شخصیات کیلئے قانون سازی عدلیہ کو آنکھیں دکھانے کے مترادف ہے: سپریم کورٹ

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017ء کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے آئین کو بائی پاس کر کے ضمنی قانون سازی نہیں کی جا سکتی ، شخصیات کیلئے قانون سازی عدلیہ کو آنکھیں دکھانے کے مترادف ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا تحریر کردہ فیصلہ 51 صفحات پر مشتمل ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے آئین کو بائی پاس کرنے کیلئے ضمنی آئینی قانون سازی نہیں کی جاسکتی جو "کنگ" بننے کا اہل نہ ہو اسے "کنگ میکر" بننے کی کھلی چھوٹ نہیں دی جاسکتی ، نااہل شخص کو بطور پتلی ماسٹر سیاسی طاقت کے استعمال کی اجازت دینا آئین کے ساتھ مذاق ہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق قانونی اصول ہے کہ جو کام براہ راست نہ ہوسکے اسکی بلواسطہ بھی اجازت نہیں ہوتی ، شخصیات کیلئے قانون سازی عدالتوں کو آنکھیں دکھانے کے مترادف ہوتی ہے ، آرٹیکل 62 اور 63 کے معیار پر پورا نہ اترنے والا شخص پارٹی عہدیدار نہیں بن سکتا۔

یہ خبر بھی پڑھیں:وزارتِ عظمیٰ کے بعد نواز شریف مسلم لیگ ن کی صدارت سے بھی فارغ

الیکشن ایکٹ 2017ء کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے شق 203 اور 232 سے ایسے لوگ سیاسی جماعت چلائیں گے جن پر آئین رکن پارلیمنٹ بننے پر قدغن لگاتا ہے ، ایکٹ کی شق 203 اور 232 کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے ساتھ ملاکر پڑھا جائے ، آئینی آرٹیکلز کیساتھ ملاکر پڑھنے سے شق 203 کی آئین کے ساتھ ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ عدالت نے الیکشن ایکٹ 203 کو کالعدم قرار دینے سے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ تفصیلی فیصلہ کے مطابق نوازشریف کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا جب نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تب پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002ء نافذ العمل تھا۔

28 جولائی کے فیصلے سے نواز شریف پارٹی صدارت سے بھی نا اہل ہوگئے تھے ، فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی نواز شریف کا نام بطور پارٹی صدرہٹا دیا ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف کی پارٹی صدارت سے نا اہلی کی کوئی مدت متعین نہیں تھی ، الیکشن ایکٹ 2017ء سے پارٹی صدارت پر عائد پابندی بھی ختم نہیں ہوئی ، نواز شریف کا 3 اکتوبر 2017ء کو دوبارہ پارٹی صدر بننا غیر قانونی تھا ۔ دوبارہ پارٹی صدر بنتے وقت نواز شریف پر نااہلی کی قدغن کلی طور پر نافذ العمل تھی۔

 یاد رہے کہ گزشتہ سال جولائی 2017ء میں پاناما کیس میں نااہلی کے بعد نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کا عہدہ بھی چھوڑنا پڑا تھا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات سے متعلق آئینی ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت کوئی بھی نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس آئینی ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کیا تھا۔

انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کی منظوری کے بعد نواز شریف اکتوبر 2017ء میں اپنی جماعت کے دوبارہ صدر منتخب ہوئے تھے تاہم اس انتخابی اصلاحات بل کو حزب مخالف کی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ ان درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایک نااہل شخص کو سیاسی جماعت کا سربراہ بنانے کی اجازت دینا آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔
 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں