"KDC" (space) message & send to 7575

الہامی و غیر الہامی مذاہب کے بنیادی اختلافات

جس کائنات میں ہم آباد ہیں ، اس میں مذہب بنیادی اکائی ہے جس کی پابندی اور پیروی کسی نہ کسی اُسلوب اور عقیدہ کے مطابق انسانوں کی بڑی اکثریت کرتی رہی ہے اور منکرینِ خدا اور ملحدین کے سوا سبھی ابنائے آدم اپنے اپنے مذہب کی پابندی اور پیروی کرتے رہے ہیں۔ دورِ حاضر میں انسانوں میں مذہب کی پیروی کم ہو تی جارہی ہے ،انسان روحانی اقدار سے منہ موڑ کر مادی امور میں منہمک ہو رہا ہے۔ انسانی عقل و شعور کی بالیدگی نے ایک جانب توہمّات اور غلط رسوم کو ختم کیا ہے تو دوسری جانب انسان مذہب کی ہدایات کو انسانی آزادی پر بے جا پابندیاں خیال کرتے ہوئے مذہبی امور کو خیر باد کر رہا ہے ، نیز کرۂ ارض پر پائے جانے والے بہت سے مذاہب انسان کو مسرت، طمانیت اور نجات کا پیغام دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
ایک طرف انسان کے نظامِ حیات میں مذہب کا جذبہ اور کردار کم ہو رہا ہے، تو دوسری جانب انسان کے نفسیاتی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، اخلاقی اور تخلیقی مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ ہر فرد، گروہ ، جماعت اور جمعیت متنوع مسائل سے دو چار ہے۔ مشینوں کی ایجاد، ٹیکنالوجی کی بہتات اور سائنسی انکشافات نے انسان کو متنوع ذہنی، فکری اور جسمانی مسائل کی آماجگاہ بنا دیا ہے جس کی بناء پر کچھ انسان عموماً اپنے اپنے مذہب سے نالاں، اس کے عقائد سے منحرف اور اس کی تعلیمات سے گریزاں ہیں۔ 
مذہب کی تاریخ کا مطالعہ اس امر کا عکاس ہے کہ آج تک جن مذاہب سے انسان آگاہ ہے ، ان سب کا کردار اور عمل انفرادی ہے۔ گویا اسلام کے علاوہ ہر مذہب اور اس کے پیروکار خود کو ہی حق پر تسلیم کرتے ہیں اور دوسرے مذاہب اور ان کے ماننے والوں کو باطل قرار دیتے ہیں ، اس لیے ہر انسان اپنا ہی مذہب رکھتا ہے۔ چنانچہ یہودی صرف یہودی ہے ،دنیا کے دیگر مذاہب سے اُس کا رشتہ معاندانہ ہے اور یہودیت غیر یہودیوں کو انسانی شرف و کرامت سے بھی محروم قرار دیتی ہے۔ اسی طرح عیسائیت صرف اپنے پیروکاروں کو راہِ ہدایت پر اور نجات کا حقدار سمجھتی ہے اور اس کے نزدیک غیر عیسائی جادۂ حق سے محروم ہیں ۔ ہندومت، بدھ مت، جین مت، مجوسیت، کنفیوشس ازم ، تائو ازم اور دیگر مذاہب بھی انفرادی ہیں اور اُن میں اجتماعیت کا کوئی حصہ دکھائی نہیں دیتا۔
اس بیان سے یہ اَمر واضح ہوتا ہے کہ اس کائنات میں پائے جانے والے افراد مذہب کو انفرادی انداز میں دیکھتے ہیں۔ چنانچہ ہندو اپنے مذہب یعنی ہندومت کے ذریعے ہی اپنے لیے تسکین پاتا اور ضروریات زندگی حاصل کرتا ہے، جبکہ یہودی صرف یہودیت پر ہی اعتماد اور عمل کرتا ہے اور عیسائیت سے صرف عیسائی ہی استفادہ کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت تک نہ تو ایک انسان ایک سے زیادہ مذاہب اپناتا اور ان سے استفادہ کرتا ہے، اور نہ ہی بہت سے مذاہب مل کر انسانی مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض عالمی نظام اور ثقافتیں اس امر کی دعویدار رہی ہیں کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے، اس لیے ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آج کل بین المذاہب مکالمہ (Inter Faith Dialogue)کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔ ہر حکمران، دانشور اور مفکر''بین المذاہب مکالمے ‘‘کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے ، اسے اپنانے کی تاکید کرتا ہے اور اس کے فوائد بیان کرتا ہے ، اس لیے اس موضوع کے اہم امور کی نشان دہی کی جاتی ہے تاکہ'' مکالمہ بین المذاہب‘‘ کے اصول و مبادی اور حدود و قیود واضح ہوں۔
اگرچہ مذہبی مکالمہ اور دینی مباحثہ عرصہ دراز سے جاری ہے ، لیکن آج جس مذہبی مکالمے کی بات کی جارہی ہے وہ مذکورہ بالا مذہبی مکالمے سے بالکل مختلف ہے کیونکہ اس مذہبی مکالمے کا پہلا اصول یہ ہے کہ، یہ مکالمے دنیا کے تمام مذاہب کے مابین ہوں اور اس کی شکل یہ ہو کہ آج انسانیت کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا حل مذاہب کی روشنی میں تلاش کیا جائے۔ یقیناً یہ ایک اچھا جذبہ ہے جو انسان کو مذہب سے قریب کرتا ہے۔
تاہم اس مکالمے کا طریق کار یہ ہے کہ مثلاً آج انسان کو دہشت گردی، عالمی تجارت، خاندانی منصوبہ بندی، انسانی حقوق، خاندانی نظام کی کمزوری، فضائی علوم اور فکری اثاثہ (Intellectual Property)جیسے مشکل مسائل کا سامنا ہے تو سب مذاہب کے ماہرین مل کر بیٹھیں اور ان جیسے مسائل کا حل تلاش کریں۔
جدید مکالمے کا طریق کار یہ بھی ہوتا ہے کہ درپیش مسئلہ ایک ایسی مجلس میں پیش کیا جاتا ہے جس میں تمام عالمی مذاہب کے ماہرین شریک ہوتے ہیں۔ مسئلہ پیش کئے جانے کے بعد ہر مذہب کا ماہر اپنے مذہب کی تعلیمات کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل پیش کرتا ہے جسے منصفین کا ایک مجموعہ (Pannel)محفوظ کر لیتا ہے۔ اس طرح تمام مذاہب کے ماہرین درپیش مسئلہ کے بارے میں اپنی اپنی آراء پیش کرتے ہیں۔ جب تمام مذاہب کے نمائندے اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کر لیتے ہیں تو منصفین اور ماہرین مذاہب کا مشترکہ اجلاس ہوتا ہے جس میں زیر غور مسئلہ کے جملہ پہلوئوں اور ان کے بارے میں مختلف مذاہب کے پیش کردہ حل کافرداً فرداً تنقیدی اور عملی جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ بہت سی تجاویز اور اقدامات میں سے کسی ایک کی سفارش کی جاسکے جو تمام مذاہب کامتفقہ فیصلہ تصور ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ ان مراحل سے گزر کر جو ایک حل تجویز ہوتا ہے اس پر سب مذاہب کے نمائندے اتفاق کرتے ہیں اور فیصلہ سب مذاہب کا متفقہ فیصلہ کہلاتا ہے۔ ممکن ہے کہ آج اس طرح کے ایک یا دو فیصلے کوئی اہمیت نہ رکھتے ہوں، لیکن ہماری رائے ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے امور میں اضافہ ہوتا رہے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ متفقہ مذہبی نکات ایک نئے مذہب کی شکل اختیار کر لیں گے جو ایک جانب تو تمام مذاہب کا متحدہ مذہب کہلائے گا، تو دوسری جانب اشاعتی اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے تیزی سے پرچار کر کے ایسے مجموعہ کو انسانیت کا متحدہ (Unified)مذہب قرار دے دیا جائے گا جس کی موجودگی میں الہامی اور غیر الہامی مذاہب کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔
ممکن ہے کہ یہ تصور کیا جائے کہ متحدہ مذہب(Unified Single Religion)کا نظریہ ایک خام خیالی ہو اور اس کی عملی زندگی میں کوئی حقیقت نہ ہو ، اس رائے کا جواب دیتے وقت ہمیں یورپی اقوام کی ایک اور کوشش کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ وہ یہ ہے کہ پچھلی چند دہائیوں سے یورپی اقوام اپنی ایک مشترکہ زبان (Lingua Franca)ایجاد کرنے کی سعی کر رہی ہیں۔ چنانچہ سپرانتو(Spranto) کے نام سے انہوں نے ایک زبان متعارف کرا رکھی ہے جو اس اصول پر مبنی ہے کہ ''یورپ میں مروجہ تمام زبانوں کے آسان اور مروجہ الفاظ جمع کر کے نئی زبان ایجاد کی جائے‘‘۔ چنانچہ آج بھی سپرانتو کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ جاری ہے جبکہ یورپی زبانوں کے ماہرین پرامید ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب سپرانتو پورے یورپ کی مشترکہ زبان کے طور پر بولی اور سمجھی جائے گی، جیسے یورپ کی جدید کرنسی ''یورو‘‘ پورے یورپ اور اقوام عالم میں رواج پا چکی ہے۔
 
 
اسی طرح ہماری رائے میں ''بین المذاہب مکالمہ‘‘ اور اس کے نتائج عا لمیت یا عالمی نظام (Globalization) کا ایک ضروری حصہ ہیں کیونکہ جس طرح نظام حکومت، معیشت، ثقافت، تہذیب اور موسیقی میں عالمی نظام کو مروج کروانے کی کوششیں جاری ہیں اسی طرح مذہب، اخلاق، انسانی حقوق و روایات ، مذہبی رسوم اور شعائر میں بھی ہم آہنگی پیدا کرنا عالمی نظام کا ایک لازمی حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسّی کی دہائی سے مختلف مذاہب کے مابین مکالمے کو رواج دیا جارہا ہے اور امریکی ، مغربی نیز یورپی اقوام اس ضمن میں پیش پیش ہیںاور اسے فروغ دینے کے لئے منصوبہ بندی کے تحت مالی وسائل فراہم کر رہی ہیں۔
''بین المذاہب مکالمے‘‘ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ غالباً اسی مکالمے کے ذریعے سے، انسان کو یہ سوچنے کی دعوت دی جارہی ہے کہ حق و صداقت کسی ایک مذہب تک محدود نہیں ہے اور نہ ہی حق و صداقت پر کسی ایک مذہب کی اجارہ داری ہے بلکہ یہ تمام مذاہب کی مشترکہ میراث ہے جسے ہر مذہب میں تلاش کیا جانا چاہیے۔ نیز انسانی مسائل کا حل بھی ہر مذہب پیش کرتا ہے ؛ تاہم ہر حل، ہر وقت، ہر جگہ اور تمام حالات میںیکساں قابل عمل نہیں ہوتا ، نیز ہر قوم اپنے ثقافتی پسِ منظر اور حالات و عادات کے مطابق ہی کوئی حل اپنا سکتی ہے۔
''بین المذاہب مکالمے‘‘ کو اس حقیقت کی روشنی میں بھی دیکھنا چاہیے کہ اس کائنات میں پائے جانے والے سب مذاہب یکساں نہیں ہیں کیونکہ بعض مذاہب انسانی اور عالمی ہیں جبکہ دوسرے بعض مذاہب نسلی اور علاقائی ہیں۔ بعض مذاہب قدیم ہو کر اب اپنا وجود کھو چکے ہیں اور ان کے مدِّ مقابل چند طبعی اور قدیم مذاہب آج بھی زندہ اور مؤثر ہیں۔ اسی طرح اس کائنات کے مذاہب میں ایک اور بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ ان مذاہب میں یہودیت، عیسائیت اور اسلام اپنے آپ کو الہامی (Revealed)مذاہب قرار دیتے ہیں اور دیگر مذاہب کو غیر الہامی مذاہب تسلیم کرتے ہیں ۔ الہامی مذاہب رسالۂ وحی(Divine Message) پر مبنی ہوتے ہیں اور غیر الہامی مذاہب کا خمیر انسانی عقل و شعور سے اٹھایا جاتا ہے ، غیر الہامی مذہب انسانی سوچ، تجربہ اور مشاہدہ کی بناء پر وجود میں آتا اور پروان چڑھتا ہے۔
اس کائنات میں سینکڑوں چھوٹے بڑے مذاہب کی پیروی کی جاتی ہے اور اسی کے مطابق پوجا، پرستش اور عبادت کی جاتی ہے اور اس کی تعلیمات پر عمل کیا جاتا ہے۔ ان مذاہب کو کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا یقیناً ایک دشوار عمل ہو گا۔ اور اگر تمام مذہبی نمائندوں اور ماہرین کو ایک جگہ جمع کرنا ممکن بھی ہو ، اُن میں ہم آہنگی اور اتفاق رائے پیدا کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ترین مرحلہ ہو گا‘ کیونکہ الہامی اور غیر الہامی مذاہب کے ماننے والوں کے مابین بھی بنیادی اختلافات اور وسیع خلیج حائل ہے۔ اس لیے ہندومت، مجوسیت، یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے ماننے والوں میں بھی بہت سی داخلی تقاسیم اس حد تک موجود ہیں کہ وہ ایک چیز کے حرام و حلال ہونے اور جائز و ناجائز قرار پانے تک وسیع ہیں۔ اس لیے اِن مذاہب کے داخلی اختلافات اُن میں وحدت اور یگانگت کی راہ میں حائل ہوں گے اور ان میں اتفاق رائے پیدا کرنا مشکل ہوگا۔
اقوامِ عالم میں مروّجہ مذاہب، اخلاقی نظام اور معاشرتی اقدار اس مقصد کے لیے ہیں کہ ان پر عمل پیرا ہو کر انسان روحانی ترقی اور ذہنی طمانیت حاصل کر سکے کیونکہ جس طرح انسان کو جسمانی راحت و آرام کی ضرورت ہے، اسی طرح انسان کو روحانی بالیدگی بھی درکار ہے۔ جبکہ موجودہ ''بین المذاہب مکالمہ‘‘ انسان کے مادی اور فکری مسائل تک محدود ہے اور اس کا دائرہ انسان کے روحانی پہلوئوں کا احاطہ نہیں کرتا۔ بلکہ موجودہ'' بین المذاہب مکالمہ‘‘ مذہب کے روحانی پہلو، مذہب کے غیر مرئی عقائد و تصرفات اور انسانی مشاہدے سے خارج امور کو انسانی زندگی سے خارج کر دینا چاہتا ہے اور انسان کو مادی وسائل تک محدود کرتے ہوئے اس کی زندگی سے برکت ، دعا ، خیر، خیرات، بزرگوں سے استفادہ اور روحانی قدروں کو ختم کر دینا چاہتا ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں ''بین المذاہب مکالمہ‘‘ ایک ایسی اختراع ہے جو ایک طرف انسانوں کو مذہب کے روحانی اثرات سے دور کر دینا چاہتی ہے تو دوسری جانب تمام ابنائے آدم کو ایک مذہب پر لانا چاہتی ہے جو نہ الہامی ہے اور نہ روحانی بلکہ وہ حقیقت میں قابلِ عمل بھی نہیں ہے۔ اس لیے سنجیدہ اصحاب فکر و دانش کی یہ مستحکم رائے ہے کہ ''بین المذاہب مکالمہ‘‘ ایک سعی لاحاصل اور ایسی کوشش ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہے کیونکہ کسی بھی مذہب کے وجود میں آنے کے لیے بنیادی عناصر کی ضرورت ہوتی ہے ، مکالمے کا تصور ان عناصر سے ہی محروم ہے۔ اس لیے ایسے مکالمے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
آج اگر دنیا کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر بھی سامنے آتا ہے کہ الہامی مذاہب کے مابین کوئی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی کیونکہ یہودیت کے ہاں عیسائیت کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہودیت اسلام کو بھی اپنا تسلسل قرار دیتی ہے جبکہ عیسائیت بھی یہودیت کو قصۂ پارینہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دیتی۔ ان دونوں سے ہٹ کر اسلام ان دونوں کو الہامی مذاہب تو تسلیم کرتا ہے، لیکن اپنے اپنے وقت اور علاقے میں۔ جب اسلام اور اس کی تعلیمات کا دور دورہ ہوا تو پہلے دونوں مذاہب کوغیر مؤثر اور قصۂ ماضی قراردے دیا گیا ، یہاں تک کہ انجیل و تورات میں تحریف ہونے اور ان دونوں الہامی کتابوں کے الہامی نسخے کھو جانے کی بناء پر مسلمان ان مذاہب کے پیرو یہودیوں اور عیسائیوں کو ''اہل کتاب‘‘ کا بھی درجہ نہیں دیتے۔ کیونکہ اسلام صرف اپنے کودین حق قرار دیتا اور صرف اسلامی شریعت کو مؤثر اور قابلِ عمل گردانتا ہے۔ ان دلائل کی روشنی میں یہ دشوار ہو گا کہ الہامی مذاہب بھی باہم ایک دوسرے کو برابری کا درجہ دیں۔
 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں