علماء فرنگی محل
علماء فرنگی محل کون تھے، ان کی کیا خدمات تھیں اور انہوں نے خصوصاً عام مسلمانوں کے لیے کیا کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیے، شائد آج کا طالب علم ان سے ناواقف ہے۔ لندن مقیم مشہور محقق و پروفیسر فرانسس روبنسن نے تو فرنگی محلی علماء بارے تحقیقی مضامین پر مشتمل گرانقدر کتاب بھی لکھ دی تھی اور حال ہی میں مجھے ای میل پر انہوں نے بتایا کہ وہ جمال میاں فرنگی محلی کی سوانح بھی لکھ رہے ہیں۔ یہ وہی جمال میاں فرنگی محلی ہیں جو قائداعظمؒ کے رفقاء خاص میں شامل تھے۔ آج جو ہم آخری چہار شنبہ، عیدمیلادالنبیؐ اور دوسرے مذہبی تہوار مناتے ہیں ان روایات کی وسیع پیمانے پر داغ بیل ڈالنے کا سہرا بھی انہی فرنگی محلی علماء کے سر بندھتا ہے۔ جلال الدین اکبر کے زمانے سے ان کے کام اور کتب کی تفاصیل بارے روبنسن نے ہمیں سیر حاصل معلومات دیں ہیں۔ ان علماء کی آخری موثر لڑی مولانا عبدالباری فرنگی محلی پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ یہ وہی مولانا عبدالباری تھے جنہوں نے 20 ویں صدی کے دوسرے عشرے کے ابتدائی برسوں میں ’’بزم صوفیا ہند‘‘ بنا کر شہرت حاصل کی تھی۔ ان دنوں ابھی سعودی عرب تو نہیں بنا تھا اور سلطنت عثمانیہ اپنے بکھرتے ہوئے اقتدار کو بچا رہی تھی۔ حجاز مقدس میں صحابہ و مقدس ہستیوں کے قبروں کے انہدام کی خبریں گرم ہوئیں تو مولانا نے اس کے خلاف زبردست احتجاج ریکارڈ کروایا۔ یہی مولانا عبدالباری تھے کہ جنہوں نے اپنی تمام تر ریاضت، جدوجہد اور سیاسی اثاثہ کو تحریک خلافت میں لگا دیا۔ اس تحریک کی قیادت کرنے والا نوجوان رہنما، مولانا محمد علی جوہر، مولانا عبدالباری ہی کا شاگرد خاص تھا۔ مگر اس شاگرد نے ایک اہم موقع پر جب اپنے استاد کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے حسین احمد مدنی وغیرہ کا ساتھ دیا تو عبدالباری کو نہایت دکھ ہوا کہ وہ دل کا دورہ پڑنے سے خالق حقیقی سے جا ملے۔ مولانا محمد علی جوہر کو بھی معلوم تھا کہ ان کے استاد کے دل پر کیا بیتی ہے۔ فرانسس روبنسن نے اپنی کتاب ’’علماء فرنگی محل اور جنوبی ایشیائی اسلام‘‘ (انگریز) میں لکھا ہے کہ خود مولانا جوہر تین دن اپنے استاد کی قبر پر جا کر روتے رہے۔ یہ کتاب بعد ازاں فیروز سنز نے لاہور میں انگریزی میں چھاپ دی تھی مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ فرنگی محل علماء کے بارے میںاردو میں لکھا جائے۔ حیران نہ ہوں، یہ مولانا عبدالباری ہی تھے جنہوں نے جمعیت علماء ہند کے تاسیسی اجلاس کی صدارت بھی کی۔ مگر اس جماعت نے ان سے وفا نہ کی۔ مولانا عبدالباری کے فرزند جمال میاں تحریک پاکستان میں بھی سرگرم رہے مگر ان کی کھری کھری باتیں لیاقت علی خان اور ان کے حواریوں کو بہ وجوہ پسند نہ آئیں۔ ان کا استدلال تھا کہ اسلام کو ریاستی امور میں استعمال کرنے سے مذہب متنازعہ بنے گا اور اس کی توقیر میں کمی آئے گی۔ صوفیا اور اولیا کو ماننے والے ان لوگوں کو اپنوں نے بھی بھلا دیا اور غیروں سے تو کسی نیکی کی امید بھی نہ تھی۔