مقبرہ طاہر خان نہڑ,شاہی مسجد شکستہ\' \"ہندیرا\" کھنڈر, تاریخ کی نشانیاں غیر محفوظ

مقبرہ طاہر خان نہڑ,شاہی مسجد شکستہ\' \

سیت پور کی اصل خوبصورتی مقبرہ نہڑ نفیس اینٹوں کے اونچے چبوترے پر قائم،آسمانی بجلی سے بچائو کیلئے موصل لگے ہوئے ہیں

مقبرے کے قریب شاہی مسجدکی پیشانی سفیداور زردٹائلوں سے مزین ہے ،ہندیراکی عمارت معدوم ، ماضی کی نشانیاںمٹنے لگیں سیت پور (چودھری محمد ارشد) سیت پور میں مقبرہ طاہرخان نہڑ،شاہی مسجدشکستہ حالی کا شکارہوگئی ،علاوہ ازیں تاریخی عمارت\"ہندیرا\"کھنڈر بن چکی ہے ،تاریخ کی نشانیاں غیرمحفوظ ہو گئیں۔سیت پور کی اصل خوبصورتی مقبرہ نہڑ نفیس اینٹوں کے اونچے چبوترے پر قائم ہے اور اس پرآسمانی بجلی سے بچائو کیلئے موصل لگے ہوئے ہیں۔مقبرے کے قریب شاہی مسجدکی پیشانی سفیداور زردٹائلوں سے مزین ہے ،ہندیراکی عمارت معدوم ہوکررہ گئی، ماضی کی نشانیاںمٹنے لگی ہیں۔ تاریخی شہر سیت پور لنگاہ خاندان کے عہد حکومت 1445ء تا 1526ء میں آباد ہوا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی میں لودھی خاندان حکمران تھا ،1445ء میں بہلول خان جو ملتان کا گورنر تھا دہلی کا حکمران بنا ،اس نے اپنے ایک رشتہ دار کو سیت پور کی حکومت سونپ دی جس کا نام اسلام خان تھا ،اسلام خان کے تین پوتوں میں لڑائی ہوئی اور انہوں نے قصبہ کو تین حصوں میں تقسیم کر لیا ،موجودہ تحصیل علی پور طاہر خان نہڑ کے حصہ میں آئی، اس نے سیت پور کو دارالخلافہ بنایا ،اس کا خاندان یہاں تین صدیوں تک حکمران رہا ،نہڑ خاندان کے آخری حکمران کا نام بخشن خان تھا ۔ تاریخ میں نہڑ حکومت کے زوال کے بعد سیت پور کا نام احمد شاہ درانی کے پنجاب پر حملہ کے وقت اور زاہد خان گورنر ملتان کے دور میں نمایاں رہا ۔سیت پور کی اصل خوبصورتی طاہر خان نہڑ کے پُر کشش مقبر ے کی بدولت ہے ،یہ مقبرہ نفیس اینٹوں کے اونچے چبوترے پر قائم ہے ،زمین سے اپنی چوٹی تک مقبرہ کی تین واضح حد بندیاں نظر آتی ہیں ،گنبد کے اختتام پر آسمانی بجلی کی رو کی زمین میں ترسیل کے لئے موصل ( Conductor) لگایا گیا ہے جو اسے آسمانی بجلی کے خطرات سے محفوظ رکھتا ہے ،مقبرے کے باہر کامنظر بڑا خوبصورت اور دلکش ہے ،اس میں مختلف قسم کی نفیس ٹائلیں لگی ہوئی ہیں جو مربع ،مستطیل اور چوکور شکل کی ہیں ۔مقبرے کے پہلے حصے کے آخر میں واضح دو دھاریاں بنائی گئی ہیں جن میں نیلی اور سفید ٹائلوں کی آمیزش ہے اور یہ مزار کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں ،دوسرا حصہ زیادہ رنگین او ر روشن ہے ،اس میں مختلف رنگوں کی خوبصورت ٹائلیں اس حصہ کو دلکش بنا رہی ہیں ،تیسرے حصہ میں گنبد کو سفید ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے ،اس مقبرے کے قریب ہی ایک مسجد ہے جو شاہی مسجد کے نام سے مشہور ہے ۔اس خوبصورت مسجد کی پیشانی سفید ،زرد اور روغنی ٹائلوں سے آراستہ ہے ،ہر ایک حصہ پر ایک گنبد بنایا گیا ہے ،مسجد کے ہر حصہ کے لئے ایک ایک دروازہ ہے ،درمیانی دروازہ پر تین خوبصورت محرابیں بنائی گئی ہیں ،اس طرح باقی دروازوں پر بھی تین تین محرابیں بنائی گئی ہیں ،مسجد کی پیشانی رنگ برنگی اور مختلف قسم کی روغنی ٹائلوں سے مزین کی گئی ہے ۔ان قدیم عمارتوں کے علاوہ ایک اور عمارت بھی موجود تھی جسے عام لوگ ہندیرا (Hindira) کے نام سے پکارتے تھے ، کچھ عرصہ قبل ہندیرا کی ٹوٹی پھوٹی عمارت کا کچھ حصہ موجود تھالیکن آہستہ آہستہ یہ عمارت معدوم ہوتی چلی گئی اور اب اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قسم کی تاریخی عمارات کو محفوظ بنانے کیلئے عملی اقدام اٹھایاجائے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں