ادب کی دنیا

ادب کی دنیا

اسپیشل فیچر

تحریر :


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

حلقہئِ اربابِ ذوق،لاہور کا اجلاسشہرِ ادب و ثقافت لاہورکی قدیم ترین ادبی تنظیم’’ حلقہئِ اربابِ ذوق‘‘ کا ہفتہ وار اجلاس ایوانِ اقبالؒ کے زیریں ہال میں منعقد ہوا،جس کی صدارت ڈاکٹر محمد رفیق نے کی جب کہ تنقید کے لیے مضمون شاہد بخاری نے پیش کیا۔علاوہ ازیںاس جلسے میں نوید انجم نے اپنا افسانہ جب کہ ڈاکٹر فخر عباس اور ارسلان احمد نے اپنی شعری تخلیقات پیش کیں،جن پر عامر فراز، ناصر علی،پروفیسر نبیل احمد نبیل ،آفتاب جاویداور در نجف زیبی و دیگر نے سیر حاصل گفت گو کی اور مجموعی طور پر تمام تخلیقات کو اچھی کاوش قرار دیا تاہم نبیل احمد نبیل ؔنے افسانے کے حوالے سے اپنے تخفظات کا اظہار کیا۔ اجلاس میں قریباً تیس کے لگ بھگ شعرا ، اُدبا اور طلبا نے شرکت کی۔حلقہئِ اربابِ ذوق کا اجلاس ہر اتوار کی شام چھ بجے باقاعدگی سے منعقد ہوتا ہے۔نعتیہ محفلِ مشاعرہ اور نعت خوانی کی تقریبادبی و ثقافتی تنظیم’’ سرگی‘‘ انٹر نیشنل اور’’ بابا فریدؒ ادبی فورم‘‘ کے اشتراک سے ربیع الاول کی مناسبت سے نعتیہ مشاعرہ ومحفلِ نعت خوانی کی ایک منفرد تقریب الحمرا ادبی بیٹھک میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر اجمل چشتی ، نجیب احمد اور اختر رسول تھے۔ نظامت کے فرایض راجا نیّرنے ادا کیے۔ اس تقریب میں جن شعرا کرام نے اپنا کلام سنایا ،اُن میں سرفراز علی حسین، سلیم طاہر، اعجاز کنور راجا،ڈاکٹر اختر شمار،ڈاکٹر شوذب کاظمی، ناصر بشیر، حسن کاظمی، سرفراز سید، اسلم کمال، عرفان صادق، عمران نقوی، بیرا جی، فرخ زہرا گیلانی، حکیم سلیم اختر، اعجاز فیروز اعجاز و دیگر کے اسمائے شامل ہیں۔اس تقریب میں گلوکارشوکت علی، ترنم ناز، عدیل برکی اور شازیہ عباس نے سرکارِ دو عالمﷺ کے حضور ہدیہ نعت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔اس تقریب کے منتظم راجا نیّراور شفقت شاہ تھے۔دعوۃ اکیڈمی کے زیر اہتمام کتاب میلے کا انعقاد بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد کے صدر پروفیسر ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش نے گزشتہ دنوں دعوۃ اکیڈمی کے زیر اہتمام ربیع الاول تقریبات کے سلسلے میں منعقد کیے گئے چوتھے سالانہ کتاب میلہ کاا فتتاح کیا۔اس موقع پر ڈاکٹر الدریویش نے اعلان کیا کہ آیندہ سال یہ کتاب میلہ بین الاقوامی سطح پر منعقد کیا جائے گا اور اس میں دنیا بھر کے مختلف پبلشرز کو مدعو کیا جائے گا ،جس سے نہ صرف کتاب بینی کو فروغ ملے گا بل کہ مختلف ممالک کے پبلشرز کو ایک دوسرے کے ساتھ باہمی دلچسپی کے اُمور پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع بھی ملے گا ۔قبل ازیں یونی ورسٹی کے نائب صدر پروفیسر ڈاکٹر صاحب زادہ ساجد الرحمان نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ کتاب میلے کے انعقاد کی اس روایت کو مستقبل میں بھی برقرار رکھا جائے گا۔پِلاک میں صوفی ازم پر ایک سیمینار پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر(پِلاک) اور اجوکا تھیٹر کے اشتراک سے ’صوفی ازم اور فن و ثقافت‘ کے موضوع پر ایک سیمینار پِلاک لاہورکے ہال میں منعقد ہوا ،جس کی صدارت عکسی مفتی نے کی۔ مقررین میں مشتاق صوفی، راج ولی خٹک، کے۔ ایس ناگپال، شاہد ندیم اور اقبال قیصر شامل تھے۔ اس موقع پرمشتاق صوفی نے کہا کہ تعین کرنا چاہیے کہ کون عوامی صوفیا اور کون وقتی حاکموں کے ساتھ وابستہ ہے۔ عکسی مفتی نے کہا کہ تصوف لوک ریتوں میں ہے۔ کے، ایس ناگپال نے کہا کہ مختلف مذاہب اور اسلام میں صوفی ازم کا پیغام ایک مشترک قدر ہے اور یہ ان مذاہب کو قریب لانے کا موجب بن سکتا ہے۔ پروگرام کی میزبانی ڈائریکٹر پِلاک ڈاکٹر صغرا صدف نے کی۔پنجابی یونین کے زیر اہتمام سیمینار پنجابی یونین کے زیر اہتمام لکھاریوں، شاعروں اورسوجھوانوں کا ایک اکٹھ 7فروری کو الحمرا ہال،لاہور میںمنعقد ہوا،جس کی صدارت فخر زمان نے کی جب کہ نذیر کہوٹ، حسین شاد، اعزاز احمد آذر، صوفیہ بیدار، پروفیسر جمیل احمد پال، ایثاررانا، پروفیسر ڈاکٹرارشد اقبال و دیگر نے خطاب کیا ۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پنجابی یونین کے چیئرمین مدثر اقبال بٹ نے کہا پنجاب کی تقسیم کا مطلب پنجاب کے عظیم صوفی شعرا اور صوفیانہ سلسلہ کو کھونے کے مترادف ہو گاکیوں کہ اس سے یکجہتی کی بات کرنے والے صوفی شاعروں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ آخر میںاس حوالے سے ڈاکٹر رشید زئی نے ایک مشترکہ مذمتی قرارداد بھی پیش کی۔شاعرہ شازیہ نورین کے اعزاز میں مشاعرہ ڈاکٹر صغرا صدف نے اٹلی میں مقیم معروف شاعرہ شازیہ نورین کی پاکستان آمد پر اُن کے اعزاز میں ایک مشاعرے کا انعقاد کیا، جس کی صدارت ڈاکٹر محمد اجمل نیازی اور شفیق سلیمی نے کی جب کہ علی اصغر عباس اور ڈاکٹر نذیر چودھری مہمانِ اعزاز تھے۔ مشاعرے میں شریک ہونے والے شعرا کرام میں حسین مجروح، سرفراز سید، اشرف جاوید، سعد اللہ شاہ، راجا نیّر، حسن جاوید، ڈاکٹر ایوب ندیم، ڈاکٹر ضیا الحسن، غافر شہزاد، عرفان صادق، اسلام عظمی، بشیر احمد شاد، مقصود عامر، اعجاز فیروز اعجاز، ایم۔ آر شاہد، حکیم سلیم اختر، حسن عباسی، عدیل برکی، حمیدہ شاہین، ڈاکٹر فوزیہ تبسم، رخسانہ نور، عبد المجید چٹھہ، شاہدہ دلاور شاہ، علی ساحل رضا، حرا رانا، محمود گیلانی، نصیر احمد اور سرفراز انور شامل تھے۔کتاب’’ کیسے کیسے چہرے‘‘ کی رونمائی کل شام الحمرا ،مال روڈ پر منعقد ہو گیسینئر صحافی اور پنجابی کے صاحب ِ طرز شاعر کرامت علی بھٹی کی کتاب ’’ کیسے کیسے چہرے‘‘ حال ہی میں زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی ہے۔ اُن کی اس کتاب کی تقریب ِ رونمائی کل شام پانچ بجے ،الحمرا ہال نمبر3،مال روڈ پر منعقد ہو رہی ہے،جس کی صدارت جاوید ہاشمی کریں گے اور مہمانانِ خصوصی میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ، ڈاکٹر امجد ثاقب ، سہیل احمد ، سجاد میر ، ارشاد احمد عارف ، پروفیسر ہمایوں احسان ، ڈاکٹر عاصم اللہ بخش ، محمد عامر خاکوانی اور عمران نقوی شامل ہیں ۔ حویلیاں میں ایک ادبی تقریب حویلیاں میں گزشتہ دنوں ایک پُروقار ادبی تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس کا بنیادی مقصد دو کتب کی تقریبِ رونمائی تھا، جن میں سے ایک نوجوان شاعر کاشفؔ بٹ کا شعری مجموعہ ’’خدا بانٹ لیا ہے‘‘ تھی اور دوسری کتاب ’’ثقافتِ ہزارہ اور اس کا تاریخی پسِ منظر‘‘ معروف شاعر و محقق محمد بشیر رانجھا کی تحقیق پہ مشتمل تھی، جسے ہزارہ چیئر ہزارہ یونی ورسٹی کے زیر اہتمام شایع کیا گیا ہے۔ تقریب کی نظامت افسانہ نویس ساجد خان نے کی ،اس تقریب کے مہمانِ خصوصی کرنل (ر) سید مقبول حسین تھے جبکہ اسد بیگ، محترمہ فرزانہ جاناں اورپروفیسر محمد زمان مضطر مہمانانِ اعزاز کی حیثیت سے شریکِ محفل تھے۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
پاکستانی فلمی موسیقی کا درخشاں باب اے حمید

پاکستانی فلمی موسیقی کا درخشاں باب اے حمید

پاکستانی فلمی موسیقی کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی، تو ایک نام سنہری حروف میں ضرور رقم ہوگا،اور وہ نام ہے اے حمید کا۔ تین دہائیوں پر محیط شاندار فلمی کریئر، 70 سے زائد فلموں کی موسیقی اور 450 سے زیادہ دل کو چھو لینے والے نغمے اس عظیم موسیقار کے فن کا واضح ثبوت ہیں۔ے حمید پاکستانی فلمی موسیقی کا ایک بہت بڑا نام تھے۔ وہ کمال کے موسیقار تھے کہ ان کے بہت کم گیت ایسے ہیں جو مقبول نہ ہوئے ہوں، ان کے سپرہٹ گیتوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ مادری زبان پنجابی ہونے کے باوجود اردو فلموں کے سکہ بند موسیقار تھے اور پورے فلمی کریئر میں صرف 8 پنجابی فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔1933ء میں امرتسر (بھارت) میں پیدا ہونے والے شیخ عبدالحمید، جنہیں فلمی دنیا میں اے حمید کے نام سے شہرت ملی، نے تقسیم ہندکے بعد پاکستان میں فنِ موسیقی کا آغاز کیا۔ ان کی پہلی فلم ''انجام‘‘ 1957ء میں ریلیز ہوئی، لیکن اصل شہرت انہیں 1960ء کی فلم ''رات کے راہی‘‘ سے ملی۔ اس فلم کا لازوال گیت ''کیا ہوا دل پہ ستم، تم نہ سمجھو گے بلم‘‘ آج بھی سننے والوں کو ایک الگ ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔اسی برس ایس ایم یوسف کی فلم ''سہیلی‘‘ نمائش پذیر ہوئی، جس نے نہ صرف باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑے بلکہ اے حمید کی حیثیت کو بھی مستحکم کر دیا۔اس فلم کے گیت ''کہیں دو دل جو مل جاتے‘‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔1962ء کی فلم ''اولاد‘‘، اور بعد ازاں آشیانہ (1964ء)، توبہ (1965ء ) اور بہن بھائی (1968ء ) میں ان کے کمپوز کردہ نغمات زبان زد عام ہوئے۔ فلم ''توبہ‘‘ کی قوالی ''نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ہم کہاں جاتے‘‘ آج بھی کلاسیکی موسیقی کے چاہنے والوں کے دلوں کو چھو جاتی ہے۔اے حمید کا فن صرف رومانوی یا روایتی فلمی دھنوں تک محدود نہیں رہا۔ 1971ء میں ریاض شاہد کی فلم ''یہ امن‘‘ میں انہوں نے سنجیدہ اور قومی جذبے سے بھرپور موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم کا گیت ''ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو‘‘ مہدی حسن اور نور جہاں کی آواز میں ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔1972ء میں شریف نیئر کی فلم ''دوستی‘‘ نے سپر ہٹ کا درجہ حاصل کیا۔ اے حمید کی ترتیب دی گئی موسیقی، قتیل شفائی، کلیم عثمانی اور تنویر نقوی کے لکھے ہوئے گیتوں کے ساتھ، فلم کی کامیابی کی بنیاد بنی۔ ''یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شاہ زادیاں‘‘ اور ''چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے‘‘ جیسے گیت آج بھی شائقین کو جھومنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔1974ء میں فلم ''سماج‘‘ کیلئے ان کا دیا ہوا سنگیت، اور 1976ء میں حسن طارق کی فلم ''ثریا بھوپالی‘‘ کی موسیقی، اے حمید کے فن کی معراج سمجھی جاتی ہے۔ خصوصاً ناہید اختر کی آواز میں گائے گئے گیت آج بھی دل کی گہرائیوں تک اثر کرتے ہیں۔پنجابی زبان ان کی مادری زبان تھی، مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تمام تر فنی زندگی میں صرف آٹھ پنجابی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان میں 1976ء کی فلم ''سوہنی مہینوال‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، جس کے نغمے سیف الدین سیف کے لکھے ہوئے تھے اور اے حمید نے انہیں جادوئی دھنوں سے سجا دیا۔اے حمید کو موسیقی سے والہانہ لگاؤ تھا۔ انہوں نے پونا فلم انسٹی ٹیوٹ سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ پیانو بجانے میں بھی مہارت رکھتے تھے اور ان کے بیشتر کمپوزیشنز میں مغربی اور مشرقی موسیقی کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ان کے ساتھ کام کرنے والے شعرا میں فیاض ہاشمی، قتیل شفائی، سیف الدین سیف اور حبیب جالب جیسے بڑے نام شامل ہیں، جنہوں نے ان کے سنگیت کو نغمات کی شکل میں امر کر دیا۔20 مئی 1991ء کو راولپنڈی میں ان کا انتقال ہوا، مگر ان کی موسیقی آج بھی زندہ ہے، دلوں کو چھوتی ہے اور سننے والوں کو ماضی کے سنہری دور میں لے جاتی ہے۔ اے حمید کا نام ہمیشہ پاکستانی فلمی موسیقی کی تاریخ میں روشن رہے گا۔اے حمید کے چند مقبول عام گیتکیا ہوا دل پہ ستم ، تم نہ سمجھو گے بلم(رات کے راہی)ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے(سہیلی)مکھڑے پہ سہرا ڈالے ، آجا او آنے والے (سہیلی)کہیں دو دل جو مل جاتے، بگڑتا کیا زمانے کا (سہیلی)نام لے لے کے تیرا ہم تو جئیں جائیں گے (فلم اولاد)نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا، ہم کہاں جاتے(توبہ)چٹھی جرا سیاں جی کے نام لکھ دے(دوستی)یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شاہ زادیاں (دوستی)کس نام سے پکاروں، کیا نام ہے تمہارا(غرناطہ)ظلم رہے اور امن بھی ہو ، کیا ممکن ہے(یہ امن)اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں(انگارے)چند دلچسپ حقائق٭... پہلی فلم کی طرح ان کی آخری فلم ''ڈسکو دیوانے‘‘کے ہدایتکار بھی جعفربخاری تھے۔٭...اے حمید نے سو سے زائد گیت نغمہ نگار فیاض ہاشمی سے لکھوائے تھے۔٭...زیادہ تر گیت میڈم نورجہاں ، مالا ، مہدی حسن اور منیر حسین سے گوائے۔٭...گلوکار اے نیر کو دریافت کیا،فلم ''بہشت‘‘ (1974ء) میں روبینہ بدر کے ساتھ دوگانا ''یونہی دن کٹ جائیں، یونہی شام ڈھل جائے‘‘ گوایا تھا۔٭...معروف پاپ سنگر نازیہ حسن کو بھی پہلی بار ہدایتکار حسن طارق کی اردو فلم سنگدل (1982) میں گوایا تھا جس میں یہ گیت تھا ''ڈسکو دیوانے‘‘ بین الاقوامی شہرت کی حامل اس پاکستانی گلوکارہ کی پہچان اس کا پہلا سپرہٹ ڈسکو گیت تھا''آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے‘‘یہ گیت بھارتی فلم ''قربانی‘‘ کیلئے گایا گیا تھا۔ 

جنگ عظیم اول ٹینن برگ اور جھیل میسورین کے محاذ

جنگ عظیم اول ٹینن برگ اور جھیل میسورین کے محاذ

جنگ عظیم اوّل 1914ء سے 1918ء تک جاری رہی، اس دوران جنگ میں شریک ممالک کے درمیان مختلف محاذوں پر مختلف لڑائیاں ہوئیں۔ جن میں سے کچھ کی شہرت اور اہمیت اپنی مثال آپ ہے۔ ان ہی لڑائیوں میں سے ایک ٹینن برگ کے محاذ پر لڑی گئی جبکہ دوسری جھیل میسورین کے محاذپر لڑی گئی، جن کا ذکر نیچے کیا جا رہا ہے۔ٹینن برگ کا محاذروس اپنے اتحادی فرانس کی خوشنودی اور اپنے دیرینہ دشمن جرمنی پر حملہ کرنے کیلئے جنگ کے آغاز سے ہی بے چین تھا۔ جنگ چھڑتے ہی روسی جنرل آف سٹاف کو معلوم ہو گیا تھا کہ جرمنی فرانس پر حملہ کر چکا ہے۔ اس صورتحال میں دوسرا منصوبہ عمل میں لایا گیا۔ جس کے تحت 20لاکھ فوج جو روس کی کل فوج کا ایک تہائی تھا، جرمنی کی سرحد پر صف آرا کر دی گئی۔مشرقی پروشیا پر مشرق اور جنوب مشرق سے حملہ کرنے کیلئے پہلی آرمی جنرل پاوّل رینن کیمپف اور دوسری آرمی جنرل الیگزینڈر سام سونوو کی قیادت میں روانہ کی گئی۔ ان دو آرمیز کی کمان جنرل آئیوان زہیلن سکائی کے ذمے تھی۔ جنرل زہیلن سکائی نے اپنے دونوں افواج کو تیزی سے سرحدوں کی طرف بڑھ کر دشمن پر حملہ کرنے کی ہدایت کی۔17اگست کو جنرل رینن کیمپف کی پہلی آرمی نے سرحد پار کی۔ منصوبے کے مطابق جنرل سام سونوو کو 5دن بعد سرحد عبور کرنا تھی۔ جنرل رینن کیمپف نے جرمن افواج کو شمال اور مشرق میں منتشر کرنا تھا جبکہ جنرل سام سونوو نے آگے بڑھ کر ان کے عقب سے حملہ آور ہو کر پہلی آرمی سے آن ملنا تھا۔جرمن مشرقی محاذ کے کمانڈر جنرل میکس وان پریٹ ویٹز نے روس کی پہلی آرمی کو مشرقی پروشیاء میں داخل ہو کر آگے بڑھنے کا موقع دینے اور پھر اچانک اس پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہوئے سرحد پار دھکیل دینے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اس کے پہلی کور کے سرگرم کمانڈر جنرل ہرمن وان فرینکوئز نے از خود آگے بڑھ کر روس کی پہلی آرمی کا راستہ روک دیا اور روسی افواج کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ جنرل فرینکوئز کا یہ عمل ایک مستحسن اقدام تھا مگر دوسری طرف جنرل پریٹ وٹز کے منصوبے کے منافی تھا۔جنرل پریٹ وٹز کیلئے وقت بہت قیمتی تھا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ 5دن بعد جنرل سام سونوو اپنی دوسری آرمی کے ہمراہ سرحد عبور کر لے گا۔ اس لئے اسے 5دن سے پہلے پہلے روس کی پہلی آرمی سے فیصلہ کن جنگ کرکے اسے انتہائی لاغر کرتے ہوئے سرحد پار دھکیلنا اور جنوب میں آنے والی پہلی آرمی کیلئے صف آرا ہونا تھا۔ خوش قسمتی سے جنرل رینن کیمپف کو کسی بڑے خطرے کا احساس ہی نہ ہوا اور وہ جنرل فرینکوائز کے اچانک پیچھے ہٹ جانے کے باوجود مسلسل دو دن تک آگے بڑھتا رہا۔20اگست کو جنرل پریٹ وٹز نے ایک بھرپور حملے کا حکم دیا۔ اس شدید حملے سے خاطر خواہ کامیابی تو حاصل نہ ہوئی مگر کسی قدر فتح ملی۔ تاہم اس ابتدائی معمولی کامیابی کے بعد صورتحال جوں کی توں رہی۔ اسی روز جنرل پریٹ وٹز کو یہ اطلاع ملی کہ جنرل سام سونوو کی دوسری آرمی بھی مشرقی پروشیا میں داخل ہو چکی ہے۔ تو اس نے دریائے وسٹولا کی طرف پسپائی کا حکم دیا۔اس صورتحال پر جنرل پریٹ وٹز کو برطرف کرتے ہوئے ریٹائر جنرل پائول وان ہنڈن برگ اور جنرل ایرک ایف ڈبلیو لیوڈنڈروف کو صورتحال سے نمٹنے کیلئے روانہ کیا۔ ہر دو جرنیلوں نے اپنی افواج کو دونوں محاذوں پر تقسیم کردیا۔ اس طرح جو فوج جنرل رینن کیمپف سے برسر پیکار تھی وہ اسے الجھاتی ہوئی شمال مغربی جانب لے گئی، جبکہ باقی فوج جنرل سام سونوو کی پہلی آرمی کو شمال، جنوب اور سامنے سے گھیرتی ہوئی ٹینن برگ کے تنگ مقام تک لے آئی۔ یہاں جرمن فوج کے پہلے کور نے دشمن کے تین کور جو عقب کے علاوہ تینوں اطراف سے گھرے ہوئے تھے، عقب میں آکر دشمن کو محصور کر دیا۔شدید لڑائی ہوئی۔31اگست تک روس کی ڈیڑھ لاکھ فوج میں سے صرف 10ہزارفوجی ہی جان بچا سکے۔ جرمن افواج کو شاندار فتح ہوئی۔ اور ان کے 10سے 15ہزار فوجی جنگ میں کام آئے۔ روسی جرنیل جنرل الیگزینڈر سام سونوو نے انتہائی مایوس صورتحال میں خود کشی کرلی۔جھیل میسورین کا محاذروس کے جرنیل زہیلن سکائی نے پہلی آرمی کو دوسری آرمی کی مدد کیلئے واپس بلایا مگر پہلی آرمی کے پہنچنے سے قبل ہی دوسری آرمی کا جرمن افواج کے ہاتھوں صفایا ہو گیا۔ تب پہلی آرمی نے واپس اپنے محاذ کا رخ کیا۔ اب بحیرہ بالکان سے لے کر جھیل میسورین تک روس کے اوّلین محاذ کی پٹی پر پہلی آرمی کو صف آرا ہونا تھا۔ کیونکہ زہیلن سکائی سمجھ رہا تھا کہ جرمن وارسا پر ضرور حملہ آور ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ روس کے جنوبی محاذ پر آسٹریا، ہنگری کی گلیشیا میں صورتحال بہت نازک تھی اور وہ جرمن افواج سے وارسا پر حملہ کرنے کا تقاضا کر رہے تھے تاکہ دشمن کی توجہ گلیشیا سے ہٹ کر وارسا کے دفاع کی جانب مبذول ہو جائے۔لیکن جرمن افواج کیلئے وارسا پر حملہ آور ہونے سے پہلے جنرل رہینن کیمپف کی آرمی کو ختم کرنا اہم تھا۔9،10ستمبر کو جرمن پہلے کور نے لائک کے قریب روس کے دوسرے کور کو شدید لڑائی کے بعد پسپا کر دیا۔ جنرل رہینن کیمپف نے ایک اور ٹینن برگ کے خوف سے فوراً ہی اپنی افواج کو دستبردار ہوتے ہوئے پسپائی کا حکم دیا۔چونکہ ابھی روسی افواج پوری طرح زیر و زبر نہیں ہوئی تھیں۔ ان میں دم خم باقی تھا۔ اس لئے جنرل ہینن کیمپف نے جرمن حملے کے خدشے کے پیش نظر ایک جوابی حملہ کیا۔ جس میں جرمن افواج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ تاہم روس کی پہلی آرمی کو 50گھنٹے میں 55 کلو میٹر پسپا ہو کر روس کی سرحد میں داخل ہونا پڑا۔ اس مرتبہ جنرل رہینن کیمپف کی پہلی آرمی دوسری آرمی کی طرح مکمل طور پر گھیرے میں نہ آ سکی۔ پھر بھی جرمن افواج روس کی پہلی آرمی کو شدید نقصانات پہنچانے میں کامیاب رہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

کاسمک مائیکرو رتابکاری کی دریافتکاسمک مائیکرو بیک گرائونڈ تابکاری کی دریافت کو جدید طبعی کاسمولوجی میں ایک اہم پیش رفت سمجھا جاتاہے۔ اس کی دریافت امریکی ماہر طبیعیات آرنو ایلن اور ریڈیو فلکیات دان رابرٹ ووڈ روولسن کی جانب سے20مئی 1964ء کو کی گئی۔کاسمک تابکاری کی دریافت پر ان ماہرین کو فزکس کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ ان کی اس دریافت کو جدید فزکس کا نقطہ آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔کیوبا آزاد ہواکیوبا جسے جمہوریہ کیوبا بھی کہا جاتا ہے نے 20مئی1902ء کو ریاستہائے متحدہ سے آزادی حاصل کی۔کیوبا دراصل ایک جزیزہ نما ملک ہے بلکہ کئی چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے۔ کیوبا یوکاٹن جزیرہ کے مشرق میں امریکی ریاست فلوریڈا اور بہاماس دونوں کے جنوب میں جبکہ ہسپانیولا کے مغرب میں اور جمیکا اور کیمن جزائر کے شمال میں واقع ہے۔ ہوانا اس کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ دوسرے بڑے شہروں میں سینٹیاگو ڈی کیوبا اور کیماگوئی شامل ہیں۔ جاپان میں بدترین زلزلہ20مئی 1293ء کو جاپان میں تاریخ کے بدترین زلزلوں میں سے ایک زلزلہ آیا۔ اس زلزلے میں 30 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ جاپان چونکہ بہت سی فالٹ لائنز پر موجو ہے، اس لئے اس کو زلزلوں کی سرزمین بھی کہا جاتاہے کیونکہ دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے جاپان میں ہی آتے ہیں۔ 1293ء کو آنے والے زلزلے کو جاپان کی تاریخ کے بدترین زلزلوں میں شمار کیاجاتا ہے۔ اس زلزلے کی وجہ سے جاپان میںبے گھر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔سنیما کا آغاز20مئی 1891ء کو جدید دور کے سنیما کا آغاز ہوا جب تھامس ایڈیسن کی جانب سے بنایا گیا ایک پروٹو ٹائپ منظر عام پر آیا۔ اس پروٹو ٹائپ کا نام کینیٹو سکوپ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ابتدائی موشن پکچر کا نمائشی آلہ بھی تھا جو فلموں کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا تاکہ ایک سے زیادہ افراد ایک ہی جگہ پر موجود ہوتے ہوئے فلم کسی بڑی سکرین پر فلم دیکھ سکیں۔ کینیٹو سکوپ پروجیکٹر تو نہیں لیکن اس نے آگے چل کر پروجیکٹر کی ایجاد میںاہم کردار ادا کیا۔مورحین کینیٹو کے ڈیزائن کو جدید سنیما کا نقطہ آغاز تصور کرتے ہیں۔ 

جھنڈوں کا جنگوں میں کردار

جھنڈوں کا جنگوں میں کردار

جھنڈوں کی ابتدا بارے مورخین ابھی تک یکسو نہیں ہیں۔ تاہم دستیاب معلومات کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ قدیم مصری ثقافت اور میسوپوٹیمیا میں قبل از مسیح ادوار کے برتنوں اور استعمال کی دیگر اشیاء پر جھنڈوں کی تصاویر ملی ہیں۔ جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ زمانۂ قدیم میں بھی جھنڈوں کا استعمال رواج پا چکا تھا ۔ ایسی ہی کچھ مثالیں زمانۂ قدیم میں یونان اور سلطنت فارس کے بادشاہوں کی بھی ملتی ہیں، جنہوں نے اپنی ذاتی شناخت کیلئے الگ جھنڈے بنا رکھے تھے۔ اس کے بعد تاریخ کی کتابوں میں بعد از مسیح ادوار ، یعنی آج سے لگ بھگ دو ہزار سال پہلے کچھ ممالک میں باقاعدہ طور پر پرچموں کا ذکر ملتا ہے۔ دور حاضر میں تو پرچم کو کسی بھی ملک کی شناخت سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ قدیم زمانے میں جو مستند معلومات دستیاب ہیں ان کے مطابق جھنڈوں کا استعمال جنگوں میں ایک اہم پیغام یا علامت کے طور پر ہوتا تھا۔ قدیم دور میں دوران جنگ، جب تک کسی ملک کا پرچم سرنگوں نہیں ہو جاتا تھا جنگ جاری رہتی تھی۔ سعودی عرب دنیا کا شاید واحد ملک ہے جس کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہیں ہوتا کیونکہ سعودی عرب کا جھنڈا کلمہ طیبہ والا جھنڈا ہے جو ہرمسلمان کیلئے مقدس اور باعث تکریم ہے۔دور جدید میں تو جب کسی ملک میں کوئی غیر متوقع سانحہ وقوع پذیر ہو جائے تو فوری طور پر اس ملک کے قومی پرچم کو سرنگوں کر دیا جاتا ہے۔گئے زمانوں میں جب جنگیں '' منجنیق‘‘ کے بل بوتے جیتی جاتی تھیں ، دشمن کی تنصیبات کو تباہ کرنا بنیادی ہدف ہوا کرتا تھا ۔ جس کا اگلا اہم مرحلہ دشمن کے لہراتے پرچم کو فوراً سرنگوں کرنا ہوتا تھا۔دشمن کا پرچم گرانا جہاں ایک فریق کی کامیابی تصور ہوا کرتی تھی وہیں اسے دوسرے فریق کی شکست سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ گویا ایک پرچم ہی کسی جنگ کی فتح اور شکست کا اعلان کیا کرتا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں ایسے واقعات بھی رقم ہوئے ہیں جب کوئی سپاہی دوران جنگ زخمی ہو کر گرنے لگتا تو سب سے پہلے اپنا پرچم اپنے دوسرے ساتھی کے حوالے کرتا ،تاکہ برسر جنگ ساتھیوں کو دور سے پرچم لہراتا ہوا نظر آتا رہے اور ان کے جوش و خروش میں کمی نہ آنے پائے۔ عرب قبائل میں جب بھی جنگیں ہوتیں لڑنے والے سپاہی اپنی نظریں مسلسل اپنے پرچم پر مرکوز رکھتے۔جب تک پرچم میدان میں لہراتا نظر آتا رہتا وہ لڑتے رہتے۔ پرچم کے گرنے کو پسپائی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔جس قبیلے کا پرچم گر جاتا اس کے جنگجو شکست کو تسلیم کرتے ہوئے منتشر ہو جایا کرتے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ کعبۃ اللہ کی خدمت کیلئے جب ذمہ داریاں سونپنے کا مرحلہ آیا تو ایک خاندان کے پاس کعبہ کی چابیاں آئیں، ایک خاندان کو آب زم زم کی ذمہ داریاں سونپی گئیں جبکہ قریش مکہ قبیلے کے حصے میں پرچم اٹھانے کی ذمہ داریاں آئیں۔ قریش مکہ کے پرچم کا رنگ ان دنوں کالا ہوا کرتا تھا، جسے '' عقاب‘‘ کہا جاتا تھا۔جھنڈوں کے حوالے سے مختلف روایات دنیا بھر میں جھنڈوں کے حوالے سے بہت ساری روایات صدیوں سے رائج چلی آ رہی ہیں۔جن میں سے ایک الٹا جھنڈا لہرانے کی روایت ہے جس کا مطلب خطرے کی نشان دہی یا مشکل صورت حال کی وجہ سے مدد کی اپیل ہوتی ہے۔ گئے زمانوں میں جب دوران جنگ کسی مورچے پر اسلحہ ، خوراک یا کسی بھی قسم کی مدد درکار ہوتی تو اپنے مورچے یا ٹھکانے کے باہر پرچم کو الٹا لٹکا دیا جاتا تھا۔الٹا پرچم لہرانے کی روایت صرف جنگوں تک ہی محدود نہیں بلکہ بعض ملکوں کے رہائشی علاقوں میں اپنے پڑوسیوں ، محلے داروں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد طلب کرنے کیلئے گھروں کی چھتوں یا داخلی دروازوں پر الٹا پرچم لہرا کر مدد طلب کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ کچھ ملکوں بارے تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ بیشتر لوگ ہائی ویز یا ویرانوں میں اپنی گاڑی خراب ہونے کی صورت میں الٹا پرچم لہرا کر مدد کیلئے اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے کا رواج عام ہے۔ علامت ، شناخت اور پیغام رسانیقدیم زمانے میں جنگوں کے دوران پرچموں کو مختلف رنگوں کے ساتھ مختلف پیغامات کیلئے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ عالمی طور پرچم کو ایک علامت ، شناخت اور پیغام رسانی کے طور پر اب بھی قابل عمل سمجھا جاتا ہے۔پرچم کی بناوٹ و ڈیزائنجہاں تک کسی بھی ملک کے پرچم کی بناوٹ اور ڈیزائن کا تعلق ہے تو اس ملک کے پرچم کے رنگ اس ملک کی ثقافت، مذہب اور وہاں کے نظریے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وطن عزیز پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کا سبز رنگ یہاں کے باسیوں کے مذہب اسلام کی عکاسی کرتا ہے جبکہ سفید رنگ یہاں بسنے والی دیگر اقوام کے مذاہب کے ساتھ امن اور بھائی چارے کی ترجمانی کرتا ہے۔اسی طرح آزاد کشمیر کے جھنڈے کا سبز رنگ میں چاند ستارہ اسلام اور پاکستان کے ساتھ وابستگی کی علامت کی ترجمانی کرتا ہے جبکہ اس میں چار سفید پٹیاں ریاست کے چار بڑے دریاؤں کی عکاسی کرتی ہیں۔کینیڈا کے پرچم کے سرخ رنگ کو دوسری جنگ عظیم میں قربانیاں دینے والوں سے منسوب کیا گیا ہے جبکہ سفید رنگ کو امن پسندی کی علامت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کینیڈا کے پرچم کو میپل لیف سے مشابہت دی گئی ہے جو ان کی ثقافت کی ترجمانی کرتا ہے۔ نیپال کے پرچم کے اوپر چاند جبکہ نیچے سورج بنایا گیا ہے اور ان کے گرد نیلے رنگ کا حاشیہ بنا ہوا ہے جو امن کا عکاس ہے ، سرخ رنگ ان کے ایک قومی پھول کہ ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔سفید جھنڈا امن کی علامتپاک بھارت حالیہ کشیدگی کے دوران یہ خبر نظر سے گزری کہ انڈیا نے اپنے کچھ علاقوں میں سفید پرچم لہرا دئیے۔کسی جنگ یا ہنگامی حالت میں سفید پرچم لہرانے کا مقصد جنگ میں اپنی شکست تسلیم کرنا ، جنگ ختم کرنا یا امن کی اپیل کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ سفید جھنڈا تاریخ اسلام میں امن اور جنگ دونوں صورتوں میں بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔روایت میں آیا ہے کہ کفار مکہ سے غزوۂ بدر کے موقع پر سفید جھنڈا ہی اسلامی فوج کا بنیادی علم تھا۔ عالمی سطح پر آج بھی سفید جھنڈا امن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 

حکایت سعدیؒ :دنیا پرست درویش

حکایت سعدیؒ :دنیا پرست درویش

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک درویش با خدا بستیوں سے کنارہ کش ہو کر جنگل میں آباد ہو گیا تھا۔ درختوں کے پتے کھا کر چشمے کا پانی پیتا اور ہر وقت یاد خدا میں مصروف رہتا، بزرگی کے آثار اس کے چہرے سے ظاہر تھے۔کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ملک کا بادشاہ شکار کھیلتا ہوا اس طرف آ نکلا۔ اس کی نگاہ اس بزرگ پر پڑی تو اس کے پاس گیا اور اس کے احوال سے آگاہ ہونے کے بعد اس سے درخواست کی کہ آپ ہمارے ساتھ دارالحکومت چلیں، ہم آپ کیلئے بہت عمدہ انتظام کر دیں گے، وہاں آپ کو ہر طرح کا آرام ملے گا۔درویش نے بادشاہ کی یہ بات ماننے سے انکار کیا اور کہا، میں یہیں ٹھیک ہوں۔ ایک وزیر بولا، حضور، بادشاہ سلامت کی یہ بات ماننے میں کوئی حرج تو نہیں، اگر شہر میں آپ کا دل نہ لگے تو پھر یہیں آسکتے ہیں۔ یہ بات درویش کی سمجھ میں آ گئی اور وہ بادشاہ کے ساتھ آگیا۔بادشاہ نے درویش کے رہنے کیلئے ایک شاندار مکان دے دیا جس میں باغ بھی تھا۔ خدمت کیلئے ایک لونڈی اور ایک غلام مقرر کر دیا اور درویش نہایت عزت اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگا۔کچھ عرصے بعد بادشاہ کو درویش کا خیال آیا تو وہ ملاقات کیلئے آیا۔ وہ تخت پر گاؤتکیے سے کمر لگائے بہت آرام میں رہنے اور اچھی غذا کھانے سے موٹا تازہ ہو گیا تھا اور اس کا رنگ نکھر آیا تھا۔بادشاہ نے اسے اس اچھی حالت میں دیکھا تو بہت خوشی ظاہر کی اور کہا، آپ جیسے بزرگوں کی خدمت کر کے مجھے دلی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ دانا وزیر ساتھ تھا، اس نے کہا، عالی جاہ! درویشوں کو عیش و آرام کا عادی بنا دینا ان کی خدمت نہیں ہے، ایسا کرنے سے ان کی روحانی ترقی رک جاتی ہے اور وہ دوسرے دنیا داروں کی طرح دنیا دار بن جاتے ہیں البتہ عالموں کو ضرور مالی امداد دینی چاہیے کہ وہ علم حاصل کرنے اور علم پھیلانے کیلئے فارغ ہو جائیں۔ حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں نہایت خوب صورت انداز میں یہ بات بتائی ہے کہ خدا اور دنیا کی چاہت الگ الگ دائر ے ہیں ان دونوں کی سمتیں واضح طور پر الگ الگ ہیں۔ اگر خدا پرست دنیاوی راحتوں کی تمنا کر ے گا تو بالآخر دنیا ہی میں پھنس جائے گا۔ ویسے یہ بات ممکن تو ہے کہ ایک شخص دنیاوی سازو سامان بھی رکھتا ہو اور با خدا بھی ہو، جیسا کہ خود حضرت سعدیؒ نے ایک حکایت میں یہ بات تسلیم کی ہے لیکن اس امتحان میں ہر شخص پورا نہیں اتر سکتا کہ اسے ہر طرح کی آسائش بھی حاصل ہو اور خدا کے راستے میں جان قربان کرنے کیلئے تیار بھی رہتا ہو جو درویشی کی اصل روح ہے۔

دنیا کی خوبصورت مساجد مرکزی جامع مسجد ٹوکیو(جاپان)

دنیا کی خوبصورت مساجد مرکزی جامع مسجد ٹوکیو(جاپان)

اس وقت جاپان میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ مسلمان ہیں جن میں تقریباً7ہزارمقامی جاپانی مسلمان بھی شامل ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق اس وقت جاپان میں 60کے قریب مساجد موجود ہیں اور آٹھ مساجد صرف دارالحکومت ٹوکیو میں ہیں۔ ٹوکیو کی مرکزی جامع مسجد شہر کی سب سے بڑی اور خوبصورت مسجد ہے، جسے ٹوکیو میں مقیم ترکوں نے اپنی کوششوں سے تعمیر کیا ہے۔1986ء میں ترکی کی حکومت نے ٹوکیو ٹرکش ایسوسی ایشن کو شہر میں جگہ خرید کر بطور عطیہ اس شرط پر دی کہ نئی مسجد تعمیر کی جائے۔ انہوں نے نئی مسجد کی تعمیر 1998ء میں شروع کی جو بالآخر 30جون 2000ء کو مکمل ہو گئی۔ اس مسجد کی تزئین و آرائش میں ترکی سے آئے ہوئے 100ماہر کاریگروں نے حصہ لیا۔ مرکزی ہال میں قرآنی خطاطی کا کام بھی ماہر خوش نویسوں کی کاریگری ہے۔ اس مسجد کے آرکیٹیکٹ محرم علی تھے۔ مسجد تین منزلہ ہے۔ داخلی دروازے کے اوپر مسجد کا سن تعمیر 1420ھ درج ہے۔ مرکزی ہال میں لکڑی کا کام اتنی خوبصورتی سے کیا گیا ہے کہ ماہر کاریگروں کے فن کی داد دینی پڑتی ہے۔ مسجد کا ایک مینار اور ایک بڑا مرکزی گنبد ہے۔ مینار کی بلندی 136فٹ اور گنبد کی فرش سے بلندی 77فٹ ہے۔ گنبد کا قطر 36فٹ ہے۔ مسجد عثمانی طرز سے تعمیر کی گئی ہے۔ مرکزی ہال میں 2000نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں اور خواتین کیلئے علیحدہ انتظام کیا گیا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر پر ڈیڑھ بلین ین لاگت آئی۔30جون 2000ء کو ترکی کے جاپان میں متعین سفیر یمان باسکل نے اس مسجد کا افتتاح کیا۔ ان کے ساتھ جاپان کے مذہبی امور کے وزیر بھی افتتاحی تقریب میں آئے ہوئے تھے۔2004ء میں ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان نے بھی اس مسجد کا دورہ کیا۔ ان کے ساتھ ترکی کے وزرائے مملکت ارکان پارلیمنٹ اور جاپان میں ترکی کے سفیر بھی موجود تھے۔جامع مسجد ڈاکار سینی گال (افریقہ)یہ مسجد سینی گال کے دارالحکومت ڈاکار میں واقع ہونے کی وجہ سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا ڈیزائن فرانسیسی اور مراکشی ماہرین تعمیرات نے باہم مل کر تیار کیا تھا اور اس کے اخراجات حکومت مراکش نے برداشت کئے اس مسجد کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ 1964ء میں اس کا افتتاح دو ملکوں کے حکمرانوں مراکش کے شاہ حسن ثانی اور سینی گال کے مسیحی صدر لیوپولڈ سیڈر سنگھور نے باہم مل کر کیا۔ یہ سینی گال کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے۔ یہ مسجد اندرونی اور بیرونی طرف انتہائی منقش کام کی وجہ سے بہت خوبصورت لگتی ہے، اس کے واحد مینار کی بلندی 220فٹ ہے۔کہا جاتا ہے کہ سینی گال کی پہلی مسجد شہری سلوی میں بنی تھی مگر اس کا سن تعمیر معلوم نہیں۔ اس وقت ڈاکار میں 1000سے زیادہ مسجدیں ہیں جبکہ پورے ملک میں مساجد کی تعداد 50ہزار سے زائد ہے۔مرکزی جامع مسجد، ابوجا( نائیجیریا)اس مسجد کو ملک کی قومی مسجد کا درجہ حاصل ہے۔ یہ مسجد نائیجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں 1984ء میں بنائی گئی۔اس کے چاروں کونوں پر چار مینار اور ان پر چار ہی چھوٹے گنبد ہیں جبکہ ایک مرکزی گنبد ہے جس کا قطر118فٹ اور بلندی 197فٹ ہے۔ ہر مینار کی بلندی 308فٹ ہے۔ مسجد کے مرکزی ہال میں 5000نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ہال کے اوپر تینوں اطراف میں گیلریاں بنی ہوئی ہیں جن میں 1500خواتین نماز پڑھ سکتی ہیں۔ اس مسجد کے ساتھ ایک لائبریری اور ایک کانفرنس روم بھی بنایا گیا ہے جس میں 1500اشخاص کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ مسجد کے چیف امام، ڈپٹی امام اور موذن کی رہائش گاہیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ابوجا کی تاریخ اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب نائیجیریا کی حکومت نے 1980ء میں لاگوس سے دارالحکومت ابو جا منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابو جا کے آزادی چوک میں دارالحکومت کے شایان شان ایک خوبصورت مرکزی مسجد تعمیر کرنے کا سوچا گیا۔ ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے فیصلہ کیا کہ اس مسجد کا ڈیزائن ایسا ہو جو شہر کے ہر حصے سے برابر نظر آئے۔ چنانچہ AIMکنسلٹنٹس کمپنی نے جو دیدہ زیب ڈیزائن بنایا واقعی وہ ایسا ہی تھا۔ اس مسجد کا رقبہ55382مربع فٹ ہے اور یہ نہ صرف ابوجا بلکہ پورے نائیجیریا کی انتہائی خوبصورت مسجد ہے۔جامع مسجد روم(اٹلی)یہ مسجد نہ صرف اٹلی بلکہ پورے یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے۔ اس کا رقبہ 3,20000مربع فٹ ہے اور اس میں 12000نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ مسجد روم شہر میں مائونٹ انٹین کے دامن میں واقع ہے جو کہ سر سبز علاقہ ہے۔ یہ اٹلی کا مرکزی اسلامک سنٹر بھی ہے۔1970ء کی دہائی میں افغانستان کے ایک جلاوطن شہزادے محمد حسن اور اس کی بیوی شہزادی رضیہ بیگم کے باہمی اشتراک سے اس مسجد کی تعمیر عمل میں آئی اور شاہ فیصل نے بھی مالی معاونت کا وعدہ کیا۔ روم شہر کی سٹی کونسل نے اس کے لئے زمین تحفتاً دی لیکن کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر اس کا سنگ بنیاد 1984ء (1405ھ) میں رکھا گیا۔ کیتھولک فرقہ کے روحانی پیشوا پوپ جان پال دوم نے خصوصی دعا کی۔ جب مسجد مکمل ہو گئی تو جذبہ خیر سگالی کے پیش نظر اٹلی کے صدر نے 21جون 1995ء کو اس کا افتتاح کیا۔کیتھولک مسیحی فرقے کے گڑھ میں یورپ کی سب سے بڑی مسجد کا وجود ہی اسلام کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کی تعمیر میں تھوڑا سا اختلاف اس وقت پیدا ہا جب مسجد کے مینار کی بلندی رومن چرچ سے بڑھنے لگی لیکن بعد ازاں اس مسئلے کو نہایت خوش اسلوبی سے اس طرح حل کر لیا گیا کہ مینار کی بلندی سینٹ پیٹر چرچ سے دو فٹ کم کردی گئی۔ اب گنبد کی بلندی 130 فٹ اور مینار کی بلندی 141فٹ ہے۔ اس مسجد کے ساتھ ایک لائبریری بھی قائم کی گئی ہے جس میں دس ہزار کتابیں رکھی گئی ہیں۔