زعفرانی مشاعرے
چند برس قبل بھارتی شہر،مالیگائوں میں کل ہند مشاعرہ منعقد ہوا۔اس میں ایک مقامی شاعر،ارشد مینا نگری کلام سنانے آئے۔جب ان کی پہلی غزل ختم ہوئی،تو حاضرین نے کچھ اور سنانے کی فرمائش کر ڈالی۔ارشد صاحب نے نئی غزل سنائی۔بعد ازاں فرمائشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اُدھر منتظمینِ مشاعرہ پریشان کہ یہ سلسلہ نجانے کب تھمے گا؟ابھی خاصے شاعروں کی باری باقی تھی۔ارشد مینا نگری کے بالکل پیچھے دہلی کے معروف شاعر،مختار یوسفی بیٹھے تھے۔وہ منتظمین کی پریشانی بھانپ گئے کہ شاعر صاحب مائک چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔انھوں نے جیب سے قلم نکالا اور پھر ایک پرچی!پرچی پہ کچھ الفاط رقم کیے اور خاموشی سے ارشد مینا نگری کو جا تھمائی۔وہ پڑھ کر کچھ جزبز ہوئے۔تھوڑی دیر بعد وہ سمٹے سمٹائے اٹھے اور اپنی نشست پر جا بیٹھے۔اس اچانک رخصتی پر منتظمین نے سکھ کا سانس لیا۔مشاعرہ ختم ہوا تو ایک متجسس منتظم نے مختار یوسفی سے دریافت کیا’’جناب! آپ نے چٹ پر ارشد صاحب کو کیا لکھا تھا؟وہ سادگی سے بولے ’’بس یہی کہ آپ کی پتلون پیچھے سے پھٹ چکی۔‘‘٭٭برصغیر پاک و ہند میں مشاعرہ قدیم تاریخ رکھتا ہے۔امیر خسرو نے اپنی کتاب ’’غرۃ الکمال‘‘ میں ایسے مشاعرے کا ذکر کیا ہے جس میں شہزادے اور امرا شریک تھے۔رفتہ رفتہ یہ عمل تہذیبی اقدار کا حصہ بھی بن گیا۔مشاعروں میں جب شاعر مل بیٹھتے تو چٹکلے بھی جنم لیتے۔انہی چٹکلوں کا انتخاب پیش خدمت ہے۔٭٭یہ کئی سال پہلے کی بات ہے،لاہور میں ایک کل ہند مشاعرہ منعقد ہوا۔اس میں مشہور شاعر،احمد ندیم قاسمی بھی شریک تھے۔مشاعرے میں قاسمی صاحب نے اپنی ایک غزل سنائی جس کا یہ شعر حاضرین کو بہت پسند آیا:کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گامیں تو دریا ہوں،سمندر میں اتر جائوں گایہ شعر سن کر ایک پنجابی نوجوان نے فرمائش کی کہ اسے مکررپڑھا جائے۔قاسمی صاحب نے دوبارہ سنایا۔اس بار انھوں نے دوسرا مصرع دو بار پڑھا:میں تو دریا ہوں،سمندر میں اتر جائوں گامصرع سنتے ہوئے ترنگ میں آیا نوجوان بولا:بلّے اوئے،تیراک دیا پترایہ فقرہ سنا تو قاسمی صاحب سمیت تمام حاضرین کی ہنسی چھوٹ گئی۔٭٭دہلی میں مشاعرہ جاری تھا۔ہال لوگوں سے کھچاکھچ بھرا تھا۔ایک ادھیڑ عمر شاعر کلام سنا رہے تھے کہ اچانک لائوڈسپیکر خراب ہو گیا۔شاعر صاحب کی آواز خاصی کمزور تھی جسے پیچھے بیٹھے حاضرین سن نہ پائے۔چناں چہ منتظمین ِمشاعرہ میں شامل ایک صاحب باآواز بلند بولے’’حضرت!مصرع اٹھائیے۔‘‘محفل میں دہلی کے سابق چیف کمشنر،شنکر پرشاد بھی موجود تھے۔وہ یہ سن کر بولے:’’صاحبو! کیوں نہ شاعر صاحب ہی کو اٹھا دیا جائے؟‘‘اس جملے نے مشاعرے کو کشت ِزعفران بنا ڈالا۔٭٭لکھنئو میں مشاعرہ جاری تھا۔شہر کے سبھی بڑے شاعر اس میںشریک تھے۔اتفاق سے ممتاز شاعر،ناسخ جب محفل میں پہنچے تو وہ آخری دموں پر تھی۔سامنے ہی آتش بیٹھے تھے۔ناسخ نے ان سے دریافت کیا’’میاں! مشاعرہ ختم ہو چکا؟‘‘’’جی ہاں،آپ کا بہت انتظار رہا۔‘‘جواب ملا۔یہ سن کر ناسخ نے اپنے حقیقی نام(امام بخش)کی مناسبت سے اسی وقت یہ شعر تخلیق کر ڈالا:جو خاص ہیں،وہ شریک ِگروہ عام نہیںشمار دانہ ِتسبیح میں امام نہیں