، نکل اور دیگر قیمتی دھاتیں نکالی اور دوبارہ استعمال کے قابل بنائی جا سکتی ہیں۔ چین، یورپ اور امریکہ میں یہ انڈسٹری تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ پاکستان میں بھی نجی شعبے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اس میدان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا جانا چاہیے۔الیکٹرک گاڑی کی پرانی بیٹریاں توانائی ذخیرہ کرنے کے دوسرے مقاصد کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پرسولر انرجی اورگھریلو یا صنعتی UPS سسٹمز کے لیے۔اس طرح بیٹری کی عمر میں مزید کئی سال کا اضافہ ہو سکتا ہے اور کچرا کم ہوگا۔حکومت کو چاہیے کہ EV درآمد کنندگان اور مینوفیکچررز کو پابندکرے کہ وہ بیٹریوں کی واپسی اور ری سائیکلنگ پلان فراہم کریں۔ یہ پالیسی دنیا کے کئی ممالک میں نافذ ہے جس کے تحت گاڑی بنانے والی کمپنی یا درآمد کنندہ بیٹری کی زندگی ختم ہونے پر اسے واپس لے کر ری سائیکل کرتا ہے۔ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ یونیورسٹیوں اور ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس کو بیٹری ری سائیکلنگ اور قابل استعمال مواد کی ریکوری پر تحقیق کے لیے فنڈز دیے جائیں۔ اس شعبے میں ماہر افرادی قوت کی تیاری ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ہم ٹیکنالوجی کے لیے مکمل طور پر بیرونی دنیا پر انحصار نہ کریں۔ الیکٹرک گاڑیوں کی آمد ایک مثبت قدم ہے جو ماحولیاتی آلودگی اور ایندھن کی درآمد پر انحصار کم کرنے میں مدد دے گا تاہم اگر لیتھیم آئن بیٹریوں کے کچرے کے مسئلے کو نظرانداز کیا گیا تو آنے والے 10 سے 20 سال میں یہ ایک بڑا ماحولیاتی اور صحت کا بحران بن سکتا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی ضروری ہے، جس میں ری سائیکلنگ انڈسٹری کا قیام، قانون سازی، عوامی آگاہی اور تحقیق پر سرمایہ کاری شامل ہو۔ اگر یہ اقدامات بروقت ہوئے تو نہ صرف اس خطرے سے بچا جا سکتا ہے بلکہ بیٹری ری سائیکلنگ کے شعبے میں پاکستان خطے کا ایک اہم ملک بھی بن سکتا ہے۔

 50 سال پرانا معمہ حل !  خون کے نئے گروپ کی دریافت

50 سال پرانا معمہ حل ! خون کے نئے گروپ کی دریافت

دنیا میں خون کے مختلف گروپس جیسے A، B، AB اور O کے بارے میں تو سبھی جانتے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کے علاوہ بھی کئی نایاب بلڈ گروپس موجود ہیں؟ حال ہی میں سائنسدانوں نے ایک نیا بلڈ گروپ دریافت کیا ہے جسے MAL کہا گیا ہے۔ یہ دریافت تقریباً 50 سال پرانے ایک معمہ کو حل کرنے کے بعد ممکن ہوئی ہے۔اس کہانی کا آغاز 1972ء میں ایک حیرت انگیز کیس سے ہوا۔ 1972ء میں ایک حاملہ خاتون کے خون کے ٹیسٹ دوران ڈاکٹروں نے دیکھا کہ اس کے خون میں ایک خاص مالیکیول (antigen) موجود نہیں تھا‘ جو تقریباً دنیا کے تمام انسانوں میں پایا جاتا ہے۔ اس مالیکیول کوAnWj antigen کہا جاتا ہے۔ اُس وقت یہ بات ایک معمہ بن گئی کہ آخر اس عورت کے خون میں یہ انٹیجن کیوں نہیں ہے؟ اس معمہ کو حل کرنے کے لیے برطانیہ کے NHS Blood and Transplantاور یونیورسٹی آف بریسٹل کے ماہرین نے تحقیقات شروع کر دیں۔ کئی دہائیوں تک ڈیٹا اکٹھا کیا گیا، نایاب بلڈ گروپس والے افراد کے نمونے حاصل کیے گئے اور جدید جینیاتی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔بالآخر سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ AnWj انٹیجن MAL نامی پروٹین کی وجہ سے بنتا ہے۔ اگر یہ پروٹین بننا بند ہو جائے تو یہ انٹیجن بھی خون میں ظاہر نہیں ہوتا۔ اسی پروٹین کے نام پر اس نئے خون کے گروپ کا نام MAL رکھا گیا ہے۔یہ پروٹین کیوں غائب ہو جاتا ہے؟تحقیق میں پتا چلا کہ کچھ افراد کے جین میں MAL جین موجود ہی نہیں ہوتا یا وہ خراب ہو چکا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ پیدائشی طور پر AnWjمنفی ہوتے ہیں، یعنی ان کے خون میں یہ انٹیجن کبھی نہیں بنتا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی پائے گئے جن کا MAL جین صحیح تھا لیکن پھر بھی ان کے خون میں یہ انٹیجن نہیں تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بعض بیماریوں جیسا کہ کینسر یا خون کے امراض کی وجہ سے یہ پروٹین بننا عارضی طور پر بند ہو سکتا ہے۔AnWj انٹیجن کا دلچسپ پہلویہ انٹیجن پیدائش کے وقت نہیں پایا جاتا بلکہ بچہ پیدا ہونے کے چند دن بعد خون میں ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، لیکن یہ انسانی جسم کے بارے میں ایک دلچسپ حقیقت ہے۔اس دریافت کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ اب AnWjمنفی افراد کو بہتر طریقے سے پہچانا جا سکتا ہے۔ اگر ایسے افراد کو عام خون دے دیا جائے تو ان کا جسم سخت ردعمل دکھا سکتا ہے جو جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔اس لیے خون دینے اور لینے کے عمل میں MAL گروپ کی جانچ مستقبل میں مریضوں کی جان بچانے میں اہم کردار ادا کرے گی خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے جو نایاب بلڈ گروپ رکھتے ہیں۔NHSBT کی محققلوئز ٹِلی نے تقریباً 20 سال اس تحقیق پر کام کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دریافت ایک بڑی مشترکہ کوشش کا نتیجہ ہے۔ٹم سیچ ویل (یونیورسٹی آف ویسٹ آف انگلینڈ) کا کہنا ہے کہ MAL پروٹین کی چھوٹی جسامت کی وجہ سے اس پر تحقیق کرنا بہت مشکل تھا۔International Blood Group Reference Laboratoryکی سربراہ نکول تھورنٹن کے مطابق یہ ثابت کرنا کہ ایک جین براہِ راست ایک انٹیجن بناتا ہے، نہایت مشکل کام تھا۔دنیا میں نئے خون گروپس کی دریافتMAL بلڈ گروپ دنیا میں دریافت ہونے والا 47واں بلڈ گروپ سسٹم ہے۔ پچھلے چند برسوں میں بھی نئے بلڈ گروپس سامنے آئے ہیں جیسا کہ 2020ء میں MAM اور 2022ء میںEr۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ برسوں میں مزید نایاب خون کے گروپس دریافت ہو سکتے ہیں۔بہرکیف پچاس سال پرانے ایک سائنسی معمہ کا حل اب ہمارے سامنے ہے۔ MAL بلڈ گروپ کی دریافت نہ صرف خون کی منتقلی کے عمل کو مزید محفوظ بنائے گی بلکہ یہ طبی دنیا میں نایاب خون کی جانچ اور علاج کے نئے راستے بھی کھولے گی۔ یہ پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ صبر، تحقیق اور جدید سائنس مل کر ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

محمد علی بوگرہ کی حکومت کا خاتمہ12 اگست 1955ء کو صدرا سکندر مرزا نے وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی حکومت برطرف کر دی۔ محمد علی بوگرہ کو گورنر جنرل غلام محمد نے 1953ء میں وزیراعظم مقرر کیا تھا اور انہوں نے ملک میں آئینی بحران کے باوجود سیاسی توازن قائم رکھنے کی کوشش کی تاہم 1955ء تک سیاسی اختلافات اور آئین سازی کے معاملے پر تناؤ بڑھ گیا۔ اسکندر مرزا جو پارلیمانی سیاست پر مکمل کنٹرول چاہتے تھے، نے چوہدری محمد علی کو نیا وزیراعظم بنا دیا۔ یہ واقعہ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں صدارتی مداخلت کی ایک نمایاں مثال ہے اور اس نے مستقبل میں مارشل لاء کے لیے ایک عملی راستہ ہموار کیا۔ جنوبی افریقہ کی اولمپکس سے معطلی12 اگست 1964ء کو بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے جنوبی افریقہ کو اولمپک کھیلوں سے معطل کرنے کا اعلان کیا۔ اس فیصلے کی بنیادی وجہ جنوبی افریقہ کی نسل پرستانہ پالیسی، جسے اپارتھائیڈ کہا جاتا تھا، بنی۔ اس پالیسی کے تحت حکومت نے گوروں اور سیاہ فاموں کے درمیان نسلی تفریق کو ادارہ جاتی شکل دی ہوئی تھی اور کھیلوں میں خاص طور پر اولمپکس میں جنوبی افریقہ کی ٹیمیں صرف گورے کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتیں ۔ جنوبی افریقہ تقریباً تین دہائیوں تک اولمپک مقابلوں سے باہر رہا اور 1992ء میں نیلسن منڈیلا کی قیادت میں اپارتھائیڈ کے خاتمے کے بعد دوبارہ شامل ہوا۔ فونوگراف کی ایجاد12 اگست 1877ء کو امریکی موجد تھامس ایڈیسن نے فونوگراف ایجاد کیا جو آواز کو ریکارڈ اور دوبارہ سنانے والی پہلی مشین تھی۔ایڈیسن کا فونوگراف ایک دھاتی سلنڈر پر ورق چڑھا کر اس پر سوئی کے ذریعے آواز کی لہروں کو کندہ کرتا تھا اور بعد میں وہی سوئی ان لہروں کو پڑھ کر دوبارہ آواز پیدا کرتی۔ اس ایجاد کا آغاز ٹیلی گراف اور ٹیلی فون پر تجربات کے دوران ہوا جب ایڈیسن نے محسوس کیا کہ آواز کو میکانیکی طور پر محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اس ایجاد نے موسیقی سننے اور مواد محفوظ کرنے کے طریقے کو ہمیشہ کیلئے بدل دیا اور یہ انسانی تخلیقی تاریخ کے اہم سنگ میلوں میں شمار ہوتی ہے۔ تھرمو نیوکلیئر بم کا تجربہ12 اگست 1953ء کو سوویت یونین نے اپنے پہلے تھرمو نیوکلیئر بم کا تجربہ کیا۔ یہ بم ہائیڈروجن بم کے زمرے میں آتا تھا اور روایتی ایٹم بم کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تباہ کن صلاحیت رکھتا تھا۔ یہ تجربہ سرد جنگ کے دور میں ہوا جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایٹمی اسلحے کی دوڑ اپنے عروج پر تھی۔ 1952 ء میں امریکہ نے اپنے پہلے ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا تھا اور ایک سال کے اندر سوویت یونین نے اس کا جواب دے دیا۔ اس کامیابی نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ سوویت یونین ٹیکنالوجی اور عسکری صلاحیت میں امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ جاپان ایئر لائنزکا سانحہ12 اگست 1985ء کو جاپان ایئر لائنز کی پرواز 123 ایک خوفناک حادثے کا شکار ہوئی ۔ ٹوکیو سے اوساکا جانے والا بوئنگ 747 طیارہ فضا میں بلند ہونے کے کچھ دیر بعد ہی شدید تکنیکی خرابی کا شکار ہوا۔اس حادثے میںطیارے میں سوار 524 افراد میں سے صرف چار مسافر زندہ بچ سکے۔ اس حادثے نے دنیا بھر میں ہوابازی کے حفاظتی معیار، مرمت کے طریقوں اور ایمرجنسی مینجمنٹ پر گہرے اثرات ڈالے۔ جاپان میں یہ سانحہ آج بھی یاد کیا جاتا ہے اور ہر سال اس دن متاثرین کی یاد میں خصوصی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔ٹائرانوسورس ریکس فوسل کی دریافت 12 اگست 1990ء کو امریکی ماہر آثار قدیمہ سوزان ہینڈرکسن نے جنوبی ڈکوٹا کے بلیک ہلز علاقے میں ٹائرانوسورس ڈائنوسور کا تقریباً مکمل ڈھانچہ دریافت کیا۔ یہ دریافت دنیا میں سب سے بڑے اور سب سے مکمل فوسلز میں سے ایک ثابت ہوئی۔اس فوسل میں ہڈیاں، دانت اور کھوپڑی کی کئی ہڈیاں محفوظ تھیں جن سے معلوم ہوا کہ یہ جانور تقریباً 67 ملین سال پہلے زندہ تھا۔ اس دریافت نے نہ صرف سائنسی برادری میں سنسنی پھیلائی بلکہ عام عوام کی توجہ بھی حاصل کی۔ بعد میں یہ فوسل شکاگو کے فیلڈ میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا گیا ۔ 

دنیا کی سب سے بڑی کاربن جذب کرنے والی مشین میموتھ

دنیا کی سب سے بڑی کاربن جذب کرنے والی مشین میموتھ

دنیا کو درپیش بڑے خطرات میں سے ایک بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی حدت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ اسی چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک اہم پیشرفت کاربن جذب کرنے والی مشین ''میموتھ‘‘ (Mammoth) کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی ڈائریکٹ ایئر کاربن کیپچر فیسلٹی ہے، جو فضاء سے براہِ راست کاربن ڈائی آکسائیڈ کھینچ کر محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اپنی جسامت اور صلاحیت کے باعث یہ مشین ماحولیاتی سائنس میں ایک انقلابی قدم سمجھی جا رہی ہے، جو زمین کو کاربن کے بوجھ سے ہلکا کرنے کی کوششوں میں سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔آئس لینڈ کی سرد و ویران زمین پر، جہاں برفانی ہوائیں زندگی کو ساکت کر دیتی ہیں، ایک حیران کن مشین خاموشی سے ہوا کو پاک کر رہی ہے۔ ''میموتھ‘‘ (Mammoth) ایک دیوہیکل مشین ہے، جو بظاہر سائنس فکشن کی دنیا سے نکلی ہوئی لگتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ انسانی بقاء کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ 360 فٹ طویل اس مشین کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ایک زبردست حل قرار دیا جا رہا ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ کروڑوں ڈالر مالیت کا نظام سالانہ 36ہزار ٹن کاربن کو ختم کرتا ہے جو سڑکوں سے8ہزار گاڑیاں ہٹانے کے برابر ہے۔ اس منصوبے کا مقصد زمین کے درجہ حرارت کو قابو میں رکھنا اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے مہلک اثرات کو کم کرنا ہے۔یہ مشین ''کلائم ورکس‘‘ (Climeworks) نامی ایک سوئس کمپنی نے تیار کی ہے، جو کاربن کیپچر اور اسٹوریج کے شعبے میں عالمی سطح پر اپنا لوہا منوا رہی ہے۔ ''میموتھ‘‘ کاربن کو براہِ راست ہوا سے الگ کرتی ہے اور پھر اسے زمین کی گہرائیوں میں محفوظ کر دیتی ہے۔ میموتھ کے کام کرنے کا طریقہ بھی کسی کرشمے سے کم نہیں۔ یہ فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتی ہے، اسے ایک فلٹر کے ذریعے علیحدہ کرتی ہے اور پھر پانی کے ساتھ ملا کر زمین کی پرتوں میں اس طرح پمپ کرتی ہے کہ وہ وہاں مستقل طور پر معدنی شکل اختیار کر لے، یوں گویا کاربن واپس زمین میں دفن ہو جاتا ہے۔اس منصوبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسی ہزاروں مشینیں دنیا بھر میں لگائی جائیں تو نہ صرف ہوا میں موجود کاربن کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کا بھی خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی پر بھروسہ کرنے سے انسانی طرزِ زندگی میں فوری تبدیلی کی ضرورت پس پشت جا سکتی ہے، جو ماحولیاتی آلودگی کا بنیادی حل ہے۔برطانیہ کی حکومت اس ٹیکنالوجی سے اتنی متاثر ہوئی ہے کہ وہ ملک کے شمال مغربی حصے میں ایک کاربن جذب کرنے والی مشین لگانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ تاہم، ناقدین خبردار کرتے ہیں کہ یہ مہنگی ٹیکنالوجی دراصل عالمی حدت کی بنیادی وجہ یعنی فوسل فیول (ایندھن) کے جلنے سے خارج ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو حل نہیں کرتی۔ماحولیاتی تنظیم گرین پیس نے کاربن کیپچر کو ایک ''فریب‘‘ قرار دیا ہے۔اس کے باوجود، میموتھ جیسے منصوبے امید کی کرن ہیں۔ یہ ایک پیغام ہے کہ انسان نے اگر زمین کو بگاڑا ہے تو وہ اسے سنوارنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ ٹیکنالوجی، تحقیق اور اجتماعی کاوشوں کے ذریعے ہم ایک بار پھر فطرت کے ساتھ توازن قائم کر سکتے ہیں۔میموتھ صرف ایک مشین نہیں بلکہ ایک عہد ہے کہ ہم اپنی زمین کیلئے لڑیں گے اور آنے والی نسلوں کو ایک قابلِ رہائش دنیا دے کر جائیں گے۔''ڈائریکٹ ایئر کیپچر‘‘ کیا ہے؟ڈائریکٹ ایئر کیپچر، جسے مختصراً ''DAC‘‘ کہا جاتا ہے، ایک جدید ٹیکنالوجی ہے جو بالکل اسی طرح کام کرتی ہے جیسے اس کا نام ظاہر کرتا ہے،یعنی ہوا سے براہ راست کاربن ڈائی آکسائیڈ کو نکالنا۔اس نظام میں دیوہیکل پنکھے اردگرد کی ہوا کو کھینچتے ہیں اور اسے ایک خاص مائع محلول سے گزارا جاتا ہے، جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو چن کر قید کر لیتا ہے۔اس کے بعد، مخصوص درجہ حرارت پر حرارت دینے اور کیمیائی تعاملات کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو دوبارہ علیحدہ کر لیا جاتا ہے۔ یوں یہ CO2 دوبارہ قابلِ استعمال حالت میں آ جاتا ہے۔اس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو دو طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔(1) اسے مختلف کیمیائی مصنوعات مثلاً ایندھن (گیسولین، ڈیزل، اور جیٹ فیول) بنانے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (2) اسے زمین کے اندر مستقل طور پر محفوظ کر کے ماحولیاتی اثرات سے بچاؤ کیا جا سکتا ہے۔ جو ایندھن اس طریقے سے تیار ہوتا ہے، وہ موجودہ فیول ڈسٹری بیوشن نیٹ ورکس اور ٹرانسپورٹیشن سسٹمز کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ یعنی اسے بغیر کسی بڑی تبدیلی کے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔اس طرح DAC ٹیکنالوجی ماحولیاتی تحفظ کے ساتھ ساتھ صنعتی استعمال کیلئے بھی کارآمد ثابت ہو رہی ہے۔ 

’’مائیکرو ایکسرسائز‘‘

’’مائیکرو ایکسرسائز‘‘

صحت مند رہنے کا آسان اور مؤثر طریقہآج کے مصروف دور میں جہاں بیشتر افراد گھنٹوں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کام کرتے ہیں یا طویل وقت تک ایک ہی جگہ پر رہتے ہیں، جسمانی سرگرمی کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو گیا ہے۔ ماہرین صحت خبردار کرتے ہیں کہ مسلسل بیٹھے رہنا دل کی بیماریوں، موٹاپے اور پٹھوں کی کمزوری جیسے مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ ایسے میں ''مائیکرو ایکسرسائز‘‘ ایک نئی امید بن کر سامنے آئی ہے۔ یہ مختصر اور ہلکی پھلکی ورزشیں نہ صرف آسان ہیں بلکہ روزمرہ معمولات میں شامل کر کے صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ چند منٹ کی یہ چھوٹی چھوٹی سرگرمیاں خون کی روانی کو بہتر، توانائی کو بحال اور جسم کو متحرک رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔زیادہ تر لوگوں کیلئے صبح سورج نکلنے سے پہلے ورزش کرنا یا دن بھر کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ 10 ہزار قدم چلنے کا ہدف پورا کرنا مشکل لگتا ہے، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ جسمانی سرگرمی کتنی اہم ہے۔ اب ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ بغیر میلوں چلنے کے بھی چلنے کے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ صرف 30 سیکنڈ کے مختصر وقفوں میں چلنا، جسے ''مائیکرو واکس‘‘ کہا جا رہا ہے صحت مند رہنے کیلئے کافی ہو سکتا ہے۔ تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سرگرمی لمبی چہل قدمی سے زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔مائیکرو واکس سے مراد ہے کہ آپ 10 سے 30 سیکنڈ تک چلیں اور پھر تھوڑا وقفہ لیں، اس کے بعد اگلا مختصر سیشن کریں۔ یہ اتنا آسان بھی ہو سکتا ہے جتنا سیڑھیاں چڑھنا یا دفتر کے گرد ایک چکر لگانا۔پروسیڈنگز آف دی رائل سوسائٹی بی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں مختلف وقت کے وقفوں پر چلنے کی افادیت جانچی گئی۔ تحقیق کے دوران رضاکاروں کو یا تو ٹریڈ مل پر چلایا گیا یا مختصر سیڑھیاں چڑھنے کو کہا گیا، جن کا دورانیہ 10 سیکنڈ سے لے کر چار منٹ تک رکھا گیا۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ مختصر وقفوں میں چلنے والے افراد نے طویل اور آہستہ واک کرنے والوں کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ توانائی استعمال کی حالانکہ دونوں نے برابر فاصلہ طے کیا تھا۔ جتنی زیادہ توانائی استعمال ہوگی، اتنا ہی میٹابولزم تیز ہوگا اور زیادہ کیلوریز جلیں گی۔ تحقیق کرنے والوں نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مختصر وقفوں میں چہل قدمی کرنے سے آپ کا میٹابولزم بہتر ہو سکتا ہے اور آپ طویل اور یکساں رفتار سے کی جانے والی چہل قدمی کے مقابلے میں زیادہ کیلوریز جلا سکتے ہیں۔عالمی سطح پر ہر چار میں سے ایک بالغ فرد کو مطلوبہ جسمانی سرگرمی نہیں ملتی۔ امریکہ میں تقریباً نصف افراد کا وزن زیادہ ہے یا وہ موٹاپے کا شکار ہیںایک اندازے کے مطابق تقریباً 3 لاکھ اموات جسمانی سرگرمی کی کمی اور ناقص غذائی عادات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ڈاکٹر زولیا فراسٹ، جو ریچارج ہیلتھ کی شریک بانی اور کلینیکل ڈائریکٹر ہیں، نے بتایا: ''مائیکرو واکس خاص طور پر ان افراد کیلئے مؤثر ہیں جو زیادہ تر وقت بیٹھے رہتے ہیں،یہ چہل قدمی شروع کرنے کا ایک آسان طریقہ فراہم کرتی ہیں۔ورزش شروع کرنا بعض لوگوں کیلئے بھاری اور خوفناک لگ سکتا ہے، لیکن مائیکرو واکس آپ کو صحت اور فٹنس کی نئی راہ پر ڈال سکتی ہیں، وہ بھی بغیر اس کے کہ آپ کو روزانہ طویل اور وقت طلب ورزش کیلئے وقت نکالنا پڑے۔ماہر غذائیت البرٹ میتھنی نے ویمنز ہیلتھ کو بتایا کہ اصل بات یہ ہے کہ آپ وہ کریں جو آپ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ زیادہ چلنے کے عادی نہیں ہیں اور سوچتے ہیں کہ میں پانچ میل نہیں چل سکتا تو صرف 30 سیکنڈ کے وقفے کر لیجیے، یہ زیادہ قابلِ عمل ہے۔فوائدمختصر واکس کے بے شمار فوائد ہیں۔کھانے کے بعد صرف چند منٹ چلنے سے ہاضمہ بہتر ہوتا ہے اور بلڈ شوگر کی سطح کو قابو میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ دن بھر میں مختصر وقفوں میں چلنے سے کیلوریز زیادہ جلتی ہیں اور میٹابولزم بہتر ہوتا ہے۔طویل عرصے تک بیٹھے رہنے سے اکڑن، کمر درد اور توانائی کی کمی ہو سکتی ہے۔ہر گھنٹے کے بعد صرف پانچ منٹ چلنے سے خون کی روانی بہتر ہوتی ہے، توجہ بہتر اور تھکن کم ہوتی ہے۔ مختصر چہل قدمی موڈ بہتر کرنے میں بھی مددگار ہے۔ مائیکرو واکس تناؤ کے ہارمونز کو کم کرتی ہیں اور تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہیں، جس سے کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔تحقیق کے مطابق دن میں 10 ہزار قدم کے بجائے صرف 7 ہزار قدم چلنا بھی ڈیمینشیا، دل کی بیماری اور بعض اقسام کے کینسر کے خطرے کو کم کرنے کیلئے کافی ہے۔ایک لاکھ 60 ہزار افراد کے ہیلتھ ڈیٹا پر مبنی تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ 7 ہزار قدم چلنے والوں میںدل کی بیماری کا خطرہ 25 فیصد کم تھا جو امریکہ میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ڈیمنشیا کے امکانات 38 فیصد کم پائے گئے۔ایسے افراد میں ڈپریشن کا امکان بھی کم تھا جو روزانہ صرف 2 ہزار قدم چلتے تھے۔  

فرغانہ :وسطحی ایشیا کا دلکش خطہ

فرغانہ :وسطحی ایشیا کا دلکش خطہ

قدرتی حسن، زرخیز زمین اور قدیم تہذیبوں کے امتزاج سے سجی وادیٔ فرغانہ وسطی ایشیا کا وہ دلکش خطہ ہے جو صدیوں سے دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ برف پوش پہاڑوں کے دامن میں پھیلی یہ وادی اپنے سرسبز کھیتوں، میٹھے چشموں اور خوشگوار موسم کے باعث جنت نظیر کہلاتی ہے۔ یہاں کی زمین گندم، کپاس، پھلوں اور سبزیوں کی فراوانی کیلئے مشہور ہے۔فرغانہ ازبکستان کی ولائت فرغانہ کا صدر مقام ہے۔ ازبکی زبان میں صوبے کوولایت کہا جاتا ہے۔ فرغانہ کا شہر تاشقند سے مشرق کی جانب 325 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ تاشقند سے سڑک کے راستے نکلیں تو تقریباً اکثر پہاڑوں میں سے ہو کر گزرنا پڑتاہے۔ سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی سٹرک ایک خوبصورت نظارہ پیش کرتی ہے۔ فرغانہ کی وادی وسطی ایشیا کا سب سے بڑا صحت افزا مقام ہے۔ اس کے علاوہ وادی فرغانہ کا شمار دُنیا کے انتہائی خوبصورت خطوں میں ہوتا ہے۔ حقیقت میں یہ ایسے علاقے ہیں جو دُنیا کے سیاحوں کی آنکھ سے اوجھل ہیں۔ ایسے خطوں کو صحیح طرح سے دُنیا سے متعارف ہی نہیں کروایا گیا اور نہ ہی حکومتوں نے اس بارے میں کوئی تگ ودو کی ہے۔فرغانہ شہر کی آبادی دو لاکھ ہے۔ فرغانہ قدیم شاہراہ ریشم پر واقع اہم شہر تھا جو چین میں کاشغر کے راستے باقی مغربی دُنیا سے ملا ہوا تھا۔ وادی فرغانہ میں فرغانہ کے علاوہ نمنگان، اندجان اور قوقند بڑے شہر ہیں۔ اس پوری وادی میں جگہ جگہ شفتالو، خوبانی، سیب، انگور، بادام، اخروٹ کے بڑے بڑے باغات ہیں۔ اس کے علاوہ تربوز، سٹرابری اور چیری کی بھی بہتات ہے۔ گندم، چال، مکئی، جو اور تمباکو کے علاوہ سبزیوں کی پیداوار عام ہے۔ ازبکستان کے دو بڑے دریا آمُو دریا اور سِردریا ہیں۔ سِر دریا وادی فرغانہ سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔ وادی فرغانہ کا سال میں اوسط درجہ حرارت سردیوں میں منفی 24 سینٹی گریڈ اور گرمیوں میں 30 سنٹی گریڈ تک رہتا ہے۔وادیٔ فرغانہ کا شہر اندجان اُسی ظہیر الدین بابر کی جائے پیدائش ہے جس نے 1526ء میں ہندوستان میں ابراہیم لودھی کی فوجوں کو تِگنی کا ناچ نچایاتھا۔ بابر اندجان ہی میں 14 فروری 1483ء کو عمر شیخ مرزا کے گھر پیدا ہوا۔ عمر شیخ مرزا اندجان میں اپنے علاقے کا حکمران تھا۔ بابر نے اپنا لڑکپن اسی وادی فرغانہ میں گزارا۔ بابر نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھڑ سواری، تیز اندازی اور فن سپاہ گری کی تربیت اپنے والد کے زیر سایہ ہی حاصل کی۔ 1498ء میں باپ کے فوت ہونے کے بعد بابر کو علاقے کا امیر بنا دیا گیا۔ اُس وقت بابر ابھی صحیح طرح بالغ بھی نہیں ہوا تھا۔ صرف پندرہ سال کی عمر تھی کہ امارت کا تاج اُس کے سر پر رکھ دیا گیا۔ اُس نے 42 سال کی عمر میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان میں اس مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی جس نے پورے برصغیر پر دو صدیوں سے زیادہ حکومت کی۔ آج بھی ازبکستان اور خاص طور پر وادی فرغانہ کے لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اس دھرتی نے ایسے سپوت کو جنم دیا، جس نے جنوبی ایشیا میں مغلیہ حکومت کی بنیاد رکھی۔ ہندوستانی مورخین کے مطابق بابر کے بادشاہ بننے سے پانچ سو سال قبل ہندوستان کا بادشاہ شمس الدین التمش بھی فرغانہ ہی کا رہنے والا تھا۔