"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن انتخابی ایکٹ 2017ئ… (1)

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نیشنل ووٹر ڈے کی شاندار تقریب ایوان صدر میں منعقد کرائی جس میں صدر مملکت ممنون حسین،چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا اور وفاقی سیکر ٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان بابر یعقوب فتح محمد نے قوم کو باور کرایا کہ جمہوریت کے استحکام اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے ہر شہری اپنے ووٹ کے اندراج کو یقینی بنائے کیونکہ کسی بھی ملک کو اپنا انتظام و انصرام چلانے کے لئے ایک اچھی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے اور قیادت کے چنائو کے لئے ریاست میں جمہوری عمل کا ہونا انتہائی ضروری ہے جبکہ جمہوری عمل کو کامیاب بنانے میں شہریوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے‘ جس میں سب سے پہلے ووٹ کا اندراج اور اس کے بعد حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے حلقے کے نمائندے کا چنائو شامل ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ووٹ دینا محض ایک ضرورت نہیں بلکہ ہر شہری کا اولین فرض ہے لہٰذا اپنے حلقے میں بہترین امیدوار کو ووٹ دے کر منتخب کریں جو آپ کی زندگی پر اثر انداز ہونے والے مسائل حل کرے، ووٹ دے کر اپنا حق استعمال کریں اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے اپنے کردار کو یقینی بنائیں۔ عوام اور ووٹر کو راغب کرنے کے لئے یہی تھیوری 1951ء سے اب تک دہرائی جا رہی ہے۔ لیکن قوم کے ساتھ سنگین مذاق انتخابی اصلاحات کی 33 رکنی کمیٹی نے کیا کہ انہوں نے آئندہ انتخابات کو شفاف بنانے اور مؤثر اصلاحات کے لئے قانون سازی نہیں کی، ووٹر کے سامنے ایسی کوئی چوائس نہیں ہے کہ وہ پولنگ ڈے پر ناپسندیدہ امیدوار کے بارے میں حق رائے دہی استعمال کر سکے‘ جبکہ راقم الحروف 2009ء سے کوشش کر رہا ہے کہ بیلٹ پیپرز پر None for Above کے کالم کا اضافہ کیا جائے تاکہ ووٹر پولنگ ڈے کے موقع پر اپنے حلقے کے نمائندہ کے چنائو کے موقع پر پولنگ سٹیشن کی عمارت میں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق اپنے حق رائے دہی کا استعمال پوری آزادی کے ساتھ کر سکے۔ میں نے 2013ء کے انتخابات کے موقع پر اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کو اس بارے میں قائل بھی کر لیا تھا اور مرحوم نے اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے بیلٹ پیپرز پر None for Above کے کالم کا اضافہ کر بھی دیا تھا۔ اپریل 2013ء کے تمام اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی فوٹیج اس تاریخی اقدام کی گواہ ہیں، جب 18 اپریل 2013ء کو بیلٹ پیپر شائع ہونے کے لئے پرنٹنگ پریس بھجوائے گئے تو رات کی تاریکی میں پُراسرار طور پر بیلٹ پیپر سے ناپسندیدگی کا کالم حذف کروا دیا گیا اور اس بارے میں شنید ہے کہ اس وقت کی حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں۔
خواتین کے بطور ووٹر اندراج کی کمی کے پس منظر میں نادرا کی کارکردگی کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہئے‘ کیونکہ بعض علاقہ جات میں خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں‘ لہٰذا سربراہ خانہ کو چاہئے کہ وہ اپنے خاندان کی خواتین کے شناختی کارڈ جلد از جلد بنوائیں اور ان کے ووٹ کے اندراج کو یقینی بنائیں تاکہ وہ حق رائے دہی استعمال کر سکیں اور اس طرح ملک و قوم کے لئے بطور نمائندہ معاشرے کے بہترین افراد کا انتخاب ممکن بنایا جا سکے۔ یہ بات ووٹرز کے ذہن میں رہنی چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ ووٹ کاسٹ کرکے ہی بہترین نمائندوں کا انتخاب ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ جتنے کم ووٹ کاسٹ ہوں گے بہتر نمائندے کا انتخاب اتنا ہی مبہم ہوتا جائے گا۔ پھر بعد میں جب لوگوں کے کام نہیں ہوتے اور انہیں اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ سوچتے ہیں کہ کاش اس نمائندے کا انتخاب نہ کیا ہوتا۔ ایسی کسی صورتحال سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ابھی سے تیاری کی جائے یعنی جن بالغ افراد خصوصی طور پر خواتین‘ کے شناختی کارڈ نہیں بنے‘ وہ اپنے شناختی کارڈ بنوائیں اور جن کے نام ووٹر لسٹوں میں ابھی تک شامل نہیں ہوئے‘ وہ اپنے ناموں کا اندراج یقینی بنائیں۔ ملک کو بہترین قیادت دینے کا یہی سب سے اچھا طریقہ ہے۔ ملکی اور غیر ملکی فنڈنگ کے حصول کے لئے بعض غیر سرکاری تنظیمیں خواتین ووٹروں کے اندراج کے لئے کروڑوں روپے حاصل کر کے ہمارے ملک کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔
پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی ایکٹ 2017ء کے سبب متعدد سیاسی جماعتیں تاریخ کا حصہ بن جائیں گی۔ پاکستان میں رجسٹرڈ 352 سیاسی جماعتوں میں سے صرف چند جماعتیں انتخابات میں حصہ لے سکیں گی کیونکہ پارلیمنٹ میں اس کے لئے کم از کم 2 ہزار ارکان ہونے کی شرط کا قانون پیش کر دیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انتخابی ایکٹ 2017ء کے سبب تقریباً 300 سیاسی جماعتیں تاریخ کا حصہ بن جائیں گی تاہم اگر ان جماعتوں کے ارکان اس کے باوجود انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو انہیں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لینا ہو گا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ہاں رجسٹرڈ زیادہ تر سیاسی جماعتیں صرف کاغذوں کی حد تک ہیں کیونکہ ان کے ارکان، دفاتر یا تنظیمی ڈھانچہ ہی موجود نہیں ہے۔ ایسی جماعتیں نہ صرف اپنے سربراہان تک محدود ہیں بلکہ انہوں نے کبھی انتخابات میں حصہ بھی نہیں لیا۔ اگر کسی نے کبھی حصہ لیا بھی تو ان کے امیدوار دو سے زیادہ نہیں تھے۔ ان کی کارکردگی بھی قابل قدر نہیں رہی۔ نئے انتخابی قانون کا مقصد کاغذوں کی حد تک محدود جماعتوں کو ختم کرنا ہے اور وقت کے ساتھ ان کے اضافے پر قابو پانا ہے تاکہ حقیقی سیاسی جماعتوں کو آگے آنے اور ملک میں سیاست کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع ملیں۔ یہ بھی دراصل عوام کو ایک حقیقی قیادت دینے کے سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس کے ملکی سیاست پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ انتخابی ایکٹ کی سیکشن 202 کے تحت کسی بھی پارٹی کو رجسٹر کروانے کے لئے 2000 افراد کے شناختی کارڈ کی فو ٹو کاپیاں ان کے دستخط اور انگوٹھوں کے نشانات کے ہمراہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس جمع کروانا ہوں گی۔ ایسی سیاسی جماعتیں جو اس قانون کے اطلاق سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ ہیں‘ انہیں بھی اس عمل سے گزرنا ہو گا اور ان سیاسی جماعتوں کو بھی جو کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مطلوبہ دستاویزات جمع کروا چکی ہوں گی۔ اگر ایسا اب تک نہیں کیا گیا ہے تو انہیں یہ دستاویزات قانون کے اطلاق سے 60 روز کے اندر جمع کروانا ہوں گی۔ بصورت دیگر فہرست سے ان جماعتوں کو خارج کر دیا جائے گا۔ ایسی سیاسی جماعتیں‘ جن کے اندراج کی درخواست مسترد کر دی ہو یا ان کی رجسٹریشن کالعدم کر دی گئی ہو‘ وہ 30 روز کے اندر سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس کے خلاف اپیل کر سکتی ہیں۔
انتخابی ایکٹ 2017ء کے اطلاق کے بعد اگر کوئی نئی سیاسی جماعت بنتی ہے تو اسے قیام کے 30 روز کے اندر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹریشن کی درخواست دینا ہو گی۔ سیکشن 209 کے تحت سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد ایک سرٹیفکیٹ‘ جو اس کے سربراہ کی جانب سے ہو گا‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھجوائے گی۔ (جاری)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں