زعفرانی مشاعرے

زعفرانی مشاعرے

اسپیشل فیچر

تحریر : سید عاصم محمود


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

چند برس قبل بھارتی شہر،مالیگائوں میں کل ہند مشاعرہ منعقد ہوا۔اس میں ایک مقامی شاعر،ارشد مینا نگری کلام سنانے آئے۔جب ان کی پہلی غزل ختم ہوئی،تو حاضرین نے کچھ اور سنانے کی فرمائش کر ڈالی۔ارشد صاحب نے نئی غزل سنائی۔بعد ازاں فرمائشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اُدھر منتظمینِ مشاعرہ پریشان کہ یہ سلسلہ نجانے کب تھمے گا؟ابھی خاصے شاعروں کی باری باقی تھی۔ارشد مینا نگری کے بالکل پیچھے دہلی کے معروف شاعر،مختار یوسفی بیٹھے تھے۔وہ منتظمین کی پریشانی بھانپ گئے کہ شاعر صاحب مائک چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔انھوں نے جیب سے قلم نکالا اور پھر ایک پرچی!پرچی پہ کچھ الفاط رقم کیے اور خاموشی سے ارشد مینا نگری کو جا تھمائی۔وہ پڑھ کر کچھ جزبز ہوئے۔تھوڑی دیر بعد وہ سمٹے سمٹائے اٹھے اور اپنی نشست پر جا بیٹھے۔اس اچانک رخصتی پر منتظمین نے سکھ کا سانس لیا۔مشاعرہ ختم ہوا تو ایک متجسس منتظم نے مختار یوسفی سے دریافت کیا’’جناب! آپ نے چٹ پر ارشد صاحب کو کیا لکھا تھا؟وہ سادگی سے بولے ’’بس یہی کہ آپ کی پتلون پیچھے سے پھٹ چکی۔‘‘٭٭برصغیر پاک و ہند میں مشاعرہ قدیم تاریخ رکھتا ہے۔امیر خسرو نے اپنی کتاب ’’غرۃ الکمال‘‘ میں ایسے مشاعرے کا ذکر کیا ہے جس میں شہزادے اور امرا شریک تھے۔رفتہ رفتہ یہ عمل تہذیبی اقدار کا حصہ بھی بن گیا۔مشاعروں میں جب شاعر مل بیٹھتے تو چٹکلے بھی جنم لیتے۔انہی چٹکلوں کا انتخاب پیش خدمت ہے۔٭٭یہ کئی سال پہلے کی بات ہے،لاہور میں ایک کل ہند مشاعرہ منعقد ہوا۔اس میں مشہور شاعر،احمد ندیم قاسمی بھی شریک تھے۔مشاعرے میں قاسمی صاحب نے اپنی ایک غزل سنائی جس کا یہ شعر حاضرین کو بہت پسند آیا:کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گامیں تو دریا ہوں،سمندر میں اتر جائوں گایہ شعر سن کر ایک پنجابی نوجوان نے فرمائش کی کہ اسے مکررپڑھا جائے۔قاسمی صاحب نے دوبارہ سنایا۔اس بار انھوں نے دوسرا مصرع دو بار پڑھا:میں تو دریا ہوں،سمندر میں اتر جائوں گامصرع سنتے ہوئے ترنگ میں آیا نوجوان بولا:بلّے اوئے،تیراک دیا پترایہ فقرہ سنا تو قاسمی صاحب سمیت تمام حاضرین کی ہنسی چھوٹ گئی۔٭٭دہلی میں مشاعرہ جاری تھا۔ہال لوگوں سے کھچاکھچ بھرا تھا۔ایک ادھیڑ عمر شاعر کلام سنا رہے تھے کہ اچانک لائوڈسپیکر خراب ہو گیا۔شاعر صاحب کی آواز خاصی کمزور تھی جسے پیچھے بیٹھے حاضرین سن نہ پائے۔چناں چہ منتظمین ِمشاعرہ میں شامل ایک صاحب باآواز بلند بولے’’حضرت!مصرع اٹھائیے۔‘‘محفل میں دہلی کے سابق چیف کمشنر،شنکر پرشاد بھی موجود تھے۔وہ یہ سن کر بولے:’’صاحبو! کیوں نہ شاعر صاحب ہی کو اٹھا دیا جائے؟‘‘اس جملے نے مشاعرے کو کشت ِزعفران بنا ڈالا۔٭٭لکھنئو میں مشاعرہ جاری تھا۔شہر کے سبھی بڑے شاعر اس میںشریک تھے۔اتفاق سے ممتاز شاعر،ناسخ جب محفل میں پہنچے تو وہ آخری دموں پر تھی۔سامنے ہی آتش بیٹھے تھے۔ناسخ نے ان سے دریافت کیا’’میاں! مشاعرہ ختم ہو چکا؟‘‘’’جی ہاں،آپ کا بہت انتظار رہا۔‘‘جواب ملا۔یہ سن کر ناسخ نے اپنے حقیقی نام(امام بخش)کی مناسبت سے اسی وقت یہ شعر تخلیق کر ڈالا:جو خاص ہیں،وہ شریک ِگروہ عام نہیںشمار دانہ ِتسبیح میں امام نہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
کوانٹم کمپیوٹنگ خواب سے حقیقت تک

کوانٹم کمپیوٹنگ خواب سے حقیقت تک

حالیہ دنوں سائنسدانوں نے ایک ایسا کوانٹم مادہ دریافت کیا ہے جو مستقبل کی ٹیکنالوجی کی رفتار میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ اس مادے کی بدولت ممکن ہے کہ ہمارے کمپیوٹر، موبائل فونز اور دیگر ڈیجیٹل آلات موجودہ رفتار کے مقابلے میں ایک ہزار گنا تیز ہو جائیں۔ یہ پیش رفت صرف ایک سائنسی کامیابی نہیں بلکہ آنے والے دور کی ٹیکنالوجی کا دروازہ کھولنے والی ایک انقلابی دریافت ہے۔یہ مادہ جسے 1T-TaS2کہا جاتا ہے ایک مخصوص کوانٹم حالت میں روشنی یا حرارت کے ذریعے اپنی خصوصیات کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عام طور پر الیکٹرانکس میں برقی رو گزرنے کے لیے دھات جیسے موصل مادے (کنڈکٹر) اور برقی رو کو روکنے کے لیے غیر موصل مادے (انسولیٹر) استعمال ہوتے ہیں۔ مگر اس تحقیق میں سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ 1T-TaS2 یہ دونوں کردار ادا کر سکتا ہے،یعنی یہ روشنی کے ایک جھٹکے سے حالت کنڈکٹرسے انسولیٹر اور واپس کنڈکٹر میں تبدیل ہو سکتا ہے۔اس سے قبل یہ کیفیت صرف انتہائی کم درجہ حرارت (cryogenic) پر اور وہ بھی چند لمحوں ہی کے لیے ممکن تھی لیکن نئی تحقیق کے مطابق اب یہ حالت 73 ڈگری سیلسیئس پر بھی حاصل کی گئی ہے اور یہ کئی ماہ تک برقرار رہ سکتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ہم کوانٹم مادے 1T-TaS2 کو عملی طور پر استعمال کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔تحقیق کے مطابق اس مادے کو ایک خاص عمل جسے Thermal quenching کہا جاتا ہے، کے ذریعے اس کی مطلوبہ حالت میں بدلا جاتا ہے، جہاں مادہ پہلے تیزی سے گرم اور پھر ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ مستقل طور پر موصل ہو جاتا ہے اور اس کی حالت کو صرف روشنی کی مدد سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔یہ عمل نہ صرف تیز ہے بلکہ بجلی کے بہاؤ میں بھی انتہائی مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ جہاں موجودہ پروسیسر کی رفتار گیگاہرٹز تک محدود ہے، وہاں یہ نیا مادہ ہمیں ٹیرا ہرٹزیعنی ہزار گنا زیادہ رفتار تک لے جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کا فون، کمپیوٹر یا سرور ڈیٹا کو ایک لمحے میں پروسیس کرنے کے قابل ہوجائے گا۔سلیکون، جو کئی دہائیوں سے کمپیوٹنگ انڈسٹری کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اب اپنی فزیکل حدوں کو چھو رہا ہے، اور جیسے جیسے چِپس کو چھوٹا اور تیز بنانے کی کوشش کی جاتی ہے سلیکون کی استعداد محدود ہو جاتی ہے۔ یہاں پر کوانٹم مادے نئی راہیں فراہم کرتے ہیں کیونکہ وہ بیک وقت کئی خصوصیات کے حامل ہیں۔ 1T-TaS2نہ صرف کمپیکٹ ڈیوائسز بنانے کی راہ ہموار کرے گا بلکہ توانائی کی بچت، رفتار اور افادیت کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چونکہ یہ ایک ہی مادہ دونوں حالتوں میں کام کر سکتا ہے اس لیے اس میں کسی پیچیدہ انٹر فیس یا اضافی ساخت کی ضرورت نہیں پڑتی، جو کہ موجودہ چِپس میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔مستقبل کی جھلک: ایک انقلابی ٹیکنالوجی کا آغازیہ تحقیق حال ہی میں معروف سائنسی جریدے Nature Physicsمیں شائع ہوئی ہے اور اسے سائنسی حلقوں میں غیر معمولی توجہ حاصل ہو رہی ہے۔ اگر یہ مادہ صنعتی سطح پر قابلِ استعمال ہو گیا توکمپیوٹنگ کی دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا ہو سکتا ہے جیسا شاید ہم نے پہلے کبھی سوچا بھی نہ ہو۔اگرچہ اب بھی بہت سے چیلنجز موجود ہیں،مثال کے طور پر صنعتی پیمانے پر Thermal quenching ، کم قیمت پر بڑے پیمانے پر پیداوار اور طویل مدتی استحکام کو یقینی بنانا‘لیکن اس تحقیق نے ایک نئی سمت ضرور دکھا دی ہے۔یہ بات اہم ہے کہ اس تحقیق کا تعلق کوانٹم کمپیوٹنگ سے نہیں بلکہ کوانٹم میٹریل کی پیداوار سے ہے۔ یہ وہ موڑ ہے جہاں سے روایتی سلیکون چپس کو پیچھے چھوڑ کر ہم کمپیوٹنگ کی رفتار کی ایک نئی دنیا میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ دنیا ہو گی جہاں ہر کلک، ہر پراسس اور ہر ڈیٹا ٹرانسفر روشنی کی رفتار سے تیز ہو گا ۔ مستقبل کی کمپیوٹنگ امریکہ کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے ماہرِ طبیعیات گریگری فیئٹے(Gregory Fiete) کے مطابق کمپیوٹر استعمال کرنے والا ہر شخص چاہتا ہے کہ کمپیوٹر کی رفتار تیز ہو اور چیزیں تیزی سے لوڈ ہوں۔کوئی چیز روشنی سے زیادہ تیز نہیںاور ہم روشنی کو استعمال کرتے ہوئے مادی خصوصیات کوطبیعیات کے اصولوں کے مطابق ممکنہ حدِ فتار سے تبدیل کر رہے ہیں ۔ جب آپ مادے کی حالت کو روشنی سے بدل سکتے ہیں تو آپ ٹیکنالوجی کو لائٹ سپیڈ تک پہنچا سکتے ہیں‘ جو مستقبل کے کمپیوٹنگ کی بنیاد بن سکتا ہے۔ 

مچھر سے پھیلنے والی بیماریاں

مچھر سے پھیلنے والی بیماریاں

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے حال ہی میں ڈینگی، چکن گونیا، زِکا اور زرد بخار جیسی مہلک بیماریوں کے حوالے سے ایک جامع طبی ایڈوائزری جاری کی ہے۔ یہ رہنمائی خاص طور پر اْن طبی کارکنوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو مشتبہ یا مصدقہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مریضوں کو موت کے خطرے سے بچانے اور ان بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بہتر نگہداشت فراہم کی جا سکے۔یہ چاروں بیماریاں ایڈیس (Aedes) نسل کے مچھروں کے ذریعے پھیلتی ہیں۔ پہلے یہ صرف گرم اور نیم گرم خطوں کی بیماریاں سمجھی جاتی تھیں لیکن موسمیاتی تبدیلی، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، شہری آبادی میں بے تحاشا اضافہ، شہروں کی جانب ہجرت اور بین الاقوامی سفر کی بڑھتی سہولیات نے ان بیماریوں کو دنیا کے کئی نئے علاقوں تک پہنچا دیا ہے۔ اب یہ صورت حال صحت کے عالمی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے جس سے دنیا بھر میں لگ بھگ ساڑھے پانچ ارب افراد کو خطرہ لاحق ہے۔ڈبلیو ایچ او کی اس رہنمائی میں خاص طور پر ایسے مریضوں کی بہتر دیکھ بھال پر زور دیا گیا ہے جنہیں ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ہدایات پر مقامی کلینکس، بنیادی طبی مراکز، ایمرجنسیمراکز اور ہسپتالوں میں بآسانی عمل کیا جا سکتا ہے۔ ان بیماریوں کی تشخیص ایک مشکل عمل ہے کیونکہ ان کی علامات ملی جلی ہوتی ہیں، جیسے بخار، جسم درد، خارش اور تھکن۔ بعض اوقات ان علامات کو ملیریا، ٹائیفائیڈ یا دیگر وائرل انفیکشنز سمجھا جاتا ہے جس سے بروقت اور درست علاج میں تاخیر ہو سکتی ہے۔پاکستان کا منظر نامہپاکستان میں ڈینگی وائرس گزشتہ ایک دہائی سے عوامی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔ ہر سال مون سون کے بعد ملک کے کئی بڑے شہروں میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ لاہور، کراچی، راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ جیسے شہروں میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد ہزاروں میں جا پہنچتی ہے۔ 2023ء میں ملک بھر میں ڈینگی کے 75,000 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جن میں سے درجنوں افراد جان کی بازی ہار گئے۔2024ء میں پاکستان میں ڈینگی کے بیس ہزار سے زائد مریض اور 10اموات رپورٹ ہوئیں۔چکن گونیا اور زکا وائرس ابھی تک پاکستان میں بڑے پیمانے پر رپورٹ نہیں ہوئے لیکن ایڈیس مچھر کی موجودگی اور دیگر عوامل کے باعث یہ خطرہ مسلسل منڈلا رہا ہے کہ مستقبل میں یہ بیماریاں بھی پاکستان میں قدم جما سکتی ہیں۔ کراچی میں 2017ء کے دوران چکن گونیا کے درجنوں کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جس نے شہری انتظامیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسی طرح زرد بخار جو ماضی میں افریقی اور جنوبی امریکی خطوں تک محدود تھا اب ممکنہ طور پر ایشیائی ممالک میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں بیماریوں کی بروقت تشخیص اور مؤثر علاج میں ایک بڑی رکاوٹ طبی انفراسٹرکچر کی کمزوری، لیبارٹری سہولیات کی کمی اور عوامی آگاہی کا فقدان ہے۔ بہت سے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں جدید تشخیصی سہولیات دستیاب نہیں جس کے باعث نہ صرف مریض کو وقت پر علاج نہیں ملتا بلکہ بیماری کا پھیلاؤ بھی جاری رہتا ہے۔احتیاطی تدابیر اور مستقبل کا لائحہ عملڈبلیو ایچ او کی جاری کردہ ایڈوائزری میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ طبی عملے کو ایسے طریقے اختیار کرنے چاہئیں جن کے ذریعے وہ سنگین اور غیر سنگین مریضوں میں فرق کر سکیں اور ان کے علاج کو اس کے مطابق ترتیب دے سکیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ مقامی حکومتیں، بلدیاتی ادارے اور صحت کے محکمے مشترکہ حکمت عملی کے تحت ان بیماریوں کے خلاف اقدامات کریں۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں مچھر مار ادویات کاسپرے نہ ہونا، نکاسی آب کا ناقص نظام اور شہری منصوبہ بندی کی کمزوریاں ہیں، وہاں ان بیماریوں سے بچاؤ کے لیے صرف علاج پر انحصار کافی نہیں، احتیاطی تدابیر، آگاہی، صفائی اور مچھر کی افزائش کو روکنے والے اقدامات از حد ضروری ہیں۔ایڈیس مچھر سے پھیلنے والی بیماریوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور شہری مسائل کا براہ راست اثر انسانی صحت پر پڑتا ہے۔ اگر ہم بروقت اور مربوط اقدامات نہ اٹھائیں تو آنے والے سالوں میں ان امراض کی شدت اور دائرہ مزید وسیع ہو سکتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

یوایس ایس فوریسٹال حادثہ29 جولائی 1967ء کو ویتنام جنگ کے دوران امریکی طیارہ بردار جہاز USSForrestal پر ایک راکٹ کی حادثاتی لانچ سے زبردست آگ بھڑک اٹھی جس نے A4 سکائی ہاک طیاروں اور دیگر جہازوں کو لپیٹ میں لے لیا۔ اس حادثے میں کم از کم 134 اہلکارہلاک ہوگئے۔ اس واقعے کا آغاز ایک F4 فینٹم لڑاکا طیارے سے ہوا جس نے غلطی سے زُونی راکٹ فائر کر دیا جو A4 سکائی ہاک کو جا لگا جو آگ کی لپیٹ میںآ گیا اور ایندھن اور دیگر دھماکہ کو آگ لگنے سے پورا طیارہ بردار جہاز آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ اس حادثے نے امریکی بحریہ کی حفاظتی پالیسیاں اور ایئر ڈیک مینجمنٹ کے طریقہ کار میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں متعارف کروائیں۔ فتح کی محراب کا افتتاح 29 جولائی 1836ء کو فرانس میں واقع تاریخی یادگارArc de Triomphe کو شاندار تقریب کے ساتھ عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ یہ محراب نپولین بوناپارٹ کے دور میں فوجی اور شہری عظمت کے اعزاز میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی تیاری تقریباً تین دہائیوں تک جاری رہی۔ اسے ڈیزائنر ژاں شالگرام نے تخلیق کیا تھا۔ افتتاح کے موقع پر اسے فرانس کی فوجی کامیابیوں اور انقلاب سے وابستہ قربانیوں کی یادگار کے طور پر پیش کیا گیا۔ ہیرس ٹریٹی پر دستخط 29 جولائی 1858ء کوHarris Treaty کا معاہدہ طے پا یا جس نے امریکہ اور جاپان کے مابین سفارتی اور تجارتی تعلقات کا آغاز کیا۔ اس معاہدے کے تحت جاپان نے چند بندرگاہیں غیر ملکی تجارتی جہازوں کے لیے کھولیں، امریکیوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا اور کلیئرنس ٹیکس کی خصوصی سہولیات بھی طے ہوئیں۔ اس طرح جاپان نے اپنی طویل مدت کی بند کاروباری پالیسیاں ترک کر کے عالمی معاشی برادری سے جڑنے کا فیصلہ کیا۔ہیرس ٹریٹی کے نتیجے میں جاپان میں میجی انقلاب کے آغاز کی بنیاد پڑی۔ وین گوف کی وفات29 جولائی 1890ء کو پینٹر ونسینٹوین گوف کا انتقال ہوا۔ تقریباً 37 سال کی عمر میں انہوں نے خود کو گولی مار لی تھی۔وین گوف اپنے زمانے میں بہت زیادہ تسلیم شدہ نہ تھے مگر آج کے دور میں انہیں پوسٹ امپریشن ازم کا اہم ستون شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے منفرد رنگکاری انداز،موٹے برش سٹروکس اور جذباتی گہرائی نے عالمی فنونِ لطیفہ پر مستقل اثر ڈالا۔ ان کے مشہور شاہکاروں میں''Starry Night‘‘، ''Sunflowers‘‘ اور ''Bedroom in Arles‘‘ شامل ہیں۔ IAEA کا قیام29 جولائی 1957ء کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA)کا قیام عمل میں آیا تاکہ جوہری توانائی کے محفوظ استعمال کو فروغ دیا جائے۔ IAEA کا مقصد تباہ کن اسلحہ کے استعمال کی روک تھام اور ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال میں بین الاقوامی تعاون کی ترغیب دینا ہے۔ اس ادارے کا قیام ایٹمی دور کے دوران عالمی برادری کے ایٹمی خطرے کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کا حصہ تھا۔ IAEA نے بعد ازاں اپنے کردار کو ایٹمی توانائی کی نگرانی اور ایٹمی معاہدوں کی پاسداری یقینی بنانے میں تبدیل کر لیا۔ 2005ء میں اسے امن کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ 

سارگون اعظم دنیا کا پہلا سپہ سالار باشادہ

سارگون اعظم دنیا کا پہلا سپہ سالار باشادہ

تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا دی تاریخ میں ایسے بہت سارے بادشاہ یا حکمران گزرے ہیں جو بیک وقت مسند اقتدار پر بھی براجمان رہے ہیں اور اپنی فوج کے باقاعدہ سپہ سالار ہوتے ہوئے جنگوں کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ ان میں سکندر اعظم ، رعمسیس دوئم ، حضرت خالد بن ولیدؓ ، سلطان محمود غزنوی ، صلاح الدین ایوبی، اکبر اعظم، ٹیپو سلطان، چنگیز خان، نپولین بونا پاٹ اور چارلس دی گریٹ نمایاں ہیں۔ اس فہرست سے ہٹ کر سارگون اعظم کا نام اس لئے منفرد ہے کہ ایک تو دنیا کی اوّلین سلطنت اور دنیا کی پہلی باقاعدہ فوج قائم کرنے کا اعزاز ہی انہیں حاصل نہیں تھا بلکہ سارگون اعظم دنیا کے پہلے ''سپہ سالار بادشاہ‘‘ کا اعزاز بھی رکھتے تھے۔ سارگون اعظم نے '' اکدی سلطنت‘‘ کی بنیاد رکھی تھی جو تاریخ انسانی کی پہلی باقاعدہ اور عظیم سلطنت کہلائی۔اس کا اقتدار2330 قبل مسیح سے 2279 قبل مسیح تک تقریباً نصف صدی تک قائم رہا۔ یہ سلطنت عرب کے ریگستانوں سے شام اور ترکی تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی وسعت کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ اس میں ایران، خلیج فارس، کردستان اور اناطولیہ کے علاقے شامل تھے۔یہ وہ دور تھا جب دنیا میں پہلی مرتبہ ایک متحدہ، منظم اور مرکزیت کی حامل سلطنت وجود میں آئی۔سارگون کے کارناموں کی تفصیل میں جانے سے پہلے ہم اس خطے کی جغرافیائی اور تہذیبی صورت حال کا احاطہ کرتے ہیں۔دجلہ و فرات کی وادی کے درمیانی علاقے کو تاریخ میں میسوپیٹیمیا ( موجودہ عراق )کے نام کی شناخت حاصل تھی ۔میسوپیٹیمیا میں دو بڑے نسلی گروہ آباد ہوا کرتے تھے ، جن میں سے ایک ''سامی النسل‘‘ اور دوسرا '' سومیری‘‘ کہلاتا تھا۔اس تہذیب کا آغاز 5000 قبل مسیح کے آس پاس ہوا تھا، جبکہ دنیا میں انسانیت کے پہلے مذہب کے آثار بھی اسی علاقے سے 4000قبل مسیح کے دوران ملتے ہیں۔2334 قبل مسیح میں اس تہذیب کے لوگ شروع میں متحد نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ اجنبیوں کی مانند الگ الگ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی شکل میں رہ رہے تھے۔ ان ریاستوں میں ''ار ‘‘ اور ''ارک‘‘ سب سے بڑی ریاستیں ہوا کرتی تھیں۔سارگون کی پہچان کا آغاز انہی ریاستوں کے شمال میں قائم ریاست ''کش‘‘ کے شہنشاہ ارزبابہ کے دربار میں بطور پیالہ بردار تعیناتی سے ہوتا ہے۔سارگون نے اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف ارزبابہ کے اقتدار پر قبضہ کیا بلکہ اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کے طفیل میسوپیٹیمیا کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو یکجا کر کے پہلی کثیر القومی سلطنت یعنی ''اکادی سلطنت‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس نے سومیری کی شہری ریاستوں کوایک ایک کر کے فتح کیا اور پہلی بار میسوپیٹیمیا کو ایک بڑی ریاست میں بدل دیا۔سارگون کا اصل کارنامہ تخت حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور الگ تھلگ شہروں کو یکجا کر کے مرکزیت کی حامل ایک بڑی اور طاقتور ریاست میں بدلنا تھا۔یہ وہ دور تھا جب سومیری شہنشاہ زوگال لاگاسی کا ڈنکا بجتا تھا اور چار سو اس کے ظلم اور دبدبے کے چرچے تھے۔اسے اپنے دور کا ناقابل شکست حکمران سمجھا جاتا تھا۔ سارگون نے نہ صرف اسے شکست دے کر اکدی حکومت کی بنیاد رکھی بلکہ اسے گرفتار کر کے اس کے گلے میں رسہ ڈال کر معبد کے دروازے کے سامنے لا کر اسے بھرے مجمع کے سامنے رسوا بھی کیا۔ عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد اس نے ایک مضبوط مرکزیت والی حکومت کی شروعات کیں۔تمام علاقوں میں اکدی گورنر مقرر کئے۔اکدی زبان کو سلطنت کی سرکاری زبان قرار دیا۔اس کے دور میں تحریری نظام ، فن تعمیر اور مجسمہ سازی کے فن کو فروغ ملا۔مورخین کہتے ہیں تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی حکمران کے زیر سایہ اتنی وسیع و عریض سلطنت کی حکمرانی آئی ہو۔ صرف وسیع و عریض ہی نہیں بلکہ میسوپیٹیمیا کو دنیا کی پہلی منظم سلطنت کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا۔ چنانچہ اتنی بڑی ریاست کو متحد اور منظم رکھنے کیلئے اس نے باقاعدہ ایک فوج بھی بنائی جو براہ راست ریاست کو جواب دہ تھی۔اس سے پہلے مزدوروں، کسانوں اور دیہاتیوں پر مشتمل اپنی مدد آپ کے تحت ایک غیر منظم جزوقتی فوج ہوا کرتی تھی۔ سارگون کی وفات کے بعد اس کا بیٹا رمش تخت نشیں ہوا تو تھوڑے ہی عرصہ بعد اندرونی اور بیرونی بغاوتوں نے اسے گھیرلیا لیکن اپنے باپ کی پالیسیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ کامیابی سے مشکلات کا مقابلہ کرتا رہا۔اس کے بعد اس کے بھائی منیش نے تخت سنبھالا۔اس کا دور اقتدار قدرے مختصر رہا۔ اس کے بعد منیش کے بیٹے اور سارگون کے پوتے نارام سن نے اقتدار کی کمان سنبھالی۔ اپنے دادا کی طرح نارم سن کے رعب اور دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ اس نے بڑی تیزی سے کامیابیاں سمیٹیں اور خود کو ''خدا بادشاہُُ‘‘ کہلوانے لگا۔ابتدا میں اسے بھی شدید بغاوتوں کا سامنا رہا لیکن اس نے بھی اپنے دادا کی حکمت عملیوں کو احسن طریقے سے جاری رکھا اور اکدی سلطنت کو تاریخی بلندیوں پر لاکھڑا کیا۔کہتے ہیں یہ خلیج فارس سے لے کر مصر تک فوج کشی کر کے اپنی سلطنت کے خلاف بغاوتوں کو بڑی کامیابی سے کچلتا رہا۔اس کے بعد نارام سن کے بیٹے شار کارلی نے سن 2217قبل مسیح میں اقتدار سنبھالا لیکن رفتہ رفتہ سارگون کے جاں نشینوں کی گرفت اقتدار پر کمزور ہوتی چلی گئی اور بالاخر سارگون خاندان 141 سال اکدی سلطنت پر حکمرانی کرنے کے بعد سن 2193 قبل مسیح میں دنیا کی پہلی منظم اور سب سے وسیع سلطنت کی حکمرانی سے محروم کر دیا گیا۔ اس کے بعد 2154 قبل مسیح میں ''گتی خاندان‘‘ نے اکدی سلطنت کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ کر دیا۔

 دنیا کا سب سے سخت جان جانور ٹارڈیگریڈز

دنیا کا سب سے سخت جان جانور ٹارڈیگریڈز

یہ سخت اور خطرناک حالات برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیںٹارڈیگریڈز آٹھ ٹانگوں والے چھوٹے مائیکروسکوپک جاندار ہیں، جو عام طور پر پانی والی جگہوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی ناقابلِ یقین بقا کی صلاحیت انہیں دوسرے تمام جانداروں سے منفرد بناتی ہے۔یہ ننھے پانی میں رہنے والے جاندار پہلی بار 1777ء میں جرمن ماہر حیوانات جوہان آگسٹ ایفریم گوزے (Johann August Ephraim Goeze) نے بیان کیے تھے۔ ان کی ریچھ جیسی شکل نے انہیں ''کلائنر واسر بئیر‘‘ (kleiner Wasserbär) کا نام دیا جس کا مطلب ''چھوٹے پانی کے ریچھ‘‘ ہے۔ بعد میں اطالوی حیاتیات دان لازارو اسپالانزانی (Lazzaro Spallanzani) نے انہیں ''ٹارڈیگریڈ‘‘ یعنی ''آہستہ قدم رکھنے والے‘‘کا نام دیا، کیونکہ ان کی حرکت کچھوے کی طرح سست ہوتی ہے۔ٹارڈیگریڈز میں 40ہزار تک خلئے پائے جاتے ہیں، حالانکہ ان کا سائز بیکٹیریا جیسے یک خلوی جانداروں کے برابر ہوتا ہے۔ ٹارڈیگریڈز کی 900 سے زائد اقسام دریافت ہو چکی ہیں، جن میں سب سے بڑی قسم ''Echiniscoides sigismundi,‘‘ ہے، جو یوریشیائی پانیوں میں پائی جانے والی ایک سمندری قسم ہے اور بالغ ہونے پر اس کا سائز 1.5 ملی میٹر (0.05 انچ) تک پہنچ جاتا ہے۔''واٹر بیئرز‘‘ (ٹارڈیگریڈز) دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ انٹارکٹیکا کی برف کے نیچے 5 میٹر (16 فٹ) گہرائی سے لے کرٹروپیکل رین فارسٹ تک وہ مختلف اقسام کے ماحول میں زندہ رہ سکتے ہیں، جیسے سمندر کی تہہ، پہاڑوں کی چوٹیاں، گرم چشمے، یہاں تک کہ آتش فشاں کے اندر بھی۔ حیرت انگیز طور پر، یہ نہایت سخت جان مخلوق تجربہ گاہ میں بغیر خوراک کے 30 سال تک زندہ رہ چکی ہے۔یہ پودوں اور جانوروں کے خلیات، بیکٹیریا اور بعض اوقات دوسرے ٹارڈیگریڈز کو بھی کھاتی ہے۔اگرچہ یہ انتہائی لچکدار ہوتے ہیں، لیکن فعال رہنے کیلئے ان کے جسم کے گرد پانی کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ خشک ہونے سے بچ سکیں ۔ اسی وجہ سے یہ اکثر ایک باریک آبی تہہ میں رہتے ہیں، مثلاً گیلی کائی یا لچن (lichen) پر۔ٹارڈیگریڈز جن خطرناک حالات میں زندہ بچ سکتے ہیں، ان کی فہرست انسانوں کو حیران کر دیتی ہے۔ یہ حرارت برداشت کرنے والے تمام جانداروں میں سب سے زیادہ سخت جان ہیں۔ 150 ڈگری سینٹی گریڈ (302 ڈگری فارن ہائیٹ) سے زیادہ یامنفی200 ڈگری سینٹی گریڈ (منفی328 ڈگری فارن ہائیٹ) تک کی شدید سردی بھی برداشت کر سکتے ہیں۔یہ منجمد حالت میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ برف میں جمنے کی حالت میں کسی ٹارڈیگریڈ کے زندہ رہنے کا سب سے طویل ریکارڈ 32 سال سے زائد ہے۔ یہ ایک جوڑا تھا جو نومبر 1983ء میں منجمد ہوا اور 25 دسمبر 2015 ء کو جاپانی سائنس دانوں نے اسے دوبارہ زندہ کیا۔ٹارڈیگریڈز وہ دباؤ بھی برداشت کر سکتے ہیں جو سمندر کی سب سے گہری تہوں سے چھ گنا زیادہ ہو، لیکن وہ آکسیجن کی عدم موجودگی اور خلا کے کم دباؤ کو بھی جھیل سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خلا میں زندہ رہنے والے سب سے سخت جان جاندار ہیں۔ 2007ء میں سائنس دانوں نے ٹارڈیگریڈز کی دو اقسام کو یورپی خلائی ادارے کے ''فوٹون ایم تھری ‘‘(FOTON-M3) خلائی جہاز میں مدار میں بھیجا، جہاں انہیں خلا کی فضا اور اتنی زیادہ شعاعوں کا سامنا کروایا گیا جو انسان کو جلا سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی جاندار زندہ واپس زمین پر لوٹے اور ان میں سے 10 فیصد نے بعد میں افزائش نسل بھی کی۔ یہ سب وہ کرتے کیسے ہیں؟جب ماحول سخت ہو جائے، مثلاً خشکی کی حالت میں تو ٹارڈیگریڈز ''کریپٹو بائیوسس‘‘ (Crypto biosis) کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔ یہ اپنے جسم کو سکیڑ کر ایک چھوٹا سا ڈھکن نما منہ بنا لیتے ہیں جسے ''ٹن‘‘ (tun) کہا جاتا ہے، اور ان کی میٹابولک سرگرمیاں عارضی طور پر رک جاتی ہیں۔ یہ حالت گویا موت جیسی ہوتی ہے، لیکن یہ عمل قابلِ واپسی ہے اور جیسے ہی ماحول بہتر ہوتا ہے، ٹارڈیگریڈز کا میٹابولزم دوبارہ سرگرم ہو جاتا ہے۔ٹارڈیگریڈز کی یہ صلاحیت انہیں زمین پر ممکنہ طور پر آخری زندہ بچ جانے والے جانداروں میں سے ایک بنا دیتی ہے، چاہے زمین پر موسمیاتی تباہی آئے، نیو کلیئر جنگ ہو یا سورج ختم ہو جائے۔ 

آج تم یاد بے حساب آئے ! حکیم ناصر : روایت پسند شاعر 1947تا2007

آج تم یاد بے حساب آئے ! حکیم ناصر : روایت پسند شاعر 1947تا2007

٭...1947ء میں اجمیر شریف (بھارت) میں جنم لینے والے حکیم ناصر کااصل نام محمد ناصر تھا۔٭... تقسیم ہند کے بعد وہ کراچی آ گئے جہاں وہ دواخانہ چلاتے رہے، ان کے والد اور دادا بھی حکیم تھے۔٭... ان کی شاعری روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے۔ وہ بنیادی طور پر رومانوی شاعر تھے۔٭... ندرتِ خیال اور دل کش اندازِ بیاں نے ان کی شاعری کو پُراثر اور مقبول بنایا۔٭...حکیم ناصر کی شاعری کی ایک اور خوبی سلاست اور روانی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عنائیت اور رچائو بھی ان کے شاعری کے اہم اوصاف ہیں۔٭... ان کے اشعار پڑھ کر تازگی کا احساس ہوتا ہے۔٭...گلوکارہ عابدہ پروین نے ان کی غزل ''جب سے تونے مجھے دیوانہ بنا رکھاہے‘‘ گائی جس نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے۔٭...28جولائی 2007ء کووہ راہی ملک عدم ہوئے۔منتخب اشعار وہ مجھے چھوڑ کے اک شام گئے تھے ناصرزندگی اپنی اسی شام سے آگے نہ بڑھی.........گھر میں جو اک چراغ تھا تم نے اسے بجھا دیاکوئی کبھی چراغ ہم گھر میں نہ پھر جلا سکے..................یہ درد ہے ہمدم اسی ظالم کی نشانیدے مجھ کو دوا ایسی کہ آرام نہ آئے.........آسان کس قدر ہے سمجھ لو مرا پتہبستی کے بعد پہلا جو ویرانہ آئے گا..................وہ جو کہتا تھا کہ ناصر کے لیے جیتا ہوںاس کا کیا جانئے کیا حال ہوا میرے بعد..................دو گھڑی درد نے آنکھوں میں بھی رہنے نہ دیاہم تو سمجھے تھے بنیں گے یہ سہارے آنسو..................جس نے بھی مجھے دیکھا ہے پتھر سے نوازاوہ کون ہیں پھولوں کے جنہیں ہار ملے ہیں..................محرومیوں نے وقت پہ الزام رکھ دیامشکل کا نام گردش ایام رکھ دیاغزلجب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہےسنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہےاس کے دل پر بھی کڑی عشق میں گزری ہوگینام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہےپتھرو آج مرے سر پہ برستے کیوں ہومیں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہےاب مری دید کی دنیا بھی تماشائی ہےتو نے کیا مجھ کو محبت میں بنا رکھا ہےپی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصرغم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہےغزلہماری شمع تمنا بھی جل کے خاک ہوئیہمارے شعلوں کا عالم چتاؤں جیسا ہےوہ بس گیا ہے جو آ کر ہماری سانسوں میںجبھی تو لہجہ ہمارا دعاؤں جیسا ہےتمہارے بعد اجالے بھی ہو گئے رخصتہمارے شہر کا منظر بھی گاؤں جیسا ہےوہ ایک شخص جو ہم سے ہے اجنبی اب تکخلوص اس کا مگر آشناؤں جیسا ہےہمارے غم میں وہ زلفیں بکھر گئیں ناصرجبھی تو آج کا موسم بھی چھاؤں جیسا ہے٭٭٭٭٭٭