علماء فرنگی محل

علماء فرنگی محل

اسپیشل فیچر

تحریر : عامر ریاض


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

علماء فرنگی محل کون تھے، ان کی کیا خدمات تھیں اور انہوں نے خصوصاً عام مسلمانوں کے لیے کیا کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیے، شائد آج کا طالب علم ان سے ناواقف ہے۔ لندن مقیم مشہور محقق و پروفیسر فرانسس روبنسن نے تو فرنگی محلی علماء بارے تحقیقی مضامین پر مشتمل گرانقدر کتاب بھی لکھ دی تھی اور حال ہی میں مجھے ای میل پر انہوں نے بتایا کہ وہ جمال میاں فرنگی محلی کی سوانح بھی لکھ رہے ہیں۔ یہ وہی جمال میاں فرنگی محلی ہیں جو قائداعظمؒ کے رفقاء خاص میں شامل تھے۔ آج جو ہم آخری چہار شنبہ، عیدمیلادالنبیؐ اور دوسرے مذہبی تہوار مناتے ہیں ان روایات کی وسیع پیمانے پر داغ بیل ڈالنے کا سہرا بھی انہی فرنگی محلی علماء کے سر بندھتا ہے۔ جلال الدین اکبر کے زمانے سے ان کے کام اور کتب کی تفاصیل بارے روبنسن نے ہمیں سیر حاصل معلومات دیں ہیں۔ ان علماء کی آخری موثر لڑی مولانا عبدالباری فرنگی محلی پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ یہ وہی مولانا عبدالباری تھے جنہوں نے 20 ویں صدی کے دوسرے عشرے کے ابتدائی برسوں میں ’’بزم صوفیا ہند‘‘ بنا کر شہرت حاصل کی تھی۔ ان دنوں ابھی سعودی عرب تو نہیں بنا تھا اور سلطنت عثمانیہ اپنے بکھرتے ہوئے اقتدار کو بچا رہی تھی۔ حجاز مقدس میں صحابہ و مقدس ہستیوں کے قبروں کے انہدام کی خبریں گرم ہوئیں تو مولانا نے اس کے خلاف زبردست احتجاج ریکارڈ کروایا۔ یہی مولانا عبدالباری تھے کہ جنہوں نے اپنی تمام تر ریاضت، جدوجہد اور سیاسی اثاثہ کو تحریک خلافت میں لگا دیا۔ اس تحریک کی قیادت کرنے والا نوجوان رہنما، مولانا محمد علی جوہر، مولانا عبدالباری ہی کا شاگرد خاص تھا۔ مگر اس شاگرد نے ایک اہم موقع پر جب اپنے استاد کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے حسین احمد مدنی وغیرہ کا ساتھ دیا تو عبدالباری کو نہایت دکھ ہوا کہ وہ دل کا دورہ پڑنے سے خالق حقیقی سے جا ملے۔ مولانا محمد علی جوہر کو بھی معلوم تھا کہ ان کے استاد کے دل پر کیا بیتی ہے۔ فرانسس روبنسن نے اپنی کتاب ’’علماء فرنگی محل اور جنوبی ایشیائی اسلام‘‘ (انگریز) میں لکھا ہے کہ خود مولانا جوہر تین دن اپنے استاد کی قبر پر جا کر روتے رہے۔ یہ کتاب بعد ازاں فیروز سنز نے لاہور میں انگریزی میں چھاپ دی تھی مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ فرنگی محل علماء کے بارے میںاردو میں لکھا جائے۔ حیران نہ ہوں، یہ مولانا عبدالباری ہی تھے جنہوں نے جمعیت علماء ہند کے تاسیسی اجلاس کی صدارت بھی کی۔ مگر اس جماعت نے ان سے وفا نہ کی۔ مولانا عبدالباری کے فرزند جمال میاں تحریک پاکستان میں بھی سرگرم رہے مگر ان کی کھری کھری باتیں لیاقت علی خان اور ان کے حواریوں کو بہ وجوہ پسند نہ آئیں۔ ان کا استدلال تھا کہ اسلام کو ریاستی امور میں استعمال کرنے سے مذہب متنازعہ بنے گا اور اس کی توقیر میں کمی آئے گی۔ صوفیا اور اولیا کو ماننے والے ان لوگوں کو اپنوں نے بھی بھلا دیا اور غیروں سے تو کسی نیکی کی امید بھی نہ تھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
دنیا کا سب سے جان لیوا جانور کونسا ؟

دنیا کا سب سے جان لیوا جانور کونسا ؟

جب زمین کے سب سے جان لیوا جانور کا ذکر آتا ہے تو آپ کے ذہن میں شاید شیر، سانپ یا شارک کا خیال آئے؟ لیکن ذرا اور چھوٹے پیمانے پر سوچیے! انسانوں کیلئے سب سے مہلک جانور ایک ایسا کیڑا ہے جو ایک کاغذی کلپ سے بھی چھوٹا ہوتا ہے، اور وہ ہے ''اینو فِلیز مچھر‘‘۔2017ء میں گنیز ورلڈ ریکارڈز نے باقاعدہ طور پر ''اینو فلیز مچھر‘‘ کو ''انسان کا سب سے جان لیوا جانور‘‘ قرار دیا تھا، جو ہر سال اندازاً 7لاکھ 25ہزار سے لے کر 10 لاکھ تک اموات کا باعث بنتا ہے۔یہ مچھر، خاص طور پر صرف مادہ مچھر دنیا بھر میں ملیریا پھیلانے کیلئے مشہور ہے، جو ایک مخصوص قسم کے طفیلی (parasite) پلازموڈیم کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ مچھر زیادہ تر گرم مرطوب آب و ہوا اور ٹھہرے پانی والے علاقوں جیسے تالابوں، دلدلی علاقوں اور ندی نالوں کے کنارے پائے جاتے ہیں۔ملیریا کے علاوہ، اینو فِلیز مچھر کچھ دیگر خطرناک بیماریوں کے پھیلاؤ کا ذریعہ بھی بنتا ہے، جیسے ''O'nyong'nyong virus‘‘ اور ''لیمفیٹک فیلاریاسس‘‘ (Lymphatic Filariasis) یا ''الیفنٹیاسس‘‘(elephantiasis)۔ یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ صرف اینو فلیز نسل کی مادہ مچھر ہی ملیریا منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے چھوٹے سے کیڑے کی اتنی بڑی تباہی کی وجہ کیا ہے؟ تو اس کا جواب ہے، خوراک حاصل کرنے کا عمل۔ جب ایک بالغ مچھر پانی کی سطح سے نکلتا ہے تو وہ پھولوں کے رس پر گزارا کرتا ہے تاکہ توانائی حاصل کر سکے۔ لیکن مادہ مچھر کو اپنے انڈے پیدا کرنے کیلئے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی عمل مچھر کو ایسے طفیلی کیڑے یا وائرس سے آلودہ کر دیتا ہے، جو وہ پھر انسانوں اور دوسرے جانداروں میں منتقل کرتا ہے۔جب مچھر کسی متاثرہ شخص کو کاٹتا ہے تو وہ اس کے خون میں موجود مرض (مثلاً ملیریا کا طفیلی) اپنے جسم میں لے لیتا ہے۔ یہ مرض مچھر کے جسم میں افزائش پاتا ہے اور جب وہ مچھر کسی دوسرے انسان کو کاٹتا ہے تو وہ یہ مرض اپنی تھوک کے ذریعے اس انسان کے خون میں منتقل کر دیتا ہے۔ یوں یہ خطرناک چکر چلتا رہتا ہے۔اس کے اثرات صدیوں سے دنیا بھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران مشہور مصنف ڈاکٹر سوس (اصل نام: تھیوڈور گائزل) نے امریکی فوجیوں کیلئے ملیریا سے بچاؤ کی مہم میں حصہ لیا۔ انہوں نے ایک کردار ''بلڈتھرسٹی این‘‘ (خون کی پیاسی این) تخلیق کیا، جو دراصل اینو فِلیز مچھر کی نمائندہ تھی۔ ڈاکٹر سوس، جو اس وقت امریکی فوج میں کیپٹن کے عہدے پر فائز تھے، نے اس کردار کے ذریعے اس مہلک مچھر کے بارے میں شعور اجاگر کیا، خاص طور پر اس وقت جب اتحادی افواج کو ملیریا سے بچاؤ کی دواؤں تک رسائی محدود ہو گئی تھی۔ ہم خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟خاص طور پر جب ہم گرم اور مرطوب علاقوں میں ہوں، تو اپنے آپ کو اور اپنے پیاروں کو ان مہلک مچھروں کے کاٹنے سے بچانے کیلئے درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں۔٭...ایسے کپڑے پہنیں جو پورے جسم کو ڈھانپیں (لمبی آستینوں والی قمیصیں، پاجامے یا پینٹ)۔٭...مچھر بھگانے والی کریمیں یا اسپرے استعمال کریں ۔٭...مچھر دانی یا نیٹ کا استعمال کریں، خاص طور پر سوتے وقت۔٭...ٹھہرے پانی سے پرہیز کریں یا اسے ختم کریں جہاں مچھر انڈے دے سکتے ہیں (مثلاً پرانے ٹائر، بالٹیاں، گملے)۔٭...کھڑکیوں اور دروازوں پر جالیاں لگوائیں تاکہ مچھر گھر میں داخل نہ ہوں۔یہ چھوٹے اقدامات آپ کی اور دوسروں کی زندگی کو بڑی بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔اینو فلیز مچھر، جو نظر نہ آنے کے برابر ہے، ہر سال لاکھوں انسانوں کی جان لے لیتا ہے اور اسی وجہ سے یہ دنیا کا سب سے خطرناک جانور مانا جاتا ہے۔جدید علاج کے باوجود خطرہ باقی ہے، آج کے جدید سائنسی دور میں ملیریا کا علاج ممکن ہے، لیکن ابھی تک کوئی ایسی ویکسین موجود نہیں جو ملیریا کی تمام اقسام سے مکمل تحفظ فراہم کر سکے۔مچھر کا خطرناک ریکارڈاندازوں کے مطابق مچھروں نے انسانی تاریخ میں 50ارب سے زائد لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔اس کے مقابلے میںشیروں سے تقریباً 5 لاکھ اموات ہوئیں جبکہ شارک کے ہاتھوں صرف 50 ہزار اموات۔  

طنزومزاح:کرکٹ میچ

طنزومزاح:کرکٹ میچ

اسکول کے زمانے میں ہم ہاکی کھیلاکرتے تھے اور کچھ اچھا ہی کھیلتے تھے کہ ہم کو اسکول کی اس ٹیم میں لے لیا گیا تھا جو ٹورنامنٹ کھیلنے والی تھی۔ چنانچہ ہم ٹورنامنٹ کے میچوں میں کھیلے اور خوش قسمتی سے ہماری ٹیم فائنل میں بھی پہنچ گئی۔ پہنچ کیا گئی، بلکہ جیت ہی جاتی اگر ہماری نظریں عین اس وقت جب کہ ہم آسانی سے گول بچا سکتے تھے تماشائیوں میں والد صاحب پر نہ پڑ جاتیں جو آئے تو تھے میچ دیکھنے مگر آنکھیں بند کیے کچھ بڑبڑا رہے تھے اور کچھ عجیب رقت انگیز چہرہ بنا ہواتھا ان کا۔ ہم نے ان کو دل ہی دل میں کہا کہ آج کہاں آگئے اور وہاں شور ہوا گول ہوجانے کا۔ اس شور سے ہم بھی چونکے اور والد صاحب نے بھی آنکھیں کھول دیں اور کچھ ایسی قہر آلود نگاہوں سے دیکھا کہ ہم کو ہاکی سے طبیعت اچاٹ کرکے رکھ دی۔ اب ہماری ٹیم لاکھ لاکھ زور لگاتی ہے گول اتارنے کیلئے مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس طرف کی ٹیم کے کسی کھلاڑی کے والد صاحب تماشائیوں میں تھے ہی نہیں۔ نتیجہ یہ کھیل ختم ہوگیا اور ہماری ٹیم ہار گئی۔ اب جس کو دیکھیے وہ ہم ہی کو اس کاذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔''بھئی یہ ہوا کیا تھا۔ سو گئے تھے کیا؟‘‘''کمال کردی تم نے گیند ٹہلاتا ہوا تمہارے سامنے سے گول میں چلا گیا اور تم منہ اٹھائے کھڑے رہے۔ حد کردی تم نے بھی‘‘۔''ہارنے کا افسوس نہیں ہے۔ مگر یہ تو مفت کی ہار ہوئی‘‘۔تماشائیوں میں سے ایک صاحب کہتے ہوئے نکل گئے۔ ''رشوت میں افیم ملی تھی کھانے کو، گولی کھاکر گول کرا لیا۔‘‘اب کسی کو ہم کیا بتاتے کہ ہم پر کیا قیامت گزر رہی تھی اس وقت۔ لعنتیں برستی رہیں ہم پر اور ہم سر جھکائے سب کچھ سنتے رہے،اس لیے کہ واقعی قصور اپنا ہی تھا۔ دوسری اس لعنت ملامت کی پرواہ کس کو تھی۔ دل تو اس وقت کے تصور سے دھڑک رہا تھا جب گھر پہنچ کر والد صاحب کے سامنے پیشی ہوگی۔ بمشکل تمام اس مجمع سے جان بچا کر تھکے ہارے گھر جو پہنچے تو ڈیوڑھی میں قدم رکھتے ہی والد صاحب کی گرجدار آواز سنائی دی۔''مگر میں پوچھتا ہوں کہ مجھے آج تک کیوں نہ معلوم ہوا کہ صاحبزادے کو خودکشی کا یہ شوق بھی ہے، تم تو یہ کہہ کر چھٹی پاگئیں کہ یہی ہوتا ہے کھیل کود کا زمانہ‘‘۔والدہ صاحبہ نے فرمایا ''تو کیا غلط کہا میں نے کس کے بچے نہیں کھیلتے‘‘۔والد صاحب نے میز پر گھونسہ مارتے ہوئے فرمایا۔ ''پھر وہی کھیل اے جناب یہ موت کا کھیل ہوتا ہے موت کا۔ گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے ہر طرف اور خدا ہی کھیلنے والوں کو بچاتا ہے۔ میراصغر علی کا نوجوان لڑکا ہائے کیا تندرستی تھی اس کی۔ اس کھیل کی نذر ہوگیا۔ کلیجہ پر پتھر کا گیند لگا سانس بھی نہ لی اور جان دے دی۔ باپ نے بڑھ کر پیشانی کو بوسہ دیا اور آج تک کلیجہ پکڑے پھرتے ہیں۔ اگر کچھ ہوجائے اس کے دشمنوں کو تو تمہارا کیا جائے گا۔ میں تو ہائے کرکے رہ جاؤں گا دونوں ہاتھ مل کر۔‘‘ 

آج کا دن

آج کا دن

ایکسپلورر41958ء میں آج کے روز ناسا کا ابتدائی سیٹلائٹ مشن ''ایکسپلورر 4‘‘ کوفلوریڈا سے لانچ کیا گیا۔ اس مشن کا مقصد ''وین ایلن ریڈی ایشن کا مشاہدہ، خلائی تابکاری کا تجزیہ اور زمینی مقناطیسی میدان پر ایٹمی تجربات کے اثرات کا مطالعہ کرنا تھا۔ ''ایکسپلورر 4‘‘نے تقریباً 3 ماہ تک کام کیا اور 6 اکتوبر 1958ء کو اس کا زمینی رابطہ ختم ہو گیا۔مصر پر برطانوی حملہ1882 ء میں آج کے روز برطانیہ نے سویز کینال پر قبضے کی خاطر برطانوی افواج نے اسکندریہ پر حملہ کیا، جو بعد میں مصر پر برطانوی تسلط کا سبب بنا۔ 1869 میں سویز نہر(Suez Canal) کی تعمیر ہوئی، جو یورپ اور ایشیا کے درمیان تجارت کیلئے انتہائی اہم بحری راستہ بن گئی۔برطانیہ کیلئے یہ نہر ہندوستان تک رسائی کا سب سے تیز اور اہم ذریعہ تھی۔خواتین کا پہلا کرکٹ میچ26جولائی 1745ء کوخواتین کے درمیان تاریخ کا پہلا کرکٹ میچ کھیلا گیا۔ یہ مقابلہ براملی اور ہیمبلڈن کی خواتین ٹیموںکے درمیان کروایا گیا۔ سبھی کھلاڑی سفید لباس میں ملبوس تھیں۔ سر سرخ ربن باندھے ہیمبلڈ ن کی ٹیم نے 127 رنز بنائے جبکہ سر پر نیلا ربن باندھے براملی کی ٹیم نے 119 رنز بنائے۔ 

پاکستان پلاسٹک آلودگی میں سرفہرست

پاکستان پلاسٹک آلودگی میں سرفہرست

برسات کے موسم میں شہری نالے اور نکاسی آب کا نظام اکثر شدید دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں طغیانی، پانی کی نکاسی میں رکاوٹ اور اربن فلڈنگ جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ان مسائل کی ایک بڑی مگر نظر انداز کی جانے والی وجہ پلاسٹک کی آلودگی ہے جو برساتی نالوں میں رکاوٹ پیدا کر کے پانی کے بہاؤ کو روک دیتی ہے۔ شاپنگ بیگز، پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر غیر تحلیل پذیر کچرا نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کو بڑھا رہا ہے بلکہ شہری انفراسٹرکچر کیلئے بھی خطرہ بن چکا ہے۔ہر سال عالمی سطح پر 30 کروڑ ٹن سے زیادہ پلاسٹک تیار کیا جاتا ہے اور اس میں سے نصف ایک ہی بار استعمال کیا جاتاہے۔ پلاسٹک کے استعمال میں اضافے کی اس لہر کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پلاسٹک کے استعمال کے چیلنج سے نبردآزما ہے۔ سائنسی میگزین ''نیچر ‘‘میں شائع ہونے والی برطانیہ کی یونیورسٹی آ ف لیڈز کی ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں پلاسٹک کا سب سے زیادہ کچرا پیدا کرنے والے پہلے آٹھ ممالک میں شامل ہے۔ کراچی دنیا بھر میں پلاسٹک کا سب سے زیادہ کچرا پیدا کرنے والے پہلے چار شہروں میں شامل ہے۔ ورلڈ بینک کی 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ سے بحیرہ عرب میں 40 فیصد کچرا شامل ہوتا ہے جس کا تین چوتھائی حصہ سودا سلف کے لیے استعمال ہونے والی پلاسٹک کے کچرے ، جوس کے ڈبوں، بچوں کے ڈائیپرز ، فیس ماسک، سرنجوں اور کئی تہوں والی پیکیجنگ میں استعمال ہونے والی باریک پلاسٹک پر مشتمل ہوتا ہے۔ پلاسٹک کے اس کچرے کو گھروں کے کوڑنے میں ڈال دیا جاتا ہے ،اسے پھینکنا آسان مگر اس کے ماحولیاتی نقصانات سے نمٹنا مشکل ہوتا ہے۔دنیا بھر میں پلاسٹک کا استعمال 1950 کے وسط میں عام ہوا اور اس نے زندگی کو تبدیل کر دیا کیوں کہ یہ ہلکا، سستا اور آسانی سے قابل استعمال سمجھا جاتا ہے اور چیزیں لانے لیجانے کے لیے اس کا استعمال بے حد بڑھ گیا۔ پلاسٹک کی بے تحاشا تیاری اور استعمال کی وجہ سے اس کا جو کچرا بنا اسے تلف کرنے کے بندو بست پر اس پیمانے پر کام نہیں کیا گیا ۔پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کی فوری ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی پائیداری کی کوششوں کو کامیاب بنایا جا سکے۔ بائیو ڈیگریڈایبل متبادل کے استعمال، ری سائیکلنگ کے اقدامات اور ماحولیاتی آگاہی کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، حکومتی سطح پر جامع پالیسی فریم ورک کا قیام بھی ضروری ہے تاکہ پلاسٹک کی آلودگی پر قابو پایا جا سکے اور پاکستان کو ایک صاف اور صحت مند ماحول فراہم کیا جا سکے۔ماحولیات اور صحت کے ماہرین پلاسٹک کے پھیلاؤ کے ماحولیات اور صحت کے لیے خطرات اور اس کے انسانی اور آبی حیات حیات پر مضر اثرات بارے آگاہ کرتے رہتے ہیں ۔اس زمانے میں ہم اپنی زندگی میں سے پلاسٹک کے استعمال کو شاید مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتے تا ہم اس کے استعمال کو کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہماری بطور شہری ایک اہم ترین ذمہ داری پلاسٹک کو صحیح طرح سے ٹھکانے لگانا بھی ہے۔ پلاسٹک کو گھر کے دیگر کچرے میں ڈال کر پھینکنا ماحول کے لیے شدید خطرناک ہے۔ پلاسٹک کو ٹھکانے لگانے کے لیے مناسب اقدامات ضروری ہیں ۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو پلاسٹک کا استعمال کم کرنے اور صحیح طریقے سے ٹھکانے لگانے کے بارے آگاہی فراہم کرے۔  

سرن کائنات کے رازوں کی بازیافت

سرن کائنات کے رازوں کی بازیافت

سرن جسے یورپی جوہری تحقیقی مرکز بھی کہتے ہیں دنیا کی سب سے بڑی ذرّاتی طبیعیات کی لیبارٹری ہے۔ یہ فرانس اور سوئٹز رلینڈ کی سرحد پر واقع ہے ، اس ادارے کا قیام 1954ء میں عمل میں آیا اور اس میں 23 یورپی ممالک شامل ہیں۔ سرن کا بنیادی مقصد کائنات کے بنیادی اجزاکو سمجھنا ہے۔ اس کے سائنسدان مادے کے چھوٹے سے چھوٹے ذرات کا مطالعہ کرتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کائنات کیسے کام کرتی ہے۔ اس کے لیے وہ بڑے پیمانے پر تجربات کرتے ہیں جن میں ذرات کو انتہائی تیز رفتار سے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ اس تصادم سے نئے ذرات پیدا ہوتے ہیں جن کا مطالعہ کر کے سائنسدان کائنات کے رازوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کائنات 13ارب 80 کروڑ سال پرانی ہے جبکہ زمین کو تشکیل پائے ہوئے تقریباًپانچ ارب سال ہو چکے ہیں۔ ہماری کائنات نے ایک خوفناک دھماکے سے جنم لیا تھا۔ یہ دھماکہ بگ بینگ کہلاتا ہے۔ بگ بینگ کے بعد کائنات میں تقریباً 1100ارب بڑی اور چھوٹی کہکشائیں پیدا ہوئیں۔ ہر کہکشاں میں زمین سے کئی گنا بڑے اربوں سیارے اور کھربوں ستارے موجود ہیں۔ یہ کائنات ابھی تک پھیل رہی ہے۔یہ کہاں تک جائے گی‘ یہ کتنی بڑی ہے اور اس میں کتنے بھید چھپے ہیں، ہم انسان تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود اس کا صرف 4فیصد جانتے ہیں۔ کائنات کے96فیصد راز تاحال ہمارے احاطۂ شعور سے باہرہیں۔یہ96 فیصد نامعلوم بھی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ 44فیصد حصہ وہ ہے جس کے بارے میں ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم اسے نہیں جانتے۔سائنسدان اس 44 فیصد حصے کو ''Dark matter‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ڈارک میٹر سپر انرجی ہے۔ ہمارا سورج اس انرجی کے سامنے صحرا میں ذرے کے برابر ہے۔سائنسدان کائنات کے باقی 52 فیصد نامعلوم کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہم اسے نہیں جانتے۔ ہمیں کائنات کو سمجھنے کے لیے اس کی بنیاد کو سمجھنا ہو گا۔یہ جاننا ضروری ہے کہ بگ بینگ کیسے اور کیوں ہوا اور اس کے فوری بعد کیا ہوا تھا جس سے کائنات نے جنم لیا ۔ انسان کے پاس یہ حقیقت جاننے کے لیے دو طریقے ہیں‘ ہم کوئی ایسی ٹائم مشین بنائیں جو ہمیں 13ارب 80 کروڑ سال پیچھے اُس وقت میں لے جائے جب بگ بینگ ہوا تھا اور کائنات وجود میں آنے لگی۔ یہ ظاہر ہے ممکن نہیں۔ دوسرا طریقہ سائنسدان لیبارٹری میں ''Big Bang‘‘ کریں اور کائنات کی پیدائش کے پورے عمل کا مشاہدہ کر لیں۔ یہ طریقہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ؛چنانچہ سائنسدانوں نے 1952ء میں اس پر کام شروع کیا۔اس نادر کام کے لیے جنیواکے مضافات میں فرنے کے مقام پر جگہ تلاش کی گئی اور سوئٹزرلینڈ اور فرانس نے مل کر لیبارٹری بنانا شروع کر دی۔یہ لیبارٹری CERNکہلاتی ہے۔یہ کام دو ملکوں اور چند سو سائنسدانوں کے بس کی بات نہیں تھی ؛چنانچہ آہستہ آہستہ دنیا کے 38 ممالک کی 179 یونیورسٹیاں اور فزکس کے 4 ہزار ماہرین اس منصوبے میں شامل ہو گئے۔ سائنسدانوں نے پہلے حصے میں زمین سے 100 میٹر نیچے 27کلو میٹر لمبی دھاتی سرنگ بنائی۔اس سرنگ میں ایسے مقناطیس لگائے گئے جو کشش ثقل سے کروڑ گنا طاقتور ہیں۔مقناطیس کے اس فیلڈ کے درمیان دھات کا 22 میٹر اونچا اور 15 ہزار ٹن وزنی چیمبر بنایا گیا‘ یہ چیمبر کتنا بھاری ہے آپ اس کا اندازہ آئفل ٹاور سے لگا لیجیے کہ دنیا کے اس سب سے بڑے دھاتی سٹرکچر کا وزن 7300ٹن ہے۔سرن کا چیمبر اس سے دگنا بھاری ہے۔سائنسدانوں کو اس عمل میں چالیس سال لگ گئے۔سائنس دانوں کا خیال ہے مادے کی اس دنیا کا آدھا حصہ غیر مادی ہے۔ یہ غیر مادی دنیا ہماری دنیا میں توانائی کا ماخذ ہے۔یہ لوگ اس غیر مادی دنیا کو ''Antimatter‘‘ کہتے ہیں۔یہ اینٹی میٹر پیدا ہوتا ہے، کائنات کو توانائی دیتا ہے اور سیکنڈ کے اربویں حصے میں فنا ہو جاتا ہے۔ سرن کے سائنسدانوں نے چند ماہ قبل Antimatter کو 17 منٹ تک قابو میں رکھا۔ یہ کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ یہ لوگ اگر Antimatter کو لمبے عرصے کے لیے قابو کر لیتے ہیں تو پوری دنیا کی توانائی کی ضرورت چند سیکنڈز میں پوری ہو سکتی ہے‘ دنیا کو بجلی اور پٹرول کی ضرورت نہیں رہے گی۔سرن ایک انتہائی مشکل اورمہنگا پراجیکٹ ہے اور سائنسدان یہ مشکل کام65 سال سے کر رہے ہیں۔سرن لیبارٹری اور پاکستان میں اس لحاظ سے ایک تعلق موجود ہے کہ پاکستانی نژاد نوبل انعام یافتہ ماہر فزکس ڈاکٹر عبدالسلام کی تھیوری نے سرن میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا ریکٹر اس وقت بھی سرن کے لان میں یادگار کے طور پر نصب ہے۔سرن میں پاکستانی سائنسدانوں کا نمایاں کردار ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے بلکہ پاکستان کا نام بین الاقوامی سطح پر روشن کیا ہے۔ پاکستانی سائنسدان مختلف شعبوں میں سرن میں کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ اہم شعبوں میں ذرّاتی طبیعیات، طبیعیات کی تھیوری اور کمپیوٹر سائنس شامل ہیں۔ ان سائنسدانوں نے مختلف تجربات میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے اور کئی اہم دریافتوں میں حصہ لیا ہے۔2015ء میں پاکستان کو سرن کی ایسوسی ایٹ رکنیت بھی مل گئی۔ پاکستان یہ رکنیت حاصل کرنے والا پہلا غیر یورپی ملک ہے۔ پاکستان اور سرن نے 1994ء میں ایک تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے تھے اور اس کے بعد کئی پروٹوکولز پر بھی دستخط کیے گئے اور پاکستان نے CMS اور ATLAS تجربات میں تعاون کیا۔ پاکستان ALICE اور CMS تجربات میں بھی حصہ لے رہا ہے جبکہ پاکستان ایکسلریٹر ڈیویلپمنٹس میں بھی شامل ہے جو پاکستان کو CERN کے لیے ایک اہم شراکت دار بنا رہا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

شاہ فاروق کی معزولی 23جولائی 1952ء کو مصر کے شاہ فاروق اول کے خلاف فوجی افسران نے بغاوت کر دی جس کی قیادت محمد نجیب اور جمال عبد الناصر کر رہے تھے۔اس انقلاب نے عرب دنیا میں انقلابی سیاست کی ایک لہر کا آغاز کیا اور سرد جنگ کے دوران میں ڈی کالونائزیشن کے عمل کو بڑھانے اور تیسری دنیا کی یکجہتی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ انقلابی حکومت نے کٹر قوم پرست، سامراج مخالف ایجنڈا اپنایا، جس کا اظہار خاص طور پر عرب قوم پرستی اور غیر وابستہ ممالک کی تحریک کے ذریعے کیا گیا۔سرحدی معاہدہ23 جولائی 1881ء کو ارجنٹائن اور چلی کے درمیان سرحدی معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کا مقصد زمین کی تقسیم پر ہونے والے تنازعات کو حل کرنا تھا۔ دونوں ممالک کی سرحد پر ایسے کئی علاقے تھے جس پر دونوں حکمرانی کا دعویٰ کرتے تھے۔ ان متنازع علاقوں کی منصفانہ تقسیم کیلئے یہ معاہدہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ارجنٹائن اور چلی کے درمیان 5600 کلومیٹر طویل سرحد وجود میں آئی۔ یہ معاہدہ ان تاریخی معاہدوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جنہوں نے دو ملکوں کے درمیان جنگ کے امکانات کو کم کیا اور امن قائم ہوا۔ٹائپو گرافرپیٹنٹ1829ء میں آج کے روز' ٹائپو گرافر‘ نامی مشین کے حقوق ولیم آسٹن برٹ کے نام پر محفوظ کئے گئے۔ آگے چل کر اس مشین کا نام ٹائپ رائٹر پڑا اور اس ایجاد نے لوگوں کو دستاویزات ٹائپ کرنے کے قابل بنایا، جو تحریری ٹیکنالوجی کے ارتقا میں ایک اہم قدم ہے۔ ولیم آسٹن بنیادی طور پر ایک سروئیر تھا۔41 سال کی عمر میں وہ ریاستہائے متحدہ کا ڈپٹی سرویئر بن گیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد برٹ نے اپنا شمسی کمپاس بنایا اور اس نے 1836 میں اپنے سروے کا آغاز کیا۔ ٹرانس ایشیاحادثہٹرانس ایشیا ایئرویز کی پرواز 222 کاؤسینگ، تائیوان سے ماگونگ، پینگھو جزیرے تک ایک طے شدہ پرواز تھی۔ 23 جولائی 2014ء کو ATR 72-500 جہاز ماگونگ ہوائی اڈے پر خراب موسم میں لینڈ کرنے کے دوران عمارتوں سے ٹکرا گیا۔ جہاز میں سوار 58 افراد میں سے صرف 10 زندہ بچ سکے۔ ابتدائی طور پر طوفانMatmoکواس حادثے کا سبب سمجھا جا رہا تھا ۔ لیکن تائیوان کی ایوی ایشن سیفٹی کونسل کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ جہاز کے پائلٹ جہاز کو کم اونچائی پر رکھ کر اتار رہے تھے جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔