"SQC" (space) message & send to 7575

کمزور سکرپٹ‘ ناقص ہدایت کاری

سوموار یکم ستمبر‘ ہفتے کا پہلا دن تھا اور شہر کی فضا بہت کشیدہ تھی‘ اس لیے کہ اسلام آباد میں کئی روز سے جاری دھرنا اب دمادم مست قلندر کے مرحلے میں داخل ہو چکا تھا۔ خاص طور پر وہ علاقے جہاں اہم تنصیبات اور حساس عمارتیں موجود ہیں۔ آرٹیکل 245 کے تحت ان اہم عمارتوں کی سکیورٹی پاک فوج کے حوالے ہے۔ سوموار‘ سوا دس بجے صبح پاکستان ٹیلی ویژن کی گاڑی‘ مارننگ شفٹ کے لوگوں کو لے کر دفتر کی طرف گامزن تھی۔ ماحول میں کشیدگی کے باعث گاڑی معمول کا روٹ لینے کی بجائے میریٹ ہوٹل کی جانب سے پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر جا رہی تھی۔ کچھ فاصلے پر میریٹ ہوٹل کے قریب گاڑی کو روک لیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ مظاہرین ادھرکا رُخ کر رہے ہیں‘ سو آپ یہاں سے آگے نہیں جا سکتے۔ اس جگہ سینکڑوں پولیس اہلکار سکیورٹی کے لیے تعینات تھے۔ میریٹ ہوٹل سے آگے‘ دو عمارتیں چھوڑ کر پی ٹی وی ہیڈکواٹرز کی عمارت تھی جس کی سکیورٹی کشیدہ حالات کے پیش نظر کئی دنوں سے بڑھا دی گئی تھی۔ ہر آنے جانے والے کی چیکنگ بھی غیر معمولی انداز میں ہو رہی تھی۔ نارمل حالات میں بھی‘ پی ٹی وی کی اندرونی لابی تک پہنچنے کے لیے آنے والوں کو سکیورٹی کے تین حصار پار کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے بعد مین لابی میں بھی سکیورٹی گارڈز موجود ہیں۔ حساس عمارتوں کے اس ایریا کو پولیس‘ رینجرز‘ ایلیٹ فورس کوئیک رسپانس فورس اور فوج کے اہلکاروں نے حصار میں لے رکھا ہے۔ اس کے باوجود مظاہرین میں دیہاتی قسم کے لوگوں کا ایک بپھرا ہوا
ہجوم دکھائی دیتا ہے‘ سرکاری نشریاتی ادارے کے اندر داخل ہو جاتا ہے اور ادارے کے تین چار قسم کے حفاظتی حصاروں کو توڑ کر سیدھا ماسٹر کنٹرول روم (MCR) تک پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت سوا گیارہ کا وقت ہے۔ نجی چینلز پر یہ بریکنگ نیوز آنا شروع ہو جاتی ہے کہ مظاہرین پی ٹی وی کے اندر دھاوا بول چکے ہیں اور انہوں نے سرکاری نشریاتی ادارے کی نشریات معطل کردی ہیں۔ یہ خبر سن کر ہر حساس پاکستانی کے اندر تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ سیاسی بحران اور انتہائی کشیدہ حالات و واقعات کے تناظر میں ہر دردمند پاکستانی سوچتا ہے کہ اب کیا ہوگا۔ سرکاری ٹی وی پر کنٹرول حاصل کرنے کا مطلب کیا ہے؟ دس پندرہ منٹ کے تعطل کے بعد نشریات بحال ہو جاتی ہیں۔ تمام چینلز پر پھر یہ بریکنگ نیوز چلنے لگتی ہے۔ سرکاری ٹی وی کی نشریات بحال ہوتے ہی ماروی میمن ٹی وی پر نیوز روم میں بہ نفسِ نفیس موجود اس سارے واقعے کی مذمت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ساتھ ہی ایک اور خبر دی جاتی ہے کہ مظاہرین جاتے ہوئے پی ٹی وی کے 20 کیمرے بھی ساتھ لے گئے ہیں۔ میڈیا پر فوراً مختلف طبقہ ہائے فکر کی جانب سے واقعے کی مذمت ہونا شروع ہو جاتی ہے جو اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے۔ پوری دنیا کے سامنے پاکستان کا تماشا بنا کہ سرکاری نشریاتی ادارے پر مظاہرین کے
ایک گروہ نے قبضہ کرلیا ہے۔ ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود‘ وہ آسانی سے اندر داخل ہو کر نشریات بند کرواتے ہیں اور پھر انہیں گرفتار کرنے کی بجائے جانے دیا جاتا ہے۔ عوامی تحریک اور تحریک انصاف نے سختی سے تردید کردی ہے کہ پی ٹی وی پر حملہ ان کے ورکروں نے کیا۔ 
اس حملے کی کڑیاں آپس میں ملائیں اور ادارے کے اندر رونما ہونے والے واقعات تک رسائی حاصل کریں تو کچھ چیزیں بہت پراسرار انداز میں وقوع پذیر ہوتی ہیں اور قدم قدم پر بہت سارے سوال سر اٹھاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ صبح سوا دس بجے سینکڑوں سکیورٹی اہلکار وہاں موجود تھے پھر صرف پندرہ منٹ کے بعد ساڑھے دس بجے ایک چھوٹا سا ہجوم کیسے سارے حفاظتی حصار توڑ کر پی ٹی وی تک پہنچ جاتا اور اندر داخل ہوگیا؟ پی ٹی وی کے تمام سی سی ٹی وی کیمرے ٹوٹے ہوئے یا آئوٹ آف آرڈر کیوں ملتے ہیں؟ جب مظاہرین عمارت کے اندر موجود ہیں تو اس وقت ماروی میمن اچانک ایک نیوز سٹوڈیو میں کیسے پہنچ جاتی ہیں؟ مظاہرین کو کنٹرول روم کا راستہ کیسے آسانی سے مل جاتا ہے؟ اور بظاہر سیدھے سادھے دیہاتی نظر آنے والے یہ لوگ کیسے ڈائریکٹر نیوز سے نشریات کے مواصلاتی رابطے کو ڈی ایکٹویٹ کرنے کا کہتے ہیں؟ یوں پاکستان کا سرکاری ٹی وی کے ذریعے دنیا سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ 1999ء میں جب فوج نے شب خون مارا اور سرکاری ٹی وی کا کنٹرول حاصل کیا تو اس وقت کے ایک عینی شاہد بتاتے ہیں کہ نشریاتی رابطہ منقطع نہیں ہوا تھا کیونکہ سیٹیلائٹ اپ لنک کو فوراً ڈی ایکٹویٹ کرنا خالص تکنیکی کام ہے جو آسانی سے نہیں ہوتا۔ سو، معمول کی نشریات روک کر گانے چلا دیے گئے تھے۔ جس نیوز کاسٹر کو پی ٹی وی نیوز کے پروگرام میں اپنی کہانی سناتے دکھایا گیا اس کا نام عظمیٰ چودھری ہے۔ یہ نیوزکاسٹر دہائی دے رہی تھی کہ اس پر بدترین تشدد کیا گیا۔ مظاہرین نے اس پر ڈنڈے برسائے اور نقدی چھین لی۔ ٹی وی سکرین پر بیٹھی وہ خاتون کسی بھی صورت سے تازہ تازہ تشدد زدہ نہیں لگ رہی تھیں۔ اصل حقائق کے مطابق جن خاتون کو ماروی میمن کی سرپرستی میں پی ٹی وی نیوز پر پیش کیا گیا وہ واقعے کے دوران پی ٹی وی نیوز پر موجود ہی نہیں تھیں بلکہ دھاوے کی اطلاع ملنے پر نیوز کے ایک اعلیٰ عہدیدار اس نیوز اینکر کو ہوسٹل سے لے کر پی ٹی وی ہوم لائے (یہ دفتر کچھ فاصلے پر ہے) تاکہ وہاں سے خبریں دوبارہ نشر کی جا سکیں۔ پی ٹی وی کے اندر موجود عینی شاہدین کے مطابق یہ واقعہ جس طرح سے میڈیا میں پیش ہوا‘ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پی ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز کی جانب سے پہلے بیس پھر اٹھارہ اور پھر چودہ کیمروں کی چوری کا دعویٰ بھی مضحکہ خیز ہے اور سب سے بڑھ کر سرکاری ٹی وی پر دھاوا بول کر نشریات بند کروانے جیسا سنگین جرم کرنے والوں کو بڑی محبت سے جانے دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر انہیں گرفتار کیوں نہ کیا گیا؟ اس تشدد آمیز منظرنامے پر ماروی میمن کی فوری اور پراسرار موجودگی بھی کسی اور ہی جانب اشارہ کرتی ہے۔ اسی واقعے کو جواز بنا کر پہلے ماروی میمن اور پھر دوسرے وفاقی وزراء نے بھی مظاہرین کی گرفتاریوں پر زور دیا۔ جبکہ دوسری جانب علامہ قادری اور عمران خان دونوں نے اس واقعے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسے حکومتی ڈرامہ قرار دیا۔ 
شہرِ اقتدار میں دھرنے‘ احتجاج‘ مظاہرے اور جھڑپیں اب تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہیں۔ ڈرامے کی ہر روز ایک نئی قسط دیکھنے کو ملتی ہے۔ پی ٹی وی پر دھاوا بولنا بھی ڈرامے کا ایک ایسا ہی مرحلہ تھا جب تماشائی اپنی سانسیں روک کر اس کی سنسنی خیزی میں گم ہو گئے لیکن جلد ہی اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہو گیا۔ پی ٹی وی کی تاریخ تو لازوال ڈراموں سے بھری پڑی ہے مگر یہ ڈرامہ کمزور سکرپٹ اور ناقص ہدایت کاری کی بدولت بُری طرح فلاپ ہو گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں