کائنات کے اسرار اور قرآنی انکشافات
کائنات کی تخلیق اور اس کے اسرار و رموز انسانی جستجو کا محور رہے ہیں اسی فکرِ میں سرگرداں انسان کا ہزاروں سال پہلے شروع ہونے والا سفر منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ جدید سائنسی نظریات اور تحقیقات کے ذریعے وہ فلکیاتی حقائق سامنے آرہے ہیں جن کا چند سوسال پہلے تک تصور بھی محال تھا۔ مختلف قسم کی کہانیاں زدِ عام تھیں۔ مختلف مذاہب نے چاند، سورج اور زمین سے متعلق مختلف باتیں کی جو وقت کے ساتھ غلط ثابت ہوئیں لیکن حیرت انگیز طور پر تقریباً 1500 سال پہلے قرآن میں اﷲ نے کائنات سے متعلق جو حقائق بیان کیے وہ تمام من وعن سائنسی تجربات کی کسوٹی پر پورا اُترے۔ قرآن پاک نے خود کہا، ’’ابھی ہم انہیں دکھائیں گے اپنی آیتیں دُنیا بھر میں اور خود ان کے آپے میں یہاں تک کہ اِن پر کُھل جائے کہ بے شک وہ (قرآن) سچائی ہے۔‘‘اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کو عقل مند کہا جو کائنات کی تخلیق پر غور و فکر کرتے ہیں بلکہ انہیں دعوت دی کہ وہ تحقیق کریں جس کی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ’’بے شک زمین اور آسمان کی پیدائش اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں‘‘۔کائناتی وسعت یا پھیلائو سے متعلق کا یہ تَصوّراب تجرباتی طور پر صحیح ثابت ہوگیا ہے کہ ہر کہکشاں دوسری کہکشاں سے دُور ہٹتی جارہی ہے۔اس طرح کائنات کی جسامت بڑھ رہی ہے اور جس قدر کہکشائیں دورہٹتی جارہی ہیں ان کی جگہ دوسری کہکشائیں بنتی جائیں گی۔ جس کا انکشاف 1948ء میں کوہ پلومر(امریکا کی ایک بڑی دوربین) نے کیا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے جس کا تذکرہ قرآن مجیدمیں اس طرح ہے، ’’ہم نے آسمان کو قوّت سے بنایا اور ہم اس میں توسیع کرتے رہیں گے۔‘‘ فلکیاتی ماہرین کی تحقیق بتاتی ہے کہ ستاروں کابننا دراصل مختلف گیسوں ہیلیئم اور ہائیڈروجن کا آمیزہ ہے جس کا نتیجہ ستاروں کی پیدائش ہے۔ ارشاد ربانی ہے کہ ’’پھر آسمان کی طرف قصد فرمایا اور وہ دھواں تھا۔‘‘اﷲ تعالیٰ نے ایک جگہ ستاروں کو چراغوں سے تشبیہہ دیتے ہوئے فرمایا، ’’اور ہم نے نیچے کے آسمان کو چراغوں سے آراستہ کیا۔‘‘(سورۃ السجدہ)زمین اور دوسرے سیاروں سے متعلق مختلف ادوار میں مختلف باتیں سامنے آتی رہیں لیکن جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی کہ زمین سمیت ہمارے نظام شمسی کے تمام سیارے کشش کے تحت مستقل کائنات کی وسعتوں میں تیررہے ہیں۔ ایسے کروڑ ہا نظام شمسی موجود ہیں جس میں سے ایک نظام ہمارا بھی ہے جہاں نہ تو زمین اپنے محور سے نکل کر سورج میں گھس سکتی ہے اور نہ ہی چاند زمین میں، اس طرح دوسرے تمام سیارے بھی اپنے اپنے محور میں گردش کررہے ہیں۔ اس نظامِ کشش کا مرکز سورج ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اے سُننے والے! کیا تونے نہ دیکھا کہ اﷲ رات لاتا ہے دن کے حصے میں اور دن کرتا ہے رات کے حصے میں اور اس نے سورج اور چاند کام میں لگائے ہر ایک مقرر معیاد تک چلتا ہے۔‘‘جس بات کی تصدیق آج سائنس کرتی نظر آتی ہے کہ 1500 سال پہلے اﷲ تعالیٰ نے قرآن کے ذریعے اس کا واشگاف اعلان اس طرح کیا،’’سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑلے اور نہ رات دن پر سبقت لے جائے اور ہر ایک گھیرے میں تیر رہا ہے۔‘‘(سورۂ یٰسین)کتنی بڑی حقیقت کا انکشاف ڈیڑھ ہزار سال پہلے کردیا گیا کہ یہ سیارے ہر ایک مختلف یعنی اپنے محور میں محوِحرکت ہے اور سورج اور چاند کو مثال بنا کر دوسرے سیاروں کو بھی اپنے اپنے محور میں گردش کرنے کا جواز دے دیا۔ نا صرف سیاروں کی حرکت بلکہ لامحدود فاصلے پر واقع ستاروں کی حرکت کاثبوت بھی اس آیت میں ملتا ہے، ’’تو قسم ہے ان کی جو اُلٹے پھریں۔ سیدھے چلیں۔ تھم رہیں۔‘‘مغربی ذرائع ابلاغ میں خاص طور پر اسلام مخالف طاقتیں اِس بات پر مُصر ہیں کہ زمین کہ حرکت سے متعلق ابہام ہے کہ قرآن میں زمین کے سکوت کا ذکر ہے جب کہ زمین تو حرکت کررہی ہے اور اِس بات کو جواز بنا کر طرح طرح کا پروپیگنڈہ انٹرنیٹ کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ قرآن پاک میں سورج اور زمین کے ذیلی سیارے چاند کی گردش کا ذکر موجود ہے لیکن یہ حقیقت نظر انداز کی جاتی ہے حالاں کہ زمین کے سکوت سے متعلق تو خود بائبل میں کہا گیا ہے،’’اس نے زمین کو قائم کیا بنیادوںپر، یہ کبھی حرکت نہیں کرسکتی۔‘‘حرکت کے قوانین اور حرکت کی تشریح کے مطابق حرکت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ حرکت جو کسی کے تابع نہ ہو یعنی خود ارادی حرکت کرنا یا حرکت دینا اور پھر خود رُک جانا یا روک دینا جب کہ دوسری تابع حرکت ہے۔ جو کسی نظام کے تحت ہو جو کوئی ساکن جسم بھی کرسکتا ہے جیسا کہ ایک ہواباز(پیراٹروپر) جب فضاء سے زمین کی طرف آتا ہے تو وہ بظاہر ساکن ہے لیکن وہ کشش ِثقل کے تحت حرکت میں ہے اور اپنی منزل پر پہنچ کر اُتر جائے گا (یعنی زمین پر)۔ بالکل اسی طرح سمندر میں تیرتی کشتی جس میں انجن یا چَپو بھی نہیں ہے۔ بظاہر وہ ساکت ہے مگر لہروں کی حرکت پر ڈول رہی ہے اب نا تو وہ مخالف سمت میں جاسکتی ہے اور نہ ہی اِدھر اُدھر ہوسکتی ہے۔ بس جس طرف لہریں لے جائیں اسی طرف جائے گی، بالکل اِسی طرح زمین اور دوسرے سیاروں کی حرکت تابع ہے ۔یہ اجسام بظاہر ساکت ہیں لیکن نظام شمسی کے تحت اپنے اپنے دائروں میں محو گردش ہیں۔ جہاں زمین ناتو خود رُک سکتی ہے، نامخالف حرکت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنے گھیرے یا مدار سے نکل سکتی ہے۔ جس کا ذکر قرآن میں اﷲ تعالیٰ نے متعدد جگہ فرمایا، ’’سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑلے اور نہ رات دن پر سبقت لے جائے اور ہر ایک ایک گھیرے میں تیر رہا ہے۔‘‘ (سورۂ یٰسین)اسی طرح زمین کے توازن سے متعلق فرمایا، ’’اور اُس نے آسمان بنائے ایسے بے ستونوں کے جو تمہیں نظر آئیں اور زمین میں لنگر ڈالے کہ تمہیں لے کر نہ کانپے۔‘‘مفسرین کے مطابق لنگر سے مُراد پہاڑ ہیں۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ لنگر سے تشبیہہ کیوں دی، لفظ پہاڑ بھی استعمال کیا جاسکتا تھا لیکن اِس میں بھی اﷲ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ لنگر اور کشتی کا گہرا تعلق ہے جو اسے اونچی نیچی لہروں میں بھی توازن قائم رکھتا ہے۔ بالکل اِسی طرح پہاڑ مختلف موسمی تغیرات، زلزلوں یا شہاب ثاقب کے ٹکرانے کی صورت میں زمین کو توازن دیتے ہیں کہ وہ اپنے محو ر سے باہر نہ نکل سکے ،جس کا تذکرہ کچھ اس طرح ملتا ہے، ’’بے شک اﷲ روکے ہوئے ہے آسمانوں اور زمین کو کہ جنبش نہ کریں اور اگر وہ ہٹ جائیں تو انہیں کون روکے اﷲ کے سوا۔‘‘بلیک ہول(جیسا کہ نام سے ظاہر ہے تاریک دائرہ) ایک ایسا گھیرا جو بے انتہا کشش رکھتا ہے اور بڑے سے بڑے جسم کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ بلیک ہول کے بارے میں کچھ اشارے معروف سائنس دان آئزک نیوٹن نے بھی دیئے اور گزرتے زمانے کے ساتھ اس کے حوالے سے مختلف نظریات سامنے آتے رہے۔ جدید سائنس بلیک ہول کے بارے میں بتاتی ہے کہ یہ ایسے سیاہ دائرے ہیں جو ایک بڑا کششی میدان رکھتے ہیں اور بڑے بڑے ستارے جو سورج سے بھی کئی گنا بڑے ہیں جیسے ہی اِسی کششی میدان(Field) میں داخل ہوتے ہیں Singnatury کی طرف کھینچ جاتے ہیں اور ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ تقریباً دو سو سال پہلے ایک انگلش جیولوجسٹ جون مائیکل نے اِن تاریک دائروں پر تحقیق کے بعد انکشاف کیا کہ روشنی جو 186,000 میل فی گھنٹہ سے سفر کررہی ہے وہ بھی اگر اِسی کششی میدان میں داخل ہوجائے تو Singnatury کی طرف کھینچ جاتی ہے۔ ناسا(NASA) اِن بلیک ہول کے بارے میں کچھ اِس طرح انکشاف کرتا ہے،’’جب کوئی ستارہ سورج سے تقریباً 25 گنا زیادہ بڑا ہوجاتا ہے تو ستارے کا بیرونی حصہ اندرونی کو ر کے مسلسل پھیلنے کے باعث بیرونی حصے سے ٹکرائو کا باعث بنتا ہے ،جس کے نتیجے میں ایک بھیانک دھماکے کے بعد اس سیارے کی موت ہوجاتی ہے۔ اسے سُپر نورا کہتے ہیں اور پھر ایک بڑا خلاء پیدا ہوتا ہے جسے بلیک ہول کہتے ہیں ۔اِس عمل کے نتیجے میں نئے ستاروں کی تشکیل بھی ہوتی ہے اور پرانے ستارے اگر اس میدان میں داخل ہوجائیں تو مردہ ہوجاتے ہیں۔یہ تحقیق جاری ہے اور جسے طفلِ مکتب کہنا مناسب ہوگا ۔اس کے بارے میں 1960ء میں سائنسی ماہرین نے یہاں تک کہہ دیاتھا کہ بلیک ہول ایک ایسا معمہ ہے جو سائنس دانوں کے مختلف نظریات و قوانین کو کھا رہا ہے یعنی نظریات مفروضے بنتے جارہے ہیں لیکن اِن تمام ادھوری تحقیقات کے باوجود قرآن پاک میں بلیک ہولز کے بارے میں جو انکشاف کیا گیا وہ متعصب سائنسی ماہرین کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، ’’ تو مجُھے قسم ہے اِن جگہوں کی جہاںتارے ڈوبتے ہیں اور تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے۔‘‘اﷲ رب العزت نے ستاروں کے ڈوبنے کی جگہ کی ناصرف قسم فرمائی بلکہ اس کے بڑے ہونے کا بھی ذکر کیا اِسی طرح ایک جگہ اور تاروں سے ہی متعلق فرمایا’’پھر جب تارے محو کردیئے جائیں۔‘‘نیبولا(Nebula) لاطینی لفظ ہے جس کے معنی ہیں چھوٹا بادل۔ نیبولا کی سائنسی ماہرین کے نزدیک کئی اقسام ہیں لیکن جو آج کل موضوع بحث ہے وہ (Planeetry Nebula) یعنی سیارچی نیبولا ہے۔ یہ ایک ایسا تین رنگوں (نیلا، سرخ اور سبز ) سے مزین سلفر، آکسیجن اور ہائیڈروجن کا آمیزہ ہے جو اپنے اندربڑی بڑی کہکشائیں سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کی تصویر ہبل ٹیلی اسکوپ کے ذریعے NASA تک پہنچی تھی۔جس نے اِس کائنات سے متعلق نہ صرف مزید انکشاف کئے وہیں قرآن پاک کی ایک اور حیرت انگیز سچائی دُنیا کے سامنے آئی۔ یہ ایک کھِلتاہوا گلاب لگتا ہے جو تقریباً 3000 نوری سال کے فاصلے پر ہے ۔اس کا نام (Red Rose Nebula) ہے جسے سائنس اپنی زبان میں NGC-6543 NASA کہتی ہے۔ اِس سُرخ کھلتے گلاب کا تذکرہ قرآن پاک میں اس طرح ہے وہ ایک ایسی حقیقت کا انکشاف ہے جس پر بڑے بڑے سائنسی ماہرین انگشت بدنداں ہیں بلکہ کئی غیر ملکی ماہرین تو ان کا تذکرہ قرآن میں پڑھ کر مسلمان ہوگئے جو اسلام کی حقانیت اور سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔’’پھر جب آسمان پھٹ جائے گا تو گلاب کے پھول جیسا ہوجائے گا جیسے سرخ نری(چمڑا)۔‘‘یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ جن کائناتی حقائق سے پردہ سائنس آج اٹھارہی ہے ان کا تذکرہ تو 1500 سال پہلے بھی قرآن میں تھا تو مسلمان سائنسی ماہرین یہ حقائق دنیا کے سامنے کیوں نہ لائے۔ تو اس کا جواب نہایت سادہ ہے کہ قرآن کے ساتھ دوسری آسمانی کتابوں میں بھی کائناتی اسرار کے راز موجود ہیں لیکن انہیں پرکھنے کے لیے مسلمانوں کے پاس لیبارٹری، سیٹلائٹ، ہبل ٹیلی اسکوپ جیسی ٹیکنالوجی نہیں تھی اور تمام سائنسی آلات جو ابھی مزید جِدّت اختیار کریں گے تو یقینا مزید ایسے راز ئوں سے پردہ اٹھے گا لیکن ان کا تذکرہ کتاب المبین میں موجود ہے کیوں کہ اﷲ رب العزت نے خود فرمایاہے کہ،’’اور ہم نے تم پر یہ قرآن اُتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے۔‘‘ (سورۃ النحل)